غیر قانونی طریقے سے سرحد پار کرنے والوں کا سفرنامہ

محمد اکبر نوتزئی

احمد نے مجھے ٹھیک سے ہدایات نہیں دیں۔ انہوں نے فون پر بلوچی زبان میں ‘اندھیرے میں’ ضلع چاغی کے شہر نوک کنڈی آنے کے لیے کہا۔ انہوں نے یہ بھی نہیں بتایا کہ کتنے بجے پہنچنا ہے اور مجھے کچھ کہنے کا موقع دیے بغیر بمشکل دو جملوں میں اپنی بات مکمل کرکے فون کاٹ دیا۔

مجھے لگا کہ وہ چاہتے ہیں کہ جب شہر سو رہا ہو تب ان کے پاس آؤں، لہٰذا میں آدھی رات کو ان کے بتائے ہوئے پتے پر پہنچ گیا۔ وہاں صورتحال سے اندازہ ہوا کہ احمد بھی سویا ہوا ہے۔ میں نے اسے بار بار فون کیا لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ جب آوارہ کتوں نے ان کے گھر کے باہر گلی میں جمع ہونا شروع کیا تو میں نے دروازہ کھٹکھٹایا اور ان کا نام پکارا۔ بالآخر میں نے گھر کے دروازے پر چڑھ ان کا نام پھر سے پکارنے کا فیصلہ کیا۔

وہ نیند سے جاگے اور متوقع طور پر ناخوش بھی ہوئے۔ احمد نے زوردار آواز میں کہا، ‘یہ کوئی وقت ہے آنے کا؟’ جب موبائل فون پر وقت دیکھا تو اور بھی بھڑک اٹھے کہ ‘آپ کو دن کے وقت آنا چاہیے تھا’۔

مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ میں نے انہیں یاد دلایا کہ انہوں نے ہی مجھے ‘اندھیرے میں’ آنے کے لیے کہا تھا۔ دراصل مجھے ان کی ہدایات کو لغوی معنوں میں نہیں لینا تھا۔ ان کے کہنے کا مقصد تھا کہ میں محتاط انداز میں یہاں پہنچوں۔ آدھی رات کو ان کے گھر کے دروازے پر چڑھ کر اور ان کے جاگنے تک باآواز بلند ان کا نام پکار کر میں نے ان کی ہدایات کا ستیاناس کردیا تھا۔

اس طرح کے حساس معاملے پر رپورٹنگ کرتے وقت احتیاط اور ہوشیاری لازمی ہے، ظاہر ہے کہ میں انسانی اسمگلنگ گروہ پر رپورٹنگ اور غیر قانونی طور پر سرحد پار کرنے والے افراد کے ساتھ ایران کا سفر کرنے والا تھا۔ یہ ایک غیر محفوظ سفر ہے جو وہی لوگ کرتے ہیں جنہیں ایران فرار ہونا ہوتا ہے (جہاں سے اکثر لوگ ترکی یا یورپ جانے کا سفر شروع کرتے ہیں)۔

بار بار رشوتوں کی لین دین، یہاں سے فرار ہونے کی خواہش رکھنے والوں کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھانے اور کئی قوانین کی خلاف ورزیوں کے بعد شروع ہونے والا یہ سفر کسی صحافی کو نہیں جچتا۔ چنانچہ میں اپنی شناخت چھپائے رکھوں گا اور راستے میں اپنی طرف توجہ دلانے کی غلطی نہیں کروں گا جو میں نے اپنے مددگار احمد کے گھر پر ان کا نام پکار کر کی تھی۔

دراصل میں گزشتہ دو دن سے نہیں سویا تھا، اس لیے تھکن اور سر پر سوار سفر کی سوچ کے باعث میں احمد کی بات سمجھنے سے قاصر رہا تھا۔ اس مضمون میں شامل کرداروں میں سے صرف احمد کو ہی میری اصل شناخت معلوم ہے۔ احمد کے گھر پر چند گھنٹوں کی نیند کے بعد میں سفر پر نکل پڑا۔

جب صبح ہوئی تو میں اپنے وطن میں ایک غیر قانونی تارک وطن کے طور پر خود کو تیار کرنے میں مصروف ہوگیا۔

▪️’نسوار’ کی فرضی کہانی:

گزشتہ کچھ عرصے سے میں اس مضمون کی تیاری کے سلسلے میں فون پر زیادہ وقت صرف کر رہا تھا۔ حتیٰ کہ سفر والے دن بھی میں فون پر رابطوں میں مصروف رہا۔ اس بار میں ارباب نامی شخص سے فون پر رابطہ کرنے کی کوشش کر رہا تھا جو انسانی اسمگلنگ کے گروہوں میں سے ایک گروہ کے سربراہ اور غیر قانونی تارک وطن کو ایک سے دوسری جگہ لے جانے والی گاڑیوں کے مالک ہیں۔

ارباب نے فون اٹھایا اور سیدھے نکتے پر آگئے۔ انہوں نے پوچھا کہ آپ ‘نسوار’ ہیں یا ‘مرچ’؟ دراصل وہ یہ خفیہ الفاظ افغانوں اور پنجابیوں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

میں نے بلوچی زبان میں جواب دیا، ‘ارباب، میں نسوار ہوں۔’ انہوں نے مجھے نوک کنڈی سے گزرنے والے لندن روڈ پر موجود پرچون کی دکان پر آنے کے لیے کہا۔

میں سمجھا کہ اب سوالات کا سلسلہ ختم ہوچکا ہے، لیکن میں غلط تھا۔

میں اسٹور پر پہنچا۔ میں نے نقرئی رنگ کا بلوچ شلوار قمیض زیب تن کیا ہوا تھا اور کالے پٹوں والی سفید چادر اوڑھی ہوئی تھی۔ میں نے اپنا چہرہ ڈھکنے کے لیے چادر کا استعمال کیا۔ اسٹور پر ارباب کو فون کرنے سے قبل میں نے منرل واٹر کی بوتل خرید کر پانی پیا۔

انہوں نے مجھے دوسری دکان سے دیکھا اور پہچان لیا، حالانکہ میرا چہرہ ڈھکا ہوا تھا۔ انہوں نے میری طرف ہاتھ ہلا کر کہا، ‘جی ہاں، میں نے آپ کو دیکھ لیا، آپ نے موبائل کان پر لگایا ہوا ہے اور سفید چادر اوڑھی ہوئی ہے’۔ میں گھبراتے ہوئے دوسری دکان کی طرف بڑھا۔

دکان پر ارباب کرسی پر بیٹھے جبکہ میں نیچے فرش پر بیٹھ گیا۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ، ‘ایک افغان شخص بلوچی زبان میں کیسے بات کرسکتا ہے؟’

میں اس سوال پر گھبرایا لیکن ان پر اپنی گھبراہٹ ظاہر ہونے نہیں دی۔ میں اس سوال کے لیے تیار تھا اور میں نے پہلے سے ہی بڑی ہوشیاری سے ایک من گھڑت کہانی اپنے پاس تیار کرکے رکھی ہوئی تھی۔

میں نے جواب دیا کہ، ‘میں کوئٹہ کا افغان ہوں لیکن میری والدہ ضلع نوشکی کے علاقے غریب آباد کلی سے تعلق رکھنے والی باریچ ہیں‘۔ اس پٹی میں باریچ پشتون اقلیت میں آباد ہیں۔ ان میں سے کئی لوگوں نے بلوچ خاندانوں میں شادی کی ہوئی ہے اور بیشتر لوگ بلوچی زبان بولتے ہیں۔

ارباب نے فوراً دوسرا سوال پوچھا کہ، ‘آپ باریچ کے کس ذیلی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں؟’

اگرچہ میرے ذہن میں اس کا تیار شدہ جواب اکازئی باریچ تھا مگر گھبراہٹ کے باعث یہ جواب میری زبان پر نہ آسکا۔ اس کی جگہ میں نے انہیں یہ بتایا کہ میں بچپن میں ہی نوشکی سے کوئٹہ منتقل ہوگیا تھا اس لیے اپنی والدہ کے ذیلی قبیلے کے بارے میں علم نہیں رکھتا۔

ان کے تیسرے سوال سے پہلے میں کسی طرح تھوڑا بہت اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا اور ان سے کوئٹہ میں بے روزگاری کی مشکلات سے متعلق تبادلہ خیال کرنے لگا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ، ‘ارباب، کیا آپ جانتے ہیں کہ کوئٹہ میں بے روزگاری اور یہاں تک کہ چھوٹی ملازمتوں کے مواقع دستیاب نہ ہونے کے باعث مرد اپنی عمر کی چوتھی دہائی کے اواخر تک پہنچنے کے باوجود شادی نہیں کرپاتے ہیں؟ ہاتھوں میں ڈگریاں ہونے کے باوجود کنوارے پن کی زندگی گزار رہے ہیں’۔

ارباب حیران نظر آئے۔ ان کی آنکھیں پھٹ گئیں اور تھوڑی زبان باہر نکال کر دانتوں کے درمیان دبائی۔ انہوں نے مجھے مزید بات کرنے کی دعوت دیتے ہوئے کہا، ‘واقعی؟’

گفتگو پر اپنا زیادہ کنٹرول محسوس کرتے ہوئے میں نے اپنی بات کو جاری رکھا۔ ‘افغان ہونے کی وجہ سے میں صرف میٹرک تک ہی تعلیم حاصل کرپایا‘۔ میں اب بھی ان کے سامنے نیچے فرش پر بیٹھا ہوا تھا، جیسے وہ تخت نشین بادشاہ ہوں اور میں ان کا غلام۔ میں نے مزید کہا کہ ‘کوئٹہ میں اپنے ہم عمر دیگر مردوں کے برعکس میری ایک افغان لڑکی سے منگنی ہوچکی ہے’۔

ارباب جب میری من گھڑت کہانیوں کو غور سے سننے میں مصروف تھا تب ان کے کسی آدمی نے ہمیں چائے پیش کی۔

ارباب اب میری باتوں سے اتنا قائل ہوچکا تھا کہ انہوں نے فراخ دلی کا مظاہرہ کرنا شروع کردیا تھا۔ انہوں نے مجھ سے کہا، ‘آپ کو پاکستان چھوڑ کر جانے کی کوئی ضرورت نہیں‘۔ میں نے چائے کی چسکی لیتے ہوئے پوچھا ‘کیوں؟’ تو جواب دیا کہ ‘میں تمہیں یہاں نوک کنڈی میں گیراج میں ملازمت پر رکھ سکتا ہوں‘۔

‘نہیں ارباب!‘، میں نے فوراً جواب دیا۔ ’میرے سسر نے جہیز کی رقم ادا کرنے کے لیے صرف 4 مہینے کا وقت دیا ہے۔ اگر میں اس رقم کو نہ کما سکا تو وہ میری منگنی توڑ دیں گے‘۔

بالآخر ارباب قائل ہوگئے۔ مزید سوالوں سے بچنے کے لیے میں نے ان سے پوچھا کہ واش روم کس طرف ہے۔ انہوں نے مجھے اسی سڑک پر واقع مسجد کے قریب موجود واش روم کی طرف جانے کی ہدایت کی۔ میں وہاں 5 منٹ تک اندر بے وجہ بیٹھا رہا جس کے بعد ارباب نے واش روم کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ انہوں نے مجھے کہا کہ جلدی کرو گاڑی آگئی ہے۔

وہاں سے جانے سے پہلے میں نے ارباب کے ہاتھ چومے اور پھر احتراماً ان کے ہاتھ کو اپنی آنکھوں اور سینے پر رکھا۔

پھر میں نے ایک پک اپ ٹرک دیکھا جو ہمیں ایران کی طرف لے جانے والا تھا۔

سفری تقاضوں کے مطابق یہ ایک مناسب سواری تھی کیونکہ ان پک اپ ٹرکس کو تہران میں ‘زمیاد’ کمپنی تیار کرتی ہے جسے مقامی لوگ ‘زمباد’ پکارتے ہیں۔

زمباد پر سوار ہونے والوں میں میرے علاوہ دوست محمد نامی ڈرائیور اور ایک کلینڈر (کلینر) شامل تھے۔ دراصل وہ جگہ ان گاڑیوں کا ابتدائی اسٹاپ تھا اور مسافروں کو اگلے اسٹاپ سے اٹھانا تھا۔

میں نے اگلے اسٹاپ تک کے سفر کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ڈرائیور سے دوستی بڑھانے کی کوشش کی، وہ بھی ایک مقامی بلوچ ہی تھا۔ ٹرک کے پہلے مسافر ہونے کا فائدہ یہ ہوا کہ مجھے آرام سے سیٹ مل گئی تھی۔ زمباد میں آگے کی طرف صرف 4 لوگوں کے بیٹھنے کی گنجائش ہوتی ہے جبکہ دیگر تمام مسافروں کو سکڑ کر پیچھے بیٹھنا پڑتا ہے۔

▪️تنہا صحرا:

پاکستان میں دق نامی صحرا افغان سرحد سے متصل علاقے میں واقع ہے۔ یہاں چند مقامات پر ریت کے ٹیلے اتنے ہی بلند ہیں جتنے اونچے بلوچستان میں جابجا دکھائی دینے والے پتھریلے پہاڑ ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس علاقے کے منفرد لینڈ اسکیپ کے بارے میں امریکی ماہرِ ارضیات نے ایک بار کہا تھا کہ یہ ‘زمین پر موجود مریخ سے سب سے زیادہ ملتی جلتی شے ہے’۔

جب ہم دق پہنچے تو کئی مسافروں کو پک اپ ٹرک کا انتظار کرتے پایا۔ مسافروں میں سیکڑوں افغان تارک وطن، اپنی خواتین اور بچوں سمیت افغانستان کے مختلف علاقوں سے دق پہنچے تھے۔ ایک اسمگلر کے اندازے کے مطابق ہر ماہ 35 ہزار سے زائد افراد یہاں آتے ہیں۔

اگر کسی کو افغانستان کی 40 سالہ جنگ کی حقیقی قیمت کا اندازہ لگانا ہے تو اسے یہاں آنا چاہیے۔ لوگوں کے لمبے چہرے واضح طور پر زرد مائل اور تھکن سے چُور نظر آئے، جو جنگ زدہ افغانستان کی کہانی بیان کرتے ہیں۔

چونکہ علاقے میں مسافروں کا رش لگا رہتا ہے اس لیے صحرا میں ایک چھوٹا سا خیموں پر مشتمل عارضی بازار قائم ہوجاتا ہے۔ یہاں خیموں میں (ایران سے اسمگل شدہ) بوتل بند پانی، بسکٹ اور جوس بیچے جاتے ہیں۔

اس بازار میں ہر چیز مہنگی ہے۔ پانی کی جو بوتل کوئٹہ یا کراچی میں پچاس روپے میں دستیاب ہے وہ یہاں سو روپے میں ملتی ہے۔ اس کے باوجود افغان باشندوں نے ایک ایک کرکے پانی کی بوتلیں اور اشیائے ضروریہ خرید لیں۔ سورج چڑھنے لگا تھا اور لوگ گرمی کو مات دینا چاہتے تھے۔ خوش قسمتی سے پانی ٹھنڈا تھا جس نے لمحے بھر کا سکون پہنچایا۔

زیادہ تر ازبک اور تاجک افراد پر مشتمل دو درجن افغان تارک وطن پر مشتمل گروہ کے ساتھ دق سے اصل سفر کا آغاز ہوا۔ میں نے گرم جوشی سے زمباد پر سوار ہر ایک کو ‘مندھانا بشے’ (دری زبان میں استقبالیہ کلمات) کہہ کر استقبال کیا۔ مگر پک اپ کے نیند آور ماحول میں استقبال کی کوئی جگہ نہیں تھی۔ میرے استقبالیہ کلمات کا کسی نے جواب نہ دیا۔

بیس سے زائد مسافر سکڑ کر زمباد کے پچھلے حصے پر سوار ہوئے جبکہ باقی ہم سب اگلی سیٹوں پر بیٹھے۔

ہمارے ڈرائیور دوست محمد نے انجن اسٹارٹ کیا، کلچ دبایا اور گاڑی کو پہلے گیئر میں ڈال کر دھیرے دھیرے ایکسی لیٹر دبانا شروع کیا۔ پک اپ نے ریتلے راستوں پر ہچکولے کھانا شروع کردیا۔ اس سفر میں صرف اکیلی ہماری زمباد ہی رواں دواں نہیں تھی بلکہ ہم چار پک اپ ٹرکوں کے چھوٹے قافلے کی صورت میں ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔

جب ہم صحرائی زمین سے گزرنے لگے تو ہماری زمباد ریت میں پھنس گئی۔ دھکا لگانے کے لیے ہم سب گاڑی سے اترے۔ میں نے ابھی اپنے ہاتھ زمباد پر رکھے بھی نہیں تھے کہ چند ازبک آدمیوں اور لڑکوں نے گاڑی کو ریت میں سے نکال لیا۔ ہم دوبارہ گاڑی پر سوار ہوگئے اور زمباد پر ہچکولے کھاتے اپنا سفر جاری رکھا۔

صحرا عبور کرنے کے اس حیرت انگیز سفر میں تقریباً تیس منٹ لگتے ہیں۔ اس دوران میں نے زمباد کی طاقت کا براہِ راست تجربہ کیا۔ دوست محمد نے بعد میں مجھے بتایا کہ ‘یہ غریب کی لینڈ کروزر ہے’۔ نئی لینڈ کروزر کی قیمت پانچ کروڑ تیس لاکھ تک ہوسکتی ہے جبکہ ہم جس زمباد پر سوار تھے اسے محض دو لاکھ میں خریدا جاسکتا ہے۔

قریب پینتیس منٹ بعد ہم صحرائی علاقے کو پیچھے چھوڑ کر گہرے بھورے لینڈ اسکیپ میں داخل ہوچکے تھے۔ گاڑی جیسے جیسے آگے بڑھتی گئی، ویسے ویسے لینڈ اسکیپ کے رنگ بھی تبدیل ہوتے رہے۔ بقیہ تین پک اپ ٹرک کبھی ہمارے ٹرک کے پیچھے تو کبھی ہم ان کے پیچھے سفر کر رہے تھے۔

▪️فاسٹ اینڈ فیورس کا تجربہ:

ہم اب کچے روڈ پر تھے لیکن دوست محمد گاڑی آہستہ چلانے کے موڈ میں بالکل نہیں تھے۔ سڑک اگرچہ ناہموار تھی لیکن صحرا کی ریت سے تو پھر بھی کئی گنا بہتر تھی۔

دوست محمد نے جب گاڑی کو دوڑانا شروع کیا تو دیکھتے ہی دیکھتے اسپیوڈو میٹر کا کانٹا 120 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار کے نشان کو چھونے لگا۔ ہم جو سیٹوں پر بیٹھے تھے انہوں نے تو خود کو تھامنے کی کوشش کی لیکن پیچھلے حصے میں موجود مسافروں کے پاس ہچکولوں کو خاموشی سے برداشت کرنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں تھا۔ غیر قانونی تارک وطن ہونے کی وجہ سے کوئی شکایت بھی نہیں کرسکتا تھا۔

میں نے کلموں کا ورد شروع کردیا اور سفر کی دعا یاد کرنے کی کوشش کی جو اس وقت میرے ذہن سے نکل رہی تھی۔ بالآخر دوست محمد نے تھوڑی رفتار کم کی۔ اس وقت تک ہر ایک مسافر پوری طرح سے بیدار ہوچکا تھا، جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میں نے ساتھ بیٹھے عزت نامی مسافر کو ‘مندھانا بشے’ کہا۔ جس کا انہوں نے ‘خیر بشے’ کہہ کر جواب دیا۔

میں نے حال ہی میں دری زبان سیکھنی شروع کی ہے اس لیے جب وہ میری بات سمجھ گئے تو مجھے بہت خوشی ہوئی۔ دری زبان بولنے کی اپنی صلاحیتوں پر تھوڑا بہت اعتماد (جس کا غالباً میں مستحق بھی نہیں تھا) بحال ہوا تو میں نے ان سے یہ پوچھنے کا فیصلہ کیا کہ، آپ افغانستان کے کس علاقے سے ہیں اور کیوں اپنے وطن چھوڑ کر جا رہے ہیں۔

پہلے میں نے ذہن میں سوالوں کو تیار کیا اور میری باتیں پورے دھیان سے سننے والے عزت سے یہ سوالات پوچھنے میں ایک منٹ کا وقت لگایا۔ جب میرے سوالوں کا سلسلہ ختم ہوا تو میں نے ان سے پوچھا کہ، ‘فہمدی’ (سمجھے؟) تو انہوں نے جواب دیا ‘نا فہمدی’ (نہیں سمجھا)۔

میں نے ہار نہیں مانی اور بالآخر ہماری گفتگو میں روانی آگئی۔ عزت نے مجھے بتایا کہ وہ افغانستان کے فرکار ضلع سے تعلق رکھتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ‘یہ زمین پر بہشت کے ٹکڑے سے کم نہیں۔ مگر امن ناپید ہے۔ ہم بہتر مستقبل کی تلاش میں اسے پیچھے چھوڑ آئے ہیں’۔

عزت نہیں چاہتے کہ ان کی اگلی نسل ان حالات میں پروان چڑھے جن میں وہ نسل در نسل پلے بڑے ہیں۔ وہ ترکی جانے اور وہاں سے اپنے اہلِ خانہ کی مالی ضروریات کو پورا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ انہیں امید ہے کہ ایک دن وہ اپنے اہلِ خانہ کو بھی ترکی بلا لیں گے۔

مگر آگے سفر اتنا آسان ثابت نہیں ہوگا۔ اس سفر میں کئی خطرات موجود ہیں اور یہ راستہ موت کی طرف بھی لے جاسکتا ہے۔ ایک افغان قانون ساز کے مطابق گزشتہ برس ایران میں داخل ہونے والے 45 تارک وطن ایرانی بارڈر گارڈز کے ہاتھوں مارے گئے تھے۔

عزت بھی ان حقائق سے واقف ہیں۔ مگر مشکل سفر کے بعد منزل پانے اور ایک بہتر زندگی کی شروعات کا جو معمولی سا اندیشہ ہے، وہی انہیں خطرہ مول لینے کی ہمت دینے کے لیے کافی ہے۔

عزت کے ساتھ میری گفتگو کے سلسلے میں اس وقت خلل پڑتا ہے جب زمباد ایک بار پھر کچے روڈ پر تیز رفتار دوڑتے ہوئے ہچکولے کھانا شروع کردیتی ہے۔ تھوڑی ہی دیر میں ہم نوک کنڈی (جہاں سے میرا سفر شروع ہوا تھا) سے تافتان تک بچھے لندن روڈ کو عبور کرلیتے ہیں۔ پک اپ کی رفتار میں کوئی فرق نہیں آتا۔

دیوانہ وار ڈرائیونگ کرتے وقت دوست محمد جب ارباب سے فون پر رابطہ کرنے کی کوشش کرتا ہے تو فون سروس کی عدم دستیابی کے باعث ان کا دھیان بھٹکنے لگتا ہے۔ اپنی زندگی کو خطرے میں محسوس کرتے ہوئے میں نے انہیں عاجزی سے کہا کہ کیا ان کی جگہ میں ارباب سے فون پر رابطہ کرنے کی کوشش کرسکتا ہوں۔ مگر ارباب سے فون پر رابطہ کرنے کی میری تمام کوششیں رائیگاں گئیں۔ یہاں کوئی نیٹ ورک کوریج فراہم نہیں کرتا۔

میں ارباب سے فون پر رابطہ کرنے کی کوششوں میں مصروف تھا کہ گاڑی کے پچھلے حصے میں ہونے والے ہنگامے نے میرا دھیان اپنی طرف کھینچا۔ گاڑی کے پچھلے حصے میں ازبک مسافروں نے ایک دوسرے کو پیٹنا اور مارنا شروع کردیا۔ ان کی لڑائی جاری رہی مگر ڈرائیور کی صحت پر ذرا سا بھی فرق نہیں پڑا۔ ان کے مطابق، ‘ان ازبکوں کا غصہ وہاں سے شروع ہوتا ہے جہاں سے پشتونوں کا غصہ ختم ہوتا ہے۔’

ہچکولوں سے بھرپور اس سفر میں مسلسل تنگ جگہ پر بیٹھے رہنے کی وجہ سے لوگوں کا پارہ چڑھنے لگا تھا۔ زمباد پر 4 گھنٹوں کی طویل ڈرائیو کے بعد ہم سیاہ پٹ (سیاہ میدان) نامی علاقے میں ایک ہوٹل پر رکے۔ وہاں دُور دُور تک آبادی کے آثار دکھائی نہیں دیے۔ اس راستے کو صرف اسمگلر ہی استعمال کرتے ہیں۔

اس ‘ممنوعہ علاقے’ پر ایف سی اہلکار کڑی نظر رکھتے ہیں۔ اسمگل کرنے اور اسمگل ہونے والے دونوں ہی ایف سی اہلکاروں سے خوف کھاتے ہیں۔

▪️منزل: مشخیل:

درجنوں مرد، خواتین اور بچوں نے چار گھنٹوں کے طویل عارضی قیام کے لیے خیموں کو کھڑا کیا۔ ہر مسافر پیاسا اور جسم پانی کی کمی کا شکار دکھائی دیا۔ دیگر مسافروں کی طرح میرا چہرہ بھی زرد، غبار آلود اور تھکا ہوا نظر آتا تھا۔ میں نے چادر سے اپنے چہرے سے پسینہ پونچھا۔

مگر مجھے اب بھی دیگر سے مختلف نظر آنا تھا تاکہ لوگوں کو یہ محسوس ہو کہ میں یہاں سے تعلق نہیں رکھتا اور کسی دوسرے علاقے سے آیا ہوں۔

ایک ڈرائیور کی توجہ میری طرف مبذول ہوئی اور انہوں نے مجھ سے بات چیت شروع کردی۔ میں نے اپنی من گھڑت کہانی انہیں سنادی۔ جسے سننے کے بعد انہوں نے اپنے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے مجھ سے کہا کہ ‘براسوک (بھائی) یہ تم نے کیا کیا؟’ اس سفر کا انتخاب کرنے پر انہوں نے مجھے ڈانٹا۔ ‘اگر تم نے مجھ سے پہلے رابطہ کیا ہوتا تو میں تمہیں پھول کی طرح ضلع پنجگور کے راستے ایران پہنچا دیتا‘۔

میں نے ڈرائیور کے سامنے خود کو نادان محسوس کروایا اور ڈرائیور کی ہمدردی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا یہاں تک کہ انہوں نے مجھے پانی کی بوتل خرید کر دی (جو ایران سے اسمگل شدہ تھی)۔

اس عارضی قیام کے بعد اسمگلرز ایرانی سرحد کے قریبی علاقوں تک پہنچنے کے لیے دو راستے استعمال کرتے ہیں: راجے اور مشخیل۔ ہماری منزل مشخیل تھی۔ جس کے بعد مسافروں کو ایرانی سرحد سے ملحقہ قصبے جودر تک پہنچنے کے لیے مزید دو گھنٹوں کا سفر کرنا تھا۔ دق سے جودر تک پہنچنے کے لیے تقریباً بارہ گھنٹے لگتے ہیں، سفر کا آخری حصہ اکثر پیدل طے کرنا ہوتا ہے۔

ہم جب آگے بڑھنے کی تیاری کر رہے تھے اس وقت میری نظر پنچر ٹائروں اور بونٹ اور کھڑکیوں سے محروم بظاہر خراب نظر آنے والی پک اپ پر پڑی۔ مجھے لگا کہ وہاں ایک متروکہ گاڑی کھڑی ہے۔ تاہم جب مجھے پتا چلا کہ میں اور تئیس دیگر مسافر اگلی منزل کی طرف اسی گاڑی میں سفر کرنے والے ہیں تو میں ڈر گیا۔ میں نے دل ہی دل میں گھبرانا اور یہ سوچنا شروع کردیا کہ ‘ہم اس گاڑی کے ذریعے کبھی اپنی منزل تک نہیں پہنچ پائیں گے’۔

اتنے میں اس گاڑی کے محمد خان نامی ڈرائیور ہاتھوں میں ہینڈ پمپ تھامے خیمے سے باہر نکلے۔ انہوں نے مجھے اور ساتھی مسافروں کو تسلی دیتے ہوئے کہا، ‘فکر نہ کریں۔ صرف اس کے ٹائروں میں تھوڑی ہوا بھرنے کی ضرورت ہے‘۔

مگر میں اپنی اس بات پر قائم رہا کہ یہ گاڑی ہمیں منزل تک نہیں پہنچا سکے گی۔ دیگر مسافروں نے بھی میری حمایت کی اور مطالبہ کیا کہ ہمیں دوسری گاڑی فراہم کی جائے۔

مگر جب محمد خان نے یہ اعلان کیا کہ چند ایف سی اہلکار اس طرف آ رہے ہیں تو ہماری شکایت ہوا ہوگئی۔ یہ اعلان سن کر میں ہی سب سے پہلے پک اپ پر سوار ہوا۔

▪️سفر ابھی باقی ہے:

جب اگلی منزل کی طرف بڑھنے لگے تو میں نے ڈرائیور سے بات چیت شروع کردی۔ میں چاہتا تھا کہ کھٹارا پک اپ ملنے پر میری جانب سے احتجاج کرنے کے سبب وہ میرے لیے کوئی کینہ نہ رکھے۔ گفتگو کا آغاز کرنے کے لیے میں نے ہماری سابقہ گاڑی کے ڈرائیور کا 120 کی رفتار پر گاڑی دوڑانے کا ذکر چھیڑ دیا۔

محمد خان نے میری بات کا جواب تو دیا لیکن چونکہ ان کی گاڑی کا شور ان کی آواز سے زیادہ تھا اس لیے میں سن نہیں پایا۔ میں نے کہا، ‘معاف کیجیے گا، میں اپ کو سن نہیں پایا’۔ انہوں نے اپنی بات دہراتے ہوئے کہا، ’براسوک (بھائی) اگر 80 کی رفتار سے گاڑی چلاؤ گے تو گھر پہنچو گے، اگر 100 کی رفتار سے چلاؤ گے تو ہسپتال پہنچو گے اور اگر 120 کی رفتار سے چلاؤ گے تو قبرستان پہنچو گے‘۔ مجھے اس بات کی خوشی تھی کہ اگرچہ ہماری پک اپ کھٹارا تھی لیکن ہمارا موجودہ ڈرائیور سابقہ کے مقابلے میں زیادہ محتاط تھا۔ مگر یہ ہماری بھول تھی، جس کا بہت جلد اندازہ ہوگیا۔

محمد خان نے بتایا کہ وہ مشخیل کو جانے والے تمام راستوں سے اچھی طرح واقف ہیں اور وہ آنکھیں بند کرکے وہاں تک پہنچا سکتے ہیں۔ یہ کہہ کر انہوں نے اپنی آنکھیں بند کیں اور اسٹیئرنگ وہیل نے خوب ہل ہل کر اپنا احتجاج ریکارڈ کروانا شروع کیا۔

مجھے بعد میں یہ بات سمجھ آئی کہ محمد خان رفتار کے معاملے میں دوست محمد سے زیادہ محتاط نہیں ہے۔ درحقیقت ان کی پرانی پک اپ 80 سے زیادہ رفتار پر دوڑ ہی نہیں سکتی۔

مزید دو گھنٹوں کی ڈرائیو کے بعد ہم ایک ہوٹل پر رُکے۔ وہاں میں نے ڈرائیور کے ساتھ پانی لیا اور چائے پی۔ ہوٹل پر تیس منٹ تک ٹھہرنے کے بعد ہم ایک بار پھر سفر پر گامزن ہوگئے۔ رمضان نامی مسافر نے کہا، ‘سفر میں انتظار نہایت دشوار ہوتا ہے’۔ یہ سن کر میں نے کہا، ‘اسی کا نام تو سفر ہے’۔

میرے اور محمد خان کے درمیان بیٹھے رمضان نے پوچھا کہ ہم کہاں ہیں۔ انہیں بتایا گیا کہ ہم ہامونِ مشخیل نامی علاقے میں پہنچنے والے ہیں جو ڈکیتیوں کی وجہ سے بدنام اور ‘ڈاکوؤں کا گڑھ’ کہلاتا ہے۔

▪️ڈاکوؤں کا گڑھ:

ہماری گاڑی ہامونِ مشخیل کے دُور تک پھیلے علاقے کی حدود میں داخل ہوئی۔ یہ نمکین جھیل پاکستان کے خشک ترین علاقوں میں سے ایک ہے۔ اس علاقے میں داخل ہوتے وقت میں نے خود کو محتاط پایا۔ مجھے ڈر تھا کہ کہیں ڈاکو ہمیں لوٹ نہ لیں۔ بتایا جاتا ہے کہ ڈاکو ان افغان تارک وطنوں کو لوٹنے کی غرض سے ان علاقوں کا گشت کرتے ہیں جو بھاری نقد رقم کے ساتھ سفر پر نکلتے ہیں۔ کچھ مواقع پر ڈاکو ڈرائیوروں کی ملی بھگت سے بھی ڈکیتیاں کرتے ہیں۔

حاجی ‘چلی’ (یہ لفظ بُرے اور بخیل شخص کو بیان کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے) نامی ڈاکو یہاں کے مشہور ڈاکوؤں میں سے ایک ہے۔ چند لوگوں کے مطابق اس ڈاکو کے ہاتھ اتنے بھاری ہیں کہ جب اس نے ایک ازبک آدمی کو تھپڑ رسید کیا تو وہ بے ہوش ہوگیا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ اس ازبک شخص نے پیسے دینے سے انکار کردیا تھا۔

بعدازاں ہمارے ڈرائیور یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ کچھ ہی عرصہ پہلے اسی جگہ پر ڈکیتی کی کوشش میں ایک شخص کی موت واقع ہوئی تھی۔ جب ڈرائیور نے گاڑی نہیں روکی تو ڈاکوؤں نے ان کی پک اپ پر فائرنگ شروع کردی جس کے نتیجے میں ایک ازبک مسافر مارا گیا تھا۔ پھر اس مسافر کی لاش کو افغانستان بھیجنا پڑا تھا۔

محمد خان نے مجھے بتایا کہ ‘علاقے کی ہر بستی کے چور یہاں موجود ہیں’۔ جو بھی چیز ان کے ہاتھ آتی ہے اسے لوٹ کر لے جاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ‘ڈاکو ہمارے ٹائروں کو بھی نہیں بخشتے۔ میں دو بار ڈاکوؤں کے ہاتھوں لٹ چکا ہوں اس لیے میں نے اب رات کو سفر کرنا چھوڑ دیا ہے’۔

محمد خان نے اپنی بات ختم ہی تھی کہ انہوں نے کالے شیشوں والی ایک بڑی گاڑی کو تیز رفتاری سے پک اپ کی طرف بڑھتے دیکھا۔ ممکنہ سنگین حالات کے پیش نظر میں نے اپنا موبائل اپنے ساتھ والے دروازے کی کھلی جگہ میں رکھ دیا اور اس پر ڈباؤ ڈالنے لگا تاکہ موبائل اچھل نہ کھائے۔ میں نے پانچ ہزار روپے کا نوٹ شلوار کے نیفے میں چھپادیا۔

محمد خان کو پیچھے آتی گاڑی کی فکر ہونے لگی تھی۔ انہوں نے خود سے پوچھا، ‘یہ لوگ کون ہوسکتے ہیں؟’

انہوں نے گاڑی کا بغور جائزہ لیا اور پھر سکھ کا سانس لیا۔ وہ لوگ ان کے سیال (رشتہ دار) تھے، فکر کی کوئی بات نہیں تھی۔

ہم جب مشخیل کے قریب پہنچے تو ہمارے قافلے میں اسی سمت جانے والی دیگر زمباد گاڑیاں بھی شامل ہوگئیں۔ مسافروں نے شکایت کی کہ تنگ جگہ پر دیر تک سکڑ کر بیٹھنے کی وجہ سے ان کی حالات خراب ہو رہی ہے۔

ہم نے ایک بار پھر وقفہ لیا۔ میں دروازے سے موبائل نکالنے کی کوشش کر رہا تھا کہ ڈرائیور نے مجھے دیکھ لیا۔ محمد خان نے ہنستے ہوئے کہا، ‘اگر وہ لوگ ڈاکو ہوتے تو خود ہی ادھر سے موبائل نکال لیتے۔ تمہیں ہر صورت میں ڈاکوؤں کو پیسے دینے پڑتے چاہے تم نے کہیں بھی چھپائے ہوتے’۔

▪️جہاں راستہ ختم ہوتا ہے:

مشخیل پہنچنے سے قبل ہم جس جگہ پر عارضی قیام کے لیے ٹھہرے تھے وہاں محمد خان اور مسافروں کے درمیان جھگڑا ہوگیا۔ میں دُور کھڑا جھگڑے کی وجہ سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔

محمد خان نے جوس کا گھونٹ لیتے اور کیک چباتے ہوئے مسافروں سے کہا، ‘آپ میں سے ہر ایک نے چالیس روپے کم دیے ہیں۔ اگر آپ نے بقیہ کرایہ ادا نہ کیا تو پولیس یہاں آئے گی اور آپ کو گرفتار کرکے لے جائے گی’۔ بظاہر وہ رقم پولیس کی جیب میں جانی تھی۔

مسافروں نے مزید پیسے دینے سے انکار کردیا۔ ایک مسافر نے کہا، ‘تمہیں جس کو بلانا ہے بلا لو’۔

محمد خان نے وہاں موجود ایک شخص کو پولیس بلانے کے لیے کہا۔ اپنی خفیہ شناخت کو خطرے میں دیکھ کر میں ان کی بحث میں کود پڑا۔ میں نے ڈرائیور سے کہا کہ ‘آپ محض چالیس روپے کے لیے ان لوگوں کو گرفتار کروائیں گے؟’ میں نے حساب لگایا تو کل رقم تقریباً پندرہ سو روپے بنتی تھی۔ میں نے وہ رقم جیب سے نکالی اور ڈرائیور کو دینے کی کوشش کی، مگر محمد خان نے پیسے لینے سے صاف انکار کردیا۔

انہوں نے مجھ سے کہا، ‘یہ لوگ تمہارے باپ کے رشتہ دار نہیں ہیں’۔

ظاہری طور پر پولیس وہاں آنے والی تھی مگر مسافر پھر بھی ڈرائیور کی بات ماننے کو تیار نہیں تھے۔

جب صورتحال پر میرا بس نہ چلا تو میں نے ریت سے تیمم کرکے نماز ادا کی۔ نمازِ عصر کی ادائیگی کے بعد میں نے دعا لمبی کردی۔

جلد ہی محمد خان نے مجھے پکارا اور جلدی کرنے کو کہا۔ جب میں گاڑی کی طرف لوٹا تو پتا چلا کہ مسافروں نے رقم ادا کردی ہے اور معاملہ ٹھنڈا ہوگیا ہے۔ مگر محمد خان کے پاس میرے لیے ایک سوال تھا، ‘آپ نے ابھی کون سی نماز پڑھی ہے؟’

میں نے جواب دیا، ‘ظاہر ہے عصر کی نماز پڑھی ہے’۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ انہیں لگا کہ جیسے میں تراویح کی طویل نماز پڑھ رہا ہوں۔ ہم نماز کے بارے میں بات چیت کرتے رہے اور اس دوران محمد خان کے چہرے پر ایسی مسکراہٹ تھی جو پہلے نہیں دیکھی تھی۔

شاید اس کی وجہ سفر کے تمام ہونے کی تسکین تھی۔ ہم ایک بار پھر اس کھٹارا پک اپ پر سوار ہوئے اور چل دیے۔ سفر کے ان آخری لمحات میں محمد خان نے مجھے بتایا کہ انہوں نے مجھے ان کی پک اپ کو ‘سڑی ہوئی’ گاڑی کہتے سنا تھا۔ وہ میرے جواب سے پہلے ہی پوچھتے ہیں کہ، ‘آپ کو منزل تک پہنچانے والی کیا یہ وہی سڑی ہوئی گاڑی نہیں؟’

مشخیل میں داخل ہوتے وقت سورج غروب ہونے والا تھا۔ وہاں پہنچنے پر مجھے چین آیا۔ میں اپنی منزل تک پہنچ چکا تھا۔ مگر وہ لوگ جنہیں غیر قانونی طریقے سے سرحد پار کرنی تھی، ان کے لیے سفر کے مشکل مرحلے سے گزرنا ابھی باقی تھا۔

صدام نامی عمر رسیدہ افغان شخص اس راستے سے تیسری بار سفر کر رہے تھے۔ ایک بار وہ ایرانی حکام کے ہاتھوں گرفتار بھی ہوچکے ہیں۔

مسافروں کو اگلے دن طلوع آفتاب کے بعد جودر کے لیے نکلنا تھا۔ یہ لوگ رات کو مختلف خواب گاہوں (چھوٹے ریسٹ ہاؤس) میں ٹھہریں گے۔ ہمارا ڈرائیور جو اسی علاقے کا رہائشی ہے، اپنے گھر کی راہ لیتا ہے۔ سفر کا آخری جھوٹ بولتے ہوئے میں ان سے کہتا ہوں کہ میں اگلے دن جودر کی طرف بڑھنے سے پہلے مشخیل میں اہل خانہ کے ساتھ کچھ وقت گزاروں گا۔

خواب گاہ میں اپنے اردگرد موجود سرحد پار خوشحال زندگی کی امید باندھے مرد، خواتین اور بچوں کو دیکھ کر یہ سوچنے لگا کہ اس سفر میں انہیں مزید کن حالات کا سامنا ہوگا۔ کیا انہیں وہ سب کچھ حاصل ہوسکے گا یا نہیں جس کی انہیں تلاش ہے۔ کیا انہیں اپنے اہلِ خانہ سے دوبارہ ملنے کا کبھی موقع ملے گا یا نہیں۔

میں ان سوچوں میں ہی گم رہا اور پھر گھر واپسی کے انتظامات کے بارے میں سوچنے لگا۔ دیگر مسافر آرام کر رہے تھے۔ انہیں اپنے نامعلوم آشیانے تک پہنچنے کے لیے ابھی ایک طویل راستہ طے کرنا باقی تھا۔

نوٹ: یہ مضمون 30 مئی 2021ء کو ڈان اخبار کے ایؤس میگزین میں شائع ہوا. جس میں شناخت کے تحفظ کے لیے نام تبدیل کردیے گئے ہیں۔ ڈان ڈاٹ کام کے شکریہ کے ساتھ شائع کیا گیا.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close