ڈیڑھ کروڑ سے زائد آبادی والا شہر کراچی پاکستان کا تجارتی اور صنعتی حب ہے۔ یہ پاکستان کا سب سے زیادہ ٹیکس ادا کرنے والا شہر بھی ہے۔
بجلی کی فراہمی کسی بھی شہر کی بقا کے لیے ضروری ہوتی ہے۔ کراچی میں بجلی کی پیداوار، ترسیل اور تقسیم پر کے الیکٹرک (کے ای) کی اجارہ داری قائم ہے۔ کراچی کے رقبے اور تجارتی اہمیت کو دیکھتے ہوئے کراچی اور پاکستان کی معیشت کے لیے کے ای کی اہمیت کو بڑھا چڑھا کر بیان کرنا بہت مشکل ہے۔
عمومی طور پر کے الیکٹرک کا تاثر بجلی فراہم کرنے والے ایک نااہل ادارے کا ہے۔ خاص طور پر گرمیوں میں جب بجلی کی طلب میں اضافہ ہوتا ہے تو کے ای کی کارکردگی پر بھی سخت تنقید ہوتی ہے۔ حکومت کی جانب سے اس ادارے کے خلاف سخت کارروائی کا وعدہ ہوتا ہے، عدالتیں نوٹس لیتی ہیں لیکن حقیقتاً کے الیکٹرک کا کچھ نہیں بگڑتا۔
پاکستان میں قومی سلامتی کے کچھ حقیقی مسائل کے علاوہ ہر دوسرا مسئلہ قومی سلامتی کا مسئلہ بن جاتا ہے، اور ان کچھ حقیقی مسائل کی فہرست میں کے الیکٹرک بھی شامل ہے۔
پاکستان کی جانب سے کبھی اس بارے میں تحقیقات کی ہی نہیں گئیں کہ کے الیکٹرک کا حقیقی کنٹرول کس کے پاس ہے اور اس ادارے پر کنٹرول نہ ہونے کے کیا قانونی نتائج ہوسکتے ہیں۔
اس بات کے ناقابلِ تردید ثبوت موجود ہیں کہ سال 2018ء میں ہی کے الیکٹرک پر سے ابراج گروپ کا کنٹرول ختم ہوگیا تھا۔ اس صورتحال میں پاکستان پر لازم تھا کہ یا تو اس ادارے کو اپنے کنٹرول میں لے لیتا یا پھر کوئی ایڈمنسٹریٹر تعینات کرتا لیکن حیران کن طور پر پاکستان نے کچھ بھی نہیں کیا۔
کے الیکٹرک کو 2005ء میں پرائیویٹائز کیا گیا تھا جب کیمن آئی لینڈز (Cayman Islands) میں رجسٹر ایک کمپنی کے ای ایس (KES) پاور نے کمپنی کے 66.4 فیصد شیئرز حاصل کرلیے تھے۔ کے ای ایس پاور میں ابتدائی سرمایہ کار سعودی عرب کا الجمیح گروپ اور پاکستان کے حسن ایسوسی ایٹس تھے۔ ان دونوں میں سے کسی کو بھی بجلی کی تقسیم کار کمپنی چلانے کا کوئی تجربہ ہی نہیں تھا تو یہ کے الیکٹرک جیسی بڑی اور پیچیدہ تقسیم کار کمپنی کیسے چلاتے؟ یہی وجہ ہے کہ اس نجکاری کو ابتدا سے ہی خطرہ لاحق تھا۔
2009ء میں ابراج گروپ سے منسلک کچھ پرائیویٹ ایکویٹی فنڈز نے کے ای ایس پاور کا کنٹرول سنبھال لیا۔ اگرچہ کے الیکٹرک ایک لسٹڈ کمپنی ہے جس کا مطلب ہے کہ اس کی تمام معلومات عوام کے لیے دستیاب ہوں گی لیکن آج تک کے ای ایس پاور کی ملکیت کے حوالے سے کوئی معلومات بھی عوامی سطح پر فراہم نہیں کی گئی۔ ہم صرف یہ جانتے ہیں کہ کے ای ایس پاور کے شیئرز کی اکثریت ابراج گروپ کے مختلف فنڈز کے پاس ہے، ہمیں نہ ہی ان فنڈز کے نام معلوم ہیں اور نہ یہ معلوم ہے کہ کیا کے ای ایس میں کوئی اور سرمایہ کار بھی ہیں یا نہیں۔
ابراج گروپ کا نام غیر رسمی طور پر پاکستانی نژاد عارف نقوی کی جانب سے قائم کردہ مختلف پرائیویٹ ایکویٹی فنڈز اور کمپنیوں کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ ابراج ہولڈنگز 2002ء میں کیمن آئی لینڈز میں رجسٹر ہوئی اور یہ ابراج گروپ کی اعلیٰ درجے کی ہولڈنگ کمپنی تھی اور عارف نقوی اس کے سب سے بڑے شیئر ہولڈر اور سی ای او تھے۔
ابراج ہولڈنگز، ابراج انویسٹمنٹ منیجمنٹ کی واحد مالک ہے جو خود بھی کیمن آئی لینڈز میں رجسٹرڈ ہے۔ ابراج گروپ کے پاس مختلف پرائیویٹ ایکویٹی فنڈز کا انتظام موجود ہے جنہیں ابراج انویسٹمنٹ منیجمنٹ اور عارف نقوی سرمایہ کاری کے حوالے سے مشاورت فراہم کرتے تھے۔
ابراج گروپ نے اپنے پرائیویٹ ایکویٹی فنڈز کے لیے بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن، امریکی حکومت کے اوورسیز پرائیویٹ انویسٹمنٹ کارپوریشن اور ورلڈ بینک گروپ جیسے بڑے سرمایہ کاروں سے سرمایہ کاری حاصل کی۔ باہر کے لوگوں کے لیے تو ابراج کامیابی کی منازل طے کررہا تھا اور 2018ء میں اس کے پاس 13 ارب ڈالر سے زیادہ فنڈز کا انتظام تھا۔
تاہم حقیقت اس سے بہت مختلف تھی۔ امریکا کے سیکیورٹی ایکسچینج کمیشن (ایس ای سی) کے مطابق 2015ء اور اس کے بعد سے ابراج ہولڈنگز اور ابراج انویسٹمنٹ منیجمنٹ ’اپنے قرض ادا کرنے کے قابل نہیں تھے، ساتھ ہی ان کے پاس کاروباری اخراجات جیسے کہ ملازمین کی تنخواہوں کے لیے بھی خاطر خواہ آمدن نہیں تھی‘۔
ایس ای سی کے مطابق اس عرصے کے دوران ان اداروں نے ڈیفالٹ سے بچنے کے لیے ’سرمایہ کاروں کے لگائے ہوئے کروڑوں ڈالر کا استعمال کیا‘۔ ایس ای سی کا دعویٰ ہے کہ ابراج کی ابتر مالی حالت کے باوجود اس گروپ نے عارف نقوی کو نتخواہوں اور بونس کی مد میں سال 2015ء میں تقریباً 5 کروڑ 37 لاکھ ڈالر اور سال 2016ء میں تقریباً 1 کروڑ 95 لاکھ ڈالر ادا کیے۔
سال 2018ء کی ابتدا میں ابراج گروپ بلآخر ڈیفالٹ کرگیا جس کی وجہ سے اس کے قرض دہندگان نے اسے عدالت کی زیرِ نگرانی تنظیم نو پر مجبور کیا۔ جون 2018ء میں ابراج ہولڈنگز اور ابراج انویسٹمنٹ منیجمنٹ نے رضاکارانہ طور پر دیوالیہ ہونے کا اعلان کردیا اور وہ کیمن آئی لینڈز کے گرینڈ کورٹ میں لیکویڈیشن کے عمل کا حصہ بن گئے۔
پرائس واٹر ہاؤس کُوپر (پی ڈبلیو سی) کو ابراج ہولڈنگز اور ڈیلوئٹ کو ابراج انویسٹمنٹ منیجمنٹ کے لیے مشترکہ عارضی لیکویڈیٹرز تعینات کیا گیا۔ ساتھ ہی ابراج گروپ کے کچھ فنڈز کا کنٹرول بھی نئے منیجروں نے لیے لیا۔ پی ڈبلیو سی اور ڈیلوئٹ کے تقرر کا مقصد ابراج گروپ کے فنڈز کے لیے آنے والی بولیوں کی جانچ کرنا تھا۔
عارف نقوی اس وقت لندن میں نظربند ہیں اور امریکا حوالگی کے منتظر ہیں۔ 2019ء میں دبئی کی فنانشل سروسز اتھارٹی نے ابراج گروپ کی دو کمپنیوں پر ساڑھے 31 کروڑ ڈالر جرمانہ عائد کیا تھا اور متحدہ عرب امارات کی ایک عدالت نے عارف نقوی کو غائبانہ طور پر 3 سال قید کی سزا سنائی۔
ان اقدامات کی وجہ سے کے الیکٹرک پر سنجیدہ قانونی اثرات پڑے۔ 2009ء میں پاکستان نے کے الیکٹرک کا کنٹرول ابراج گروپ کے حوالے کردیا تھا جو 2018ء میں اس وقت ختم ہوگیا جب کے ای ایس پاور ابراج کے کنٹرول سے نکل گیا۔
اِس وقت ممکنہ طور پر کے ای ایس پاور کا کنٹرول ان عارضی لیکویڈیٹرز یا ابراج گروپ کے فنڈز کے نئے منیجروں کے پاس ہے۔ چونکہ کے ای ایس پاور ہی کے الیکٹرک کے اکثر ڈائریکٹران کا تقرر کرتی تھی اس وجہ سے جون 2018ء میں ہی کے الیکٹرک کا کنٹرول تبدیل ہوچکا تھا جسے پاکستان نے نظر انداز کردیا تھا۔ 2018ء سے کے الیکٹرک ایک بغیر کپتان کے تیرتا جہاز بنا ہوا تھا جو اس کی ناقص کارکردگی کی وجہ بھی ہے۔
تمام حکومتیں حساس کاروبار میں شامل کمپنیوں کے کنٹرول اور ان کی ملکیت کی دانستہ حفاظت کرتی ہیں۔ امریکا نے قومی سلامتی کے خدشات کی وجہ سے کئی چینی کمیونیکیشن کمپنیوں پر پابندی عائد کی ہوئی ہے۔
2006ء میں دبئی حکومت کی زیرِ ملکیت ڈی پی ورلڈ نے 5 امریکی بندرگاہوں کے ٹرمینل کا کنٹرول اس وجہ سے چھوڑ دیا کہ امریکا نے قومی سلامتی کے حوالے سے اس کی مخالفت کی تھی۔
سوال یہ ہے کہ پاکستان نے کے الیکڑک کے کنٹرول کو لیکویڈیٹرز کے ہاتھوں میں کیوں جانے دیا؟ اگر کوئی لائسنس کا حامل ارادہ یا شخص ادارے پر سے کنٹرول کھودے تو نیپرا اس کا لائسنس معطل یا منسوخ کرنے یا پھر ایک ایڈمنسٹریٹر کا تقرر کرنے کا قانونی اختیار رکھتی ہے۔ آخر نیپرا نے اس اختیار کا استعمال کیوں نہیں کیا۔
ادارے کے کنٹرول میں کسی بھی غیر منظور شدہ تبدیلی کو روکنے کے لیے معاہدے میں ایک شق موجود ہوتی ہے جس کے مطابق دیوالیہ ہونا اور سرمایہ کار کے کنٹرول کا بدلنا یا کسی قسم کی تنظیم نو کو ڈیفالٹ میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس کے سبب حکومت کو فوری طور پر کمپنی کا کنٹرول سنبھالنے، کوئی ایڈمنسٹریٹر تعینات کرنے یا پھر خریداری کا بنیادی معاہدہ ہی منسوخ کرنے کا اختیار مل جاتا ہے۔
یہ شق پاکستان میں ہونے والی دیگر نجکاریوں میں شامل ہوتی ہے اور اس بات کی کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی کہ ایسا کے الیکٹرک کے معاہدے میں کیوں نہیں ہوا؟ ریاست پر اس بات کی وضاحت کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ کیوں کے الیکٹرک کو کراچی تباہ کرنے کی کھلی چھوٹ دی گئی جبکہ حکومت کے پاس اسے روکنے کا اختیار تھا۔
بشکریہ ڈان اخبار