عبیداللہ سندھی علم کی تلاش میں کتنے ہی اساتذہ کی چوکھٹ تک گئے تھے۔ کیسے کیسے کُتب خانوں کی خاک چھانی تھی اور آخر اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ سوچ کی راہوں پر اندھی تقلید کا پہرہ نہیں ہونا چاہیے۔ مطالعہ اور غوروفکر ہی علم کے خزانوں تک رسائی کا طریقہ ہے۔ لیکن شیخ الہند محمودالحسن کی کلاس کا رنگ ہی کچھ اور تھا۔ وہ کتاب کا متن پڑھاتے، تشریح کرتے اور چند ایسے گوشوں کی نشاندہی کرتے جو پڑھنے والوں کی نگاہوں سے اوجھل ہوتے۔ عبیداللہ سندھی کو شیخ الہند کی کلاس میں احساس ہوا کہ استاد کیسے شاگردوں کو سوچ کے نئے زاویے مہیا کر سکتا ہے۔ شیخ الہند کی تدریس نے عبیداللہ سندھی کے لیے غوروفکر کے نئے در کھول دیے تھے۔
دارالعلوم کی دنیا کتابوں، درس و تدریس اور غور و فکر کی دنیا تھی۔ عبیداللہ سندھی جو پہلے ہی کتابوں کے رسیا تھے دارالعلوم کے کُتب خانے سے استفادہ کرنے لگے۔ یہ 1890ء کا سال تھا۔ اس وقت ان کی عمر محض اٹھارہ برس تھی اور وہ فقہ اور حدیث کی اہم اور بنیادی کتابوں کا بغور مطالعہ کر چکے تھے۔ اب سالانہ امتحان کا وقت آ پہنچا تھا۔ وہ دن عبیداللہ سندھی کی زندگی کا ایک یادگار دن تھا جب مولانا سیّد محمد دہلوی نے اپنے ہاتھوں سے عبیداللہ سندھی کو امتحان میں اعلیٰ درجے کی کامیابی کی سند عطا کی تھی۔ کہتے ہیں دیو بند کی تاریخ میں اس سے پہلے اتنے اعلیٰ درجے کی کامیابی کی صرف ایک دو مثالیں تھیں لیکن یہ عبید اللہ سندھی کی منزل نہیں تھی۔ علم کے طویل راستے پر انہیں آگے بہت آگے جانا تھا۔
1890ء میں ہی عبید اللہ سندھی نے ”مقاصدالاصول‘‘ کے عنوان سے کتاب لکھی۔ شیخ الہند نے عبید اللہ سندھی کی یہ تحریر دیکھی تو اسے پسند کیا۔ شیخ الہند کی تحسین نے عبید اللہ سندھی کے شوق کو اور ہوا دی۔ یہ وہ اہم نکتہ ہے کہ کس طرح ایک استاد کی رہنمائی اور حوصلہ افزائی شاگردوں میں شوق کی چنگاریوں کی شعلوں میں بدل سکتی ہے۔ کیسے استاد کا مہربان رویہ شاگردوں میں اعتماد کی سطح کو بلند کرتا ہے اور انہیں نئے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کی ہمت دیتا ہے۔ شیخ الہند کی شخصیت بھی پارس کی طرح تھی جو اپنے حلقۂ اثر میں آنے والوں کو سونا بنا دیتا ہے۔ اب عبید اللہ سندھی کی اگلی منزل مولانا قاسم نانوتوی کی کتابوں کا مطالعہ تھی۔ عبید اللہ سندھی کو مولانا قاسم نانوتوی کی تحریروں میں ایک منفرد اسلوب نظر آیا۔ ان کی ہر تحریر میں استدلال کا رنگ صاف نظر آتا تھا۔ اور پھر وہ اہم نکات کو سمجھانے کے لیے ریاضی کی مثالیں پیش کرتے تھے۔ ریاضی وہ مضمون تھا جو عبید اللہ سندھی کو اسکول کی ابتدائی سطح سے پسند تھا۔ یوں انہیں مولانا قاسم نانوتوی کی تحریروں میں ایک خاص لطف محسوس ہونے لگا۔ یہ تحریریں سادہ اور پُر اثر تھیں۔ بھاری بھرکم اصطلاحات سے قصداً گریز کیا گیا تھا۔ یوں کتاب کا متن پڑھتے ہوئے اضافی تشریح کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی تھی۔
وقت کے ساتھ ساتھ عبید اللہ سندھی کی علم کی پیاس کم ہونے کے بجائے بڑھتی جا رہی تھی۔ وہ جتنا پڑھتے جاتے اتنا ہی انہیں اس بات کا شدت سے احساس ہوتا تھا کہ علوم کے کتنے ہی خزانے ہیں جن تک ان کی رسائی نہیں ہے۔ اب انہوں نے شیخ الہند سے جامع ترمذی کا درس لینا شروع کیا‘ اور پھر مولانا رشید احمد گنگوہی سے ”سننِ ابو داؤد‘‘ کے کئی حصے پڑھے۔ وہ دن عبید اللہ سندھی کی زندگی کا ایک خوش قسمت دن تھا۔ جب شیخ الہند محمود الحسن نے انہیں حدیث کی تمام کُتب کی اجازت مرحمت فرمائی۔
اگلے ہی سال عبید اللہ سندھی کو علاج کی غرض سے دہلی منتقل ہونا پڑا جہاں حکیم محمود خان نے ان کا علاج کیا۔ دہلی میں یہ قیام تین ماہ پر محیط تھا۔ علالت کے اس عرصے میں بھی عبید اللہ سندھی نے حصولِ علم کا کوئی موقع ضائع نہیں کیا۔ دہلی کے اس قیام میں انہیں اپنے استاد سیّد العارفین کا خیال آیا جنہوں نے عشق کے سفر کے ابتدائی مرحلے میں ان کی رہنمائی کی تھی۔ عبید اللہ سندھی نے رختِ سفر باندھا اور بھر چونڈی کا رُخ کیا‘ لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ ان کے بھر چونڈی پہنچنے سے دس روز قبل ان کے مرشد کا انتقال ہو چکا تھا۔ ان کے خلفا مولانا ابوالسراج اور مولانا ابوالحسن تاج محمود امروٹی نے ان کی تربیت کی۔ عبید اللہ سندھی نے یہاں دس سال قیام کیا۔ یہیں پر ان کی شادی ہوئی۔ شادی سے قبل وہ اپنی والدہ کو گھر لے آئے تھے۔ اس قیام کے عرصے میں عبید اللہ سندھی نے تدریس کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف پر پوری توجہ دی اور متعدد کتابیں لکھیں۔ کتابوں کی اشاعت کے لیے محمود المطابع کے نام سے پرنٹنگ پریس قائم کیا۔ یہیں سے 1899ء میں سندھی زبان کا ایک ماہنامہ ”ہدایۃُ الاخوان‘‘ شروع کیا۔
درس و تدریس کا یہ سلسلہ جاری تھا اور ملکی سطح پر سیاسی حالات نئی کروٹ لے رہے تھے۔ ان کا ملک ہندوستان تاجِ برطانیہ کے غاصبانہ قبضے میں تھا۔ عبید اللہ سندھی کے دل میں لہریں اٹھتیں اور بے چینی بڑھ جاتی۔ تب ایک روز انہوں نے دیو بند جانے کا فیصلہ کیا اور شیخ الہند سے شاہ اسمٰعیل شہید کی جہاد اور سیاست کے بارے میں لکھی گئی تحریروں پر رہنمائی حاصل کی۔ شاہ عبدالعزیز اور شاہ محمد اسمٰعیل شہید کے خیالات عبید اللہ سندھی کے لیے نشانِ منزل تھے۔ عبید اللہ سندھی اب عملی میدان میں با معنی کردار ادا کرنے کے خواہش مند تھے۔ شیخ الہند کی ہدایت پر انہوں نے 1901ء میں سندھ میں دارالعلوم کی ایک شاخ ”دارالرشاد‘‘ کے نام سے قائم کی۔ 1909ء میں شیخ الہند نے عبید اللہ سندھی کو دیو بند منتقل ہونے کی ہدایت کی اور اسی سال جمعیت الانصار کی بنیاد رکھی۔ عبید اللہ سندھی دیو بند کے دعوت و ارشاد کے شعبے کے سربراہ تھے۔ دارالانصار کے قیام کا مقصد اُن 30 ہزار کے قریب علما کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا تھا جو دارالعلوم دیو بند سے فارغ التحصیل تھے۔ شیخ الہند کی سیاسی مد و جزر پر گہری نگاہ تھی۔ جب انہوں نے دیکھا کہ ہندوستان کا دارالحکومت کلکتہ سے دہلی منتقل ہو گیا ہے اور سیاسی جماعتوں کا مرکز بن گیا ہے تو انہوں نے عبید اللہ سندھی کو دہلی میں ”نظارۃالمعارف القرانیہ‘‘ کے قیام کی ہدایت کی۔ 1914ء میں پہلی جنگِ عظیم کا آغاز ہو چکا تھا۔ اب وقت آ گیا تھا کہ مدرسوں کی عافیت گاہوں سے نکل کر عملی جدوجہد کا آغاز کر دیا جائے۔ شیخ الہند نے ہندوستان اور ہندوستان سے باہر عملی جدوجہد کے آغاز کا فیصلہ کر لیا۔ ایک روز انہوں نے اچانک عبید اللہ سندھی سے کہا کہ انہیں کابل جانا ہو گا۔ عبید اللہ سندھی ذہنی طور پر اس کے لیے تیار نہیں تھے‘ لیکن یہ مرشد کا حکم تھا اور ضرور اس میں شیخ الہند کی کوئی مصلحت تھی۔ ادھر خفیہ ایجنسیوں کے لوگ شیخ الہند اور ان کے ساتھیوں پر نظر رکھے ہوئے تھے۔ عبید اللہ سندھی سندھ روانہ ہو گئے‘ اور وہاں چار ماہ قیام کے بعد کابل کا رخ کیا۔ یہ 1915 کا سال تھا اور اگست کا مہینہ۔ کابل ان کے لیے اجنبی جگہ تھی۔ دور تک پہاڑوں کا ایک سلسلہ تھا۔ ان کے پاس کوئی سفری دستاویزات نہیں تھیں اور پھر خفیہ ایجنسیوں کے کارندے ان کی تلاش میں شکاری کتوں کی طرح سرگرداں تھے‘ لیکن عبید اللہ سندھی نے خطروں سے ڈرنا سیکھا ہی نہیں تھا۔ اب رات کا اندھیرا چاروں طرف پھیل چکا تھا۔ ہر طرف خاموشی کا راج تھا۔ ایسے میں آسمان پر آنکھیں جھپکتے ستاروں نے دیکھا کہ ایک مختصر قافلہ اونچی نیچی سنگلاخ راہوں پر چلتا ہو ایک ایسی منزل کی طرف رواں دواں تھا جو ان سب کے لیے اجنبی اور انجان تھی‘ بالکل اس گہری سیاہ رات کی طرح جس کے سینے میں کتنے ہی راز پوشیدہ تھے۔
(جاری ہے)
بشکریہ تجزیہ
یہ بھی پڑھیں