بھارت میں دَلِت صحافیوں کو اپنا نیوز پلیٹ فارم تشکیل دینے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

ویب ڈیسک

بھارت کا مرکزی دھارے کا ذرائع ابلاغ بڑی حد تک ملک کے تیس کروڑ دلتوں کی نمائندگی نہیں کرتا۔ لیکن اب اس طبقے کے لیے وقف ایک نیوز پلیٹ فارم پر دلت صحافی اپنی کہانیوں سے اس صورت حال کو تبدیل کرنے کے لیے کوشاں ہیں

انہی میں سے ایک مینا کوتوال بھی ہیں، جن کا تعلق محنت کش خاندان سے ہے۔ وہ بھارتی دارالحکومت دہلی کے ایک دلت محلے میں پلی بڑھی ہیں۔ صحافی بننے کے بعد انہوں نے ذرائع ابلاغ کے کئی بڑے اداروں کے لیے کام کیا۔ تاہم ایک نوجوان صحافی کے طور پر ان کے تجربات نے انہیں یہ احساس دلایا کہ اس میڈیا میں بھارتی معاشرے کے ایک بڑے حصے یعنی دلتوں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے

مینا کوتوال بتاتی ہیں ’’میں نے مرکزی دھارے کے بھارتی نیوز رومز میں اپنی دلت شناخت کے بوجھ کو محسوس کیا، جہاں ذات پات کا اندھا پن معمول کی بات ہے۔ اسی تفریق نے مجھے اپنا میڈیا پلیٹ فارم شروع کرنے پر مجبور کیا، جو بھارت کے اس معاشرے کی خبروں پر توجہ دیتا ہے، جو ذات پات کے سبب حاشیے پر ہیں‘‘

سن 2019ع میں مینا کوتوال نے ’موک نائک‘ کے نام سے ایک آن لائن نیوز پلیٹ فارم لانچ کیا، جس کا مطلب ہے ’’بے آوازوں کا رہنما‘‘ بھارت کے متنوع سماجی طبقات سے آنے والے چودہ صحافیوں پر مشتمل اس پلیٹ فارم سے، مینا کوتوال کا مقصد، دلتوں اور دیگر پسماندہ طبقات کی کہانیوں کو اجاگر کرنا ہے۔ ایسی کہانیاں، جو عام طور پر مرکزی دھارے کے میڈیا میں رپورٹ نہیں کی جاتیں

پلیٹ فارم کا نام بھارتی آئین کے معمار بی آر امبیڈکر سے متاثر ہو کر رکھا گیا ہے۔ مینا کوتوال اپنا نیوز روم ان عطیات کے ذریعے چلاتی ہیں، جو انہیں کراؤڈ فنڈنگ سے ملتے ہیں۔ حال ہی میں انہیں ’گوگل نیوز انیشیٹیو‘ سے بھی فنڈنگ حاصل ہوئی ہے

یہ نیوز آؤٹ لٹ دہلی کے اسی دلت محلے ’پشپا بھون‘ سے چلایا جاتا ہے، جس علاقے میں مینا کوتوال پلی بڑھی ہیں۔ ’موک نائک‘ وسیع تر رسائی کے لیے ہندی اور انگریزی دونوں زبانوں میں مضامین شائع کرتا ہے۔ وہ اپنے یوٹیوب چینل کے لیے وڈیوز بھی شوٹ کرتے ہیں، جس کا مقصد ان کہانیوں کا احاطہ کرنا ہے، جو دلتوں کو درپیش مظالم اور سماجی ناانصافیوں پر مبنی ہوتی ہیں اور دوسرے انہیں جگہ نہیں دیتے ہیں

ہندوؤں کا ذات پات کا نظام ہزاروں برس پرانا ہے اور تقریباً تین سو ملین دلتوں کو آج بھی نچلے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے۔ نام نہاد اعلیٰ ذاتیں دلتوں کے لیے ’اچھوت‘ جیسی توہین آمیز اصطلاح استعمال کرتی ہیں۔ جبکہ بھارتی آئین میں اچھوت کے رواج کو ممنوع اور غیر قانونی قرار دیا گیا ہے۔ تاہم بھارت میں اب بھی ذات پات کی جڑیں گہری ہیں اور آج بھی دلتوں کو ذات پات کی بنیاد پر نفرت انگیز امتیازی سلوک اور تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے

اکتوبر 2022 میں آکسفیم اور بھارتی ڈجیٹل نیوز آؤٹ لٹ ‘نیوز لانڈری’ کی ایک مشترکہ رپورٹ میں بھارتی نیوز رومز میں دلتوں کی غیر متناسب نمائندگی کا انکشاف کیا گیا تھا

رپورٹ کے مطابق سن 2019 میں بھارت کے تقریباً 88 فیصد صحافی ’اونچی ذات‘ سے تعلق رکھتے تھے۔ آج بھی اس صورت حال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے

ایک اور دلت صحافی اشوکا داس نے بھی ماہانہ میگزین اور نیوز پورٹل ’دلت دستک‘ کی بنیاد رکھی، جس کا مقصد خبروں اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے دلت سماج کے بارے میں بیداری پھیلانا ہے

اشوکا داس کہتے ہیں ’’بھارتی اداروں، بشمول عدلیہ اور تعلیمی اداروں، میں اونچی ذات کی گیٹ کیپنگ عام ہے۔ یہاں میڈیا بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے‘‘

’اعلیٰ ذات‘ کے غلبے والے بھارتی نیوز رومز میں ایک دلت صحافی کے طور پر ان کے تجربے نے اشوکا داس کو یہ احساس دلایا کہ کس طرح ان کی شناخت نے ان کے لیے حدود پیدا کی ہیں۔ اشوکا کہتے ہیں ’’آپ کسی خاص عہدے سے اوپر نہیں اٹھ سکتے۔ آپ کی ترقی میں تاخیر ہوتی ہے۔ اور یہ واضح طور پر آپ کی ذات کی شناخت کی وجہ سے ہوتا ہے‘‘

 دلت میڈیا کے لیے مشکلات

سن 2012 میں اشوکا داس نے ’دلت دستک‘ کا آغاز کیا تھا تاکہ دلتوں کے ایسے مسائل کو اجاگر کیا جا سکے، جنہیں مین اسٹریم میڈیا نظر انداز کر دیتا ہے۔ اس وقت سے، پلیٹ فارم کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے، تاہم اسے فنڈز تلاش کرنے اور ایک مستحکم ٹیم کو برقرار رکھنے جیسی مشکلات کا سامنا ہے

ان متبادل دلت میڈیا آؤٹ لیٹس کے علاوہ، دیگر میڈیا اقدامات جیسے ’راؤنڈ ٹیبل انڈیا‘، اور ’دی دلت وائس‘ جیسے پلیٹ فارمز کا ابھرنا بھی شامل ہے، جو بھارتی شہریوں میں بیداری اور شعور پیدا کرنے کے مقصد سے، دلت مسائل پر رپورٹنگ کرتے ہیں

آکسفیم اور ’نیوز لانڈری‘ کی رپورٹ کے مطابق ایڈیٹر انچیف، مینیجنگ ایڈیٹر، ایگزیکیٹو ایڈیٹر، بیورو چیف اور ان پٹ/ آؤٹ پٹ ایڈیٹر سمیت نیوز روم کے ایک سو اکیس اہم عہدوں کا جائزہ لیا گیا، جس میں سے ایک سو چھ اعلیٰ عہدے ’اونچی ذات‘ کے صحافیوں کے پاس ہیں

صرف پانچ عہدے دیگر ذاتوں کے پاس ہیں اور چھ اقلیتی برادریوں کے صحافیوں کے پاس ہیں۔ باقی چار افراد کی شناخت معلوم نہیں ہو سکی

نئی دہلی میں جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے پروفیسر ہریش وانکھیڑے نے بھارتی میڈیا میں ذات پات کی تقسیم کے رجحان پر تحقیق کی ہے۔ ان کا کہنا ہے ”مرکزی دھارے کے میڈیا کی طرف سے دلت مسائل کی کوریج ’پریشان کن‘ ہے۔ ایک متبادل کے طور پر دلت میڈیا کا ابھرنا بہت اہم ہے تاکہ مین اسٹریم میڈیا کے غالب بیانیے کو چیلنج کیا جا سکے، جو ہمیشہ دلتوں کے خلاف مظالم کو اور دلت نقطہ نظر کو اپنی کہانیوں میں دفن کر دیتا ہے۔‘‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close