کانگریس نے بی جے پی کو ’بھارتیہ جاسوس پارٹی‘ قرار دے دیا

ویب ڈیسک

اسرائیل کی جاسوسی کرنے والی کمپنی این ایس او کی جانب سے 50 ہزار سے زائد فون ہیک کرنے کا انکشاف سامنے آنے کے بعد بھارت کے ایوانوں میں زبردست کھلبلی مچی ہوئی ہے

برطانیہ کے اخبار دا گارڈین نے اپنی تازہ رپورٹ میں بتایا ہے کہ این ایس او نے پیگاسس نامی سپائی وئیر سے دنیا کے مختلف بارسوخ شخصیات کے فون ہیک کرکے ان کے بارے میں معلومات حاصل کی ہیں۔ اس کا فوری اثر فون کمپنی ایپل سمیت کئی ٹیکنالوجی کمپنیوں پر مرتب ہوا جن کے حصص کی قدر میں بے تحاشا گراوٹ دیکھی گئی

ایمازون نے تصدیق کی ہے کہ اس نے اسرائیل کے جاسوسی کرنے والے ادارے این ایس سو سے اپنے روابط کم کر دیے ہیں جبکہ بیشتر حکومتیں جنہوں نے اس کی جاسوسی کرنے کی کمپنی کی خدمات حاصل کی تھیں وہ اپنے عوام کے غیض و غضب کا سامنا کر رہی ہیں

جبکہ این ایس او نے کہا ہے کہ وہ جاسوسی کرنے کی اپنی خدمات صرف حکومتی سطح پر فراہم کرتی ہے اور اس کے خریدار صرف بعض حکومتیں ہیں

ویب پوٹل دی وائر اور اخبار دا گارڈین سمیت عالمی میڈیا کے چند اداروں نے اس سلسلے میں ’فاربڈین سٹوریز یا ممنوع کہانیوں‘ کے نام سے کئی رپورٹیں شائع کرکے اس بات کا حوالہ دیا ہے کہ بھارت میں کانگریس کے رہنما راہول گاندھی سمیت بعض وزرا، ججوں اور صحافیوں کے فون سننے یا معلومات حاصل کی کوشش کی گئی ہے جو آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی خلاف ورزی ہے.  اس کے علاوہ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کے فون کو دو بار ہیک کرنے کا انکشاف بھی کیا گیا ہے

کانگریس نے اس انکشاف کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی کو اس ’جاسوسی ریکٹ‘ کا بادشاہ قرار دیا اور مطالبہ کیا کہ ان پر غداری کا مقدمہ ہونا چاہیے کیونکہ انہوں نے اسرائیلی کمپنی کو جاسوسی کرنے کی اجازت دے کر قومی تشخص کو نیلام کر دیا ہے

راہول گاندھی نے کہا ہے کہ مودی نے ملک کی جمہوری بنیادوں کو ہلا کے رکھ دیا ہے۔اس کی فوری تحقیقات کے بعد مجرموں کو سخت سزا ملنی چاہیے

کانگریس نے حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کو ’بھارتیہ جاسوس پارٹی‘  قرار دیتے ہوئے ایک اور بیان میں کہا  ہے کہ مودی سرکار نے قوم کے ساتھ غداری کی ہے اور اس وقت قومی سلامتی کو خطرے میں ڈالا جب ایک بیرونی کمپنی کو یہاں کے شہریوں کے بارے میں معلومات جمع کرنے کی رسائی دے دی

بنگال کی وزیر اعلی ممتا بنرجی کی انتخابی مہم چلانے والے پرشانت کشور کا فون بھی ہیک کیا گیا ہے جبکہ انہوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے پانچ بار اپنا فون تبدیل کیا۔

مودی سرکار کے ایک وزیر آشونی ویشنوی نے جاسوسی سیکنڈل پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا کی ان رپورٹوں کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ ان کا مقصد اصل میں ملک کی جمہوری ساخت کو بدنام کرنا ہے۔‘
اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کے اس بیان کے فوراً بعد پتہ چلا کہ خود یہ وزیر بھی ان شخصیات میں شامل ہیں جن کے فون ہیک کرکے ان کے بارے میں ڈیٹا جمع کیا جا رہا تھا اور وہ کافی عرصے سے جاسوسی سپائی وئیر کے رڈار پر رکھے گئے تھے

کشمیر کے بعض صحافی، حریت رہنما اور سماجی کارکنوں کی ایک بڑی فہرست بھی جاری کر دی گئی ہے جن کے فون پیگاسس سپائی وئیر کے ریڈار پر رکھے گئے ہیں

اسرائیل اور بھارت کے بیچ اس طرح کے جاسوسی کے روابط پر کشمیریوں کو کوئی حیرانی نہیں ہوئی ہے کیونکہ انہیں پہلے سے اس بات کا علم ہے کہ بھارت اسرائیل کی ٹیکنالوجی کو سب سے پہلے اور سب سے زیادہ کشمیر میں استعمال کرتا آیا ہے۔ تحریک حریت کو دبانے کے لیے مختلف بااثر لوگوں کے بارے میں معلومات جمع کرکے ان کا قافیہ تنگ کرنے کی جاسوسی پالیسی پرانی ہے

انڈپینڈنٹ اخبار نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ بھارت کی ایک ارب آبادی کو اب اسی صورتحال سے گزرنا پڑ رہا ہے جس سے کشمیری قوم گذشتہ ستر برسوں سے گزر رہی ہے جیسے کہ انہیں جیلوں میں بند کرنا، لاک ڈاؤن میں رکھنا، صحافیوں پر قدغن لگانا یا عام شہریوں کی آواز کو دبانا. خود بھارت کے بیشتر لوگ آج وہی زبان استعمال کرنے لگے ہیں جو کشمیریوں نے کافی عرصہ پہلے استعمال کی تھی کہ وہ اس بھارت سے آزادی چاہتے ہیں جہاں خود ان کے عوام کے لیے اب زمین تنگ پڑ رہی ہے، جہاں جمہوریت کا لبادہ اوڑھ کر اقلیتوں کے معاشی، سیاسی اور معاشرتی حقوق سلب کیے جارہے ہیں

فرق صرف یہ ہے کہ کسی نے کشمیریوں کے خدشات کو سنجیدہ نہیں لیا جبکہ ان ہی خدشات کی میڈیا کے چند اداروں نے اب تصدیق کی اور اسرائیل اور بھارتی سرکار کے درمیان اپنے ہی لوگوں کی جاسوسی کرنے کے بڑے سیکنڈل کو طشت از بام کیا ہے

اگرچہ اس سیکنڈل سے دیگر ممالک میں بااثر شخصیات کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے اسرائیل کی جاسوسی کے منصوبوں پر سے پردہ اٹھا ہے اور ان کی تحقیقات کرنے کا اعلان کیا ہے لیکن بھارت سمیت بعض مغربی حکومتیں اسرائیل کے دفاع میں کھڑی ہو گئی ہیں

خدشہ جتایا جا رہا ہے کہ ’پیگاسس پروجیکٹ‘ کا انجام بھی وہی ہوگا جو ویکی لیکس کا ہوا اور جس کے بانی بڑی جمہوریتوں کے اندر کئی برسوں سے سلاخوں کے پیچھے اپنی سانسیں گن رہے ہیں.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close