❖ آنسو
دس برس اور بیت گئے… اس سنسان غیر آباد جزیرے میں آئے مجھے پندرہ سال کا عرصہ ہو گیا.. اب میں چونتیس برس کا ہو گیا تھا! سر اور داڑھی کے بالوں میں سفید بال آ گئے. ایک روز جب میں نے چشمے کے پانی میں اپنا عکس دیکھا تو میں بے اختیار آنسو بہانے لگا ۔ اپنے والد اور والدہ کی یاد میں دھاڑیں مار کر رونے لگا ۔ میری والدہ تو میرے سامنے ہی انتقال کر گئی تھی، لیکن باپ کا تصور کر کے، کہ وہ نجانے کس حال میں ہو گا، میرا بہت برا حال ہوا۔ میری زندگی کا سب سے خوبصورت زمانہ اس جزیرے میں غارت ہو گیا تھا۔ میں اس جزیرے میں ہی بھرپور جوان ہو کر اب ادھیڑ عمری کی منزل میں داخل ہو رہا تھا۔
میں سو چتا، میرے والد اور میرے دوستوں نے یہ یقین کر لیا ہوگا کہ میں بھی بدقسمت جہاز کے تمام ملاحوں اور افراد کے ساتھ سمندر میں ڈوب چکا ہوں ۔وہ یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ پندرہ سال سے میں ایک ویران اور بے آباد جزیرے میں تنِ تنہا اکیلا زندگی بسر کر رہا ہوں اور زندہ ہوں…
❖ آدم خور
اس سنسان جزیرے پر آئے مجھے پندرہ برس ہو گئے ۔ ایک دن جب میں صبح کے وقت اپنے کیبن سے کشتی کی طرف حسب معمول اس طرح جا رہا تھا کہ بندوق میری بغل میں تھی ، طوطا کندھے پر بیٹھا تھا، کھلی چھتری میرے سر پر تھی ، دور بین گلے میں لگی ہوئی تھی ، داڑھی اور سر کے سیاہ و سفید بال ہوا میں لہرا رہے تھے… کہ اچانک میں حیران ہو گیا ۔ ریت پر کسی انسان کے ننگے پاؤں کے نشان پڑے تھے.. میں غور سے انہیں دیکھنے لگا.. سب سے پہلے مجھے ایک ہی انسان کے پیروں کے نشان دکھائی دیئے ۔ اس کے بعد آ گے بڑھا تو کم از کم تین چار انسانوں کے پیروں کے نشان موجود تھے ۔ میں پیروں کے ان نشانوں کو دیکھ کر خوش بھی تھا اور حیران بھی.. میری حیرانی کا ایک بڑا سبب یہ تھا کہ پیروں کے یہ نشان تازہ تھے، جیسے وہ لوگ، جن کے پیروں کے یہ نشان تھے، تھوڑی دیر پہلے ہی یہاں سے گزرے تھے ۔ میں ان نشانوں کو غور سے دیکھتا ہوا ان کے ساتھ ساتھ آگے بڑھنے لگا ۔ لگ بھگ ایک فرلانگ فاصلہ طے کرنے کے بعد پیروں کے یہ نشان ایک چھوٹے ٹیلے سے ہوتے ہوئے اس کے پیچھے نیچے کی طرف جا رہے تھے، میں ٹیلے کے اوپر جھاڑیوں میں چھپ گیا..
مجھے سمندر کنارے کھڑی ہوئی کشتی بھی دکھائی دی.. میں نے دوربین لگائی اور دیکھنے لگا. جو منظر مجھے نظر آیا، وہ بہت خوفناک تھا.. رونگٹے کھڑے کر دینے والا منظر…
وہ چھ سات نیم عریاں ، وحشی آدم خور تھے ۔ انہوں نے چودہ پندرہ برس کے ایک لڑکے کو پکڑ رکھا تھا ۔ وہ اس لڑکے کے ہاتھ پاؤں باندھنے کی کوشش کر رہے تھے ۔ دو وحشی آدم خور وہاں آگ جلا رہے تھے ۔ میں سمجھ گیا کہ وہ اس لڑکے کو پکڑ کر اسے کھانا چاہتے ہیں ۔ ایک آدم خور ایک چھرا لیے قریب کھڑا تھا ۔ میری حیرت کم ہونے لگی تھی ۔اتنی مدت کے بعد ان انسانوں کو دیکھ کر جو اگرچہ آدم خور تھے، مجھے ایک عجیب طرح کی خوشی ہوئی تھی لیکن میں یہ بھی سوچنے لگا کہ وہ تو اس لڑکے کو کھا جائیں گے۔ کیا مجھے انہیں روکنا نہیں چاہیے..؟ حقیقت یہ ہے کہ میں ایک لمبے عرصے کے بعد انسانوں کو دیکھ کر بھونچکا رہ گیا تھا، اسی لئے میرے لئے فوری طور پر کوئی فیصلہ کرنا مشکل ہو رہا تھا۔
میں دیکھ رہا تھا کہ وہ لڑکا ان آدم خوروں کی گرفت سے نکلنے کے لئے پوری کوشش کر رہا ہے، لیکن وہ اکیلا تھا اور مقابلہ چھ سات آدم خوروں سے تھا۔ یہ آدم خور وحشی، جن کی شکلیں انسانوں جیسی تھیں، مجھے انسانیت کے دشمن محسوس ہونے لگے۔ اس سے پہلے کہ میں کوئی فیصلہ کرتا، میں نے دوربین سے دیکھا۔ وہ لڑکا ایک زوردار جھٹکے کے ساتھ ان آدم خوروں کے شکنجے سے آزاد ہوا اور جس ٹیلے کے پاس میں کھڑا تھا، اس طرف تیزی سے بھاگنے لگا۔ وہ میرے قریب آ رہا تھا اور آدم خور پاگلوں کی طرح اس کے پیچھے بھاگ رہے تھے.
وہ لڑکا دبلا پلا تھا۔ وہ بھاگ رہا تھا۔ بہت تیزی سے ، اور آدم خور اس کے پیچھے آرہے تھے. وہ اسے کسی قیمت پر ہاتھ سے جانے دینا نہیں چاہتے تھے. تیز رفتار لڑکا ایک بار ٹھوکر کھا کر گرا تو میرے دل کو دھچکا لگا، لیکن اس سے پہلے کہ وہ آدم خور اسے پکڑتے، وہ پھر تیزی سے بھاگنے لگا.. اب وہ میرے بہت قریب آ رہا تھا.. دور بین سے میں دیکھ رہا تھا کہ اس کا چہرہ پسینے میں شرابور ہے اور وہ بری طرح ہانپ رہا ہے ۔ اس کا سارا جسم ننگا تھا، اس نے ایک لنگوٹ کے سوا کچھ بھی نہیں پہنا ہوا تھا. آدم خور وحشی موت کی طرح اس کا تعاقب کر رہے تھے اور وہ لڑ کا موت سے بچنے کے لئے دوڑ رہا تھا..
اور پھر میں اسی لمحے ہوش میں آگیا..
میں نے فیصلہ کرنے میں دیر نہ کی. میں نے بندوق اٹھائی اور لڑکے تعاقب میں آنے والے آدم خوروں کے سینے کا نشانہ باندھ کر گولی چلا دی! گولی چلنے سے دھائیں کی زبردست آواز سے جزیرہ گونج اٹھا۔ پرندے شور مچاتے اڑ گئے اور میں نے ایک آدم خور کی خون میں لت پت لاش کو دیکھا۔ اپنے ایک ساتھی کو زمین پر مردہ پڑا دیکھ کر آدم خور رک گئے.
اس دوران میں لڑکا بھاگ کر مجھ سے ذرا ہٹ کر کھڑا ہوگیا۔ وہ بری طرح ہانپ رہا تھا۔ کبھی تو وہ مجھے حیرانی سے دیکھتا، کبھی لاش کو.. اتنے میں ایک دوسرا آدم خور لڑکے کی طرف بڑھنے لگا۔ میں نے پستول نکالا اور اس پر فائر کر دیا۔ میں خود بھی خاصا حیران ہوا کہ اتنے برسوں کے بعد بھی مشق کے بغیر میرا نشانہ اتنا اچھا تھا کہ اس آدم خور کے ماتھے پر پستول کی گولی لگی اور وہ بھی اپنے خون میں لت پت ہو کر ریت پر گر گیا۔ اپنے دوسرے ساتھی کو یوں مرتے دیکھ کر باقی آدم خور اتنے خوفزدہ ہوئے کہ وہ مڑ کر پیچھے کی طرف بھاگنے لگے۔ اب وہ موت سے بچنے کے لئے بھاگتے چلے جا رہے تھے۔ وہ مڑکے پیچھے دیکھے بغیر کشتی تک پہنچے. اس میں سوار ہوئے اور کھلے سمندر میں چلے گئے..
(جاری ہے)