روبنسن کروسو (شاہکار ناول کا اردو ترجمہ) تیسری قسط

ڈینیل ڈیفو / ستار طاہر

❖ کیلنڈر

اب میرے لئے ضروری ہو گیا تھا کہ میں اپنے رہنے کے لئے کوئی محفوظ جگہ تیار کروں ۔ موزوں جگہ تلاش کرتے ہوئے مجھے ایک ایسی جگہ مل گئی، جو پہاڑی کے دامن میں تھی ۔ یہاں چٹان کے پاس ایک گڑھا بھی تھا ۔ میں نے جہاز کے تختے جوڑ کر نیم دائرے میں ایک دیوار بنا دی ۔ پھر اس میں لکڑی کے ڈنڈے جوڑ کر ایک سیڑھی بنائی ۔ یہ سیڑھی مستقل نہیں تھی، بلکہ اوپر رہائش کے لئے جو جگہ بنائی تھی، وہاں جا کر سیڑھی کو اوپر کھینچ لیتا تھا ۔ یوں میں نے اپنے لئے محفوظ ٹھکانہ بنا لیا ۔ جنگلی جانوروں کا اب مجھے کوئی خطرہ نہیں تھا۔

جہاز کی تباہی کے بعد اس جزیرے میں مجھے چار دن ہو گئے تھے۔ جزیرے کے جنگل سے گزرا تو ایک جنگلی بکرے کو دیکھا، جو چھوٹے قد کا تھا اور بہت تیز بھاگتا تھا۔ میں نے اس کا پیچھا کیا لیکن وہ میرے ہاتھ نہ لگا۔ میں بھی اس کے پیچھے بھاگتا رہا۔ جنگل میں، میں نے دو تین اور جنگلی بکرے اور بکریاں دیکھیں ۔ ایک کا بندوق سے نشانہ لیا تو وہ زخمی ہو کر گر پڑی ۔ اسے اٹھا کر میں اپنے ٹھکانے میں لے آیا۔ اسے کاٹا، گوشت کے ٹکڑے بنائے اور سکھانے کے لئے دھوپ میں ڈال دیا ۔کھال بھی سکھا کر لکڑی کی دیوار پر ڈال دی۔ ایک ہفتے میں، میں نے ایسی تین اور جنگلی بکریوں کو شکار کر کے گوشت محفوظ کر لیا ۔ ان کا گوشت قدرے نمکین تھا، لیکن بہت مزیدار..

اس جزیرے میں رہتے اب میں دنوں اور تاریخوں کو بھولنے لگا تھا۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ دن اور تاریخیں مستقل میرے ذہن سے محو ہو جائیں ، اس لئے میں نے ایک لکڑی کے تختے کو کاٹا اور اس کی ایک صلیب بنالی ۔ اس صلیب کو میں نے اپنے ٹھکانے کے سامنے سمندر کے کنارے گہرا گاڑ کر اس پر اپنے چاقو سے لکھا۔
”میں اس جز یرے پر 30 ستمبر 1659ع کو آیا تھا۔“

صلیب کے ڈنڈے پر میں نے چاقو سے سات لکیریں کھینچ دیں اور یوں اسے اپنے انداز کا کیلنڈر بنا لیا، جس سے میں دن اور تاریخیں یاد رکھ سکتا تھا ۔

زندگی کی سب آسائشیں اور آرام پیچھے رہ گئے تھے ۔ مجھے اپنے آپ کو مصروف بھی رکھنا تھا ۔ اس لئے میں نے اپنے آرام کے لئے چھوٹی چھوٹی چیزیں بنانے کا ارادہ کیا۔ پہلے تو میں نے ایک درخت کو آری سے کاٹ کر نیچے گرایا ، پھر کلہاڑی سے اس کے دو بڑے ٹکڑے کئے ۔ چونکہ بڑھئی کا سارا سامان میرے پاس موجود تھا ، اس لئے میں نے اس سے لکڑی کے تختے بنائے اور پھر ایک میز ، ایک بھاری بھرکم کرسی اور ایک تخت تیار کیا ۔ ان چیزوں کو میں اپنے کیبن کے اندر لے آیا.. ہاں، جہاز میں مجھے ڈائری، قلم اور سیاہی بھی ملی تھی. میں نے یہ ڈائری لکھنی شروع کر دی ۔ ہر روز جو ہوتا ، جو کرتا ، وہ اس ڈائری میں لکھ لیتا ۔ یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہا، جب تک سیاہی ختم نہ ہوگئی ۔

دل میں ایک آس تھی کہ کبھی کوئی جہاز اس جزیرے کے سمندر سے گزرے گا۔ اس لئے میں دور بین لگا کر دیر تک سمندر کی طرف بھی دیکھتا رہتا.. کبھی کبھی یوں بھی ہوتا اور مجھے ایسے لگتا کہ جیسے میں نے کسی جہاز کا بادبان دیکھ لیا ہے ۔ دل خوشی سے اچھل پڑتا، لیکن وہ نظر کا دھوکا ہوتا اور پھر مایوسی سے آنکھیں آ نسو بہانے لگتیں ۔ میں لکڑی کے اپنے ہی بناۓ ہوۓ تخت پر لیٹ کر دیر تک روتا رہتا ۔

زندہ رہنے کے لئے منصوبہ بندی کی ضرورت پڑتی ہے.. اور اس جزیرے میں تو کوئی آدمی بھی نہیں تھا کہ میری کسی طرح سے مدد کر سکتا۔ اس لئے مجھے سب کچھ خود ہی سوچنا تھا اور خود ہی کرنا تھا۔

جہاز سے مجھے ایک چھوٹے سے تھیلے میں کچھ گندم ملی تھی ۔ اس کے دانے میں نے اپنے ٹھکانے کے آس پاس چاروں طرف بکھیر دیئے ۔

پھر اس جزیرے پر بارشوں کا موسم شروع ہوگیا. سردی بڑھ گئی اور میں بیمار ہو گیا۔ تیز بخار نے مجھے آ لیا ۔ چھ دنوں تک میں بخار میں تڑپتا رہا۔ کوئی دیکھ بھال کرنے والا نہ تھا ۔ لیٹا رہتا، گھونٹ گھونٹ پانی پیتا ۔ راتوں کو ڈرا دینے والے خواب دکھائی دیتے ۔ کیبن کے باہر سے مسلسل بارش کا شور سنتا ۔ میں بہت کمزور ہو گیا ۔

سات دن گزرے تو بارش کے ساتھ ساتھ بخار کا زور بھی ٹوٹ گیا ۔ میں کیبن سے نیچے آیا اور یہ دیکھ کر بہت حیران اور خوش ہوا کہ میں نے گندم کے جو دانے بکھیرے تھے، وہ پھوٹ پڑے تھے  ۔ مجھے یہ منظر دیکھ کر اتنی خوشی ہوئی کہ میں اپنی کمزوری اور بخار کو بھول کر ناچنے لگا۔

تاہم اب ضروری تھا کہ گندم کے ان خوشوں کو پانی ملتا رہے ، ورنہ وہ سوکھ جاتے ۔پانی کی تلاش میں، میں جزیرے میں پھر نکلا۔ اس بار میں نے اس جزیرے کا بڑا حصہ دیکھ ڈالا اور میری تلاش کامیاب رہی ۔
مجھے ایک چشمہ مل گیا!
اس کا پانی ٹھنڈا اور میٹھا تھا۔ اس کے قریب ہی جنگلی انگور کی بیلیں بھی لگی تھیں اور جنگلی تمباکو کی جھاڑیاں بھی ۔ سب کچھ خودرو تھا۔ میں نے پانی سے اپنی مشک بھری اور انگور کے گچھے توڑ کر اپنے کیبن میں لے آیا اور انہیں سوکھنے کے لئے ڈال دیا، تاکہ ان کا منقہ بن جاۓ ۔

گندم کی چھوٹی سی فصل وقت کے ساتھ ساتھ بڑھنے لگی . میں نے کیلنڈر بنا لیا تھا۔ جس سے میں دن اور تاریخ کا حساب لگا لیتا تھا.. اب مجھے اس جزیرے پر آۓ دس مہینے ہو چکے تھے، کہ ایک دن اچانک ایک کتا، خدا جانے کہاں سے آیا ، وہ میرے کیبن کے پاس بیٹھ گیا۔ شروع شروع میں وہ مجھ سے ڈرتا رہا، لیکن جب میں نے بکرے کے خشک گوشت سے اس کی تواضح کی، تو وہ میرے قریب آیا۔ میں نے اسے پیار سے سہلایا تو وہ میرے قدموں میں لیٹنے لگا ۔ یوں ہماری رفاقت کا آغاز ہوا۔ دس مہینوں میں پہلی بار مجھے ایک وفادار جاندار ملا تھا ۔ اس لئے میرے احساسات کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا تھا۔ وہ کتا پھر میرے پاس ہی رہنے لگا۔

اس جنگل میں طوطے بھی تھے ۔ کچھ طوطے میں نے پکڑ کر پنجرے میں ڈال رکھے تھے ۔ کچھ مر گئے، کچھ میں نے اڑا دیئے لیکن ایک خوش رنگ ، خاصا بڑا طوطا میرے پاس رہا۔ اب میں بندوق ہاتھ میں تھامے، سرخ ٹوپی پہنے ، جنگل میں شکار کرنے یا پانی لینے جاتا تو یہ طوطا میرے کندھے پر بیٹھا ہوتا۔ جنگلی بکریاں جو پہلے غائب ہوگئی تھیں ۔ اب پھر نظر آنے لگیں ۔ میں نے دو بکریاں پکڑ کر اپنے کیبن میں باندھ دیں ۔

ایک مدت کے بعد مجھے دودھ نصیب ہوا، جو بکری کا تھا۔ یوں میری صحت بہت اچھی ہوتی گئی ۔ جسم طاقتور ہوتا گیا ۔ چشمے کا ٹھنڈا میٹھا پانی ، بکری کا دودھ اور بکری کا گوشت ، ساری چیزیں طاقت بڑھانے والی تھیں ۔ گندم کو پتھر پر پیس کر میں پتھر کے توے پر موٹی سی روٹی پکا لیتا تھا۔

سب چیزیں وافر تھیں.. صرف بارود تھا، جو آدھا رہ گیا تھا اور میں نے اسے محفوظ کر لیا تھا۔ اب بھی مجھے آدم خوروں کا ڈر رہتا تھا۔ حالانکہ اتنے عرصے سے اس جزیرے میں رہتے ہوئے میں نے کوئی آدم خور نہیں دیکھا تھا، لیکن میں وہمی ہو گیا تھا اور ان کا خوف دل سے نکلتا ہی نہیں تھا۔

(جاری ہے)

  1. روبنسن کروسو (شاہکار ناول کا اردو ترجمہ) پہلی قسط
  2. روبنسن کروسو (شاہکار ناول کا اردو ترجمہ) دوسری قسط

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close