ٹیکساس : ہم نے اب تک کسی حادثے کی وجہ سے یادداشت چلے جانے کی کہانیاں اکثر فلموں اور ڈراموں میں ہی دیکھی ہیں لیکن ایسا ہی ایک سچا واقعہ امریکی ریاست ٹیکساس میں پیش آیا ہے جو آج کل سوشل میڈیا پر بھی خوب وائرل ہو رہا ہے
واقعہ کی تفصیلات کے مطابق ڈینیل پورٹر نامی ایک چھتیس سالہ شخص جب پچھلے سال ایک صبح بیدار ہوا تو وہ اپنی بیس سالہ زندگی بھول چکا تھا اور خود کو اسکول میں پڑھنے والا ایک سولہ سال کا لڑکا سمجھ رہا تھا۔ بدقسمتی سے اس کی یہ کیفیت آج تک برقرار ہے
ڈینیل کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ ایک ماہرِ سماعت ہے جس کی شادی 2010ع میں ہوئی اور آج اس کی بیٹی دس سال کی ہوچکی ہے
اس کہانی کی ابتداء پچھلے سال جون میں ہوئی جب ڈینیل اپنی بیوی اور بچی کے ساتھ اپنے والدین کے گھر منتقل ہوا تھا۔ والدین کے گھر پر وہ اسی کمرے میں رہ رہا تھا جہاں وہ شادی سے پہلے، اسکول کے زمانے میں رہا کرتا تھا
اسی گھر میں رہائش کے دوران ایک صبح جب وہ اٹھا تو اپنی پچھلی بیس سالہ زندگی اس کے ذہن سے یکسر مٹ چکی تھی اور خود کو سولہ سالہ لڑکا سمجھ رہا تھا
جاگنے پر ڈینیئل کی بیوی رُتھ، جو اس کے ساتھ ہی سو رہی تھی، کو دیکھ کر وہ پریشان ہوگیا کہ آخر یہ کون ہے؟ اسی پریشانی میں اس نے بستر چھوڑا اور آئینے کے سامنے پہنچا تو کسی ’’موٹے ادھیڑ عمر آدمی‘‘ کا عکس دیکھ کر مزید حیران ہوا
یہ سب کچھ دیکھ کر وہ سمجھا کہ شاید اسے اغوا کرلیا گیا ہے، اس کے بعد وہ کمرے سے فرار ہونے کے لیے ادھر اُدھر دیکھنے لگا
اسی دوران رُتھ بھی جاگ چکی تھی جسے دیکھ کر ڈینیل خوفزدہ ہوگیا۔ اپنی بیوی کے بہت یاد دلانے پر بھی اسے کچھ یاد نہ آیا
تھوڑی ہی دیر میں ڈینیل کے والدین کو بھی اس بارے میں اطلاع دی گئی اور انہوں نے اپنے بیٹے کو پچھلے بیس سال میں ہونے والے واقعات یاد دلانے کی کوشش کی مگر وہ بھی ناکام رہے
اسے نہ تو یہ یاد تھا کہ اس کی شادی ہوچکی ہے اور نہ ہی اپنی بیٹی یاد تھی جو اُس وقت نو سال کی ہوچکی تھی
فوری طور پر ڈاکٹر سے معائنہ کروانے پر معلوم ہوا کہ ڈینیل کی یادداشت جا چکی ہے۔ البتہ ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ یہ کوئی عجیب بات نہیں اور اس کی یادداشت دو سے تین دن میں واپس آجائے گی
پھر دن پر دن گزرتے گئے لیکن ڈینیل کی حالت آج تک، ایک سال گزر جانے کے بعد بھی ویسی کی ویسی ہی ہے۔ وہ آج بھی خود کو اسکول میں پڑھنے والا سولہ سال کا لڑکا ہی سمجھ رہا ہے
تاہم اتنا ضرور ہوا ہے کہ اپنی بیوی اور بیٹی کے ساتھ اجنبیت کا ایک سال گزارنے کے بعد وہ ان سے خاصا مانوس ہوچکا ہے۔ اس کے علاوہ، ڈینیل کو خود اپنی یادگار تصاویر اور فیس بُک اکاؤنٹ دیکھ کر اندازہ ہورہا ہے کہ اس کی یادداشت واقعی جا چکی ہے
یادداشت جانے کا یہ فلمی قسم کا واقعہ ڈاکٹروں کے لیے بھی حیران کن ہے کیونکہ ڈینیل کی یادداشت کا ایک حصہ مکمل طور پر ختم ہو چکا ہے لیکن ہوش سنبھالنے سے لے کر سولہ سال کی عمر کو پہنچنے تک، تمام یادداشت اس کے ذہن میں بالکل محفوظ ہے
ایسا کیوں ہوا ہے؟ اس سوال کا جواب ڈاکٹروں کے پاس بھی نہیں۔ البتہ ان کا خیال ہے کہ شاید اس کی وجہ ڈینیل کے دماغ پر مسلسل پڑنے والا دباؤ ہے کیونکہ پچھلے چند سال سے وہ مسلسل شدید مشکلات کا شکار رہا ہے. کیونکہ پہلے اس کی نوکری گئی اور بعد میں جمع پونجی بھی ختم ہوگئی؛ لہٰذا اسے مجبوراً کرائے کا مکان چھوڑ کر اپنے والدین کے گھر منتقل ہونا پڑا
ڈاکٹروں کا خیال ہے کہ ڈینیل کے دماغ پر ان حالات کا دباؤ ناقابلِ برداشت ہوچکا تھا جس کی وجہ سے اس کے ذہن نے (لاشعوری طور پر) بیس سال کی یادیں مکمل طور پر ختم کرنے کا فیصلہ کیا
البتہ، ڈاکٹروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ صرف ایک مفروضہ ہے کیونکہ دو دہائیوں پر پھیلی ہوئی یادیں اس طرح ’’مکمل صاف‘‘ ہو جانے کا کوئی عملی نظام (مکینزم) آج تک ہمارے علم میں نہیں.