ہم شکووں والی گلی کے مکین ہیں!

آفتاب احمد خانزادہ

شاید ہی کبھی کوئی تحریر ایسی بروقت لکھی گئی ہو، جیسی کہ فرانس کے شہر لی ہاوغ نے سونے کے قلم سے اس بکس پر لکھی تھی، جو فرینک کیلاگ کو پیش کیا گیا تھا، جب انہوں نے پیرس جاتے ہوئے فرانس کے ساحل پر پہلا قدم رکھا تھا۔

فرانس اور دنیا کی دوسر ی بڑی طاقتوں کے ساتھ معاہدے پر دستخط کے لیے 27 اگست 1928 کو کہا تھا ’’اگر امن چاہتے ہو تو امن کے لیے کام بھی کرو‘‘ مستقبل کبھی مایوسی، شکوؤں، بد اعتمادی، غم و غصے اور شک پر تعمیر نہیں کیا جاسکتا، سمجھ یقیناً پہلی لازمی شرط ہوتی ہے۔

سب سے پہلے خود بیماری کی وجہ اور نوعیت کی سمجھ ہونی چاہیے۔ سمجھ ان رحجانات کی، جو ہمارے وقتوں پر نظر رکھتے ہیں۔ ایسی سمجھ یقیناً ایک دن میں پیدا نہیں کی جا سکتی مگر اس کے حتمی حصول کی پہلی شرط سمجھنے میں سنجیدگی ہوتی ہے کہ یہ اس سمت میں پہلا بڑا قدم ہوتی ہے۔ ہمیں یاد رہے ’’اگر ہم خوشحالی، ترقی، سکھ اور سکون چاہتے ہیں تو ہمیں ان کے لیے کام بھی کرنا ہوگا‘‘

جہاں ہم نے اور بہت کچھ ترک کر دیا ہے، وہاں ہم نے سوچنا اور ہنسنا بھی چھوڑ دیا ہے اب نہ تو ہمیں زندگی سے کوئی سروکار ہے اور نہ ہی اپنے آپ سے کوئی دلچسپی ہے۔۔ بس اس طرح جئے جارہے ہیں، جیسے یہ کوئی عادت ہو۔

جب حضرت عیسٰی علیہ السلام کے شاگردوں نے ان سے پوچھا کہ وہ تبلیغ کرتے وقت تمثیلیں کیوں بیان کرتے ہیں، تو انہوں نے جواب دیا ’’اس لیے کہ آنکھیں رکھتے ہوئے بھی لوگ نہیں دیکھتے، کان رکھتے ہوئے بھی نہیں سنتے اور عقل رکھتے ہوئے بھی سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔‘‘

ہم سب اس وقت شکوؤں والی گلی کے مکین ہیں۔ بات کا آغاز بھی شکوے سے کرتے ہیں اور اختتام بھی شکوے پر ہوتا ہے۔ ہر بات پر شکوہ، ہر چیز میں شکوہ، ہر ایک پر شکوہ۔۔

ایک دبلا پتلا مریض سا شخص ابھی کچھ تقریر کرکے بیٹھا ہی تھا کہ یارک شائر کے ایک تیز فہم اور دانش مند آدمی نے کہا ’’میں سمجھتا ہوں کہ جو بھائی ابھی بیٹھے ہیں۔ ان کا مکان گلوں، شکووں والی گلی میں ہے۔ میں بھی کچھ عرصہ وہاں رہ چکا ہوں اور جتنے عرصہ میں وہاں رہا، میری صحت کبھی اچھی نہ رہی۔ ہوا خراب، مکان خراب، پانی خراب۔ اس گلی میں تو پرندے بھی آ کر نہیں چہچہاتے اور میں سدا غمگین اور اداس رہتا تھا، پھر میں وہاں سے بھاگ نکلا۔ میں نے مکان صبر و شکر والی گلی میں لے لیا ہے، اس وقت سے میری اور میرے کنبے کی صحت اچھی ہے، ہوا صاف ہے، مکان اچھا ہے، سورج وہاں سارے دن چمکتا رہتا ہے، پرندے صدا لگاتے رہتے ہیں اور مجھے زندگی کا لطف آتا ہے۔ میں اپنے بھائی کو صلاح دیتا ہوں کہ وہ بھی گِلوں اور شکووں کی گلی والا مکان چھوڑ دیں، صبر و شکر کے کوچہ میں بہت سے مکان کرائے کے لیے خالی پڑے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اگر ہمارے بھائی وہاں آ جائیں تو وہ اپنے آپ کو تبدیل شدہ شخص پائیں گے۔ مجھے تو ان کو اپنا پڑوسی دیکھ کر بڑی ہی خوشی ہوگی۔‘‘

ہم سب اپنے لیے خوشحالی، ترقی، سکھ اور سکون تو چاہتے ہیں لیکن ان کے حصول کے لیے کچھ کر بھی نہیں رہے ہیں۔ ہم آنکھیں، کان اور عقل بھی رکھتے ہیں لیکن انہیں استعمال بھی نہیں کر رہے ہیں۔ ہم سب ہیں تو مریض لیکن ہمیں اپنے مرض سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ ہم سب زندگی کو ایک عذاب سمجھ بیٹھے ہیں۔

گوئٹے ہم سے سوال کرتاہے ’’اگر ہم زندگی کو بڑی فکر والی چیز سمجھ لیں تو اس کی کیا قدر و قیمت ہے۔ اگر صبح جاگ کر ہم کو کوئی خوشیاں نہیں ملتیں، اگر شام اپنے ساتھ نئی خوشیوں کی امید نہیں لاتی تو کپڑے پہننا اور اتارنا کیا وقعت رکھتا ہے؟ کیا سورج آج مجھ پر اس لیے چمکتا ہے کہ میں گذرے ہوئے ایام پر غور و فکر کروں یا میں ان چیزوں کو قبل از وقت دیکھنے اور زیر کرنے کی کوشش کروں جو نہ قبل از وقت دیکھی جا سکتی ہیں اور نہ ہی زیر ہو سکتیں ہیں یعنی آنے والے ایام میں کیا کچھ مدعا ہے، اس کی فکر کروں۔‘‘

چام فرٹ کہتا تھا، ”وہ دن بالکل ہی ضایع شدہ خیال کرنا چاہیے، جس دن ہم کو سہنی نہ آئی ہو۔“

ایڈورڈ دوئم بادشاہ انگلستان کے پرانے نسخہ جات کی کتب میں ہیوم کو ایک باب ملا ’بادشاہ کو ہنسانے کے لیے‘ لنکن کہا کرتا تھا ’’اگر کبھی کبھی کھلکھلا کر ہنسنے کا عادی نہ ہوں تو مر جاؤں۔‘‘ آلورونیڈل ہالمیز لکھتا ہے ’’کئی سال گذرے کوہ آئرن پر قبرستان میں پھرتے پھراتے، میں نے ایک ایسی قبر دیکھی جس پر ایک سیدھا سادا سنگ مرمر کا ٹکڑا لگا ہوا تھا اور جس پر صرف چار لفظوں کا ایک کتبہ لکھا ہوا تھا، گو لفظ چار تھے مگر آس پاس کے لمبے چوڑے کتبوں کی نسبت میرے خیال میں زیادہ پر معنیٰ تھے وہ لفظ یہ تھے ’’ She was so pleasant‘‘ صرف اتنا ہی کتبہ پر تھا اور یہ کافی سے زیادہ تھا۔ اس ایک فقرہ سے ایک زندگی کی ہم آہنگی ظاہر ہوتی تھی۔“

امریکی سابق صدر لنکن کی میز کے دراز کے ایک کونے میں لطائف و ظرائف کی ایک کتاب پڑی رہتی تھی اور یہ اس کی عادت تھی کہ جب کبھی تھک جاتا یا رنجیدہ و ملول ہو جاتا تو اس کتاب کو نکال کر پڑھ لیتا۔ ایمرسن کا قول ہے ’’اپنی دیواروں پر کوئی اداس و غمگین تصویر نہ لٹکاؤ اور اپنی گفتگو میں رنج و ماتم کا ذکر درمیان میں نہ لاؤ۔“ سینیکا کہتا تھا ’’جو ضرورت سے پہلے رنج کرتا ہے، وہ ضرورت سے زیادہ رنج پاتا ہے۔‘‘

دنیا میں کہیں بھی کسی ایسے شخص کا کوئی وجود نہیں ہے، جسے مسائل اور دکھوں کا سامنا نہ ہو۔ ہم سب ہمیشہ ہی سے مسائل اور دکھوں کے درمیان جیتے آئے ہیں اور جی رہے ہیں۔ مسائل اور دکھوں کا وجود اس بات کی دلیل ہوتا ہے کہ ہم زندہ ہیں، صرف مُردوں کو مسائل اور دکھوں کا سامنا نہیں ہوتا ہے۔ ہاں یہ صحیح ہے کہ کبھی وقت اچھا ہوتا ہے اور کبھی برا۔ یہ بھی صحیح ہے کہ اس وقت ہمارا وقت برا چل رہا ہے ہمیں دنیا بھر کے لوگوں کے بر خلاف زیادہ مسائل اور دکھوں کا سامنا ہے لیکن اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہونا چاہیے کہ ہم سب جینا ہی چھوڑ دیں اور مسائل اور دکھوں کے سامنے ہاتھ باندھ کر اکڑوں بیٹھ کر ان سے معافی مانگنے لگ جائیں اور اپنے آپ کو ’دکھ اور مسائل کی مخلوق‘ سمجھنا شروع کر دیں۔ کسی روز آپ ٹھنڈے دل سے سوچئے گا کہ ہمیں اس کیفیت میں مبتلا کرنا کہیں ہمارے خلاف ایک سوچی سمجھی سازش تو نہیں ہے کہیں یہ سب ایک پلاننگ کے تحت تو نہیں کیا گیا ہے۔

جب آپ سوچیں گے تو آپ فوراً نتیجے پر پہنچ جائیں گے اور آپ کے ہونٹوں پر اسی وقت مسکراہٹ آجائے گی، اس کے بعد آپ ہنستے ہوئے اٹھیں گے اور اپنی ’خو شحالی، ترقی ، سکھ اور سکون‘ کے لیے کام کرنا شروع کردیں گے۔۔ پھر آپ جئیں گے بھی اور ہنسیں گے بھی۔

بشکریہ: ایکسپریس نیوز
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close