1857 کی جنگ آزادی میں کراچی کا کردار (دوسری قسط)

گل حسن کلمتی

1857ع کی جنگ کی شروعات شمالی ہندستان کے شہر میرٹھ سے ہوئی اور پورے ہندستان میں پھیل گئی. جھانسی کی رانی ، انگریز فوج کے باغی سپاہی منگل پانڈے اس تحریک میں پیش پیش تھے۔ اُس وقت سندھ بھی اس ہلچل میں پیچھے نہیں رہا۔ قبل ازیں بیان کردہ کراچی بغاوت سے پہلے حیدرآباد میں بغاوت کے واقعات ہوئے۔ کراچی اور حیدرآباد  کے بعد شکارپور، جیکب آباد، سکھر اور میرپور خاص میں بغاوت کو کچلا گیا۔ انگریز فوج کے سخت ڈر اور دہشت زدہ ماحول میں جہاں میر، پیر، وڈیرے اپنی جاگیریں واپس لینے اور مزید جاگیروں کو حاصل کرنے کے لیے انگریز حکومت کی حاضری بھرنے میں لگے ہوئے تھے، انہیں 1857ع کی جنگ آزادی میں انگریزوں کے لیے اُن کی خدمات کے عوض جاگیریں واپس کی گئیں۔

میجر گولڈ اسمتھ نے ۱۸۵۸ع میں جاگیروں  کے بارے میں جو رپورٹ پیش کی تھی، اُس کے مطابق صرف ایک شخص امام بخش جتوئی کو انگریز حکومت سے ناراضگی کے باعث جاگیر سے محروم کیا گیا، باقی تمام کو جاگیریں واپس کی گئیں۔ اس سے کچھ ماہ قبل ۲۹جون ۱۸۵۷ میں یورپی لوگ جو کراچی میں رھتے تھے، اُن کی سندھ کے اعلیٰ حکام سے ایک میٹنگ ہوئی تھی۔ہندوستانی افواج کی بغاوت والی خبر جیسے ہی کراچی پہنچی تو کراچی میں موجود یورپی لوگ سخت الجھن کا شکار ہوگئے تھے، کیوں کہ انہیں اپنی سلامتی  کی فکر لاحق ہوگئی تھی۔سندھ کے کمشنر بارٹل فریئر بھی اس میٹنگ میں موجود تھے۔ یورپی عوام کی حفاظت کے لیے کئی فیصلے کئے گئے۔ یورپین کی امداد کے لیے فنڈز جمع کرنے کا اعلان کیا گیا۔ میٹنگ میں ایک قرارداد کے ذریعے برصغیر میں آزادی کی جنگ میں متاثر ہونے والے یورپی عوام اور ان کے خاندان سے اظہارِ ہمدردی کیا گیا۔ میٹنگ کے اختتام پر اس میں شریک یورپی نامعلوم وسوسے لے کر اپنے اپنے گھروں کے جانب لوٹے.

یکم جولائی ۱۸۵۷ع کو سندھ کے کمشنر نے ایک حکم نامے کے ذریعے سندھ میں ہر قسم کے ہتھیار لے کر چلنے، بارود ، گندھک، قلمی شورے کی خرید و فروخت پر پابندی لگادی۔ اخبارات پر سنسر لاگو کیا گیا۔ روزنامہ سندھ قاصد (Sind Kossid) نے اپنے ۷ جولائی ۱۸۵۷ع کے شمارے میں سینسر شپ کے خلاف سخت اداریہ لکھا، جس نے انگریزوں کو ناراض کر دیا.

چہار سُو خاموشی تھی۔ ”فور“ کی آواز نے جیسے فضا کی خاموشی کو چیرا، تو اکیسویں رجمنٹ کے سپاہی باہر نکلے اور پریڈ گراؤنڈ میں قطار بنا کر کھڑے ہوگئے۔انہیں ہتھیار پھینکنے  کا حکم دیا گیا اور  فوراً سیکنڈ رجمنٹ کے یورپیں سپاہیوں نے ان پر قبضہ  کرلیا. پھر باغیوں کو ریٹائر ہونے کا حکم دیا گیا.

ہتھیاروں کی جانچ پڑتال کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ تیرہ سپاہیوں کے  ہتھیار لوڈ تھے ۔ انہیں فوراً گرفتار کرلیا گیا۔ جن کی تعداد بائیس تھی۔ اُن سے چھینے گئے ہتھیار گاڑیوں میں بھر کر اسلحہ خانے لے جائے گئے۔حاضری بھرنے پر پتہ چلا کہ رام دین پانڈے سمیت بائیس سپاہی غیر حاضر تھے۔ اس دوران سر بارٹل فریئر، گولڈ اسمتھ اور جنرل آرتھر یہاں پہنچے۔ گولڈ اسمتھ نے سپاہیوں کے سامنے تقریر کی، جس میں تاجِ برطانیہ سے وفادار رہنے کی تلقین کرکے سب کو اپنے بیرکوں میں جانے حکم دیا۔ حوالدار سورج بالی تیوری کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔ حوالدار رام دین پانڈے اور اکیس دیگر سپاہیوں کی تلاش کی گئی۔بغاوت میں کل چوالیس سپاہیوں نے حصہ لیا تھا۔پولیس کپتان میجر مارسٹن نے کراچی میں قائم تھانوں اور شہر کے باہر شاہراہوں پر قائم چوکیوں پر سپاہیوں کے باغیوں کے حلیہ  کے بارے میں ضروری معلومات کے لیے اطلاعات بیجھ دیں. ۱۴ تاریخ کو کھوجیوں (قدموں کے نشان جاننے والے ماہرین) کی مدد سے باغی سپاہیوں کی تلاش شروع کی گئی۔دیہاتیوں اور شہریوں کو تعاون کی ہدایت کی گئی.

میٹھادر کے علاقے میں لیاری ندی کے کنارے باغوں میں تین سپاہیوں کی موجودگی کی اطلاع پر فوج کے گھوڑے سوار سپاہیوں نے کھوجیوں کی مدد سے ان کا گھیرا تنگ کیا ۔ مقابلے میں تینوں باغی سپاہی شہید ہوگئے، ان کی نعشیں گولیوں سے چھلنی کرکے، بعد ازاں ٹکڑے ٹکڑے کر کے سمندر میں پھینکی گئیں۔ جیتے جی تو وہ اپنے وطن ، حسین بنگال نہ جاسکے مگر ان کے گلے سڑے گوشت نے اپنی مادر بھومی کے کنارے جاکر یہ سندیس دیا ہو کہ ہم وطن کی آزادی کی خاطر جانوں کے نذرانے دے چکے ہیں اور اُن کے انتظار میں بیٹھی سانولی ناریوں نے بنگال کی ہواؤں میں اُن کی خون  کی خوشبو کو محسوس کیا ہوگا، اور اُن کی یادوں کو اپنے نینوں میں بسا کر زندگی کے باقی دن ان کی یاد میں گذار دیے ہونگے۔

۱۶ ستمبر تک باہر نکلے پندرہ سپاہیوں کو مختلف جگہوں سے گرفتار کیا گیا۔ رام دین پانڈے اور تین دیگر سپاہیوں کو احمد خان گبول  گوٹھ سے گرفتار کیا گیا۔ کل بائیس سپاہی باہر نکلنے میں کامیاب ہوئے تھے، جن میں سے مذکورہ بالا تین سپاہی ۱۴ ستمبر کو لیاری ندی کے کنارے مقابلے میں مارے گئے، جن کا ذکر اوپر ہوچکا ہے.

۱۷ ستمبر ۱۸۵۷ع کو شام کے ساڑھے چار بجے پوسٹ آفیس کے قریب خالی میدان میں پولیس ، چودھویں اور اکیسویں نمبر پلٹن اور پوری یورپی فوج اکٹھی ہوگئی تھی ۔ پورا میدان عام لوگوں سے بھر گیا تھا۔ یورپی گارڈز کے سخت پہرے تلے پندرہ انقلابیوں کو پھانسی کے عارضی بنے ہوئے پلیٹ فارم پر لایا گیا۔ کیپٹن لیکی (Cap: Lecki) نے اُن پر عائد الزامات اور سزائیں پڑھ کر سنائیں، جن کا ترجمہ میجر گولڈ اسمتھ نے کیا۔ ان انقلابیوں پر الزام تھا کہ۱۳ اور ۱۴ تاریخ کی شب اپنی رجمنٹ سے ہتھیاروں سمیت بھاگ جانا اور پولیس کے ہاتھوں گرفتار کرکے آنے تک واپس نہیں لوٹے تھے، ہتھیاروں سمیت پکڑے گئے تھے اور پولیس کا مقابلہ کیا تھا۔ ان میں گیارہ کو سزائے موت اور سورج بالی تیوری اور رام دین پانڈے سمیت پانچ باغیوں کو توپوں سے  اُڑانے کا فیصلہ سنایا گیا.

حکم ملتے ہی یورپی سپاہیوں نے انقلابیوں کو سیڑھیوں پر چڑھا کر اُن کے ہاتھ پیچھے باندھ کر انہیں تختوں ہر کھڑا  کیا گیا۔ اُن کے چہرے کالے کپڑے سے ڈھانپے بغیر اُن کے چہرے کھلے رکھ کر ان کی گردنوں میں پھانسی کا پھندا ڈال کر ، ان کے پیروں کے نیچے تختے نکال دیئے گئے۔ بغیر کسی گھبراہٹ کے ہنستے ہوئے انہوں نے موت کو گلے سے لگایا۔ جلادوں نے یہیں پر بس نہیں کی، موت کے بعد ان گیارہ انقلابیوں کو پھانسی دینے کے بعد ، ان کی نعشیں تلواروں سے ٹکڑے ٹکڑے کرکے قریب بہنے والے ایک برساتی نالے میں پھینکا گیا۔باقی ماندہ چار انقلابیوں کو، جن میں حوالدار سورج بالی تیوری بھی تھے، جو اپنے ساتھیوں کی زندگی وطن پر نچھاور کرنے کا منظر دیکھتے رہے۔ انہیں توپوں کے سامنے لایا گیا۔ ”انقلاب زندہ باد“ کے نعرے لگاتے وہ توپوں تک پہنچے۔ کیپٹن لیکی کے اشارے سے توپ چیں نے توپوں کے گولے کی رسی کو تیلی لگائی اور انقلابیوں کے خون سے سندھ کی دھرتی رنگ گئی.
(جاری ہے)

1857ع کی جنگ آزادی میں کراچی کا کردار (پہلی قسط)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close