1857ع کی جنگ آزادی میں کراچی کا کردار (پہلی قسط)

تحریر: گل حسن کلمتی

ہفتہ 13 ستمبر 1857ع کی شب ساڑھے دس بجے کے قریب ایک مقامی فوجی صوبیدار اور جمعدار رات کے گھپ اندھیرے میں اپنی بیرکوں سے نکل کر، اِدھر اُدھر نظریں رکھتے ہوئے احتیاط سے کمانڈنگ افسر کے بنگلے پر پہنچتے ہیں. صوبیدار کمانڈنگ افسر کے بنگلے پر کھڑے گارڈ کو کہتا ہے
”مجھے افسر سے ملاقات کرنی ہے“
گارڈ جواب دیتا ہے
”صاحب نیند میں ہیں، انہیں اٹھانا مناسب نہیں ہوگا“
لیکن صوبیدار ضد پر قائم رھتے ہوئے کہتا ہے
”مجھے صاحب سے ہر حال میں ملنا ہے“
مجبور ہوکر گارڈ نوکر کو اندر صاحب کو اطلاع دینے کے لیئے کہتا ہے۔ کمانڈنگ افسر اُسے کہلوا بھیجتا ہے ”اُن کو  کہیں کہ صبح کو آئے“
یہ بات سن کر صوبیدار ملنے کے لیے زیادہ بضد رہتا ہے اور کہتا ہے
”وقت گذر گیا تو بہت بڑا نقصان ہوگا“
بالآخر کمانڈنگ افسر ڈریسنگ گاؤن میں باھر آتا ہے کہ دیکھوں تو سہی ماجرا کیا ہے.
صوبیدار اور جمعدار انہیں سیلوٹ کرتے ہیں، صوبیدار کہتا ہے ”سر آپ سے اکیلے میں بات کرنی ہے۔“
صاحب گارڈ اور نوکر کو دور جانے کا اشارہ کرتا ہے، تب صوبیدار عاجزی سے اپنے آنے کا مقصد یوں بیان کرتا ہے:
”سر! آپ نے کئی بار مجھ پر کرم کیا ہے، آج ان احسانات کو اتارنے کا وقت آگیا ہے اور میں یہ بتانے آیا ہوں کہ اکیسویں بمبئی نیٹو انفنٹری رجمنٹ نے رات دو بجے بغاوت کرنے کا منصوبہ بنایا ھے، چھاؤنی کا نقشہ اُن کے پاس موجود ھے، لوگوں کی جگہیں مقرر کی گئی ہیں، جو ایک ایک یورپی کو قتل کرتے، بنگلے لوٹتے اور پھر یہاں سے دھلی کی طرف روانہ ہونگے.. اور ایک سپاہی کو شہر کی جانب بیجھا گیا ہے تاکہ مقامی شہریوں سے مدد حاصل کی جا سکے.. اور ایک سپاھی کو چودہویں نیٹو انفنٹری رجمنٹ سے مدد حاصل کرنے کے لیے بھی بیجھا گیا ہے، جو اس بغاوت میں ان کے ساتھ شامل نہیں ہیں“
اس نے مزید کہا ”بغاوت کرنے والوں کے رہنما حوالدار رام دین پانڈے (کچھ حوالوں میں یہ نام رام دن ہے) اور حوالدار سورج بالی تیوری ہیں، حوالدار رام دین پانڈے اُن کے پاس آئے اور کہا کہ کب تک اس بات کے منتظر ہونگے کہ انگریز آپ کو توپوں سے اڑائیں اور آپ کی دھرتی پر قابض ہوکر رہیں، جیسے پورے ھندستان میں ہو رھا ہے، انہیں بتایا کہ ”آج رات دو بجے پوری رجمنٹ بغاوت کرے گی“
صوبیدار نے مزید کہا ”اس بات کی تصدیق حوالدار سورج بالی تیوری نے بھی کی جو رام دین پانڈے کا ساتھی بھی ہے۔“
کمانڈنگ افسر سے ملاقات کرنے والے اس صوبیدار کا  نام ”رام بنی“ اور جمعدار کا نام “لکشمن گدارے” تھا۔ گیارہ بج کر پینتیس منٹ ہو چکے تھے۔ کمانڈنگ افسر میجر میک گریگر کی آنکھوں سے نیند اُڑ گئی۔ اس نے یونیفارم پہنا اور فوراً بریگیڈیئر لاؤتھ سے رابطہ کیا، جنہوں نے ایک گھوڑے سوار باب جانسن کو کلفٹن کی طرف سندھ کے کمشنر بارٹل فریئر کی جانب روانہ کردیا، کیونکہ شام کو ہی کمشنر بارٹل فریئر اور کیپٹن گولڈ اسمتھ اتوار کی چھٹیاں گزارنے چھاؤنی سے پانچ کلو میٹر دور کلفٹن میں اپنے اپنے بنگلوں میں گئے ہوئے تھے۔ چھاؤنی کا فوجی انتظام بریگیڈیئر لاؤتھ اور کمانڈنگ افسر میجر میک گریگر کے حوالے تھا۔

چھاؤنی کراچی کنٹونمنٹ کے نام سے جانی جاتی تھی، جو شہر کے مشرق میں تھوڑی مسافت پر ایک وسیع علاقے میں قائم تھی۔ فریئر اسٹریٹ پر فوجی افسروں کے بنگلے تھے، جو ملٹری بیرکوں کے سامنے پہلی قطار میں تھے۔ ان کے پیچھے رجمنٹ کے خیمے اور کواٹر شمال کی طرف تھے ۔ جہاں اس وقت ایمپریس مارکیٹ ہے، وہاں ایک بڑا میدان تھا، اس سے ملحق پوسٹ آفس اور اس کے مقابل جنوب کی طرف صدر بازار تھی۔ وکٹوریہ روڈ (موجودہ عبدﷲ ھارون) اور موجودہ پیراڈائز مارکیٹ سے لے کر برنس گارڈن تک فوجی علاقہ تھا، جہاں برطانوی توپ خانہ اور دیگر اسلحہ رکھا جاتا تھا۔ 1857ع میں یہ پورا فوجی علاقہ تھا.

بریگیڈیئر لاؤتھ اور میجر میک گریگر نے یورپین رجمنٹ کی دونوں کمپنیوں کو بغیر کسی بگل اور ڈرم بجانے کے فوراً مسلح ہونے کا حکم دیا اور ایسے ہی احکامات چودہویں نیٹو رجمنٹ کی طرف بھی بیجھے گئے۔ جس کے لئے صوبیدار نے کہا تھا کہ یہ اکیسویں رجمنٹ کی سازش میں شریک نہیں ہیں.

ان سب کو حکم دیا گیا کہ،”وہ اکیسویں رجمنٹ کی بیرکوں کے سامنے مختلف جگہوں پر پوزیشن سنبھال لیں” چھاؤنی میں کرفیو لگا دیا گیا۔ اُن دنوں سندھ میں بمبئی نیٹو انفنٹری کی،16,14,13 اور 21 ویں رجمنٹ، سیکنڈ یورپین انفنٹری، فرسٹ بمبئی فیوزی کرس، تھرڈ ٹروپ ہارس آرٹلری کی چوتھی بٹالین کی دو کمپنیاں اور سیکنڈ  سندھ اریگولر ہارس اور چھٹی بنگال اریگولر کیواری تعینات تھیں۔

دوسری طرف ہلکے توپ خانے کے کمانڈنگ افسر اسٹائلز نے سب سے پہلے سرکاری خزانے کی حفاظت کے لیے زیادہ سپاہی مقرر کئے اور ان علاقوں کی حفاظت کے لئے جہاں انگریزوں کو پناہ  لینی تھی، وہاں فوج کی تعداد کو بڑھایا.

رات کے اندھیرے میں دسویں اور چودہویں انفنٹری کا افسر کیپٹن لیتھ اپنی کمپنیاں ساتھ لے کر آ پہنچا۔ میجر بلیک نے بھی اپنی گھوڑے سوار آرٹلری کو لے کر پریڈ گراؤنڈ کو گھیرے میں لے لیا۔سب نے اپنی اپنی پوزیشنیں سنبھال لیں، جو فائر کرنے کے اشارے کے منتظر تھے۔ ان میں چھ پونڈ کے گولے فائر کرنے والی دو توپیں بھی تھیں۔ یہ سارا کام انتہائی رازداری اور پھرتی سے پورا کیا گیا۔ اکیسویں رجمنٹ میں جو نوجوان دیسی پیادے تھے، ان میں اکثریت کا تعلق اودھ، لکھنو، دہلی اور بنگال سے تھا۔ بغاوت کی  قیادت رام دین پانڈے اور سورج بالی تیوری کر رہے تھے۔ انہوں نے چھاؤنی میں فوجیوں کی غیر معمولی حرکت کو دیکھنے کے بعد یہ مشاورت کی کہ ”باغیوں کے قائد رام دین پانڈے اور اکیس دیگر سپاھی یہاں سے نکل جائیں اور سورج بالی تیوری اور دیگر  یہاں رہ کر صورت حال کا جائزہ لیں“ جیسے ہی یہ محسوس ہوا کہ کچھ ہونے  والا ہے تو فیصلے کے مطابق بغاوت میں حصہ لینے والے اکیس سپاہی حوالدار رام دین پانڈے کی قیادت میں نکل گئے۔

خبر ملتے ہی کمشنر بارٹل فریئر، میجر گولڈ اسمتھ اور جان آرتھر کے ہمراہ ایک بگی میں کلفٹن سے کراچی کی کچی سڑکوں سے دھول اڑاتے گورنمنٹ  بنگلے میں آ پہنچے۔یورپی بچوں کی حفاظت لیڈی میری ویدر کے ذمہ تھی، جو میجر ولیم میری ویدر کی زوجہ تھیں (کھارادر کے نزدیک بندر روڈ پر بنا ہوا ٹاور اسی میری ویدر کے نام سے بنا ہوا ہے، جو 1868ع سے 1877ع تک سندھ کےکمشنر بھی رہے ہیں) انہیں ہدایت دی گئی کہ ”اگر جان کا خطرہ محسوس ہو تو وہ سمندر میں لنگر انداز کشتی کے ذریعے منوڑہ کے جزیرے پر جاکر پنا لیں“ یہ کشتی اس مقصد کے لیے ہر وقت تیار کھڑی ہوتی تھی.

بریگیڈیئر لاؤتھ نے فوج کی کمانڈ کرتے ہوئے اکیسویں رجمنٹ کے سپاہیوں کو باھر آنے کا حکم دیا، جنہوں نے حکم ماننے سےانکار کر دیا۔یورپی سپاہیوں نے سورج بالی تیوری اور سپاہیوں کو سمجھانے کی کوشش کی۔

تب بریگیڈئر جیب سے گھڑی نکال کر، خبردار کرتا ہے کہ
”دس تک گنتی سے پہلے حاضر نہ ہونے کی صورت میں  حملہ کیا جائے گا“
توپیں تیار  ہوتی ہیں..
سپاہیوں نے اپنی اپنی پوزیشنیں سنبھال لیں۔کڑاکے دار آواز سے فضا میں ”ون“ کی آواز گونجتی ہے..
اس  آواز  پر  آس پاس کے درختوں پر بیٹھے  پرندے فضا میں اُڑ جاتے ہیں۔
(جاری)

1857 کی جنگ آزادی میں کراچی کا کردار (دوسری قسط)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close