کراچی : جعلی ڈگریوں کا پرانا دھندہ ایک مرتبہ پھر سے جاری ہے اور چند برس قبل پاکستان کی بدنامی کا سبب بننے والی ایک آئی ٹی کمپنی کے گرفتار ہونے والے مالک نے دوبارہ وہی کاروبار شروع کردیا ہے، لیکن حیرت انگیز طور پر اس پر ہر طرف سے مکمل خاموشی ہے
اطلاعات کے مطابق اب جو دوبارہ تعلیمی ڈگریاں فروخت کی جارہی ہیں، وہ پرانی بلڈنگ کے دفاتر سے فروخت ہورہی ہیں، صرف بلڈنگ کا نام تبدیل کردیا گیا ہے۔ مذکورہ ڈگریاں ’’ٹی کروّ‘‘ (TCurve) نامی ویب سائٹ سے فروخت کی جارہی ہیں جس نے دو جعلی بیرون ملک آن لائن یونیورسٹیاں دکھائی ہیں۔ ان یونیورسٹیوں کی ویب سائٹ www.calbrooksuniversity.education اور www.mountwilliam.university ہیں جبکہ تیسری ویب سائٹ www.rfu.education بند کردی گئی ہے
اس حوالے سے ایف آئی اے کے ڈائریکٹر سندھ عامر فاروقی اور ایڈیشنل ڈائریکٹر سائبر کرائم وصی حیدر سے جب پوچھا گیا کہ کیا آئی ٹی کمپنی ’’ٹی کروّ‘‘ کے خلاف کوئی تحقیقات جاری ہیں تو ان کا جواب نفی میں تھا
دوسری طرف ایف آئی اے کے ایک اعلیٰ افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر یہ حیرت انگیز انکشاف کیا کہ جعلی ڈگری فروخت کرنے اور اس کے بعد ڈگری خریدنے والوں کو پہلے کی طرح بلیک میل کرکے بھاری رقوم اینٹھنے کا سلسلہ ایک مرتبہ پھر زور و شور سے جاری ہے
ذرائع کا کہنا ہے کہ اس کمپنی میں ملازمین کی تعداد چار سو سے ساڑھے چار سو ہے۔ اس نئی جعلی کمپنی نے پچھلے ماہ جون میں جعلی ڈگری فروخت اور بلیک میلنگ کے ذریعے ایک اعشاریہ آٹھ ملین ڈالر کمائے جبکہ جولائی میں یہ رقم بڑھ کر دو اعشاریہ ایک ملین ڈالر رہی
کمپنی کی بلڈنگ میں پہلی منزل پر سوفٹ ویئر کا دفتر ہے، پانچویں، چھٹی اور ساتویں منزلوں پر ڈگری بیچنے اور بلیک میلنگ کرنے والا اسٹاف بیٹھتا ہے. جبکہ سابقہ کمپنی میں تمام معاملات دیکھنے والا شخص ایف آئی اے کی کارروائی کے بعد دبئی میں مقیم ہے
ایف آئی اے افسر نے مزید انکشاف کیا کہ اس کمپنی کا طریقہ کار بھی سابقہ کمپنی والا ہے ۔ دونوں یونیورسٹیاں جعلی ہیں، اس کا ڈومین کراچی میں ڈیفنس میں واقع پرانی بلڈنگ میں ہے جب بھی کوئی آن لائن بیچلرز، ماسٹرز یا ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے لیے معلومات کرنا چاہتا ہے تو کراچی میں موجود نوجوان جو دفتر میں موجود ہوتے ہیں وہ انگریز سے بہترین انگریزی، عربی کو بہترین عربی میں اور دیگر زبانوں میں معلومات فراہم کرتے ہیں
یونیورسٹی کی ویب سائٹ پر جو ٹیلیفون نمبر درج ہیں وہ غیر ملک کے بجائے کراچی سے ہی آپریٹ کیے جاتے ہیں۔ اگر کوئی مذکورہ یونیورسٹی کے ایکریڈیشن یا دیگر معلومات حاصل کرنا چاہتا ہے تو وہ ملحقہ ویب سائٹس بھی کراچی سے آپریٹ اور اپ ڈیٹ ہوتی ہیں۔ ایک کورس کی قیمت کم از کم ساڑھے سات ہزار ڈالر رکھی گئی ہے
ذرائع کے مطابق مذکورہ دھندا تقریباً دو برس سے زائد جاری ہے اور ڈگری حاصل کرنے والوں کو مختلف ایجنسیوں کے افسران ظاہر کرکے بلیک میل کیا جاتا ہے
ایف آئی اے افسر نے تین صفحات پر مشتمل تقریباً چار سو افراد کے ناموں کی فہرست بھی فراہم کی۔ بلیک میل ہونے والوں میں خلیجی ممالک، امریکا، برطانیہ، بھارت، لاطینی امریکا، افریقہ اور دیگر ممالک کے شہری شامل ہیں جن سے لاکھوں ڈالر بلیک میلنگ کے ذریعے ہتھیا لیے گئے
اسی اسکینڈل کے حوالے سے امریکی فیڈرل بیورو آف انوسٹی گیشن کے ایک سابق اعلیٰ افسر ایلن ایزل جس نے ایک کتاب کاؤنٹر فیٹ ڈیلوماز اینڈ ٹرانسکرپٹ اینڈ ایکری ڈیشن ملز تحریر کی ہے۔ اس کے علاوہ گزشتہ دنوں ایک دلچسپ آرٹیکل پاکستان کی سابقہ بدنام زمانہ آئی ٹی کمپنی کے حوالے سے تحریر کیا ہے۔ اُنہوں نے لکھا ’’پرانی آئی ٹی کمپنی چند سال قبل بند کردی گئی تھی، اس نے ایک مرتبہ پھر جنوری 2020ء سے کاروبار شروع کردیا ہے۔ ڈیفنس میں واقع بلڈنگ کا نام تبدیل کردیا گیا ہے مگر پرانی کمپنی کے ملازمین نے کبھی بھی اپنی میزیں نہیں چھوڑیں اور نہ ہی جعلی ڈگریاں بیچنا بند کیا۔ اس نئی کمپنی کے پرانے ملازمین نے نئی اور پرانی جعلی تعلیمی درسگاہوں کے ساتھ دوسرے غیر قانونی دھندے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بس ان کے اس کارڈ پر آجر کا نام تبدیل کردیا گیا ہے۔ پرانی بند آئی ٹی کمپنی نے سات سے دس نئی کمپنیاں کھول رکھی ہیں اور ہر کمپنی کے دو کال سینٹرز ہر فلور پر موجود ہیں۔ پرانی بدنام زمانہ آئی ٹی کمپنی ٹپیکل (Typical) فراڈ کرنے والی کمپنی ہے جو اپنی ہیئت کورونا کے جراثیم کی طرح بدلتی رہتی ہے۔ کورونا کی وجہ سے کیونکہ تعلیمی سرگرمیاں بند ہیں تو یہ نئی کمپنی اپنی جعلی آن لائن تعلیمی سرگرمیوں میں بے انتہا تیزی لائی ہے اور لاکھوں طلبہ اس کمپنی سے رابطہ کررہے ہیں
ایلن ایزل کی طرف سے اعداد و شمار کے لگائے گئے تخمینے کے مطابق ہر ماہ پانچ ہزار طلبہ انکوائری کرتے ہیں جس میں سے چالیس فیصد اپروو ہوجاتے ہیں۔ ماہانہ ریونیو جو وصول ہوتا ہے بیس لاکھ ڈالر، اگر کسی اسکول کی ڈگری کی فروخت پر مامور ملازمین دس لاکھ ڈالر کا ٹارگٹ پورا کرتے ہیں تو پوری ٹیم کو دس ہزار ڈالر کا بونس دیا جاتا ہے
ایلن ایزل کے مطابق مذکورہ نئی کمپنی کے کراچی اور اسلام آباد آفس میں نو سو ملازمین ہیں جو کالز لے کر پھر جعلی ڈگریاں فروخت کردیتے ہیں۔ یہ کمپنی پوپ آپس، فیسبک اور اسپائڈر ویب پر اشتہار اور دیگر طریقوں سے اپنے شکار کرتی ہیں
ایلن نے بھی اسی دوسرے شخص کا ذکر کیا ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ اس مکروہ دھندے کے حوالے سے واشنگٹن میں پاکستانی سفارتی اہلکار کو بھی تعلیمی فراڈ کی معلومات فراہم کی گئیں مگر کچھ نہیں کیا گیا اور خاموشی اختیار کرلی گئی
یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ جب یہ آئی ٹی کمپنی بند ہوئی تھی تو اس میں اعلیٰ عہدوں پر کام کرنے والے افراد نے اپنی آئی ٹی کمپنیاں کھول لیں تھیں جنہیں نئی کمپنی میں لانے کی کوشش کی گئی مگر کچھ برس بعد جب گرفتار ملزم رہا ہوا تو اس نے موجودہ آئی ٹی کمپنی قائم کی اور اپنے پرانے ساتھیوں کو واپس لانے کی کوشش کی.