کھیرتھر کا خوبصورت علاقہ پاچران تباہی کے دہانے پر

آدرش

ضلع جامشورو کے دیہہ مول میں پاچُران جو کہ کھیرتھر نیشنل پارک میں آتا ہے ـ یہ علائقہ مول شہر کے قریب واقع ہے ـ پاچُران مول ندی کا خوبصورت مقام ہے یہاں بہت سارے گوٹھ آباد ہیں.

اب یہاں بہت عرصے سے بحریہ ٹاؤن کے ایما پر ریتی بجری اٹھائی جا رہی ہے، جس سے پاچُران میں مول ندی کے اندر بہت بڑے گڑے بنتے جا رہے ہیںـ ہزاروں کی تعداد میں ڈمپر ریتی بجری اٹھا کر بحریہ ٹاؤن اور کراچی لے جاتے ہیں جس سے زیر زمین پانی ختم ہوتا جا رہا ہے، جس سے یہاں کے زراعت، انسانی اور جنگلی حیات کو سنگین خطرات لاحق ہیں.

ظلم کی انتہا یہ ہے کہ پاچُران کے پہاڑ بھی کاٹے جا رہے ہیں ـ یہ ایک بہت بڑی تباہی کا پیش خیمہ ہے. ایک طرف مول ندی کو تباہ کیا جا رہا ہے، جس سے دیہہ مول سے لے کر ملیر تک کا علائقہ بنجر بن جائے گا، یہ علائقہ کھیرتھر نیشنل پارک کا علائقہ ہے، یہ علائقہ تباہ ہونے سے نیشنل کھیرتھر پارک کے جنگلی حیاتیات کو سنگین خطرات لاحق ہیں.

یہاں تعلیم کا ریشو بہت کم ہے، لوگوں کو آگہی نہیں ان کے ساتھ کیا ظلم ہو رہا ہے، ضلع جامشورو ملک اسد سکندر کی بادشاہی میں آتا ہے، اس کے حکم کے بغیر پتہ بھی نہیں ہلتا، مجھے یاد ہے جب یہاں بحریہ یا ڈی ایچ اے جیسے منصوبے نہیں تھے تو ان علائقوں میں ریتی بجری اٹھانا دور کی بات ہے درخت بھی کاٹنے کی اجازت نہیں تھی، ملک اسد سکندر کے حکم کے بغیر یہاں کچھ بھی نہیں ہو سکتا تھا، مگر اب سب کو کچھ جائز ہے، پہلے تیزی سے درخت کاٹے گئے پھر ریتی بجری اٹھانے کے ٹھیکے بانٹے گئے پھر ریتی بجری کے ٹھیکوں کی بندربانٹ ہوئی اور اب پہاڑ کاٹے جا رہے ہیں..

بحریہ ٹاؤن کس طرح سندھ کی زمینوں کا استحصال کر رہا ہے، کس طرح یہاں کی ندیوں، پہاڑوں، بارانی اور زرعی زمینوں کو تباہ کر رہا ہے، یہ اب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، مگر جس طرح ضلع جامشورو کے دیہہ مول کے کھیرتھر نیشنل کے ایریا کو تباہ کر رہا ہے وہ اب تک کسی کے سامنے نہیں، کوئی آگاہ نہیں.

یہاں کے مقامی لوگ تو جاگیرداری نظام کی چکی میں پس رہے ہیں، لیکن سوال سندھ کے دانش سے ہے، سیاسی قیادت سے ہے کہ وہ ان لوگوں کے لیئے کیا کرتے ہیں، کیسے ان بےبس لوگوں کی آواز بنتے اور مدد کرتے ہیں.

کئی بار میرا اس علائقے کے قبائلی روایات میں جکڑے ہوئے لوگوں کے ساتھ مکالمہ ہوا ہے. یہاں بزرگ باتوں باتوں میں روتے ہیں کہ ان کی زمینوں کو تباہ کیا جا رہا ہے، ان کی زندگی کو تباہ کیا جا رہا ہے، مگر ہم کچھ نہیں کر سکتے کیونکہ کچھ کہیں گے تو ہم سے ہماری زندگی چھین لی جائے گی. ان ڈرے ہوئے لوگوں کو کون سہارہ اور ہمت دے؟

انہی میں سے ایک نے بغاوت کی، اپنی زمینیں دینے سے انکار کیا، مزاحمت کی، میں نے اپنے طور پر ان کی مدد کرنے کی کوشش کی، انہیں کورٹ لے کر گیا لیکن بعدازاں اس کے ساتھ جو کچھ ہوا، اس نے یہاں کے سہمے ہوئے لوگوں کو مزید ڈرا دیا، اس پر مظالم کے پہاڑ توڑے گئے ، گھر میں گھس کے اسے مارا پیٹا گیا.

میں سندھ کی تمام سیاسی قوتوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ آگے بڑھیں ان لوگوں کا سہارا بنیں، اور اس تباہی کو روکنے میں اپنا کردار ادا کریں.

یہ تمام تصویریں 2020ع کی ہیں، اب اس خوبصورت وادی کو تباہ کیا جا رہا ہے، بڑی بڑی ہیوی مشینری سیکڑوں ڈمپرز رات دن کام کر رہے ہیں، اور اس خوبصورتی کو تہس نہس کیا جا رہا ہے ـ اور کھیرتھر نیشنل پارک کے ساتھ یہاں کے ماحول کو انسانی اور جنگلی حیاتیات اور زراعت کو تباہ برباد کیا جا رہا ہے، چونکہ یہ علائقہ کراچی کے ساتھ جڑا ہوا ہے، مون سون کی برساتوں کے بعد یہاں کی ندیوں کا پانی ملیر ندی کو بھر دیتا ہے، جس سے ملیر کی زراعت کے ساتھ یہاں پہ آباد لوگوں کی زندگی کا دارومدار ہے. اس تباہی کے اثرات کراچی کے ماحول کو بھی تباہ کر دیں گے. ابھی بھی وقت ہے آئیئے اس کے خلاف آواز اٹھائیں ـ اس پہلے کہ دیر ہو جائے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close