حکومتی تلوار ویلفیئر پروگرامز پر: ”راشن پروگرام ختم“ ثانیہ نشتر کا دعویٰ

ویب ڈیسک

پاکستان تحریک انصاف کے دور حکومت میں احساس پروگرام کی نگراں ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے دعویٰ کیا ہے کہ حکومت نے احساس راشن رعایت پروگرام ختم کر دیا ہے، جس سے ملک میں بسنے والے کروڑوں غریب متاثر ہو سکتے ہیں

حکومت کے اس فیصلے پر کئی حلقوں کی طرف سے تنقید کی جا رہی ہے جبکہ پی ٹی آئی نے موجودہ حکومت کے اس فیصلے کو عوام دشمنی قرار دیا ہے

واضح رہے کہ ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے کچھ روز پہلے انگریزی روزنامہ دی نیوز میں ایک کالم میں اس بات کا انکشاف کیا تھا کہ اس پروگرام کے تحت تقریباً چالیس ملین یعنی چار کروڑ افراد نے رجسٹریشن کرائی تھی اور یہ کہ حکومت نے ایک ڈجیٹل انفرا اسٹرکچر بھی تیار کر لیا تھا تاکہ صرف مستحق افراد کو تصدیق کے بعد راشن کے حوالے سے سبسڈی دی جائے

سابق نگراں احساس پروگرام ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے اپنے آرٹیکل میں یہ بھی انکشاف کیا کہ حکومت نے راشن سبسڈی کی مد میں صرف سولہ ارب روپے مختص کیے ہیں، جو یوٹیلٹی اسٹور کے ذریعے عوام تک پہنچائے جائیں گے جبکہ پی ٹی آئی حکومت ایک سو بیس ارب روپے مختص کرنے کا ارادہ رکھتی تھی

ان کا مزید کہنا تھا کہ یوٹیلٹی اسٹورز یہ سہولت کسی ڈجیٹل تصدیق کے بغیر دیں گے

موجوہ حکومت کی جانب سے راشن پروگرام ختم کرنے کے اس اقدام پر صرف پی ٹی آئی کی طرف سے ہی تنقید نہیں ہو رہی ہے بلکہ ڈویلپمنٹ سیکٹر سے وابستہ افراد بھی شہباز شریف کی حکومت کو اس معاملے پر ہدف تنقید بنا رہے ہیں

ڈیولیپمنٹ سیکٹر سے متعلق امور پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ نگار عامر حسین کا کہنا ہے ”حکومت کو وہ ڈیٹا استعمال کرنا چاہیے جو گزشتہ حکومت نے احساس راشن رعایت پروگرام کے لیے جمع کیا تھا۔ یہ ڈیٹا نیشنل سوشیو اکنامک رجسٹری کے تحت اکٹھا کیا گیا اور اس میں اربوں روپے خرچ ہوئے اور ہزاروں کی تعداد میں افراد نے اس میں حصہ لیا“

عامر حسین کے بقول اس میں گھر گھر جا کر ڈیٹا جمع کیا گیا تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ ملک میں انتہائی غریب افراد کہاں کہاں رہتے ہیں اور ’فوڈ ان سکیورٹی‘ اور مالی مسائل سے کیسے بچایا جائے

عامر حسین کہتے ہیں ”حکومت کو اس ڈیٹا کو استعمال کرنا چاہیے اور سبسڈی کو ٹارگٹ کرنا چاہیے تاکہ اس سے عام آدمی کو فائدہ ہو۔اگر سبسڈی عمومی ہوتی ہے تو اس سے غریب آدمی کو فائدہ نہیں ہوتا‘‘

ڈوئچے ویلے کی ایک رپورٹ کے مطابق احساس پروگرام سے ماضی میں وابستہ رہنے والے ایک عہدیدار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا ”اس پروگرام کو ختم کرکے حکومت نے عمومی سبسڈی شروع کر دی ہے، جس سے غریب آدمی کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ یوٹیلیٹی اسٹور پر وہ شخص بھی جا سکتا ہے، جس کے پاس دو لاکھ روپے ہونگے اور وہاں کوئی تصدیق یا جانچ کا نظام نہیں ہے‘‘

اس عہدیدار کے مطابق ”اگر حکومت نے اپنے احساس راشن پروگرام کے حوالے سے فنڈز کم کیے ہیں تو یقیناً اس کا یہ مطلب ہے کہ پہلے کے مقابلے میں بہت کم افراد کو یہ سبسڈی ملے گی، جس میں غریبوں میں خوراک کی عدم دستیابی یا خوراک کی کمی کا مسئلہ مزید طول پکڑ لے گا اور صحت کے مسائل بھی پیدا ہوں گے۔ بالکل اسی طرح تعلیم، صحت اور مالی امداد کے حوالے سے بھی غریب لوگ متاثر ہوں گے‘‘

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور رکن قومی اسمبلی محمد اقبال خان آفریدی نے اس حکومتی اقدام عوام دشمنی پر مبنی قرار دیتے ہوئے کہا ”حکومت نے صحت کارڈ پروگرام تو تقریباً ختم ہی کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ تعلیم میں پی ٹی آئی کی حکومت جو رعایتیں دے رہی تھی حکومت نے وہ بھی ختم کر دی ہیں۔ سیاسی طور پر انہوں نے نیب کو ختم کر دیا ہے اور بیرون ملک پاکستانیوں کو ووٹ سے محروم کردیا ہے۔ اب حکومت پی ٹی آئی کے فلاحی پروگرامز کو ختم کر رہی ہے، جو عوام دشمنی ہے‘‘

ڈی ڈبلیو کی رپورٹ کے مطابق اس بارے میں متعدد بار بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی سربراہ شازیہ مری سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی، لیکن ان سے رابطہ نہیں ہو سکا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close