یورپ جانے کے خواہشمند دو پاکستانی نوجوان ایران میں اغوا کاروں کے ہتھے کیسے چڑھے

ویب ڈیسک

آنکھوں میں خوشحال مستقبل کے خواب سجائے غیر قانونی راستوں سے یورپ جانے کی کوشش کرنے کے دوران دو پاکستانی دوست ایران کی حدود میں اغوا کاروں کے ہتھے چڑھ گئے ہیں

نوجوانوں کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ ان نوجوانوں پر تشدد کی وڈیوز ان کو واٹس ایپ کی جارہی ہیں، جس میں گھر والوں سے اپیل کی گئی کہ ”اغوا کاروں کو مزید پیسے بھجوائیں ورنہ یہ ہمیں جان سے مار دیں گے“

ایف آئی اے حکام کے مطابق متاثرہ فیملی کی طرف سے درخواست موصول ہو چکی ہے جس پر قانون کے مطابق کارروائی کی جارہی ہے اور انسانی اسمگلر، ان کے والد اور ایک ساتھی کی گرفتاری کی کوششیں کی جارہی ہیں

واضح رہے کہ وسطی پنجاب کے اضلاع خصوصاً گجرات، منڈی بہاوالدین، گوجرانوالہ، سیالکوٹ، نارووال اور حافظ آباد میں غیر قانونی راستوں سے یورپ جانے کے رحجان میں گذشتہ تین عشروں کے دوران بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے

گوجرانوالہ کے قریب گاؤں آدھورائے میں جب گاؤں کا ایک خاندان یورپ منتقل ہوا اور ان کے کچے مکان کی جگہ تین منزلہ خوبصورت ٹائلوں والے گھر نے لی، تو گاؤں کے کئی نوجوان بھی یورپ جا کر مستقبل سنوارنے کی خواب دیکھنے لگے

حال ہی میں ایران میں اغوا کاروں کے ہتھے چڑھنے والے، آپس میں گہری دوستی رکھنے والے ان دو نوجوانوں کامران اور عبدالخالق جا تعلق بھی آدھورائے سے ہی ہے

پچیس سالہ کامران دکانوں پر مرغیاں سپلائی کا کام کرتا تھا اور اس کا دوست عبدالخالق ایک ڈیرے پر بھینسوں کو چارہ ڈالنے اور چھوٹے موٹے کاموں کی ملازمت کرتا تھا۔ دونوں ہی شادی شدہ اور دو بچوں کے باپ ہیں

انہوں نے یورپ جانے کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے کسی ایجنٹ کو ڈھونڈنا شروع کر دیا۔ ایک دوست کے ذریعے ان کی ملاقات نادر نامی ایک ایجنٹ سے ہوئی، جس نے ان کو یورپ پہنچانے کی حامی بھری اور کئی کہانیاں بھی سنائیں کہ کیسے وہ لڑکوں کو پنجاب سے یورپ پہنچاتا ہے جو آج ٹھاٹھ کی زندگی گزار رہے ہیں

یہ ایجنٹ پنجاب سے یونان پہنچانے کا ریٹ چھ لاکھ روپے لیتے ہیں۔ ایجنٹ نادر نے ان کو بتایا کہ ڈیڑھ لاکھ ایڈوانس، ڈیڑھ لاکھ ایران کا بارڈر کراس کرنے کے بعد اور پھر تین لاکھ ترکی یا یونان پہنچ کر ادا کرنا ہوگا

بالآخر 20 اپریل کو کامران اور عبدالخالق گھر والوں سے ملاقات کے بعد نادر کے ساتھ نامعلوم منزل کی طرف روانہ ہوئے۔ ایجنٹ نادر نے ان سے ڈیڑھ ڈیڑھ لاکھ روپے ایڈوانس کے طور پر وصول کیے اور کوئٹہ کے رستے انہیں ایران لے گیا، جہاں ایران اور ترکی کے بارڈر پر پہنچ کر طے شدہ معاہدے کے مطابق مزید ڈیڑھ ڈیڑھ لاکھ روپے کا تقاضا کیا

دونوں لڑکوں نے وہاں سے اپنے گھر فون کیے، جہاں ایجنٹ کے والد سمیع اللہ اور ان کے سب ایجنٹ مجیب اللہ کو رقم ادا کر دی گئی۔ رقم کی وصولی کی تصدیق ہونے کے بعد ایجنٹ نے انہیں ترکی کا بارڈر کراس کروانے کی دو دفعہ کوشش کی لیکن دونوں دفعہ ناکام رہا

اس دوران ایران اور ترکی کے بارڈر پر متعین سکیورٹی اہلکاروں نے انہیں غیر قانونی بارڈر کراسنگ کی کوشش پر تشدد کا نشانہ بھی بنایا

ترکی پہنچنے میں ناکامی اور سکیورٹی اہلکاروں کے ہاتھوں مارپیٹ پر کامران اور عبدالخالق دل برداشتہ ہوئے اور ایجنٹ نادر کو کہا کہ وہ انہیں واپس گوجرانوالہ لے جائے

لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا اور یہاں سے غیر قانونی راستوں سے بارڈر کراس کرنے والے لڑکوں کے لیے نئی مشکلات کا آغاز ہو گیا

کامران کی والدہ شاہدہ بی بی بتاتی ہیں ”جب لڑکوں نے کہا کہ وہ واپس جانا چاہتے ہیں تو ایجنٹ نادر نے کہا کہ واپسی کے لیے اپنے گھروں سے مزید ڈیڑھ ڈیڑھ لاکھ منگواؤ. ہم غریب لوگ ہیں، محنت مزدوری کرتے ہیں، دونوں لڑکے پہلے ہی رشتے داروں اور دوستوں سے پیسے مانگ کر گئے تھے، اب واپسی کے لیے ایجنٹ کو کہاں سے پیسے دیتے“

شاہدہ بی بی نے بتایا ”ایجنٹ نے دونوں لڑکوں کو ایران میں جرائم پیشہ گروہ کے ہاتھوں فروخت کردیا اور خود غائب ہو گیا۔ اب وہ اغوا کار ان لڑکوں کو روزانہ مارتے پیٹتے ہیں اور کہتے ہیں کہ گھر والوں سے پیسے منگواؤ“

انہوں نے کہا ”لڑکوں کے چہروں پر کٹ لگائے گئے ہیں، ان کے ہاتھ پیر باندھ کر انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور موبائل فون پر کال ملا کر کہا جاتا ہے کہ بولو، منی یعنی رقم“

شاہدہ بی بی کہتی ہیں ”اغواکاروں کو ہماری زبان اور ہمیں ان کی زبان سمجھ نہیں آتی۔ ہم نے ان کو بتایا ہے کہ ہمارے پاس کچھ نہیں۔ ہم غریب لوگ ہیں، آپ کو کہاں سے پیسے بھیجیں، جس پر وہ کہتے ہیں کہ اپنا مکان فروخت کرو اور پیسے بھجواؤ“

”ہماری دو جوان بیٹیاں ہیں۔ ایک بیٹے کی ابھی شادی کرنی ہے۔ کامران کے بھی دو چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ اگر مکان بیچ دیا تو ہم سب کہاں جائیں گے“

کامران کے بھائی عبدالمنان کا کہنا ہے کہ ان کا اپنے بھائی سے سات آٹھ روز قبل رابطہ ہوا تھا جس کے بعد ابھی تک کچھ پتا نہیں کہ وہ کس حال میں ہیں، کئی دن گزر گئے ان سے رابطہ نہیں ہوا

کامران اور عبدالخالق کے اہل خانہ نے حکومت پاکستان سے مدد کی اپیل کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت نوجوانوں کو واپس لانے میں ان کی مدد کرے

اس حوالے سے ایف آئی اے کے ریجنل ڈپٹی ڈائریکٹر رب نواز کا کہنا ہے ’ایجنٹ نادر، ان کے والد سمیع اللہ اور سب ایجنٹ مجیب اللہ کے خلاف قانونی کارروائی کی جارہی ہے اور ان کی گرفتاری کے لیے کوششیں جاری ہیں‘

ایف آئی اے حکام کے مطابق ’گوجرانوالہ ریجن میں جو گروہ غیر قانونی انسانی اسمگلنگ میں ملوث ہیں، ان کے خلاف مختلف ٹیمیں آپریشن کر رہی ہیں اور حالیہ دنوں میں متعدد انسانی اسمگلرز گرفتار کر کے جیل بھجوائے گئے ہیں‘

واضح رہے کہ اس طرح کے اندوہناک واقعات پہلے بھی پیش آتے رہے ہیں اور غیر قانونی طور پر یورپ جانے کی کوشش میں کئی خاندانوں کے چراغ پہلے بھی گل ہوتے رہے ہیں لیکن بدقسمتی سے وسطی پنجاب کے اضلاع میں انسانی اسمگلنگ کے واقعات کم ہونے کی بجائے بڑھتے ہی جارہے ہیں

بارڈر کراسنگ کے دوران سیکیورٹی فورسز کی فائرنگ یا ایجنٹوں، اغواکاروں کے ہاتھوں ہلاکت کے کیس اکثر دیکھنے کو ملتے ہیں. جن میں سے کچھ افراد کی لاشیں واپس آجاتی ہیں جبکہ کئی کے اہلِ خانہ کو ان کا کبھی سراغ نہیں ملتا

ماہرِ قانون شکیلہ سلیم رانا قانون کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ انہوں نے ایسے کئی کیسز دیکھے ہیں جن میں انسانی اسمگلر گرفتار تو ہوتے ہیں مگر کچھ ہی دنوں بعد ضمانت پر رہا ہو جاتے ہیں اور جیل سے باہر آ کر پھر سے وہی دھندا شروع کر دیتے ہیں

شکیلہ سلیم کہتی ہیں ”جب تک ہم اس بارے میں سخت قوانین نہیں بنائیں گے، یہ دھندا یونہی چلتا رہے گا اور بے گناہ نوجوان انسانی اسمگلروں کے ہتھے چڑھ کر اپنی جانیں گنواتے رہیں گے“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close