یادِ یارِ مہرباں (برازیلی ادب سے منتخب افسانہ)

ایریکو ویری سیمو (ترجمہ: محمد فیصل)

(1)

میں سرما کا وہ خشک سویرا کبھی نہیں بھول سکتا، جس دن میرے دادا کے گاؤں سے بوڑھے فڈانگو کی وفات کی خبر آئی۔ بعض اوقات ہم اچھی یا بری خبر سن کر ذرا مختلف رد عمل دکھاتے ہیں۔ فڈانگو کی موت کی خبر میں نے دل سے سنی اور اس سے پہلے کہ میرا دماغ اس نقصان کا تخمینہ لگا سکتا، میرا دل تیزی سے دھڑکنے لگا۔ میرے والد نے پلکیں جھپکائے بغیر خاموشی سے یہ خبر سنی اور آسمان کی طرف دیکھنے لگے۔ مجھے پتا تھا کہ انھیں بھی اس خبر سے شدید صدمہ ہوا ہے مگر ان کا چہرہ ان کے تاثرات کو بخوبی چھپا لیتا تھا۔ ہم گاؤشو ایسے ہی ہوتے ہیں۔ ہماری دادی اکثر کہتی ہیں کہ ہم گاؤشو عورتیں اپنے مردوں کے لیے اتنا روئی ہیں کہ اب ہمارے آنسو خشک ہو چکے ہیں۔ ہمارے اجداد صدیوں سے قبائلی لڑائیوں، انقلاب اور جنگوں میں اپنا خون بہاتے رہے ہیں۔ ایک بات میں پہلے بتانا بھول گیا کہ اس دن ہوا بھی ماتم کناں محسوس ہورہی تھی۔

کہانی آگے بیان کرنے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ میں آپ کو اپنے گاؤں کے متعلق بتا دوں۔ آپ نے یقیناََ اس کے متعلق نہیں سنا ہوگا۔ میں برازیل کے جنوبی صوبے ریو گرانڈے دوسو سے تعلق رکھتا ہوں، جس کی سرحدیں یوراگوئے اور ارجنٹائن سے ملتی ہیں۔ہمارا علاقہ ہمیشہ سے جنگ زدہ رہا ہے اور مجھے یہ بتاتے ہوئے فخر محسوس ہو رہا ہے کہ برازیل نے جتنی غیر ملکی جنگیں لڑی ہیں، وہ سب کی سب ہم گاؤشو کے علاقوں میں لڑی گئی ہیں۔ اٹھارہویں صدی کے اواخر میں ریوگرانڈے ایک زرخیز ویرانہ تھا، جہاں آخری پرتگالی کالونی آباد تھی۔ آہستہ آہستہ برازیل کے دیگر علاقوں سے لوگ یہاں آباد ہوئے اور اس کالونی کو نکال باہر کر دیا۔ ویرانہ اتنا وسیع تھا کہ جس کا جہاں جی سمایا اور جتنی اس کی ہمت ہوئی، اس نے اس زمین پر قبضہ کر لیا۔ کئی افراد نے باقاعدہ درخواست دے کر بادشاہ سے زمین منظور بھی کروائی مگر اکثریت بغیر کسی منظوری کے یہاں آباد ہو گئی۔ یہ ویرانہ آہستہ آہستہ مختلف حصوں میں تقسیم ہوتا گیا اور آج اِسی تقسیم کی بنیاد پر یہاں بہت سے شہر، قصبے اور گاؤں آباد ہیں۔ انیسویں صدی کے آغاز میں یہاں بہت سے آبادکار آن براجے۔ ان میں جرمن اور اطالوی نمایاں تھے۔ ہم انہیں گرنگو کہتے ہیں۔ آج بھی ان علاقوں میں بہت سے سپید رنگ اور نیلی آنکھوں والے بکثرت دکھائی دیتے ہیں۔ بوڑھے فڈانگو کو ان غیر ملکیوں سے خدا واسطے کا بیر تھا۔ اس کے مطابق ہر آدمی کو اپنے ملک میں رہنا چاہیے اور اپنے کام سے کام رکھنا چاہیے۔

(2)

جب میرے دادا پیدا ہوئے تو فڈانگو بیس برس کا تھا اور وہی نزدیکی قصبے سے پادری کو انہیں بپتسمہ دینے کے لیے بلا کر لایا تھا۔ میرے دادا ایک بہت بڑے فارم کے مالک تھے، جہاں دیگر مویشیوں کے ساتھ گھوڑوں کی مختلف اقسام کی پرورش ہوتی تھی۔ میرے پَردادا نے فڈانگو کی ہر طرح سے تربیت کی۔ اسے گھوڑوں، موسم، ہواؤں اور انسانوں کی پہچان سکھائی۔ میرے والد کی پیدائش کے وقت وہ چالیس کے پیٹے میں تھا۔ میرے والد اسی کے سائے میں پلے بڑھے۔ ہمارے فارم کا نام ’انجیکو‘ ہے جو ایک درخت کا نام ہے۔ پتا نہیں کیوں مجھے ہمیشہ یہی محسوس ہوتا تھا کہ فڈانگو ایک درخت ہے جس کی جڑیں ہمارے فارم میں گڑی ہیں۔ ایک تن آور، سایہ دار اور مہربان درخت۔ میں نے اس سے کبھی نہیں پوچھا کہ وہ کہاں سے آیا اور اس کے ماں باپ کیا کرتے تھے۔ مجھے یقین تھا کہ وہ ایک بیج کی صورت اس فارم سے نمودار ہوا ہے، جسے ہوا نہ جانے کہاں سے اڑا کر لے آئی ہے۔

فڈانگو اس کا اصلی نام نہیں تھا۔ اس کا اصل نام جوزے منزے تھا۔ فڈانگو تو اسے اس لیے کہا جاتا تھا کہ اسے ناچنے کا جنون تھا اور وہ فڈانگو (ناچ کی ایک قسم) کا ماہر تھا۔ ہمارے فارم پر کوئی تقریب، دعوت یا جشن برپا ہوتا تو فڈانگو اپنے جوہر دکھاتا۔ جب میں بارہ سال کا ہوا تو وہ عمر کی چھٹی دہائی میں تھا، مگر اس کی کمر بالکل سیدھی اور دماغ چوکس تھا۔ میں گرما کی تعطیلات انجیکو میں گزارتا تھا، جو سال کا بہترین زمانہ ہوتا۔ ایسے ایک زمانے میں اس نے مجھ سے پوچھا، ”لڑکے! تم اسکول میں کیا پڑھتے ہو؟“

”لکھنا، پڑھنا، حساب، جغرافیہ اور تاریخ۔“

”یہ تو لڑکیوں کے پڑھنے کی چیزیں ہیں۔ چلو آج سے تمھیں گاؤشو بنانے کاآغاز کرتے ہیں۔“

اس سال اور اس کے بعد آنے والے کئی سال میں نے فڈانگو سے عملی تربیت حاصل کی۔ اسکول میں پڑھائی جانے والی پرتگیزی بہت مرصع اور مفصل تھی۔ ان علاقوں میں بولی جانے والی زبان کا لہجہ بالکل مختلف تھا۔ اسے حساب بالکل ناپسند تھا۔ اس کا حساب کے چار بنیادی عوامل کے متعلق اپنا ہی نظریہ تھا۔ اس کے مطابق محنتی آدمی جمع کرتا ہے، بدطینت نفی، چالاک ضرب اور بے وقوف تقسیم۔ اس نے کبھی رسمی تعلیم حاصل نہیں کی مگر وہ جانوروں پر صرف ایک نظر ڈال کر ان کی تعداد کا بالکل درست اندازہ لگا لیتا تھا۔

جغرافیہ، فڈانگو کو اس خطے کی پوری واقفیت تھی۔ اس نے چھوٹی عمر میں اپنی عملی زندگی کا آغاز گھوم پھر کر اور ریڑھیاں وغیرہ چلا کر کیا تھا۔ اس پورے صوبے کا کوئی کونا، کوئی نہر، دوآبہ، جنگل یا پہاڑ ایسا نہیں تھا جو اسے ہاتھوں کی لکیروں کی طرح ازبر نہ ہو۔ اسے علم تھا کہ پانی کہاں سے ملے گا، مویشیوں کے چرنے کی بہترین جگہیں کون سی ہیں اور عمدہ پناہ گاہیں کس سمت میں ہیں۔ ہر گاؤں، قصبے اور شہر میں اس کے شناسا مقیم تھے۔

ایک دن میں ایک فرانسیسی رسالہ دیکھ رہا تھا کہ میں نے اس سے سوال پوچھا، ”یہ پیرس کس سمت میں پڑے گا؟“

”یہ کہاں ہے؟“ اس کے چہرے پر استعجاب تھا۔

”یہ فرانس یعنی یورپ میں ہے۔“

اس نے دائیں بائیں دیکھا، ایک آنکھ بند کی اور شمال کی طرف اشارہ کر کے بولا کہ ”اس طرف، دریائے پلاتے کی سمت میں۔۔“

مجھے تاریخ کی معلومات پر بڑا ناز تھا۔ میں اسے فخر سے سکندرِ اعظم، انقلابِ فرانس اور نشاۃِ ثانیہ کے بارے میں بتاتا۔ وہ خاموشی سے میری باتیں سنتا۔ اس کے مطابق یہ جنگیں، انقلاب، غیر ملکی رہ نما وغیرہ سب لوک کہانیاں ہیں، لوگوں نے خود گھڑی ہیں۔ مجھے اعتراف ہے کہ جتنی مزے دار کہانیاں مجھے فڈانگو نے سنائی تھیں، وہ میں نے آج تک کسی کتاب میں نہیں پڑھیں۔ ان میں ہمارے خاندان کی تاریخ ہو، بھوتوں کی کہانیاں ہوں، ڈوئل ہوں یا خود اس کی اپنی کہانیاں۔۔ روانی، سنسنی اور دل چسپی میں اپنا مثال آپ تھیں۔ اس نے اپنی پہلی جنگ سولہ برس کی عمر میں لڑی تھی۔ وہ ہمیشہ کہتا کہ جب سے وہ بندوق چلانے کے قابل ہوا ہے، تب سے وہ ہسپانوی بولنے والوں سے لڑ رہا ہے۔

فڈانگو ہوا کو سونگھ کر یا بادلوں کو دیکھ کر بتا دیا کرتا کہ آج بارش ہوگی یا آندھی آئے گی۔ وہ انجیکو کے مغرب کی طرف سے آنے والے بادلوں کو بارش گر کہتا تھا، کہ اس جانب سے جب بھی بادل آتے تو بارش ہوتی۔ ایک دن ہم دونوں شدید گرمی میں کہیں جا رہے تھے کہ مجھے شدید پیاس محسوس ہوئی۔ پانی کی تلاش شروع ہوئی۔ فڈانگو گھوڑے سے اترا، مٹی اٹھا کر سونگھی، گہرا سانس لیا اور ایک طرف اشارہ کر کے بولا کہ پانی اس طرف ملے گا۔۔ اور واقعی، اس سمت میں تھوڑی دور جانے کے بعد ہمیں پانی مل بھی گیا۔ میں نے استعجاب کے عالم میں پوچھا
اسے ان چیزوں کا کیسے علم ہو جاتا ہے؟

مسکراتے ہوئے بولا ”برخوردار میں ان اطراف میں بہت عرصے سے رہ رہا ہوں۔“

اس کی ساری باتیں بڑی گہری اور رمزیہ ہوتی تھیں۔ اس کی ایک بات آج تک میرے دل پر نقش ہے:
’ایک بڑے پتھر کا سایہ بھی بڑا ہوتا ہے، مگر یاد رکھنا سائے کا وزن نہیں ہوتا۔‘

میں نے اس سے اس کا مطلب پوچھا تو بولا،
”جب تم بڑے ہو جاؤ گے تو تمہیں اس کا مطلب بھی خود بخود سمجھ آجائے گا۔“

اس کی یادداشت بہت اچھی تھی۔ وہ قرب و جوار میں رہنے والے ہر شخص کا شناسا تھا۔ فارم پر کام کرنے والے لڑکے بالے اس سے مختلف لوگوں کا پوچھتے اور وہ فوراََ ان کے بارے میں بتا دیتا۔ اس کا ایک مکالمہ مجھے آج بھی یاد ہے:
ایک نے پوچھا: سلوا کو کیا ہوا تھا۔
وہ ساتھ والے قصبے کا سلوا، اسے اس کے بہنوئی نے مار دیا تھا۔
اس کا چچا پیڈرو جو ہر وقت اپنے ساتھ دو بندوقیں رکھتا تھا۔
فڈانگو نے آدھ منٹ سوچا اور جواب دیا کہ پندرہ سال پہلے والی جنگ میں کام آگیا۔
اور ہمارے یہاں کام کرنے والا عمانویل۔
تین برس قبل ایک سرائے میں اس نے ایک خانہ بدوش کا قتل کر دیا تھا۔

یہ فڈانگو تھا، جس سے میں نے پیراکی سیکھی، گھوڑوں کو قابو کرنے والی رسی اور اس سے مختلف گانٹھیں بنانا سیکھیں، زخموں کی مرہم پٹی اور جانوروں کو سنبھالنا سیکھا۔ خاص طور پر گھوڑوں کو سِدھانا، باندھنا اور ان کا خیال رکھنا۔ یہ سارے کام اس نے مجھ سے کروائے اور یہی وہ وجہ ہے کہ میں ان کاموں میں ماہر ہوں۔

فڈانگو کمال کا سائیس تھا۔ سرکش گھوڑوں کو ایسے پیار سے رام کرتا کہ بس۔۔ اس نے مجھے گھوڑوں کی مختلف اقسام، ہر نسل کی مختلف عادات اور اس سے جڑی ساری باتیں ازبر کروا دیں۔ میں اس سے مختلف نسل کے گھوڑوں کے متعلق سوال کرتا،
’وہ گہرے نسواری رنگ کے گھوڑے کی کیا خصوصیت ہے؟‘

’یہ مر جائے گا مگر رکنے کا نام نہیں لے گا‘

’اور وہ جو چتکبرا گھوڑا اس طرف کھڑا ہے۔؟‘

’یہ پانی میں کشتی سے بھی بہتر تیرتا ہے۔‘

یہ تھا فڈانگوجس نے مجھے بہت کچھ دیا تھا۔

(3)

اور اب وہ فڈانگو مر چکا تھا۔ میں اپنے بابا کے ساتھ انجیکو پہنچا۔ دروازے پر میرے دادا کھڑے تھے۔ ہم دونوں نے ان کے ہاتھ کو بوسہ دیا۔ انھوں نے بتایا کہ وہ اور فڈانگو سورج طلوع ہوتے دیکھ رہے تھے کہ اچانک اس کا سر ڈھلک گیا۔ وہ باڑ کے ساتھ ایسے لگ کر کھڑا تھا کہ جیسے سو رہاہو۔ میں اس کے ساتھ ہی تھا۔ میرے والد کھنکھنارے، یہ ان کا مخصوص انداز تھا۔ مجھے علم تھا کہ ان کے دل پر چوٹ لگی تھی مگر وہ صرف کھنکھار کر چپ ہو جاتے۔ ہم تینوں اس کمرے کی طرف بڑھے جہاں اس کی نعش رکھی تھی۔ والد اور دادا دروازے پر رک گئے، میں کمرے میں اکیلا داخل ہوا،
مجھے ایسا لگ رہا تھا، جیسے تیز ہوا کی بدولت دئیے کی لو بجھ گئی ہو۔

فڈانگو کا چہرہ بے حد پُرسکون تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ وہ سو رہا ہے۔ اس کے چہرے پر ایک مسکان تھی۔اس کی مخصوص طنزیہ سی مسکان۔۔ مجھے لگا کہ اس کی مسکان ہم سے کہہ رہی ہے ، کیا ہوا؟ اتنے سنجیدہ کیوں ہو؟ جلد یا بدیر سب نے چلے جانا ہے۔۔ میں نے تمھیں کئی بار کہا تھا کہ میرے جنازے پر غمگین نہ ہونا، سازندے کہاں ہیں؟ وہ خوب صورت لڑکیاں کہاں ہیں، جو میرا تابوت اٹھائیں گی؟

میں اس کے چہرے کی طرف دیکھ رہا تھا۔ میں رونا چاہ رہا تھا تاکہ میں اس بوجھ سے نجات حاصل کروں، جو میرے دل کو چیرے جا رہا تھا، مگر آنکھیں خشک رہیں۔

دادا نے میرا بازو پکڑا اور بولے، ”مجھے علم ہے کہ تمہارے دل پر کیا بیت رہی ہے؟ فڈانگو نے مجھ سے درخواست کی تھی کہ میں اسے پہاڑی پر صنوبر کے درخت کے نیچے دفناؤں۔ میں اس کی آخری خواہش پوری کر رہا ہوں۔ ہم اسے وہیں دفنائیں گے۔“

اس شام پانچ بجے ہم اس کا تابوت لے کر پہاڑی کی طرف روانہ ہوئے۔ تابوت ایک بگھی پر رکھا ہوا تھا اور سب ماتم کناں پیدل چل رہے تھے۔ پتا نہیں کہاں کہاں سے بھانت بھانت کے لوگ اس کی آخری رسومات میں شرکت کے لیے آئے تھے۔ کسان، بیوپاری، دکان دار، حبشی یہاں تک کہ اطالوی آبادکار بھی نظر آ رہے تھے۔ وہ سب کا شناسا، سب کا محبوب تھا۔ آخر یہ قافلہ اپنی منزل تک پہنچ گیا۔ پتا نہیں میرے اندر کا ناقابلِ برداشت زخم تھا یا ہوا میں چھائی ہوئی افسردگی، میری آنکھیں بہنے لگیں۔ میں نے دونوں ہاتھوں سے چہرہ ڈھانپ لیا۔ میرے ذہن میں فڈانگو کی آواز گونج رہی تھی کہ مرد روتے نہیں، اپنے آپ کو سنبھالو۔ میرے والد تین دفعہ کھنکھارے، دادا نے میرا بازو دبایا۔ روایتاََ نعش کے چہرے سے کفن ہٹا دیا گیا کہ سب اسے آخری بار دیکھ لیں۔ میں نے اس کا چہرہ دیکھا تو مجھے سکون کا سا احساس ہو اور میرے آنسو رک گئے۔ میں نے دل ہی دل میں اسے مخاطب کیا، ’پیارے فڈانگو! میں رویا، مجھے معاف کردو! میں جان چکا ہوں کہ تم ہم سے دور نہیں جا رہے۔ تمہارا وجود انجیکو کی مٹی میں جذب ہو رہا ہے اور اسی مٹی سے وہ درخت جنم لے گا، جس کی چھاؤں میں مَیں دفن ہوں گا۔ مہربان روح، مجھے علم ہے کہ تم ایک آخری سفر پر روانہ ہو چکے ہو اور ایک دن میں بھی اس میں شریک ہو جاؤں گا اور پھر ہم ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ رہیں گے۔ تم تو وہاں سب کچھ جان چکے ہوگے تو تم پہلے کی طرح دوبارہ میری تربیت کرو گے۔ مجھے پتا ہے کہ تمہیں رقص پسند ہے ، ہم وہاں مل کر رقص کریں گے اور ہمارے ساتھ وہاں رہنے والے سب ہمارا ساتھ دیں گے۔ جلد ملاقات ہوگی، خدا حافظ۔‘

میرے ہونٹوں پر مسکان آ گئی اور فڈانگو کا تابوت قبر میں اتار دیا گیا۔ میرے دادا نے مٹھی بھر مٹی اس کی قبر میں ڈالی، اس کے بعد میرے والد نے اور پھر میں نے۔۔ ایک مزارعے نے ایک بیلچے سے قبر میں مٹی بھرنا شروع کر دی۔ مجمع وہاں سے چھٹنے لگا اور دیکھتے ہی دیکھتے فڈانگو صنوبر کے درخت کے نیچے منوں مٹی میں جا سویا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close