وہ بہ دقت، قدم با قدم سیڑھیاں اترتا ہوا نائٹ کلب سے باہر نکل آیا اور اپنے ارد گرد دیکھنے لگا۔ لمبی لمبی، تراشیدہ داڑھیوں والے، پاس سے گزرتے ہوئے، حقارت بھری نظروں سے دیکھتے۔
نائٹ کلب مین بلند آہنگ موسیقی اسے کسی غمزدہ حسینہ کی آہ و زاری لگ رہی تھی، جبکہ ناچنے والی عورت کی ہیجان خیز جسمانی حرکات نے اس کے جنسی جذبات کو عروج پر پہنچا دیا تھا۔ شروع میں اسے ہلکی سی پیاس محسوس ہوئی۔ اس نے ’عرق‘ کا ایک پیالہ حلق سے اتار لیا اور پھر یاد ہی نہ رہا کہ کتنے پیالے پی گیا۔ جتنی زیادہ اس کی پیاس بڑھتی گئی، اتنا ہی اس کی چال میں لڑکھڑاہٹ بھی آتی گئی۔ وہ دھیمے سروں میں کچھ گنگنانے لگ گیا۔ اسے یاد نہیں پڑ رہا تھا کس وجہ سے اس کے خیالات اور اردگرد کی دنیا یک دم اس کے تئیں بگڑ گئی تھی۔ یہ موسیقی کا اثر تھا۔۔۔ ناچنے والی کا اثر تھا۔۔۔ ناچتے ناچتے لڑکی کا جنسی ترغیبات سے بھری حرکات میں اپنے کپڑے اتارنے کا اثر تھا۔۔۔ ’عرق‘ کا اثر تھا۔۔۔ یا وہ کہیں اس کے اپنے اندر کوئی وجہ تھی۔
وہ اس سے قبل کبھی نائٹ کلب نہیں گیا تھا، اس لئے نہیں جانتا تھا کہ اس کے اندر کیا ہوتا تھا۔ اس کے نزدیک وہ ایسی دنیا تھی، جس میں داخل ہونے کے خیال سے ہی اسے گھن آتی تھی۔ اسے وہ ایک خوف ناک دنیا لگتی بلکہ اسے تو نفرت تھی۔ اب جب کہ وہ نائٹ کلب سے ہو کر باہر نکل آیا تھا تو تیزی سے اس جگہ سے دور سے دور ہوتا جا رہا تھا۔ وہ تنگ و تاریک گلیوں میں گھس گیا۔۔۔ جہاں گارے اور مٹی کی بو پھیلی ہوئی تھی۔ اگر اسے نائٹ کلب سے نفرت نہ ہوتی اور خوف محسوس نہ ہوتا تو وہ دوبارہ وہاں جا گھستا، کیوں کہ اسے پھر سے پیاس محسوس ہونے لگ گئی تھی۔ اسے یاد آیا، رات کے اس پہر اس کی بیوی اس کے لئے سخت پریشان ہوگی، اس لئے مزید کسی غلط بات سے اجتناب میں ہی اسے بھلائی نظر آئی۔
یہ اس کی زندگی کے عجیب لمحات تھے۔ وہ ایسی تفریح سے نفرت بھی کرتا تھا اور مزید تفریح بھی چاہتا تھا۔ اسے اپنی رگوں میں خون ابلتا اور سرپٹ بھاگتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔ اسے گلی کی دیواروں پر ناچنے والی کے ہونٹ بچھے ہوئے شہوت انگیز اپنی طرف بلاتے محسوس ہو رہے تھے۔
وہ گھر جاتے ہوئے اب لڑکھڑا نہیں رہا تھا۔ بس وہ آنکھیں بند کر کے چلتا رہنا چاہتا تھا تاکہ وہ اس ناچتے بدن والی لڑکی کی آنکھوں، ہونٹوں اور کندھوں میں کھویا رہے ۔ اسے یقین تھا، وہ دوبارہ اس لڑکی کو کبھی دیکھنے نہ جائے گا۔
وہ اپنے جسم کے نچلے حصے میں خواہش رجولیت ہی نہیں بلکہ جسم کے اوپر والے حصے میں اس ناچنے والی لڑکی کی زندگی کے متعلق بھی سوچ رہا تھا۔ کیا اسے بھی کبھی اپنے ذات پر بے اعتباری یا بد اعتمادی کے لمحات آئے ہونگے؟ جب وہ سوچ کے اس مقام پر پہنچا تو سامنے اس کا گھر نظر آ گیا۔۔۔ بلکل تاریک۔ یہاں اسے اپنے اندر ہیجان سے نجات ملنے کی توقع بندھی۔
اس کی بیوی نے چہرے سے کمبل ہٹایا اور اس کی آنکھوں میں دیکھا۔ وہ اسے اداس اور پریشان دکھائی دیا۔ وہ اٹھی اور اس نے اپنا سرپوش پہن لیا۔ کمرہ تنگ تھا، فرش ننگا تھا اور پلنگ بھی چھوٹا تھا۔ اسی وقت کھڑکی سے یخ ہوا کا ایک جھونکا آیا۔ وہ ابھی بھی کمرے کے بلکل درمیان کھڑا بیوی کو گھورے جا رہا تھا۔ بیوی کا چہرہ اور گردن نقاب میں چھپے ہوئے تھے۔ اس کا نقاب سوتی تھا، جس پر کشیدہ کاری بھی سوتی دھاگے سے کی گئی تھی اور نقاب کی چھوٹی چھوٹی لڑیاں اس کے ماتھے پر جھول رہی تھیں۔
”کیا آپ نے کھانا کھا لیا؟“
”نہیں! میں اب تک بھوکا ہوں۔“
اس نے گھبرا کر اس کی طرف دیکھا۔
”تم اپنے کندھے شال سے ڈھانپ لو۔“
وہ ہلکا سا کپکپائی۔ اسے لگا وہ اس سے محبت کرتا تھا۔ اس کا غصہ تھوڑا کم دکھائی دے رہا تھا۔ وہ اس کے سامنے سے ہٹ کر برتن ادھر ادھر رکھنے لگ گئی۔
”عزیز کدھر ہے؟“
”وہ میری ماں کے گھر ہے۔ کل چھٹی کا دن جو ہے۔“
”ادھر آؤ! مجھے کھانا نہیں کھانا۔ سنو! تمہارے شادی والے دن سے لے کر آج تک خریدے گئے لباس دیکھنا چاہتا ہوں۔ میں چاہتا ہوں تم انہیں ایک ایک کر پہنتی جاؤ، جب تک کے تم بلکل گرم نہ ہو جاؤ۔“
وہ اس کی آواز کی گھمبیرتا سے ڈر سی گئی۔ پھر بھی وہ اس کے قریب ہو کر اس کی آنکھوں میں دیکھنے لگی۔ ’خواہش‘ کے بھپکے اس کی سانسوں سے، نتھنوں سے اور اس کی مونچھوں کی کپکپاہٹ سے پھوٹ پھوٹ رہے تھے۔ اس نے اسے اب تک چھوا نہیں تھا، بس دیکھ رہا تھا۔
”آپ تھوڑا نشے میں ہیں، اس لئے سو جائیں۔“
اس کی مدہوش آواز جیسے جاگ اٹھی ہو۔ ”نہیں نہیں! میں بالکل ٹھیک اور خوش ہوں۔ میں چاہتا ہوں تم بھی خوش ہو جاؤ۔ میں بستر پر بیٹھوں گا اور چاہوں گا کہ تمہیں کپڑے پہنتے دیکھوں۔“
بیوی کو یوں لگا جیسے اس کا خاوند تھوڑا بیمار تھا۔ اس کی نشے میں ہٹ دھرمی کو دیکھتے ہوئے اس نے اس کی مرضی ماننے کا فیصلہ کیا۔ وہ پلنگ کے نیچے سے کپڑوں کا بڑا سا پلندہ نما گٹھڑ نکال لائی اور اسے کھولنے لگی۔
”مجھے کپڑے دیکھنے دو۔ تمہارے لئے کپڑوں کا انتخاب میں کروں گا۔“
”کیا ہم رات کے اس پہر کہیں باہر جا رہے ہیں؟“
”ہاں! کچھ دیر کے لئے۔۔ کیا تمہیں اس سے خوشی نہیں ہوگی؟“
وہ خاموش ہو گئی اور کافی دیر اپنے کپڑوں کو دیکھتی رہی۔ پھر اس نے کپڑوں کا پلندہ اٹھا کر اس کے سامنے رکھ دیا۔ اس کے سانسوں کی بو نے بستر کو، پورے کمرے اور اس بیچاری کے نتھنوں کو بھر دیا تھا۔
”کیا میں تمہیں پاگل لگ رہا ہوں؟“
وہ کانپ کر اس کی آنکھوں میں دیکھنے لگی۔ ”اللہ معاف فرمائے! ہرگز نہیں۔۔ آپ بس تھوڑا تھکے ہوئے لگ رہے ہیں۔“
اس نے گٹھڑی سے کپڑے نکالنے شروع کر دئیے۔ نقش و نگار والے کپڑے، پرانے کپڑے، کچھ سامنے سے کھلے کچھ پیچھے سے کھلے کپڑے۔۔ اور کئی ایک رنگ اڑ چکے زیر جامے۔۔ اچانک اسے احساس ہوا کہ اس کے کپڑے کتنے غریبانہ تھے۔
”یہ دو لباس اوپر نیچے پہن لو۔“
اس کی بیوی نے پہلا لباس پہننا شروع کر دیا۔ وہ کمرے کے درمیان ہی کھڑی تھی، اس کا دماغ میں متعدد سوالات ابھر رہے تھے۔ اس کی سانس اب بحال ہو رہی تھی۔۔۔ اور اس نے اپنا نقاب دوبارہ سے ٹھیک کیا۔
”کمرے میں ذرا چل کر دکھاؤ۔۔۔کوئی گانا بھی گاؤ۔“
اس کے ہاتھ پاؤں خوف سے کانپ رہے تھے، وہ بولی ” مجھے آپ سے پیار ہے لیکن مجھے آپ سے ڈر بھی لگ رہا ہے۔ آپ کیا چاہتے ہیں؟ آپ تھکے ہوئے ہو اور مجھے نیند آ ریی ہے۔“
اس کی آواز بلند ہوئی، ”پہلے اپنا نقاب اتارو!“
وہ بالکل اس کے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا۔ اس نے آہستہ آہستہ اپنے ہاتھ ہوا میں بلند کئے اور اپنا نقاب اتار دیا۔۔۔ اور اسے اپنی گردن کے گرد جھولتا چھوڑ دیا۔ اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرنی شروع کر دیں۔ اس کے بال صاف اور سیاہ چمکدار تھے۔۔۔اور ان سے حنا کی خوشبو اٹھ رہی تھی۔ اس نے مانگ نکال کر دو چوٹیاں بنائی ہوئی تھیں۔
”کنگھی کہاں ہے؟“
اس نے جلدی سے اسے کنگھا تھمایا۔ اس نے اس کی چوٹیاں ختم کر کے بال اس کے کندھوں پر بکھیر دئیے۔ وہ اس کو حیرانگی سے اسے دیکھ رہی تھی، جب کہ اس کا چہرہ بلکل سرخ ہو گیا تھا۔ اس نے اس کا نقاب فرش پر دے مارا۔ دو قدم پیچھے ہٹ کر اسے غور سے دیکھنے لگا، ”اپنا چہرہ بالوں سے ڈھانپ کر کمرے میں چلو۔“ اس کی آواز پہلے سے بھی زیادہ بلند تھی، ”جو تمہیں کہا جا رہا ہے وہی کرو۔“
عورت نے بال چہرے سے ہٹا دئیے اور کھڑی ہو کر اس کے نئے حکم کا انتظار کرنے لگی۔
”اب اوپر والا لباس اتارو۔“
وہ اس کے قریب آ کر کپڑے اتارنے میں اس کی مدد کرنے لگا۔ ”اور اب دوسرا لباس بھی۔“
وہ کھڑا اسے دیکھ رہا تھا، جیسے پہلی بار دیکھ رہا ہو۔ ”اب شب خوابی کا لباس بھی اتار دو۔“
خاموشی کا وقفہ چھا گیا۔۔۔وہ بس اسے دیکھتی رہی۔ وہ اس کا خاوند تھا۔۔۔ پھر بھی وہ برہنگی سے شرما رہی تھی۔ وہ ساکت کھڑی رہی۔ وہ برہنہ ہونے پر ہچکچا رہی تھی۔ وہ اس کے قریب آ گیا۔ اسے لگ رہا تھا، جیسے اس نے آنکھیں بند کر لیں تھیں۔ روشنی تھوڑا اسے پریشان کر رہی تھی۔
ناچنے والی لڑکی کم روشنی میں ناچ رہی تھی۔۔۔ وہ اپنے کندھے، پیٹ اور ٹانگیں تھرکاتی ہیں۔ وہ مکمل لباس اتارنے سے پہلے کافی دیر تک گاہکوں کے سامنے آگے پیچھے تھرکتی رہتی ہیں۔
اس کی بیوی کا چہرہ ہمیشہ کی طرح چمکدار اور خوبصورت تھا۔ اس نے خواہش کی کہ اس کی بیوی اب آنکھیں نہ کھولے۔
اگر ایک ڈانس کرتی لڑکی کبھی ناچتے ہوئے مر جائے تو کیا اس کا جسم پھر بھی تھرکتا رہے گا؟ جب اس تھرکتی لڑکی نے اپنا بریزر اتارا تھا تو گاہکوں کی طرف فوراً اپنی پشت کر لی تھی۔ تب نایٹ کلب کے ہر کونے سے۔۔۔ ہر طرح کے آلاتِ موسیقی سے شور کا ایک طوفان امڈ پڑا تھا۔
جب وہ آنکھیں بند کئے تھی، تو لگتا، اس میں زندگی کی رمق ہی ختم ہو گئی تھی۔
ڈانسر تو کئی قدم آگے بڑھ کر بے لباس ہوئی تھی۔ وہ مکمل طور پر اس کا جسم نہیں دیکھ سکا تھا۔ روشنیوں کی چکا چوند نے اس کی نگاہ دھندلا دی تھی، جس کارن اس کی آنکھوں کے آگے دائرے، چو خانے اور تکونے سے گھومنے لگ گئے تھے۔ موسیقی کبھی بلند ہوتی تو کبھی نیچے چلی جاتی۔ تب وہ ہونق بنا رہا۔۔۔ نہیں جانتا تھا کہ وہ اپنی اندر لگی آگ کو کیسے بجھائے۔۔۔ وہ کسی سے بات بھی نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اسے احساسِ ذلت اور مایوسی کا دورہ پڑ گیا تھا۔
وہ اپنی بیوی کا نائٹ گاؤن اتارنے آگے بڑھا۔۔۔ اور وہ بھی ہچکچاتے ہوئے اس کے آگے سر تسلیم خم ہو گئی۔ جونہی اس نے اس کا اسکارف نوچا تو اس کے بال بکھر کر نیچے گر گئے۔ ایک عجیب تاثر اس کی آنکھوں میں لہرا گیا۔ اس کے سامنے مختصر زیر جامہ لباس کی دھجیوں میں ایک ایسی عورت کھڑی تھی، جو کانپ رہی تھی۔۔۔ غم میں۔۔۔تنہائی میں اور اپنے خاوند سے دور، شاید کسی اجنبی کے ساتھ۔۔۔
خاموشی سے وہ فرش پر کپڑوں کے ڈھیر پر گر گئی۔ وہ اپنے ننگے بدن پر بے حد غمزدہ سی شرم میں مبتلا تھی، وہ اس سے نظریں جھکائے ہوئے تھی۔ وہ حیران اور ہونق ساکت کھڑا تھا، سارے واقعات، اخلاقیات اور خوابوں کا ریلا اس کی سوچ پر حملہ آور ہو رہے تھے۔۔۔ جس کارن وہ سخت تذبذب میں مبتلا تھا۔ اپنی ظاہری حالت میں وہ کسی جسمانی درد میں مبتلا ہو رہا تھا۔ وہ اپنے سر کو پیٹتا ہوا۔۔۔ روتا ہوا اپنی بیوی کی چھاتیوں پر گر گیا۔