(1)
پیڈرو لوکس زندگی کی بتیس بہاریں دیکھنے کے بعد سنجیدگی سے کچھ کرنے کی سوچ رہا تھا۔ وہ فطرتاً ایک مسخرہ تھا۔ اب تک وہ اسی خداداد صلاحیت کی بدولت اپنا گزارا کر رہا تھا۔ اس کے پاس رہنے کو ایک آرام دہ گھر، عمدہ لباس غرض ہر سہولت موجود تھی۔ ان سب کی ادائیگی وہ اپنے فن سےکرتا۔ کبھی مزاحیہ شکلیں بنا لیں، کبھی لطیفے سنا دئیے، تو کبھی انگریزوں پر جملے گھڑ لیے۔ پیڈرو دراصل ایک ماہرِ نفسیات تھا اور وہ مقابل کی نفسیات کے مطابق کہانیاں بناتا۔
اسے ’مزاح کا انسائیکلو پیڈیا‘ نامی کتاب پوری طرح ازبر تھی۔ اس کے پاس نہ جانے کیا جادو تھا کہ کتنی بھی بے جان کہانی ہو، جب وہ سنانے لگتا تو قہقہے پھوٹنے لگتے اور سامعین ہنسی کے مارے بے حال ہو جاتے۔ اسے لوگوں اور جانوروں کی نقل اتارنے میں ملکہ حاصل تھا۔ کتے کن موقعوں پر کیا آوازیں نکالتے ہیں، جنگلی سؤر اور بھیڑیوں کی آواز وہ اس طرح نکالتا کہ وہ کتوں کو بھی بے وقوف بنالے اور شاید چاند کو بھی۔ وہ مرغی کی طرح کڑکڑانے، مینڈک کی طرح ٹرٹرانے، کسی بوڑھی عورت کی آواز میں کوسنے دینے، نوزائیدہ بچوں کی طرح رونے اور آواز بھاری بنا کے کسی بھی مجمعے سے خطاب کرنے کا ماہر تھا۔ کون سی چیز تھی، جس میں اسے مہارت حاصل نہیں تھی۔
پیڈرو نے یہ مہارت یوں ہی نہیں حاصل کر لی تھی۔ اس نے بڑی محنت سے باقاعدہ کئی کتب کا مطالعہ کیا تھا۔اس کے فن کی معراج اس کا وہ کھیل تھا، جس میں وہ تماشائیوں کو پتھر کے زمانے میں لے جاتا تھا۔ جانوروں کی آوازیں، مختلف اوزاروں کی آوازیں اور انسانوں کی اشاروں میں ایک دوسرے کے بات چیت، غرض اس کی یہ اداکاری محض اداکاری نہیں بلکہ تاریخ کا ایک سبق ہوتی۔
راہ چلتے جہاں دو چار لڑکے بالے کھڑا دیکھتا، رُک کر ان سے گپ شپ شروع کر دیتا۔ وہ ایک لڑکے کی نقل اتارتا اور باقی لوٹ پوٹ ہو جاتے۔ وہ جہاں کھڑا ہوتا، وہاں مجمع لگ جاتا۔ اس کے قہقہے لگانے کا بھی اپنا ہی انداز تھا۔ قہقہے لگاتے وقت وہ ایسی شکل بناتا کہ دیکھنے والے بے حال ہوجاتے۔ اس بات میں کوئی مبالغہ نہیں کہ لوگ اسے دیکھ کر ہی ہنسنے لگ جاتے۔مزاح کرتے کرتے اچانک ایسا سنجیدہ ہو جاتا کہ لوگ اس پر نعرے لگا دیتے۔ اس کا اٹھنا بیٹھنا، کھانا کھانے کا طریقہ، مطالعے کا طریقہ ہر چیز اتنی پُر تفنن تھی کہ وہ لوگوں کے لیے ایک چلتا پھرتا تھیٹر تھا۔
اس کے جوہر دیکھ کر سامعین شروع ہو جاتے ’آج تو ہم ہنستے ہنستے مر ہی جائیں گے!‘
’اس کے کھانے کا طریقہ، آج میں اتنا ہنسا کہ میری بیلٹ ہی ٹوٹ گئی۔‘
اور وہ انتہائی معصوم شکل بنا کر کہتا، ”میں نے کیا کیا ہے، میں تو بولا بھی نہیں!“
اس پر لوگ اتنا ہنستے کہ ان کی آنکھوں سے آنسو نکل آتے۔اس کا نام ہی مسکراہٹ کی ضمانت تھا۔ اسی طرح اس نے زندگی کی بتیس بہاریں دیکھ لیں۔
ایک دن پیڈرو ایک تاجر کو (جس کا وہ مقروض بھی تھا) اسی طرح کچھ سنا رہا تھا کہ وہ قہقہہ لگاتے ہوئے بولا، ”خدا کی قسم تم بہت مزے کی چیز ہو! اس میجر پاؤلو سے تو بہت بہتر، جو قرض بھی ادا نہیں کرتا اور سڑی ہوئی شکل بھی بنا کر رکھتا ہے۔“
یہ فقرہ بظاہر اس کی تعریف تھی مگر پیڈرو اچانک سنجیدہ ہو گیا۔ آنے والے دنوں میں اسے کئی بار یہ فقرہ اپنے دماغ میں گونجتا سنائی دیا۔ وہ یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ ایسا کب تک چلے گا۔ اگرچہ وہ ابھی تک اس تاجر کا مقروض تھا اور اس نے ہنستے ہنستے وہ وار سہہ بھی لیا تھا مگر اندر ہی اندر اسے یہ طعنہ دیمک کی طرح چاٹنے لگا تھا۔ وہ اب سنجیدہ رہتا، راہ چلتے کسی سے بات بھی نہ کرتا مگر لوگوں کا کیا کیا جائے، وہ اسے دیکھتے ہی مسکرا اٹھتے۔
(2)
لوگوں نے اس کی سنجیدگی میں بھی مزاح کا پہلو تلاش کر لیا اور پیڈرو یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ کیا وہ کبھی کچھ اور نہیں کر پائے گا؟ ہنسانے والا مسخرہ! کیا یہی اس کا مقدر ہے؟ ساری زندگی اس طرح تو نہیں گزرے گی۔ ہاں جوانی کے جوش میں یہ عزتِ نفس نامی شے ذرا گم نام ہی رہتی ہے مگر عمر کے اس حصے میں وہ آخر کب تک قرض کی مے پیتا رہے گا۔
وہ اپنے لیے مختلف کام سوچنے لگا۔ اس نے سوچا کہ اگر اسے کوئی ملازمت مل جائے تو ایک تو اس کی مستقل آمدنی کی صورت پیدا ہو جائے گی اور دوسرے وہ اس مسخرے پن کی زندگی سے دور ہوجائے گا۔
آہستہ آہستہ اس کی زندگی تبدیل ہوتی چلی گئی۔ اس نے اپنی چال ڈھال کو تبدیل کیا اور مختلف ہوٹلوں میں معاوضے پر اداکاری کے جوہر دکھانے لگا۔ جو کام پہلے اس کا من بھاتا تھا، اب اس کی مزدوری تھی۔ کچھ دنوں میں ہی وہ اس کام سے بھی اکتا گیا۔ اس کے معمولات میں بہت تبدیلی آ گئی تھی۔ وہ لوگوں سے کترانے لگا۔ ہفتوں سوچنے کے بعد اس نے اپنے لیے موزوں کام سوچ ہی لیا۔ وہ اپنے ایک دوست کے پاس گیا، جس کا تمباکو کا ایک چھوٹا سا کارخانہ تھا۔ اس نے اس سے درخواست کی کہ وہ اب اپنی پرانی زندگی سے اکتا گیا ہے اور نوکری کرنا چاہتا ہے، لہٰذا وہ اسے اپنے کارخانے میں ملازمت دے دے۔ وہ چھوٹے سے چھوٹا کام بھی کر لے گا، چاہے وہ چپڑاسی کا کام ہی ہو۔
اس کا دوست یہ سن کر ہنسنے لگا، ”ہاہاہا! پیڈرو لوکس اور ملازمت۔ تمباکو کے کارخانے میں ۔ واہ واہ پیڈرو کیا پھبتی کسی ہے۔ تم اور میرے چپڑاسی، ہاہا! تم بھلے میری رقم واپس نہ کرو مگر خدارا اپنے اگلے شو کے لیے میرا لطیفہ نہ بناؤ!“
اس کا دوست پیٹ پکڑ پکڑ ایسا ہنسا کہ اس کے دیگر ملازمین بھی قہقہے لگانے لگ گئے۔
پیڈرو بوکھلا گیا اور بولا، ”دیکھو دوست! میں بالکل سنجیدہ ہوں اور تمہیں میرا مذاق اڑانے کا کوئی حق نہیں۔ خدارا! مجھ غریب کا مذاق مت اڑاؤ۔۔ میں تم سے ایک نوکری مانگ رہا ہوں، میرا مذاق تو نہ اڑؤ!“
اس کے دوست پر ہنسی کا نیا دورہ پڑا، ”اُف! پیڈرو، تم اور سنجیدہ! ہاہاہا! دیکھو تم۔۔۔۔۔“
پیڈرو کو اتنا غصہ آیا کہ وہ اس کا پورا جملہ سنے بغیر وہاں سے نکل آیا۔
تو کیا اس معاشرے میں میری کوئی جگہ نہیں؟ وہ رنجیدہ ہو گیا۔ وہ کئی اور دوستوں اور جاننے والوں سے ملا اور سب کو پوری سنجیدگی سے سارے حالات بتا کر نوکری کی درخواست کی مگر سب اس کی باتوں کو اس کا کوئی نیا پینترہ سمجھتے۔ لوگ اس پر کچھ اس طرح کی آوازیں کستے، ’یہ پیڈرو بوڑھا ہونے کو ہے مگر اپنے چالے نہیں بدل رہا!‘
شہر سے مایوس ہونے کے بعد وہ قریبی گاؤں گیا، جہاں ایک زمیں دار کا منشی کام چھوڑ گیا تھا۔ پیڈرو نے بڑی سنجیدگی اور متانت سے اپنی درخواست سنائی۔ زمیں دار بھی ہنسنے لگا، ”کیا بات ہے! پیڈرو اور منشی! ہاہاہاہا! مزےدار ۔ تم کیا چیز ہو یار۔۔ یہاں اس گاؤں میں۔۔ اوہ اوہو۔ میں ذرا اپنے گھر والوں کو بھی بلالوں۔ ہمارا شہر تو آنا جانا ہوتا نہیں، وہ بھی تمھارے لطیفے سن لیں گے۔“
اس دن گھر واپس آ کر وہ بہت رویا۔ اسے آج یہ بات سمجھ میں آ گئی تھی کہ اس نے برسوں جس بنیاد پر ایک عمارت کھڑی کی تھی، وہ اتنی آسانی سے گرنے والی نہیں۔ سب کی نظروں میں وہ تقریبات کی جان اور شہر کا سب سے بڑا مسخرہ تھا اور یہ اتنی آسانی سے بدلنے والا نہیں تھا۔
(3)
اس نے ہار نہ مانی۔ بہت سوچنے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ اسے سرکاری نوکری کرنی چاہیے۔ حکومت کو اس سے کیا سروکار کہ اس کا ملازم مسخرہ ہے یا نہیں۔ اسے تو کام سے مطلب ہے۔ اس نے مختلف محکموں کا موازنہ کیا جیسے ریل، محکمہ مالیات، محکمہِ ڈاک، عدالت اور مختلف امور کے موازنے کے بعد اس نے محکمہِ مالیات میں کام کرنے کی ٹھانی۔ اس محکمے کا سربراہ میجر رابرٹو تھا جو بہت عمر رسیدہ اور دل کا مریض تھا۔ اس کے متعلق مشہور تھا کہ اس کے پیٹ میں رسولی ہے جو کسی بھی وقت پھٹ سکتی ہے۔پیڈرو کی امیدوں کا مرکز دارالحکومت میں مقیم ایک رشتے دار تھا، جو ملک کی دوسری بڑی سیاسی جماعت کا ایک اہم عہدے دار تھا۔ شنید تھی کہ اگلے چناؤ میں اس کی جماعت حکومت بنانے میں کام یاب ہو جائے گی۔ وہ اس کے گھر پہنچا اور اس کی اتنی منت سماجت کی کہ اس نے پیڈرو سے وعدہ کیا کہ
تم فکر نہ کرو! مجھے جیسے ہی اگلی حکومت میں کوئی عہدہ ملے گا اور تمہارے اس میجر کی رسولی پھٹتی ہے، میں تمہیں اس کی جگہ دلواؤں گا۔ پھر کسی کی کیا مجال کہ تم پر ہنسے۔ بس جیسے ہی وہ میجر دنیا سے رخصت ہو مجھے اطلاع کر دینا اس کا کفن میلا ہونے کا انتظارنہ کرنا۔
پیڈرو ایک نئے جوش سے گھر واپس آیا۔ اس کی ایک آنکھ اگلے الیکشن پر اور ایک میجر پر جمی تھی۔ خالی دماغ شیطان کا گھر۔۔۔ پیڈرو بھی گھر میں فارغ رہ کر میجر کو ہٹانے کے منصوبے بنانے لگا۔ اس نے رسولی کے متعلق اتنا مواد پڑھ لیا کہ وہ اس موضوع پر گھنٹوں بولنے کے قابل ہو گیا تھا۔ ایک کتاب میں اس نے پڑھا کہ ایسا مریض، جس کے پیٹ میں رسولی ہو، اگر وہ بہت زور سے قہقہہ لگائے تو رسولی پھٹنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ پیڈرو یہ پڑھ کر سوچ میں پڑ گیا۔ اسے خیال آیا کہ اسے میجر کو اچانک ہنسا دینے سے اس کی منزل آسان ہو سکتی ہے۔
’یہ جرم ہوگا!‘ اس کے دل سے آواز آئی۔
دماغ فوراَ بولا: ’کسی کو ہنسانا کوئی جرم تھوڑی ہے؟‘
اس کے دل و دماغ میں ایک جنگ چھڑ گئی اور وہ کئی دن گومگو کیفیت میں رہا۔ آخر اس کا دماغ جیت گیا اور اس نے میجر رابرٹو سے پینگیں بڑھانے کی کوششیں شروع کر دیں۔ اس نے حیلوں بہانوں سے محکمہِ مالیات کے چکر لگانے شروع کر دیے۔ وہ اپنے جاننے والوں کے مختلف کام بھی کرتا، کسی کا ٹیکس جمع کرواتا، کسی کا اجازت نامہ حاصل کرتا۔ اپنی خداداد صلاحیتوں سے وہ پورے دفتر کو اپنا گرویدہ بنا بیٹھا مگر میجر رابرٹو ذرا ٹیڑھی کھیر تھا۔ اس نے کئی بار اپنے عملے کی سرزنش کی کہ پیڈرو ان کے دفتر میں ہر وقت کیوں براجمان رہتا ہے مگر پورا عملہ اس کی طرف داری کرتا۔
آہستہ آہستہ میجر نے بھی اسے اپنے دفتر میں قبول کر لیا۔ اس نے اسے ’زندہ دل بندر‘ کا نام دیا۔ میجر کی نظروں میں وہ ایک سادہ لوح، نرم دل اور سب کے کام آنے والا خوش مزاج شخص تھا۔ دو مہینے میں یہ حالت ہوئی کہ میجر رابرٹو اپنے ماتحتوں کو پیڈرو کی مثال دیتا کہ وہ اس کی طرح محنت اور لگن سے کام کیوں نہیں کرتے۔ ایک دفعہ تو اس نے عملے کو ڈانٹ دیا کہ وہ پیڈرو سے سیکھیں کہ بھانت بھانت کے لوگوں سے کس طرح نپٹنا ہے۔ اسی دن میجر رابرٹو نے پیڈرو کو رات کےکھانے پر گھر بلایا۔ پیڈرو کی دلی مراد بر آئی۔
اس رات کھانے کی میز پر پیڈرو نے بہت سے لطیفے سنائے مگر میجر صرف مسکرا کر رہ گیا۔ حالاں کہ یہی وہ لطیفے تھے، جن پر پورے کا پورا مجمع لوٹ پوٹ ہو جاتا تھا۔ پیڈرو بھی دھن کا پکا تھا۔ آج نہیں تو کل میں اسے ہنسا کر چھوڑوں گا۔
(4)
تین مہینے گزر گئے۔ ملک میں الیکشن کا ہنگامہ زوروں پر تھا۔ پیڈرو اب بے صبرا ہو چلا تھا ۔ میجر کافی حد تک اس سے مانوس ہو چلا تھا اور پیڈرو بھی سمجھ گیا تھا کہ میجر کو کس قسم کا مذاق پسند ہے۔ اس نے اب تک یہ بھانپ لیا تھا کہ میجر کا مطالعہ بے حد وسیع ہے اور اسے انگریزوں اور فرانسسیسوں کے متعلق لطائف یا مزاحیہ واقعات سننا اچھا لگتا ہے۔ اس کی کوششوں سے میجر نے ہنسنا تو شروع کر دیا تھا مگر زوردار قہقہوں کی نوبت ابھی تک نہ آئی تھی۔
ایک دن میجر رابرٹو نے پیڈرو کو اپنے کمرے میں طلب کیا اور اسے شام میں اپنے گھر آنے کی دعوت دی، ”آج شام میرے خاص مہمان آ رہے ہیں۔ پائیں باغ میں امازون کی مچھلی اور بھنے ہوئے تیتر کا بندوبست کیا گیا ہے۔ آج تمہاری زندہ دلی کا امتحان ہے۔“
اس رات اس نے کئی واقعات گھڑے اور مقررہ وقت پر رابرٹو کے ہاں پہنچ گیا۔ میجر کے سارے دوست بھی اسی کی طرح سنجیدہ تھے مگر آج پیڈرو ’ابھی یا کبھی نہیں‘ سوچ کے ساتھ میدان میں اُترا تھا۔ اس نے جانوروں کی نقالی شروع کی۔ مار کھائے پلّے کی آوازوں نے مہمانوں کی سنجیدگی اکھاڑ پھینکی اور بکرے کے بکری کو بلانے کی آوازوں نے تو ایک سماں ہی باندھ دیا۔ آج رابرٹو کُھل کر ہنس رہا تھا مگر پیڈرو کے من کی مراد ابھی پوری نہیں ہوئی تھی۔
آمیزن کی مچھلی اور بھنے ہوئے تیتر بے حد خوش ذائقہ تھے۔ کھانے کے بعد سُرخ شراب کا دور چلا۔ اب پیڈرو نے آخری پینترہ چلا اور ایک انگریز اور اس کی بیوی کی سنجیدہ گفتگو کی نقل اتاری جس پر سب لوٹ پوٹ ہو گئے۔ میجر رابرٹو بھی کُھل کر ہنس رہا تھا اور انگریز والے لطیفے پر تو اس کے حلق کا کوا نظر آنے لگا۔ پیڈرو نے ترکش کا آخری تیر چلایا۔ اس نے دو فرانسیسی پادریوں کی ایک ہسپانوی سے گفتگو سنانا شروع کی۔ آخر اس کی محنت رنگ لے آئی۔ میجر رابرٹو نے زوردار قہقہہ لگایا۔اتنا زوردار کہ سڑک تک اس کی آواز سنی جاسکتی تھی۔ یہ اس کا پہلا قہقہہ تھا اور آخری بھی۔۔۔
قہقہے کے ساتھ ہی اس کے منہ سے خون کا ایک فوارہ نکلا اور ایک زوردار دھم کی آواز سے اس کا سر میز سے ٹکرایا۔ اس کی رسولی پھٹ چکی تھی۔ پیڈرو کام یاب ہو گیا۔ اس کے راستے کا کانٹا نکل چکا تھا۔ وہ وہاں سے ہذیانی کیفیت میں نکلا اور خود کو اپنے کمرے میں مقید کر لیا۔ اس رات اس کا سارا بدن لرز رہا تھا، اس کے دانت کٹکٹاتے رہے اور اسے ٹھنڈے پسینے آتے رہے۔ ذرا سے کھٹکے سے وہ چونک جاتا اور اسے پولیس کا دھڑکا لگا رہا۔ اسے اس حالت سے باہر آنے میں کئی ہفتے لگے۔
محکمہِ مالیات والوں نے اس کی طویل غیر حاضری کو میجر رابرٹو کی موت کا صدمہ سمجھا۔ پیڈرو کچھ سنبھل تو گیا مگر اس کی آنکھوں میں بار بار ایک ہی منظر نقش ہو گیا تھا۔ رابرٹو کے منہ سے خون کا فوارہ نکلنا ، اس کا میز پر گرنا اور فضا میں مرتعش ایک زوردار قہقہے کی آواز۔۔۔
وہ اسی احساسِ جرم کے ساتھ اپنے خول میں قید تھا کہ اسے اس کے رشتے دار کا خط وصول ہوا ۔ اس نے لکھا تھا، ”تم کدھر گم ہو؟ مجھے اقتدار میں آئے کئی ہفتے ہو چلے ہیں اور تم نہ خود آئے نہ کوئی پیغام بھیجا۔ تم نے مجھے وعدے کے مطابق رابرٹو کی سناؤنی کی اطلاع بروقت نہیں پہنچائی۔ مجھے اس کی موت کا علم اخبارات سے ہوا۔ میں فوراً متعلقہ وزیر کے پاس پہنچا مگر اس کا متبادل ڈھونڈ ا جا چکا تھا۔ تمہاری اس لاپرواہی سے تم پیشہ بدلنے کا نادر موقع ضائع ہو چکا ہے۔ یہ لاطینی کہاوت اپنے پَّلے باندھ لو کہ ’جو کھانے پر دیر سے پہنچتے ہیں,، ان کے حصے میں صرف ہڈیاں رہ جاتی ہیں۔‘
(5)
دو ہفتوں بعد پیڈرو لوکس اپنے کمرے میں مردہ پایا گیا۔ اس کی لاش چھت سے ٹنگی تھی اور اس کی زبان کٹی ہوئی تھی۔ اس نے اپنی زبان کاٹ کر خود کشی کر لی تھی۔ اخباروں میں اس کے متعلق تفصیل شائع ہوئی تو لوگ چونک گئے۔ اپنی زبان کاٹ دینا، ایک سیٹھ اپنے ملازموں سے کہہ رہا تھا، ’یار یہ پیڈرو بھی کیا انوکھا آدمی تھا ، جاتے جاتے بھی کیا لطیفہ گھڑ گیا، اس کی زبان اب کیا عجائب گھر میں سجائیں گے۔‘ سیٹھ اور اس کے ملازمین مل کر ہنسنے لگے۔