پیارے تِھیو!
یہ خط اگر تمہیں قدرے طویل اور اپنی یک رنگی کے باعث کچھ عجیب بھی لگے، تو بھی اسے بڑے دھیان سے پڑھنا اور کسی سے اس کا ذکر نہ کرنا۔ اگر میں یہ بھی کہوں کہ یہ شاید میرا تمہارے نام آخری خط ہے، تو بھی ڈر نہ جانا کیونکہ میرا نہ تو مرنے کا کوئی ارادہ ہے اور نہ ہی میں دوستی میں تم سے بے اخلاص ہونا چاہتا ہوں۔
میرے لیے یہ بات کافی زیادہ شرمندگی کا باعث تو ہے لیکن میں بلاتاخیر اور کھل کر کہہ دینا چاہتا ہوں کہ میں عنقریب اپنی بینائی کھو دینے کو ہوں۔ میں آٹھ روز پہلے آخری مرتبہ شہر میں اپنے آنکھوں کے ڈاکٹر کے پاس گیا تھا اور اس کے بعد سے یہ جانتا اور مسلسل اس تلخ حقیقت کا سامنا کرنے کی کوشش میں ہوں کہ میری کمزور آنکھوں کی بینائی زیادہ سے زیادہ بھی مزید ایک سال تک میرا ساتھ دے سکے گی۔ میں نے اس مسئلے کے تدارک کے لیے موجودہ موسمِ سرما میں ہسپتال میں جو قیام بھی کیا، وہ بھی بے فائدہ ہی رہا تھا۔
میری اس کوشش کو معمولی نہ سمجھنا کہ میں تم سے اب رابطہ کر رہا ہوں۔ میں کوئی شکایت نہیں کرنا چاہتا، لیکن یہ میری ضرورت بہرحال ہے کہ میں اس بارے میں تم سے کچھ بات کر سکوں۔ جیسا کہ تم جانتے ہی ہو کہ یہاں میرے پاس اپنی بیوی جیسا مخلص کوئی دوسرا انسان نہیں ہے اور اسے بھی میں فی الحال کچھ نہیں بتانا چاہتا۔ میری آنکھوں کے اس عارضے کو ہم نے شروع میں ایک عارضی تھکن سمجھا تھا اور اپنی بیوی کو میں یہ سچ اس وقت سے پہلے نہیں بتانا چاہتا، جب تک کہ میں اس کو کسی حد تک سمجھ کر خود کو سنبھال نہ لوں۔ دوسری صورت میں ہم دونوں بس بہت بےچارگی سے ایک دوسرے کے سامنے بیٹھے ہوئے ہی نظر آئیں گے۔ میں نے اگر اسے ابھی بتا بھی دیا تو وہ مجھے کسی نہ کسی طرح قائل کرنے کی کوشش کرے گی کہ میں تو بس خوامخواہ بہت ناامید ہو رہا ہوں اور سب کچھ اتنا برا تو نہیں ہے۔۔ یا پھر وہ ابھی سے، وقت سے بہت پہلے، میرے ساتھ بڑی ہمدردی والا لیکن ایک نابینا انسان جیسا برتاؤ شروع کر دے گی اور یہ دونوں ہی باتیں میرے لیے شاید بلاتفریق ناقابل برداشت ہوں گی۔
اسی لیے میں جیسے ایک طرح سے تمہاری تلاش میں ہوں، تاکہ تمہیں اپنی حالت اور اپنے ان خیالات سے آگاہ کر سکوں، جو مجھے آج کل گھیرے ہوئے ہیں اور میں تمہیں اسی طرح سب کچھ بتا بھی سکوں، جیسے ہم پہلے کبھی اپنے کچھ تجربات سے ایک دوسرے کو آگاہ کرتے ہوئے ان کے بارے میں آپس میں بات کیا کرتے تھے۔ اب لکھنا چونکہ جلد ہی میرے لیے ممکن نہیں رہے گا، اس لیے تمہیں ہی وہ آخری انسان ہونا چاہیے، جس کے ساتھ میں یوں تحریری گفتگو کر رہا ہوں۔ تمہیں میرے بارے میں متفکر نہیں ہونا چاہیے۔ شاید میں مستقبل میں بھی یونہی کچھ کام کر ہی سکوں، جیسے کسی سے خط پڑھوانے یا اسے لکھوانے کی صورت میں۔۔ اور پھر اگر ایسا نہ بھی ہو سکا تو بھی میرے لیے کوئی ہنگامی صورت حال تو پیدا ہونے سے رہی۔ اب تک تو میں پڑھنے جیسا کوئی بھی کام ترک کر دینے پر مجبور نہیں ہوا۔ آج تک تو بخوشی میری سب سے بڑی مصروفیت یہی تھی اور شکر ہے کہ میں بہت سی خوبصورت اور مفید باتیں اپنے دماغ میں اس طرح محفوظ کر لینے میں کامیاب بھی رہا کہ میں کبھی بھی ایسا کتابی کیڑا نہ بنا کہ جو کتابوں کے بغیر سرے سے زندہ ہی نہ رہ سکے۔
افسوس ناک بات بس یہی ہے کہ جب میں اپنی بہت سی کتابوں کے قریب سے گزرتا ہوں تو اکثر میں اس خواہش کو دبا نہیں سکتا کہ کوئی ایک کتاب نکالوں اور اپنی بیوی سے درخواست کروں کہ وہ آدھ گھنٹے تک مجھے وہ کتاب پڑھ کر سناتی رہے۔ ظاہر ہے کہ میں ایسا بہت تواتر سے نہیں کر سکتا تاکہ اسے علم نہ ہو کہ میری حالت کیسی ہے۔ ویسے ابھی تک میری آنکھوں کی حالت ایسی ہے کہ میں خود بھی کوئی کتاب پڑھ تو سکتا ہوں لیکن ایسا زیادہ دیر تک تو بالکل نہیں رہے گا۔ اس لیے بہتر یہی ہوگا کہ مجھے شاید اپنی بینائی زیادہ اہم باتوں کے لیے بچا لینا چاہیے۔ یہی وہ بات ہے جو میں دراصل تمہیں بتانا چاہتا تھا۔
میں اپنی آنکھوں سے متعلق اس حتمی تشخیص کے بعد سے اس طرح زندہ ہوں، جیسے کوئی ایسا انسان جو اجازت کا طلب کار ہو۔ یہ بھی ایک عجیب سی حالت ہے، جو اپنے ساتھ صرف درد ہی نہیں لاتی بلکہ ذہن میں خاص طرح کے خیالات کی وجہ بھی بنتی ہے۔ تمہیں تو ہمارے پورے علاقے کا علم ہے، اس خطے کی چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں اور میرا وہ گھر بھی، جہاں سے مکئی کے وسیع تر کھیت اور چراگاہیں دکھائی دیتے ہیں۔ میں اب یہ سب کچھ دیکھتا ہوں تو مجھے احساس ہوتا ہے کہ پچھلے بہت سے سالوں میں ان میں سے بہت کچھ تو میں دیکھ ہی نہ پایا۔ کیا یہ سچ نہیں کہ اب مجھے لازمی طور پر ہر چیز سے بہت اچھی طرح اور ٹھیک ٹھیک شناسا ہونا پڑے گا تاکہ بعد میں مجھے یہ احساس نہ ہو کہ میں کسی قطعی اجنبی جگہ پر رہ رہا ہوں، بلکہ یہ کہ میں جہاں بھی ہوں، اپنی آنکھوں کے بغیر بھی جیسے گھر ہی میں اور جانے پہچانے علاقے میں ہوں۔
میں اب بھی سیر کے لیے نکلتا ہوں اور اکثر یہ دیکھ کر حیران رہ جاتا ہوں کہ اب بھی دیکھنے کے لیے کتنا کچھ ہے، اگر انسان وہ سب نظارے بھی سچ مچ جذب کر سکے جو پلکوں پر اٹکے رہتے ہیں۔ اس طرح تو میں شاید ایک عجیب مضحکہ خیز احساس سے بھی لطف اندوز ہونے لگتا ہوں۔ مثلاً تم دیکھو کہ میں بے بس تو ہوں مگر رخصت کی اس اجازت اور اپنی آنکھوں کے اس آخری بصری لالچ کے ساتھ اتنا کچھ اپنے اندر محفوظ کر لینا چاہتا ہوں کہ میں دیکھنے کے اس عمل کو جتنا بھی خاص سمجھوں مگر میرے اندر جیسے کوئی حقیقی فنکار گم ہوتا جا رہا ہو۔ ویسے یہ بھی ہو سکتا ہے کہ میں اپنی اس دھندلاتی جا رہی ہنگامی حالت میں دنیا کو ایسے دیکھ رہا ہوں، جیسے کوئی فنکار اسے ہمیشہ ہی دیکھتا ہے۔ اسی میں مجھے خوشی بھی ملتی ہے، چاہے وہ درد میں لپٹی ہوئی ہی آئے۔
کوئی ایسا کھیت، جس میں جَو کاشت کیا گیا ہو اور کوئی ایسا درخت، جس کے تنے سے بیلیں لپٹی ہوئی ہوں، جن کے بارے میں مجھے علم ہے کہ چند ماہ بعد میں انہیں پھر کبھی نہیں دیکھ سکوں گا، وہ مجھے اس سے بالکل مختلف دکھائی دیتے ہیں، جیسے وہ مجھے پہلے نظر آتے تھے۔ ہر شے اور بار بار ہر شے، حتیٰ کہ کسی جنگل کے کنارے کسی مٹیالی راہ گزر پر نظر آنے والی کسی درخت کی زمین سے باہر نکلی ہوئی جڑیں تک، ہر شے کی اب یکدم اپنی ہی ایک قدر و اہمیت ہے، جسے دیکھنا ایک حسین اور پُرشوق جمالیاتی نظارہ بھی ہے۔ بھورے رنگ کی ہر شاخ اور ہر اڑتا ہوا پرندہ، سبھی کچھ انتہائی خوبصورت اور حیران کن ہے، تخلیقی سوچ کا مظہر ہے، وجود رکھتاہے، زندہ ہے، ہمارے سامنے ہے اور صرف اپنے ہونے سے ہی اپنے وجود کا جواز پیش کرتا ہے، اس بات کی دلیل کہ وہ ایک معجزہ ہے، مسرت ہے۔
جب میں یہ سوچتا ہوں کہ یہ سب کچھ جلد ہی میرے لیے تو گم ہی ہو جائے گا، میری یادداشت میں تصویروں کی شکل اختیار کر لے گا، تو میرے لیے یہ سب چیزیں اپنے مختصر دورانیے کے اتفاقیہ پن سے نکل کر پھلتے پھولتے ایسے تصورات اور ایسی علامات بن جاتی ہیں، جن میں بہت منفرد فن پاروں کی سی ابدی قدر و قیمت بھی شامل ہو جاتی ہے۔ یہ سب کچھ اتنا عجیب و غریب اور شاندار بھی ہے کہ میری ذات میں خود میری بےبسی کی حالت کے باعث پیدا ہونے والا خوف اسی وجہ سے اکثر کئی کئی گھنٹوں کے لیے بالکل ناپید ہو جاتا ہے۔ کبھی کبھی میں بڑی دور تک پھیلے ہوئے ایسے نظارے بھی دیکھتا ہوں، جن میں بہت سے متنوع منظر نامے اس طرح یکجا نظر آتے ہیں، جن کے اہم ترین حصے اس طرح بڑی سادگی سے مجتمع کر دیے جاتے ہیں، کہ جیسے شاید صرف کوئی عظیم مصور ہی انہیں دکھا سکتا ہو۔
اور کبھی کبھی تو میں بہت سی چھوٹی چھوٹی اشیاء، جیسے گھاس کے تنکے، ننھے منے حشرات، کسی درخت کے بیج حتیٰ کہ راستے میں پڑے ہوئے کسی چھوٹے سے پتھر کو بھی ایسے دیکھتا اور غور کرتا ہوں کہ جیسے ان سے پیدا ہونے والے تاثرات بھی بہت معمولی تو بالکل نہ ہوں۔۔ تب مجھے ان میں بہت سے رنگ نظر آتے ہیں اور میں کسی مصور کی طرح ان کا مطالعہ کرنے لگ جاتا ہوں، مجھے ان کے پورے اجسام دکھائی دیتے ہیں اور میں ناظر کو خود میں جذب کر لینے والے اس نظارے سے لطف اندوز ہوتے ہوئے اسے ایک بیش قیمت ہنر سمجھنے لگتا ہوں۔ میں کئی بار مختلف تصویروں کو یاد رکھنے کی اپنی اہلیت کا امتحان بھی لیتا ہوں۔ تب مجھے بڑا اداس کر دینے والا یہ احساس بھی ہوتا ہے کہ ایسی لامحدود تصویریں گم بھی ہو چکی ہیں، جو بُھلائی جا چکی ہیں۔۔ لیکن مجھے یہ جان کر خوشی بھی ہوتی ہے کہ میں نے غیر ارادی طور پر بہت کچھ اپنے ذہن میں بڑی اچھی طرح سنبھال کر بھی رکھا ہوا ہے۔
میں کئی ایسے دیہات کا اپنے ذہن میں کسی بالکل تازہ تصویر کی طرح دوبارہ تصور بھی کر سکتا ہوں، جن سے میں بہت سال پہلے کبھی یونہی گھومتے گھومتے گزرا تھا۔ اس کے علاوہ کئی ایسے جنگلوں اور خوبصورت شہروں کا تصور بھی، جن سے کبھی میرا گزر ہوا تھا۔ یہی نہیں میرے ذہن میں سولہویں صدی میں اطالوی نشاۃِ ثانیہ کے عظیم مصور ٹیزیئن (Tizian) کی بنائی ہوئی ایک پینٹنگ اور چند بہت قدیمی اشیاء کے ساتھ ساتھ کئی ایسے فن پاروں کا تصور بھی پوری طرح باقی ہے، جو میری یادداشت سے آج تک حذف نہیں ہوئے۔ مجھے آج بھی علم ہے کہ گلِ قاصدی کے بیج سے نکلنے والے اس کے باریک دھاگوں جیسے حصے کیسے دکھائی دیتے ہیں اور کس طرح میں نے تیز ہواؤں میں بادبانی کشتی چلائی تھی۔۔ مجھے تو یہ بھی واضح طور پر یاد ہے کہ ماضی میں بہت دور، جوانی کے دنوں میں، صبح کا سورج کس طرح کسی پہاڑی ندی میں اپنا عکس دکھاتا تھا، یا پھر یہ کہ تب کس طرح اچانک بجلی کڑکتی تھی یا پھر شام کے وقت کس طرح گاؤں کی بہت سی نوجوان لڑکیاں ایک دوسری کے ہاتھ پکڑے، بازوؤں کو آگے پیچھے لے جاتی تنگ سی گلیوں سے گزرا کرتی تھیں۔
میں سوچتا ہوں کہ اگر یہ سب کچھ مجھے اتنی اچھی طرح یاد ہے اور جیتا جاگتا محسوس ہوتا ہے، تو پھر وہ سب کچھ، جو مجھے ابھی دیکھنا اور اپنے ذہن میں محفوظ کرنا ہے، وہ بھی تو بہت جلد کہیں گم نہیں ہو جائے گا۔۔ اگر میں اپنی تھوڑی بہت باقی ماندہ خوشیوں سے بھی محروم نہیں ہونا چاہتا، تو مجھے اپنے قرب و جوار سے متعلق ایسے امتحانات میں نہیں پڑنا چاہیے۔ کبھی کبھی جب میں اپنی بیوی کے بارے میں غور کرتا ہوں، اس کی ذات، لباس، چہرے اور ہاتھوں کے بارے میں، تو میں یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہوں کہ بعد میں، جب میری آنکھیں اپنی بینائی کھو چکی ہوں گی، تو ان میں میری بیوی کی پھر بھی زندہ رہنے والی تصویر کیسی ہوگی۔ ایسے میں ہر طرح کی عقل و دانش میرا ساتھ چھوڑ دیتی ہے اور مجھے اپنی قسمت انتہائی بھونڈی، بے مقصد اور خوفناک لگنے لگتی ہے۔
لیکن میں تمہیں اس بارے میں تو کچھ لکھنا ہی نہیں چاہتا تھا۔۔
میں اس کے بجائے تمہیں دراصل یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میں تمہیں اور تمہاری دوستی کو، ہم دونوں کی بہت سی اور بڑی پیاری مشترکہ یادوں کو، اور ان سب باتوں کو بھی، جن سے مجھے بڑے غیر تسلی بخش حالات میں بھی حوصلہ ملتا تھا، اپنی ذات کے اندر تک اور پہلے سے زیادہ محسوس کرتا ہوں۔۔ میں جانتا ہوں کہ میرا ان سب باتوں سے تعلق بہت گہرا اور بڑی قربت کا ہے۔ تم یہ سمجھ ہی سکتے ہو کہ میں اب مختلف چیزوں کو ایک خاص طرح کے خوف کے ساتھ دیکھتا ہوں۔ ایسی چیزوں کے طور پر جو افسردہ زندگی کے لیے حوصلہ بخش ہوں اور توانائی کے نئے منبع کا کام دے سکیں۔ میرا اب بھی یہی خیال ہے کہ ایسے چیزوں کی کوئی کمی نہیں جن کی مدد سے تشکیک اور پژمردگی کا مقابلہ کیا جا سکے۔ اب جب کہ میں نابینا ہونے کو ہوں، مجھے آنکھوں کی روشنی اور ہر وہ شے جس سے آنکھوں کے ذریعے لطف اندوز ہوا جا سکتا ہے، غیر معمولی حد تک قیمتی اور شاندار لگتی ہیں۔ لیکن ساتھ ہی میں یہ بھی جانتا ہوں کہ ان سب کا متضاد بھی تو اپنی ہی جگہ پر ہے۔
اب مجھے موسیقی سے بھی کوئی شغف نہیں رہا۔ ایک تو میں کافی پرسکون نہیں رہتا اور دوسرے یہ کہ اب رخصت لینے اور الوداع کہنے کی سوچ ہی مسلسل میرے ذہن پر چھائی رہتی ہے۔ اب میں موسیقی سے شغف کو اس وقت کے لیے بچا رکھنا چاہتا ہوں، جب مجھے اس کی واقعی بہت ضرورت ہوگی۔ میں اس معاملے میں بہت ناتجربہ کار ہوں اور بہت کم علم کا حامل۔۔ لیکن میں کچھ ایسی چیزیں تو جانتا ہی ہوں، جنہوں نے برے وقتوں میں بھی میری مدد کی اور میرے لیے قیمتی تھیں۔ یہی سب کچھ میں مستقبل کے لیے اپنے ساتھ رکھنا چاہتا ہوں۔ بیتھوون کی چند دھنیں اور چند ایک شُوبرٹ کی بھی، جن کے بارے میں میں ایسے ہی سوچتا ہوں، جیسے رت جگوں کا مارا کوئی مارفین کے بارے میں۔
اور پھر موسیقی کے علاوہ بھی تو سننے کے لیے بہت کچھ موجود ہے، بہت کچھ جو بہت عمدہ ہے اور بہت خوبصورت بھی۔ اب میں بڑی حساسیت سے اس پر بھی پوری توجہ دیتا ہوں۔ میں اب چہچہاتے ہوئے پرندوں اور سر راہ ملنے والے شناسا انسانوں کی تلاش میں رہتا ہوں تا کہ انہیں ان کی آوازوں سے صحیح طرح پہچان سکوں۔ میں رات کے وقت چلنے والی ہوا کی آواز بھی سنتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ انسان بظاہر سال کے مختلف موسموں کی آوازیں سن کر بھی تو ان کو پہچان ہی سکتا ہے۔ مجھے اس بات کی بھی خوشی ہے کہ کرہ ارض پر کافی کچھ بہت خوش کن اور بڑا لطیف ایسا بھی ہے، جو صرف کانوں کے لیے ہے، نہ کہ آنکھوں کے لیے، جیسے بلبلوں کے گیت اور بھنوروں کی آوازیں وغیرہ۔
میں ان سب کے باوجود اب خود کو زیادہ تر ان چیزوں کے ساتھ مصروف رکھتا ہوں جنہیں دیکھا جا سکتا ہے۔ انسان کو جس چیز سے بھی محروم ہو جانے کا خطرہ ہو، اس کی قدر و قیمت دس گنا سے بھی زیادہ محسوس ہونے لگتی ہے۔ اس لیے میری آنکھ میں جس شے کا بھی عکس بن سکتا ہے، جس کا میں اپنی آنکھوں سے استقبال کر سکتا ہوں اور جسے میں اپنا بنا سکتا ہوں، ایسی ہر شے میرے لیے مال غنیمت ہے، جسے میں اپنے ساتھ لے جانے کی کوشش میں ہوں۔ جب مجھے یہ علم ہوا تھا کہ میرے ساتھ کیا ہونے کو ہے، اور اس آگہی کے فوری بعد، بالکل شروع میں، جب محسوسات کو منجمد کر دینے والا مرحلہ بھی گزر چکا تھا، تو مجھے کوئی بڑا سفر کرنے کا خیال بھی آیا تھا، شاید تمہارے ساتھ ہی، تاکہ میں ایک بار پھر شعوری طور پر اور اپنی ساری بھوک مٹاتے ہوئے خود کو دنیا کی خوبصورتی سے تازہ دم کر سکوں، ایک بار پھر اونچے پہاڑوں والے علاقے میں گھوموں، دوبارہ روم کا سفر کروں اور مزید ایک بار ساحل سمندر تک جاؤں۔
لیکن تب تک تو میں شاید مریض بھی بن چکا ہوتا، کسی کو میرے لیے سفری نظام الاوقات پڑھ کر بتانا پڑتا تو کوئی مجھے مختلف اشیاء مہیا کرنے پر مجبور ہوتا۔ حالانکہ اس کے برعکس یہاں تو میں ابھی تک ایک آزاد انسان ہوں اور مجھے کسی کی مدد کی ضرورت بھی نہیں۔ یہ سب کچھ بہت تیزی سے ہو رہا ہے۔ بوڑھے تِھیو، میری اب بھی شدید خواہش ہے کہ تم سے پھر ایک بار اچھی طرح مل لوں، اس سے پہلے کہ سچ مچ شام ہونا شروع ہو جائے۔ کیا یہ سچ نہیں کہ تب تو تم مجھ سے محبت کی وجہ سے مجھے ملنے آؤ گے ہی؟ ابھی تو ایسا کرنا جلد بازی ہو گا، اس لیے کہ یہ بات پھر میری بیوی سے چھپی نہیں رہ سکتی کہ میں جو کچھ تمہیں لکھ رہا ہوں وہ ہم دونوں کے درمیان ایک راز ہے۔ لیکن جیسے ہی میں اس قابل ہو جاؤں کہ اسے کسی بھی ہچکچاہٹ کے بغیر سب کچھ بتا سکوں، تو تمہیں آنا ہو گا، ٹھیک ہے؟
اب میری تمہیں دل سے کی جانے والی ایک درخواست بھی ہے۔ اس کا کسی سے بھی ذکر مت کرنا، ورنہ مجھ سے پوچھے جانے والے سوالات اور افسوس کے ساتھ لکھے جانے والے خطوط میری جان کو آ جائیں گے۔ کچھ دیر تک تو سب کچھ ایسے نظر آنا چاہیے جیسے یہ سب کچھ میرے بوڑھا ہوتے جانے کا نتیجہ ہے۔ میں نے آج تک اپنے گھر پر جریدوں کی ترسیل بند نہیں کی اور کتب فروش مجھے ہمیشہ کی طرح آج بھی نئی شائع شدہ کتابوں کے پیکٹ بھیجتے رہتے ہیں۔
اب میں دوبارہ آج کی بات کرتا ہوں۔ مجھے اس سے زیادہ کسی بھی دوسری بات کی کوئی خواہش نہیں کہ میں پہلے کی طرح تم سے تحریری گپ شپ کروں۔ اگر تم نے میرے خط جمع کر کے کہیں سنبھال رکھے ہیں، جیسے کہ میں نے تمہارے، تو وہ بھی لازماً پورا ایک بنڈل ہو گا۔ مجھے امید ہے کہ بہت سے خط تو ابھی تمہیں اور ملیں گے، اس لیے کہ میں بعد میں بول کر تمہارے نام خط تو لکھوا ہی سکوں گا۔ لیکن خود میرے اپنے ہاتھ سے تمہارے نام لکھا گیا یہ آخری خط ہے، جو میرے خود نوشتوں میں سے نایاب بھی سمجھا جا سکتا ہے۔
سنو، بس کافی ہو گیا۔۔ تمہاری محبت کے لیے ہمیشہ کی طرح آج بھی دل سے تمہارا شکر گزار،
تمہارا بوڑھا فرانس
(1906)