امر کی آنکھ کھلی تو سارا جسم پسینے سے شرابور تھا– یہ کیسا خواب تھا جو کئی راتوں سے مسلسل اس کا پیچھا کر رہا تھا۔
سانولی نازک سی لڑکی جیسے صنوبر کی شاخ، اس کی کلائیاں تھر کی عورتوں کی طرح سفید کڑوں سے بھری ہوتیں، کبھی کھنڈرات سے نکلتی اور پانی سے بھرے وسیع و عریض تالاب میں کود جاتی، وہ اس کا پیچھا کرتا اور تالاب تک پہنچتا تو پانی اور لڑکی دونوں غائب ہو جاتے، اس کا دل اک عجیب خوف سے گھر جاتا اور تبھی اس کی آنکھ کھل جاتی-
آج بھی ایسے ہی خواب سے جاگا تو اس کے دوست ڈنو، پربھا اور بچایو اس کے سرہانے کھڑے آوازیں لگا رہے تھے ،یہ سب کے سب ایک عرصے سے اس بڑے ٹیلے پر نگاہیں جمائے ہوئے تھے – ڈنو کا خیال تھا اس کے نیچے کوئی بہت بڑا خزانہ دفن ہے اور اگر وہ اس کی تہہ تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے تو ان کے دن پھر جائیں گے۔ اسی چکر میں بڑے ٹیلے سے کچھ دور سندھو دریا سے آنے والی نرم چکنی مٹی کے اونچے نیچے ڈھیر پر خیمہ لگائے بیٹھے تھے اور سوندھی مہک میں بسی زمین کی کھدائی میں دن رات ایک کئے ہوئے تھے۔ اس وقت بھی ان کے ہاتھوں میں کدالیں اور مٹی بھرنے کے تھیلے کندھوں پر پڑے تھے۔
ڈنو کہہ رہا تھا ”امر۔۔ منہنجا بھا، تیری وجہ سے ہم پکڑے جائیں گے۔۔ میں نے تجھ سے کہا تھا صبح ہونے سے پہلے ہمیں اپنا کام ختم کر دینا ہے، مگر تو ہے کہ سویا پڑا ہے“
امر ہڑ بڑا کر اٹھا اور ان کے ساتھ جانے کی تیاری کرنے لگا۔ کئی دنوں کی تگ و دو کے بعد وہ مٹی کی دبیز تہیں ہٹانے میں کامیاب ہو رہے تھے، لیکن یہ کیا۔۔۔۔۔۔ یہ تو اینٹوں اور پتھر سے بنا کوئی قدیم شہر برآمد ہو رہا تھا! وہ بہت مایوس دکھائی دیتے تھے۔ خزانے کی آس دم توڑتی جا رہی تھی۔۔ پھر بھی وہ کھود رہے تھے۔ پسینہ ان کے جسموں سے پانی کی طرح بہہ رہاتھا۔
سورج کی پہلی کرن زمین سے ٹکرائی اور صدیوں سے مٹی کے نیچے دبا حوض، جو کبھی پانی سے بھرا ہوتا ہوگا، واضح ہو کر سامنے آ گیا۔۔ امر چونک گیا۔۔ ’یہ تو بالکل ویسا ہی تھا، جیسا خواب میں نظر آتا ہے۔۔‘ اس نے دل میں سوچا مگر بولا نہیں۔۔ ’اگر انہیں بتاؤں تو ہنسیں گے‘ وہ سوچ رہا تھا — وہ چاروں ملبہ سے اور پر تالاب کی منڈیر پر سستانے کو بیٹھ گئے۔
سامنے جو کھنڈر تھا، وہ کل کی کھدائی میں انہوں نے دریافت کیا تھا۔ تلے اوپر رکھی پکی اینٹوں کی ترتیب اور دیواروں کے آثار بتا رہے تھے یہ کبھی دو منزلہ مکان رہا ہوگا۔ وہ قدیم سندھی زبان میں آپس میں باتیں کر رہے تھے۔ امر ان کے گروپ میں وہ واحد فرد تھا جو آثارِ قدیمہ سے واقفیت رکھتا تھا اور اپنے دوستوں کی رہنمائی پر مامور تھا۔ وہ کہہ رہا تھا، ”تم سب پاگل ہو۔۔ یہاں کوئی خزانہ نہیں۔ ہمیں آثارِ قدیمہ والوں کو ان چیزوں کے بارے میں بتا دینا چاہئے“
”نہ۔۔!“ بھاری بھرکم پربھا زور سے چلایا۔ ”نہ ھانڑیں نہ۔۔ ہو سکتا ہے سونے چاندی کی مورتیاں دبی ہوں یہاں۔۔ ابھی اور کھدائی کرو۔۔ ہمیں پوری رازداری سے کام لینا ہوگا۔ یہ خزانہ کسی اور کے ہاتھ نہ لگنا چاہیے“ وہ زور دے کر بولا۔
پربھا اور بھی جانے کیا کیا کہہ رہا تھا لیکن امر کی نگاہیں اس کھنڈر کی اوپری منزل کے کھڑکی نما خلا کی جانب ٹکی تھیں۔۔ ملگجے اندھیرے میں کوئی سایہ اسے اپنی طرف بلاتا ہوا محسوس ہوا۔ اسے لگا جیسے وہ لڑکی ایک لمحے کو اپنی جھلک دکھا کر اندھیرے میں گم ہو گئی ہو۔۔ وہ کسی مسحور معمول کی طرح اپنی جگہ سے اٹھا اور اس گھر کی طرف قدم بڑھانے لگا۔۔
پربھا اور ڈنو بحث میں لگے تھے لیکن بچایو نے اسے اس طرف جاتے دیکھ لیا تھا ”امر! کہاں جارہا ہے۔۔ ارے او۔۔۔۔ کہاں چلا جا رہا ہے۔۔۔“
مگر اس کے قدم تو آپ ہی آپ بوسیدہ مکان کی جانب بڑھ رہے تھے اور کان جیسے سن ہی نہیں رہے تھے۔۔ وہ تو اپنے اندر کی آواز کو سن رہا تھا، جو جدائی کا گیت الاپ رہی تھی-
سندھڑی ری مار گے اڈی جائے دھول (رستوں پہ دھول اڑ رہی ہے)
وہ اس کھنڈر کی پچھلی جانب پہنچا تو ایک اور ہی منظر اس کے سامنے تھا۔ سورج نکل آیا تھا۔ گلی میں لوگوں کی آمد و رفت جاری تھی۔ بڑے سے چبوترے پر بیٹھی عورتیں چرخے سنبھالے دھاگا کاتتے ہوئے ساتھ میں کوئی گیت گاتی جا رہی تھیں۔ چبوترے کی دو سیڑھیاں اتر کر دھاگے سے کپڑا بُننے والوں کی جیسے کاتا لے دوڑی لگی تھی۔ گلی کے نکڑ پر منچلے نوجوانوں کا گروہ چوسر کھیلنے میں مگن تھا۔
’یہ میں کہاں آگیا ہوں۔۔‘ وہ ابھی اسی حیرانی میں گم تھا کہ پیچھے سے کسی نے کندھے پر ہاتھ رکھا، ”یداس، تم یہاں کیا کر رہے ہو“
اسے جھٹکا سا لگا ’یداس۔۔ یہ مجھے کیا سمجھ رہا ہے۔۔‘ اس نے دل میں سوچا، لیکن خود اسے اپنے اس طرح سوچنے پر عجیب سا محسوس ہوا۔۔۔ اسے لگ رہا تھا، جیسے وہ اس ماحول اور ان لوگوں میں بالکل بھی اجنبی نہیں بلکہ ہمیشہ سے ان سے واقف ہو، ان کے ساتھ ہی گزر بسر کرتا آیا ہو۔۔۔ قدیم انداز کے تہہ بند اور کندھے پر یونانی طرز کی چادر ڈالے وہ سانولا، دبلا پتلا سا نوجوان اسے مسکراتی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا، اس کے انداز میں تنبہیہ تھی۔
نوجوان پھر گویا ہوا ”تم نے مٹی کے کھلونے بنا لئے کیا۔۔ میسوپوٹیمیا میں تیرے ہاتھ کے بنے برتنوں کی دھوم مچ گئی ہے۔ اس بار برتنوں کے ساتھ مٹی کی بیل گاڑیاں اور جانور بھی لے جاؤں گا، میں نے سارا سامان کشتی میں بھر دیا ہے، صرف تیرے حصے کی چیزیں باقی ہیں۔ ہاں، ایک بات اور۔۔۔ اگر ساتھ چلنا ہے تو جلدی بتا دے، بڑی کشتی جانے کو تیار ہے۔“
امر نے جواب میں بس اثبات میں سر ہلا دیا۔۔ اس کی نظریں تو اپنے عکس کو تالاب کے پانی میں دیکھ رہی تھیں۔۔ خود وہ بھی اسی نوجوان کی طرح تہبند پہنے تھا لیکن اس پر چادر نہیں تھی۔ اس کے سر اور داڑھی کے گھنگریالے بال سلیقے سے جمے ہوئے تھے۔ اپنا یہ نیا روپ اسے اچھا لگ رہا تھا۔
اس کی محویت توڑنے کے لئے نوجوان نے پھر متوجہ کیا، ”کیا سوچ رہا ہے چھورا۔۔ دو دن میں تیاری کر لے۔۔ اگر جانا ہے“
”اچھا اچھا“ وہ کوئی اجنبی زبان بول رہا تھا، ”ہاں سوچ کر بتاتا ہوں“
دھیمے سے کہتاہوا وہ وہاں سے چل دیا۔ راستے میں سوچتا جاتا تھا۔۔ ’وہ اجاڑ حلیے والا امر کہاں گیا۔۔ میں تو مٹی کے کھلونے بناتا ہوں۔۔ ابھی تو میں نے کڑھاوے میں تانبے اور رانگ کو ملا کر ایک نئی چیز بھی بنانی سیکھ لی ہے۔۔ ہاں۔۔ کیا کہہ رہا تھا استاد، شائد۔۔ کانسی۔۔۔ ہاں یہی نام تھا۔۔ زیادہ مضبوط برتن بنارہا ہے وہ۔۔ لیکن میں تو کچھ اور بناؤں گا‘ وہ سوچتا ہوا اس مکان کی طرف چل دیا، جس کی کھڑکی میں اکثر ری کھڑی ہوا کرتی تھی۔۔ ری کا خیال آتے ہی دل میں ہلچل سی ہونے لگتی۔۔
ری۔۔۔۔ دبلی پتلی جیسے سینک سلائی۔۔ نام تو اس کا سمبارا تھا پر ماں ری کہتی۔ وہ دڑو کی واحد لڑکی نہ تھی، جس کے رنگ روپ کی کشش نوجوانوں کو اپنا دیوانہ بنائے رکھتی تھی۔ اس سے اور بھی زیادہ سندر کئی لڑکیاں تھیں مگر اس کے رقص میں کچھ ایسا جادو تھا جس نے جلد ہی اسے سارے قصبے میں مشہور کر دیا تھا۔ وہ بھی ہر تہوار پر ایسے تھرکتی، جیسے بڑے دریا گھگرہا میں باڑھ آگئی ہو— تتلی کی طرح کبھی اس ڈال پر تو کبھی اس ڈال پر جھوما کرتی۔۔ ساری لڑکیاں ناچ رہی تھیں لیکن ری ان میں الگ ہی نظر آ رہی تھی حالانکہ نہ سینے کے ابھار اور نہ کولہوں پر نام لینے کو کوئی گوشت۔۔
ماں اس کی طرف غور سے دیکھتی ہوئی بولی ”او۔۔ ری کے بابا! سنتے ہو؟ یہ چھوری ہمیں ضرورکسی مشکل میں ڈال دے گی۔۔ اگر اس کے ناچ کی خبر بڑے پروہت کو ہوگئی تو وہ اسے داسی بنا لے گا“
جندو ری کے باپ سے اپنی فکر مندی کا اظہار کرتی۔ وہ بھی پریشان دکھائی دیتا تھا، مگر تسلی دینے کو کہتا، ”زال، تُوں فکر نہ کر۔۔ یداس سے بات کرتا ہوں۔۔ وہ سٹھو چھورو ہے۔۔ کام بھی کرے ہے۔ سچی بولوں مجھے پروہت کا ڈر ہے۔“ وہ دونوں فکر سے سر جوڑے گہری سوچ میں پڑ گئے
پونم کی رات آنے کو تھی۔ آسمان پر چاند پوری آب و تاب سے دمک رہا تھا- ری پر جیسے دورہ سا پڑ گیا۔ وہ اپنا لبادہ سنبھالتی چپکے سے پچھلی دیوار کی طرف پہنچی، جندو نے بڑے در کے آگے ہی اپنی کھاٹ جو بچھا رکھی تھی- وہ جانتی تھی، اس کی بیٹی چاند کی دیوانی ہے، اسے دیکھ کر اپنے ہوش کھو دیتی ہے۔۔ ناچ ناچ کر پاگل ہو جاتی ہے۔۔ اس نے گھر سے نکلنے کے سارے راستے بند کر دیئے تھے، لیکن پانی کو بہنے سے کون روک سکا ہے۔۔
ری نے اپنے لبادے کی رسی بنائی اور خود کو چھوٹی سی مٹی کی دیوار پر اچھال دیا اور گھگرہا دریا کی طرف بھاگتی چلی گئی۔۔ پیپل کے بڑے درخت کے پیچھے چھپ کر چاند کو دیکھنے لگی۔ دھیرے دھیرے اس کے ہاتھ پاؤں رقص کے انداز میں تھرکنے لگے۔ یہ نرت بھاؤ اس نے خود دریافت کئے تھے۔۔ آج سے پہلے کوئی اس طرح نہ جھوما تھا۔ اس کی کمر اور بازوؤں کی لچک بید کی لکڑی کو شرما رہی تھی۔ اس کے بدن سے لبادہ گر گیا تھا، چاند کی کرنیں اس کے چمکیلے سیاہی مائل نازک جسم سے ٹکرا کر گھگرہا کے ساحل کی نرم ریت میں جذب ہو رہیں تھیں۔۔ اس کے بازوؤں میں ہڈی سے بنے ہوئے کڑے دودھ کی طرح دمک رہے تھے۔ درختوں کی اوٹ میں چھپ کر کوئی اسے دیکھ رہا تھا۔۔ یہ ویداس تھا۔۔ ری کے رقص کے نرت میں کھویا ہوا تھا۔ اس کے بھاؤ کو اپنی نگاہ میں سمو کر اپنے دھیان میں بٹھا رہا تھا۔۔ دفعتاً اس کے دماغ میں کوندا سا لپکا- ’نئی دھات کے پانی سے ڈھالوں گا۔۔ مجسمہ۔۔۔ ری کا مجسمہ—- ری میری پیاری تجھے امر کر دوں گا —— امر —‘ یہ لفظ کچھ مانوس سا محسوس ہوا پر اسے کچھ یاد نہ تھا۔۔ وہ جوش میں ری کے سامنے آ گیا، جو اب تھک کر زمین پر گر چکی تھی۔ سارے بدن پر پسینے کی بوندیں، سیاہ ریشمی پھول پر شبنم کے قطروں کی طرح دمک رہی تھیں۔۔ ویداس نے قریب پڑا لبادہ اٹھا کر اس کے عریاں بدن کو ڈھانپ دیا۔ ری کی آنکھیں بند تھیں، لیکن اس کے چہرے پر پھیلی مسکراہٹ بتا رہی تھی۔۔ وہ آنے والے کو خوب جانتی تھی، مگر ری کو پتا نہ تھا، پروہت کی خواب گاہ کی کھڑکی دریا کے اسی کنارے کی طرف کھلتی تھی اور اس وقت بھی اس کی شاطر نگاہیں ادھرہی لگی تھیں وہ اپنے ہونٹوں پر زبان پھیر رہا تھا اور دماغ کسی گہری منصوبہ سازی میں لگا تھا۔
پروہت شمال کی طرف سے یہاں آیا تھا۔ وہ قد آور تھا اور اس کی رنگت گیہوں کے دانے کی طرح تھی۔ وہ راجا کو اتنا پسند آیا کہ وہیں رہنے لگا۔ راجہ نے اپنے برابر کرسی بچھوائی اور اسے پروہت کا نام دیا۔ وہ جو کہتا، راجہ وہی کرتا۔ کسی کو بھی پسند نہیں تھا کہ راجا سپاہی بھرتی کرے۔ اب سے پہلے وہ آزادی سے گھومتے، کپاس اگاتے اور کپڑا بناتے، مٹی کے برتن اور کھلونے بناتے۔۔ انہیں دور دراز کی بستیوں میں کشتی کے ذریعے بیچنے کو جاتے، لیکن جب سے پروہت آیا، وہ جیسے خود کو قیدی سمجھنے لگے۔ لڑکیاں اسے بہت پسند تھیں۔۔ پہلے راجا کی صرف ایک رانی تھی، لیکن اب تو جو لڑکی اچھی لگتی، راجہ کے سپاہی اٹھا لے جاتے۔۔ وہ ایک رات اس کے ساتھ رہتی پھر پروہت کی داسی بنا دی جاتی۔ وہ اس کی خدمت کرتی پھر کچھ دن میں کوئی نئی لڑکی اس کی جگہ لے لیتی۔
ری کو ناچتے دیکھ کر پروہت کو خیال آیا، ناچنے والی داسی۔۔۔ یہ اور تو کوئی کام کی نہیں۔۔۔ پر ناچ کر میرا دل بہلائے گی۔۔ وہ مکاری سے زیر لب مسکرا رہا تھا۔
دن چڑھ آیا تھا ۔ ری ابھی تک اس چوکڑی نما چارپائی پر سو رہی تھی جو اس کے باپ نے سفید موٹی نرم روئی اپنے ہاتھوں سے بٹ کر بنائی تھی۔ اسے یہ چوکڑی بہت پسند تھی، جب لیٹ جاتی تو اٹھنے کا نام نہ لیتین اس وقت بھی ماں کی تیز آواز کانوں سے ٹکرا رہی تھی۔ وہ سب کھیت جانے والے تھے۔ روئی چگنے کے دن تھے۔ ماں چلا رہی تھی ”او — ری — اٹھ جا— سیندوری گائے کو چارہ ڈال۔“
ری نے آنکھیں ملتے ہوئے سوچا۔۔ ’یہ ماں بھی بس ایسی ہی ہے۔۔ خود بھی گائے بکریوں میں گھسی ہے، مجھے بھی ایسا ہی بنانا چاہتی ہے۔۔ بھائی سے کیوں نہ کہتی۔۔ مجھے یہ کام اچھا نہ لگے‘
”ہاں تو پھر کیا کرے گی۔۔“ ماں چلائی
’ہیں۔۔۔!‘ وہ چونکی، ’میں نے منہ سے تو کچھ نہیں کہا۔۔ یہ ماں کو کیسے پتا چل گیا۔۔‘ اس کا نوخیز ذھن خالی تھا۔ کروٹ بدل کر دوبارہ سونے کی کوشش کی۔۔ دھڑ دھڑ کرتے کوئی اندر آگیا تھا- ’بھائی اور بابا کھیت جا چکے تھے۔ پھر یہ کون ہے-‘ اس نے دہل کر سوچا —–
باہر ماں کی آواز آنا بھی بند ہو گئی تھی۔ اس نے لیٹے لیٹے ہی کھلے در سے آنگن میں جھانکا۔ سامنے راجہ کے آدمی کھڑے تھے۔۔ انہیں سوال کرنے کی اجازت نہ تھی اور نہ وہ کچھ بولے، بس تیزی سے اندر کمرے میں آئے اور اسے دھکیلتے اپنے ساتھ لے گئے۔۔ ری نے پیچھے مڑ کر دیکھا ماں گھٹنوں میں سر دیئے بیٹھی تھی- اس کا سر اور بدن ہچکولے لے رہا تھا۔ ری سمجھ گئی۔ وہ چپکے چپکے رو رہی تھی —— ری کے چہرے پر حیرت اور خوف جیسے جم گیا تھا —— دماغ میں ان گنت سوال اٹھ رہے تھے لیکن زبان پر تالا لگ گیا تھا۔
وہ اندھیری کوٹھری میں اوندھے منہ زمین پر پڑی تھی۔۔ مٹی میں سیلن کی بو بسی ہوئی تھی- وہ سمجھ گئی، کہیں پاس میں دریا ہے۔۔ اچانک جیسے اس کی حِسَّیں تیزی سے کام کرنے لگی تھیں-
اس نے اٹھنے کی کوشش کی، مگر پاؤں میں دھاتی کڑے اور اس میں پڑی موٹی مونجھ کی رسی نے وہیں روک دیا۔۔ وہ پھر زمین پر گر گئی۔ آنسو گالوں سے بہہ کر سیلی مٹی میں جذب ہونے لگے۔۔ تبھی لکڑی کا بھاری در چرچرایا۔۔ کوئی گھونگھٹ منہ پر ڈالے اندر آ گیا تھا۔
ری نے سوچا — راجہ کی کوئی داسی ہے اسے سجانے کو آئی ہے، تبھی اس کے ہاتھ میں کپڑے سے ڈھکا بڑا سا تھال تھا۔۔ ری نے لیٹے لیٹے کنکھیوں سے اسے دیکھنے کی کوشش کی۔ پھر اس نے اپنی چھلی ہوئی کلائیوں کی طرف دیکھا، اس سے پہلے آنے والی دو داسیاں ہڈی کے کڑے اتار کر کسی قیمتی دھات کے کڑے ڈال گئی تھیں اور بتا گئی تھیں آج کی رات وہ راجہ کے محل میں رقص کرے گی۔۔ اس کا دل امڈ رہا تھا۔۔ وہ تو صرف اپنے لئے ناچتی تھی۔ جیسے مور خوش ہو کر ناچتا ہے، وہ بھی ناچتی تھی۔۔ پھر کیوں ناچے کسی کے لئے۔۔۔ تبھی اس گھونگھٹ والی نے تھال اس کے پاس رکھ کر، گھونگھٹ الٹ دیا- وہ اچھل پڑی۔۔ آنے والا ویداس تھا- اس نے ہونٹوں پہ انگلی رکھ اسے خاموش رہنے کا اشارہ کیا
ڈنو، پربھا اور بچایو سے چھپ کر امر نے محکمہ اثار قدیمہ کو ان کھنڈرات کے بارے میں بتا دیا تھا۔۔ کوئی پچاس سے زیادہ کارکنوں نے بیلچے اور پھاوڑے سنبھال رکھے تھے، جنہوں نے بڑی تیزی سے مٹی کی صدیوں پرانی تہوں کو ہٹا ڈالا تھا۔ کھدائی اپنے آخری مراحل میں تھی۔۔ ایک کارکن کی کدال چھن سے کسی چیز سے ٹکرائی۔ سپر وائزر نے اسے ہدایت دی ”ہلکے اوزار لاؤ۔۔یہاں کچھ ہے- کہیں ٹوٹ نہ جائے۔۔“ یہ کوئی تہہ خانہ تھا، جہاں وہ کھڑے تھے۔
سامنے روزن کی ٹوٹی ہوئی انیٹیں کوئی کہانی سنا رہی تھیں۔ مٹی کی تہہ سے کسی پتلی دبلی سینک سلائی عورت کا کانسی کا مجسمہ برآمد ہو گیا تھا جو رقص کے انداز میں ایک ہاتھ کمر پر اور دوسرا ہوا میں لہرا رہی تھی۔ اس کے بازو تھر کی عورتوں کی طرح کڑوں سے بھرے تھے اور تن پر کوئی لباس نہ تھا۔۔ امر جو قریب ہی موجود تھا بے اختیار بول اٹھا ”سمبارا۔۔“
وہ سب چونک کر اسے دیکھنے لگے۔۔ مگر وہ تو کسی اور ہی دنیا میں کھویا ہوا تھا۔۔ وہ اس جگہ کو “موئن جو دڑو‘ (مُردوں کا ٹیلہ) کہہ رہے تھے۔
’موئن جو دڑو۔۔‘ امر نے خود کلامی کی، ’یہ کیسے ہو سکتا ہے۔۔ اس سے زیادہ زندہ تو کوئی نہ ہوگا۔۔ یہ تو ’جیئرن جو دڑو‘ (زندوں کا ٹیلہ) ہے‘
اس کے چہرے پر مطمئن سی مسکراہٹ کھیل رہی تھی جبکہ اس کے تینوں دوست اس سے سخت ناراض تھے۔ وہ سوچ رہا تھا کوئی بات نہیں میں جلد ہی انھیں منا لوں گا۔۔
انہی دنوں میسوپوٹیمیا میں بھی کھدائی کے دوران کسی کشتی کے آثار ملے، جس میں بالکل ویسے ہی کھلونے، مٹی کے نقشیں برتن اور کانسی کی مہریں دریافت ہوئیں، جیسی موئن جو دڑو۔۔ نہیں جیئرن جو دڑو سے ملی تھیں۔۔
کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی۔۔ ہزاروں برس سے دبی مٹی کی دبیز تہوں کے نیچے ان گنت کتنی کہانیاں پوشیدہ ہوں گی۔ کون جانے کب کس کی رسائی ان تک ہو جائے اور میں یا کوئی اور اپنے قاری تک پہنچا دے۔۔