شیلٹر ہوم میں عید منانے والی افسانہ نگار

زعیم ارشد

عید کی آمد آمد تھی، لوگ اپنے اپنے طریقہ سے عید منانے کی تیاریوں میں مصروف تھے، فوٹو جرنلسٹ اور ٹی وی اینکر پرسن ربابہ میرزئی بھی اپنی عید کوریج کے سلسلہ میں شہر سے باہر ایک شیلٹر ہوم یا بوڑھے اور نادار لوگوں کی پناہ گاہ آئی ہوئی تھی۔ اس کا یہ پروگرام عید والے دن ٹی وی پر نشر ہونا تھا، جس میں یہ دکھایا جانا تھا کہ اپنوں سے دور شیلٹر ہوم میں بوڑھے اور نادار لوگ کس طرح عید مناتے ہیں، وہ ان لوگوں کے لئے کافی سارے تحائف بھی لے کر آئی تھی، جن میں کپڑے، مٹھائی اور دیگر روز مرہ استعمال کی اشیاء شامل تھیں۔

یہ ایک خواتین کے لئے مخصوص پناہ گاہ تھی، وہ ہال میں موجود خواتین سے ہلکے پھلکے انداز میں بات چیت کر رہی تھی اور مذاق مذاق میں ان سے زندگی کی تلخ اور چبھتی ہوئی یادوں کے بارے میں بھی پوچھتی جا رہی تھی۔ عمومی خواتین یہاں کے ماحول، آرام اور آسانیوں سے تو مطمئن تھیں مگر قرابت داروں اور رشتہ داروں کے سرد رویوں اور بے رخی پر رنجیدہ و شکوہ کناں تھیں، کچھ کا کہنا تھا کہ بھائی بہانے سے چھوڑ گئے، کچھ اس بات پر نالاں تھیں کہ کوئی اور قریبی رشتہ دار کچھ دن کا کہہ کر چھوڑ گئے تھے مگر پلٹ کر نہیں آئے۔

اتنے میں ربابہ کی نگاہ الگ تھلک بیٹھی ایک بہت ہی باوقار و بردبار خاتون پر پڑی جو غیر معمولی طور پر مطمئن و پرسکون نظر آرہی تھیں۔ ان کی شخصیت میں کچھ ایسا ضرور تھا کہ ربابہ ان کی جانب کچھی چلی گئی، ان کا چہرہ کچھ جانا پہچانا سا بھی لگ رہا تھا۔ ان خاتون نے جب اینکر پرسن کو اپنی جانب آتے دیکھا تو زرا سنبھل کر بیٹھ گئیں، سلام کرنے پر بڑے تپاک سے مسکرا کر جواب دیا، ربابہ یہ سوچنے پر مجبور ہوگئی کہ یہ اس قدر مطمئن اور پرسکون کیوں ہیں، جبکہ یہاں موجود ہر عورت رونا دھونا مچا رہی ہے، کوئی رشتہ داروں کی بے رخی کا تو کوئی انتظامیہ کی بے حسی کا۔۔ مگر یہ خاتون سب سے جس طرح الگ بیٹھی تھیں، بالکل اسی طرح ان کی شخصیت بھی سب سے الگ اور منفرد تھی۔

ربابہ نے سلام کر کے پوچھا کہ آپ کیسی ہیں، تو انہوں نے نہایت ہی اعتماد سے کہا کہ میں بالکل ٹھیک ہوں، اللہ کا بڑا کرم ہے۔ تب ربابہ سے نہ رہا گیا اور اس نے ان سے استفسار کیا کہ یہ بتائیں کہ دوسروں کی نسبت آپ خاصی پرسکون و خوش ہیں اس کی کیا وجہ ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ بے چین و پریشان رہنے سے کیا حاصل ہوگا، محض ذہنی دباؤ، بے چینی اور خوامخواہ کی پریشانی۔۔ لہٰذا بہتر یہی ہے کہ خود کو اللہ کی مرضی کے حوالے کر کے حالات کے دھارے پر چھوڑ دیا جائے۔

ربابہ کو ان کی آواز بھی مانوس سی لگی۔

ربابہ کا استعجاب دوگنا ہو گیا اور وہ ٹیم کے ساتھ ان کے پاس جا بیٹھی، کہنے لگی کہ کچھ اپنے بارے میں بتائیں، یہاں کیسے پہنچیں؟ کچھ اپنی فیملی کے بارے میں بتائیں، تو پہلی بار ایسا لگا جیسے وہ خاتون کچھ پریشان سی ہوگئی ہوں، مگر انہوں نے فوراً ہی خود کو سنبھالا اور مسکرا کر کہنے لگیں کہ کچھ خاص نہیں، کیا بتاؤں، بہت عام سی بات اور عام سی زندگی کی کہانی ہے، کچھ کہنے سننے کو بچا نہیں جو بیان کیا جاسکے۔

مگر ربابہ کو لگ رہا تھا کہ یہ عام نہیں بلکہ کوئی بہت ہی خاص خاتون ہیں جو اپنی زندگی کے متعلق بات کرنے سے کترا رہی ہیں۔ وہ بھی ایک تجربہ کار صحافی تھی، مسلسل کریدتی رہی، آخر کار وہ خاتون اپنی کہانی سنانے پر راضی ہوگئیں۔

وہ سیدھی ربابہ کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہنے لگیں، کہ میرا نام ناجیہ مسطور ہے۔ ربابہ کو جیسے بجلی کا جھٹکا لگا، وہ قریب قریب چیخ اٹھی، آپ پروفیسر ناجیہ مسطور ہیں، مشہور شاعرہ، افسانہ نگار، کہانی نویس؟ تو انہوں نے نہایت ہی اطمینان سے کہا کہ ہاں میں ہی ناجیہ مسطور ہوں۔ میرا تعلق ایک کھاتے پیتے گھرانے سے ہے، میرے والد تجارت کیا کرتے تھے اور ہم کل چھ بہن بھائی ہیں۔ بچوں میں میرا نمبر دوسرا اور لڑکیوں میں پہلا ہے۔ میں جس دن پیدا ہوئی میرے والدین کو خوشی کے ساتھ ساتھ دکھ بھی سہنا پڑا، وہ یوں کہ دایہ نے جیسے ہی نہلا دھلا کر مجھے والدہ کو دیا، اور کہا کہ مبارک ہو پیاری سی بیٹی ہوئی ہے، ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا کہ بیٹی ایک ہاتھ سے معذور ہے۔ والدین پر تو جیسے غم کے پہاڑ ٹوٹ پڑے کہ بیٹی، وہ بھی معذور۔۔ وہ آنے والے وقت کی مشکلات کو تصور میں دیکھ رہے تھے۔

خیر وقت گزرتا گیا اور میں اسکول جانے لگی۔۔ اسکول میں کلاس کی لڑکیاں اور کبھی کبھی استانیاں بھی مجھے عجیب نظروں سے دیکھتی تھیں، جو مجھے بہت ہی تکلیف دہ محسوس ہوتا تھا۔ وقت گزرتا رہا اور میں اسکول سے کالج اور پھر یونیورسٹی تک آ پہنچی، ماسٹرز کرنے کے بعد میں ایک گورنمنٹ گرلز کالج میں لیکچرر لگ گئی، میری پینشن آج بھی مجھے ملتی ہے۔ اس دوران میرے چند رشتے بھی آئے مگر ظاہر ہے وہ میری معذوری کے تناظر میں عمر رسیدہ، پہلے سے شادی شدہ یا غریب ہوتے تھے، جو ہمارے خاندان کے ہم پلہ نہیں ہوتے تھے تو والدین انہیں مسترد کر دیا کرتے تھے، اس دوران ایک کے بعد ایک چھوٹی بہنوں اور بھائیوں کی شادیاں ہوتی چلی گئیں، میں بیٹھی کی بیٹھی ہی رہ گئی، مگر میں ٹیچنگ، شاعری اور افسانہ نگاری کیا کرتی تھی تو وقت اچھا خاصہ مصروف گزر رہا تھا۔

اس دوران عمر ریٹائرمنٹ کی تک آ پہنچی تھی، اس عمر میں ہمارے معاشرے میں عموماً لوگ مکمل صحت مند لڑکیوں سے شادی نہیں کیا کرتے ہیں تو پھر ایک ہاتھ سے معذور کو بھلا کون اپناتا۔۔ میری جاب سے ریٹائرمنٹ بھی ہو گئی، اسی دوران والد صاحب دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے، گھر کے ماحول میں تبدیلی آنا شروع ہوگئی، بھابھیاں بھائیوں کو لے لے کر الگ الگ گھروں میں منتقل ہوگئیں۔۔ جو ذمہ داریوں سے زیادہ فرار چاہتی تھیں، وہ دوسرے شہر جا بسیں، مگر والدہ کا ساتھ تھا، بہت ہمت تھی، ہم ہنسی خوشی اپنے آبائی گھر میں وقت گزار رہے تھے، کوئی تنگی نہ تھی۔۔

چند سال بعد والدہ کا بھی انتقال ہوگیا، اب میں بالکل تنہا رہ گئی تھی، والدہ کے ساتھ ایک بہت ہی عجیب سا تعلق بن گیا تھا، ہمارے عمومی رویے بڑے دوستانہ ہوا کرتے تھے، ہم دونوں ماں بیٹی کی بجائے اب سہیلیوں کی طرح رہا کرتے تھے، ہم لڑتے تھے، بحث کیا کرتے تھے، ڈرامہ دیکھتے تھے، ان پر تبصرے کیا کرتے تھے، غرض محدود مگر اچھی زندگی چل رہی تھی، کہ والدہ کے انتقال نے مجھے بالکل تنہا اور توڑ کر رکھ دیا تھا۔ اتنے بڑے گھر میں اب میں بالکل اکیلی رہ گئی۔۔

کچھ عرصہ بعد بھائی اس بات پر آپس میں جھگڑنے لگے کہ باجی کو تم رکھو اپنے پاس تو دوسرا کہتا تم رکھو اپنے پاس۔۔ بھابھیوں کے اصل چہرے اور رویے بھی کھل کر سامنے آگئے تھے جو نہایت ہی تکلیف دہ اور پریشان کن تھے۔ کوئی بھی میری ذمہ داری اٹھانے کو تیار نہ تھا، بالخصوص کوئی بھی بھابھی مجھے اپنے گھر رکھنے اور میری ذمہ داری اٹھانے کو تیار نہ تھی حالانکہ ان میں زیادہ تر میری چچیری یا خالہ زاد تھیں۔

زندگی کا یہ رخ میرے لئے بھی نہایت تکلیف دہ تھا کہ میں نے ایسی بے قدری کا تو کبھی گمان بھی نہ کیا تھا، وہ بھی بھائیوں کے ہاتھوں۔۔ بہر کیف وقت اب بھی گزر رہا تھا اور تکالیف تھیں کہ بڑھتی ہی جا رہی تھیں۔ بھائیوں اور بھابھیوں کے ساتھ ساتھ اب ان کی اولادیں بھی آنکھیں دکھانے لگیں تھیں۔

میں، جسے والدین نے کبھی تُو نہ کہا تھا، اب روز ہی کسی نہ کسی چھوٹے بھائی کے ہاتھوں ذلت کا شکار ہو رہی ہوتی تھی۔ عموماً بھائی بھابھیوں کی کہی ہر بات کو سچ مان کر میری بے عزتی کر دیا کرتے تھے، اب یہ عادت اتنی پختہ یا میری حیثیت اتنی کم ہو کر رہ گئی تھی کہ وہ مہمانوں کی موجودگی میں بھی بلا تکلف میری تذلیل کرنے سے نہیں چوکتے تھے۔ غرض بہت سارے خون کے رشتے ہونے کے باوجود میں تنہا، پریشان اور بے وقعت ہوکر رہ گئی تھی۔۔ غیر لوگ میری حالت زار پر ترس کھایا کرتے تھے، مگر اپنوں کو مجھ پر ترس نہیں آتا تھا، کہ ایک دن میرے موبائل پر اس اولڈ ہاؤس کا ایک مارکیٹنگ کا پیغام آیا، میں نے اسے غیبی امداد سمجھا اور ان لوگوں سے رابطہ کیا، ان لوگوں نے میری بڑی ہمت بندھائی۔۔

عموماً ایسا ہوتا تھا کہ بھائی اور ان کے گھر والے مجھے تنہا گھر پر چھوڑ کر گھومنے پھرنے یا رشتہ داروں کو ملنے چلے جایا کرتے تھے، ایک دن جب وہ سب ایسے ہی گھر سے باہر گئے ہوئے تھے، میں نے ان اولڈ ہاؤس والوں کو فون کیا اور کہا کہ مجھے ایک گھنٹے کے اندر اندر یہاں سے لے جائیں۔

جتنی دیر میں یہ لوگ گھر پہنچتے، میں نے ایک خط بھائیوں کے نام لکھا اور بتا دیا کہ میں اپنی مرضی سے اولڈ ہاؤس منتقل ہورہی ہوں۔ گھر کو تالا لگا کر میں ان لوگوں کے ساتھ یہاں آ گئی، آج تین سال ہوگئے ہیں، نہ کسی نے مجھ سے رابطہ کیا نہ ملنے آیا۔

وہ یہ سب باتیں اتنی ہمت اور روانی سے کہہ رہی تھیں کہ لگ رہا تھا کہ جیسے وہ اپنی نہیں بلکہ کسی اور کی داستان سنا رہی ہوں، مگر ان کے گالوں پر بہتے آنسو ان کی دلی کیفیت کی بطریق احسن ترجمانی کر رہے تھے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close