بیرونِ ملک سات برس گزارنے کے بعد میں موسمِ گرما میں ریو ڈی جنیرو پہنچی۔ سات طویل برسوں بعد فلیٹ کا دروازہ کھولا تو اندر ہر چیز پر پھپھوندی جمی تھی۔ اگر یہ پھپھوندی نہ ہوتی تو مجھے ایسا محسوس ہوتا کہ میں یہاں سے کہیں گئی ہی نہیں۔ بند گھر کی بُو ناقابلِ برداشت تھی مگر میں اندر داخل ہوئی۔ میں نے ہال کی بڑی کَسی کھڑکی کھولی۔ کھڑکی، جس کا شیشہ سیاہ اور فریم قیمتی لکڑی کا بنا تھا۔ کھڑکی کھولتے ہی لُو کا تھپیڑا میرے چہرے سے ٹکرایا۔ میرے روم روم سے پسینہ پھوٹ پڑا، جس سے میرا لباس مکمل بھیگ کر جسم سے چپک گیا۔ میں کئی سال بعد اس طرح پسینے میں بھیگی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا میں برستے مینہ میں کھڑی ہوں۔
آخر کار اچانک میری سمجھ میں آگیا کہ میں کیوں واپس آئی۔ یہ بات دراصل میرا جسم سمجھا، جو یورپ کی سخت اور خشک سردی میں بے چین اور بیمار رہتا تھا۔ جہاں ہوا میں اتنی نمی تھی کہ سانس لینا دشوار تھا، وہاں ہمہ وقت سر میں درد رہتا تھا۔ میرے ذہن کے کسی گوشے میں امڈنے سے پہلے میرے جسم نے مجھے سمجھا دیا کہ میں ریو ڈی جنیرو کیوں واپس آئی۔ یہاں میرے جسم کو سکون ملتا تھا، گھر جیسا سکون۔
٭
کچھ دن پہلے میں بیدار ہو کر کھڑکی سے باہر جھانکنے لگی، ہر چیز پر سرمئی دھند لپٹی ہوئی تھی۔ تم جب ملنے آئے تو تمہارے چہرے کو دیکھتے ہی میں نے فیصلہ کر لیا کہ میں واپس جاؤں گی۔ ’کیا یہاں کچھ مسئلہ ہو گیاہے؟‘ تم نے سوال کیا۔ ’نہیں! بس میں وہاں کچھ وقت گزارنا چاہتی ہوں۔‘ تم نے ایک آہ بھری مگر تمہارے چہرے پر کچھ ایسے تاثرات تھے کہ میرے فیصلے کو تقویت مل گئی۔ تم نے کچھ بھی نہ کہا صرف ایک سگریٹ سلگا لیا۔ تھوڑا سا وقت۔
٭
ہم کتنی تکلیف دہ خامشی سے جدا ہوئے۔ دونوں صرف مسکرا دئیے، جیسے دوبارہ جلد ہی ملیں گے۔ اب یہاں اس پھپھوندی لگے گھر میں صوفے پر بیٹھی، یہی سوچ رہی تھی کہ ایک محبت کے بدلے دوسری قربان کرنا کتنا مشکل ہوتا ہے۔
٭
ہم دونوں صرف ایک بار ریو آئے تھے۔ میں یہاں سے جان چھڑانا چاہ رہی تھی اور تم یہاں کی ہر چیز میں دل چسپی لے رہے تھے۔ ہم دوبارہ اکٹھے یہاں کیوں نہیں آئے؟ کیا یہاں اکیلے آنا بے وفائی کہلائے گا؟ اب میں کیا کہوں کہ مجھے اس وقت تنہائی چاہیے۔ اس شہر میں، جہاں راتیں جاگتی ہیں، مجھے تنہائی کی ضرورت تھی۔ اسی تنہائی کے لیے میں یورپ گئی تھی اور وہاں مجھے تم مل گئے۔ سات برس کیسے گزرے، پتا ہی نہیں چلا مگر پھر اچانک اس شہر کی آوازیں مجھے اپنے اندر گونجتی سنائی دیں۔ جیسے بچپن کا اوجھل پیار اچانک آپ کے سامنے آ جائے، ایسے ہی یہ شہر مجھے بلا رہا تھا۔ کیا ہو اگر مجھے یہ فیصلہ واپس لینا پڑے تو کیا تم میرا نتظار کرو گے؟
٭
پہلا کام ، گھر کی مکمل صفائی تاکہ یہاں سانس لینا ممکن ہو سکے۔ میں یہاں سانس لینے تو آئی تھی۔
٭
موسمِ گرما میں بارشوں کی آمد سے پہلے ایک عجیب خاموشی طاری ہو جاتی ہے۔ ویسی ہی خاموشی، جو کسی طوفان کے آنے سے پہلے برپا ہوتی ہے۔ مجھے تو ایسا لگتا تھا کہ ہر چیز تہ و بالا ہونے والی ہے۔ مجھے پتا نہیں چند چیزوں کے ہونے سے قبل کے چند لمحات کیوں بے حد پسند ہیں، جیسے ایک جذبات سے بھرپور بوسے سے قبل کی ساعتیں، ایک میراتھن دوڑ کی اختتامی لکیر کو پار کرنے سے پہلے کے لمحے اور ریو ڈی جنیرو میں بارشوں کے موسم سے قبل کے پل، میری کم زوری ہیں۔ اسی موسم کے لیے، جو مجھے بےحد خوشی دیتا ہے، میں یہاں آئی تھی۔ ان چیزوں کی خوشی جو آئندہ ہونے والی تھیں۔
٭
جیسے ہی کیبل کار بلند ہوئی، تم ذرا پریشان ہوگئے، جب کہ میں بے حد پُرجوش تھی۔ یہ بلند پہاڑی مقام وہ واحد جگہ ہے، جہاں میں جب بھی جاتی ہوں، ایسا لگتا ہے کہ پہلی بار آ رہی ہوں۔ مجھے بلندی سے دنیا دیکھنا پسند ہے۔ اس بلندی سے جب میں پانی کی وسعتیں اور اس کی پُر زور لہروں کو چٹانوں سے ٹکراتے ہوئے دیکھتی ہوں تو ایسا محسوس ہوتا کہ میں برازیل کو پہلی بار کھوجنے نکلی ہوں۔ اس منظر کو دیکھ کر مجھے لگتا کہ میں پانچ سو سال پہلے پہنچ چکی ہوں اور اسی خلیج میں اپنے بادبانی جہاز کو لنگر انداز کرتے ہوئے اس منظر کی خوب صورتی میں گم ہو چکی ہوں۔
٭
ایک ہفتہ مسلسل صفائی کے بعد پھپھوندی صاف ہو چکی ہے مگر ابھی تک سیلن بھری بُو غائب نہیں ہو سکی ہے۔
٭
جب اکتاہٹ حد سے بڑھ جاتی ہے تو میں تیراکی کرنے چلی جاتی ہوں۔
٭
ریو ڈی جنیرو کے باسیوں کی زندہ دلی کا کیا راز ہے؟ پسینے سے جسم کے پٹھے رواں ہوتے ہیں اور ہم ناچنا شروع کر دیتے ہیں۔
٭
تم نے بھرپور اصرار کیا کہ تمہیں ریو کا مشہورِ زمانہ ناچ دیکھنے جانا ہے، جس میں پورا ریو امڈ آتا ہے۔ مرد، عورتیں، بھائی، بہنیں، شوہر، بیویاں یہاں تک کہ اجنبی بھی ایک دوسرے کی بانہوں میں بانہیں ڈال کر ایک دائرے میں ناچتے ہیں۔ سب پہلے اپنی ایک ٹانگ اٹھاتے ہیں، پھر دوسری۔۔ گویا وہ کئی بدن یک جان بن جاتے ہیں۔ پسینہ ان کے لیے زحمت نہیں بلکہ ان کے لیے عمل انگیز کا کام کرتا ہے۔
مجھ سے ریو کے کارنیوال Carnivalکے بارے میں مت پوچھو، میں تمھیں پہلے ہی بتا چکی ہوں۔
٭
کتابیں ابھی تک فرش پر ہیں جب کہ کپڑےایک طرف ڈھیر ہیں۔ کتنا مشکل ہوتا ہے، کسی ادھوری کہانی کو ادھورا چھوڑ کر مکمل کرنا یا پرانی زندگی کی دوبارہ شروعات کرنا۔۔
٭
میں ہر جمعے کو پھول خرید کر انہیں گل دان میں سجاتی۔یہ اس خشک ملک میں میری راحت کا سامان تھا۔ ہر جمعے میں تازہ پھول خریدتی اور پورا ہفتہ ان کو دیکھ کر حظ اٹھاتی۔
یہاں پھولوں کی فراوانی ہے۔ پھولوں کے رنگ گہرے اور بارش میں تو گویا ان رنگوں میں آتشی پن نمایاں ہو جاتا ہے۔ یہاں میں پھول نہیں خریدتی۔
٭
’میں ابھی ٹکٹ خرید کر ریو آرہا ہوں۔‘ تمہارے اس فقرے پر میں نے کتنے خشک انداز میں ’نہیں‘ کہا۔
٭
میں رات گیارہ بجے گھر سے نکلی اور ساحل کی طرف روانہ ہو گئی۔ کتنے سالوں بعد میں نئے سال کی رات اکیلے منا رہی تھی۔ ساحل پر لوگوں کا ایک ہجوم تھا۔ میں نے اپنے سینڈل اتار کر ہاتھ میں لیے اور گیلی ریت کو اپنے پیروں تلے محسوس کیا۔ اس ہجوم سے گزر کر میں سمندر کے پاس پہنچی۔ میرے ہاتھ میں چار پھول تھے۔ تین میں نے اپنے بزرگوں کا نام لے کر بہا دئیے، جب کہ چوتھا پھول تمہارے لیے تھا۔ پھول بہا کر میں واپس چل دی۔ بس ایک بار مڑ کر آتش بازی دیکھی اور اپنے گھر واپس آ گئی۔ اس وقت ریو کا ہر باشندہ سڑک پر تھا، سب نئے سال کا جشن منا رہے تھے۔
٭
1770 میں ایک مورخ نے تحقیق کی کہ ہوا میں شدید نمی کے باعث ریو کے باسی غیر معمولی طور پر سست ہوتے ہیں۔
٭
ریو کے باسیوں کی زندہ دلی کی ایک اور توجیہ، اداسی ان کے پوروں کے ذریعے بہ جاتی ہے۔
٭
ریو کے باسی اداسی کے ساتھ نہیں جی سکتے۔ اداس ہوں گے تو سمندر میں ڈبکی لگا لیں گے، ٹھنڈی بیئر پئیں گے یا سامبا ناچیں گے۔ اسی لیے مجھے واپس آنا پڑا۔ میں خوش رہنا چاہتی تھی، نہ کہ خوش رہنے کی اداکاری کر کے زندگی بسر کرنا۔۔
٭
فون کے دوسری طرف تمہاری اداس اور لرزیدہ آواز مجھ سے سوال کر رہی تھی کہ کیا تم ایک شہر کو مجھ پر فوقیت دے رہی ہو؟
٭
آہستہ آہستہ میں اس زندگی کی عادی ہوتی جا رہی ہوں۔ یورپ کی خشکی میرے بدن سے جَھڑ رہی ہے۔ پسینے کی بوندوں نے مہمیز کا کام کیا ہے۔ میں اب یہاں خوش ہوں۔
٭
فون پر میں نے تمہیں کہہ ہی دیا کہ میں کچھ سوچ کر جواب دوں گی۔
٭
میرا جسم اب رواں ہوتا جا رہا ہے۔ ہڈیوں میں بسی سردی اور خشکی جیسے میرا جسم چھوڑتی چلی جا رہی ہے۔ میں بڑے پارک میں بائیسکل چلاتی ہوں اور مجھے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے میں بہت خوش ہوں۔
٭
مجھ سے اس قسم کے سوال نہ کرو۔ میں اپنی خود غرضانہ سوچ پر شرمندہ ہوں۔ تمہارے لیے وقت ٹھہرا ہوا ہے ،مگر میں اس میں جی رہی ہوں، اسے محسوس کر رہی ہوں۔
٭
آج فون کی گھنٹی بجتی رہی مگر میں نے فون نہیں اٹھایا۔ آج میں نے اپنا سامان قرینے سے رکھ لیا ہے۔
٭
آج جب میں سائیکل چلا کر واپس آئی تو اس بات پر بے حد شرمندگی ہوئی کہ مجھے کوئی ملال محسوس نہیں ہو رہا تھا۔
٭
مجھے ریو کی ایک دو باتیں ناپسند بھی ہیں، حشرات اور عمارتوں پر اگا سبزہ۔۔
٭
کتنے دن ہو گئے، تم نے فون نہیں کیا۔ شاید تم بھی وہ جواب سننا نہیں چاہ رہے جو میرے لیے کہنا بے حد آسان اور تمہارے لیے سننا بے حد کٹھن۔ ہاں میں نے اس شہر کو تم پر فوقیت دی ہے۔
٭
مجھے بس ایک خیال پریشان کرتا رہتا ہے کہ ہر چیز کو فنا ہے، میں اور تم بھی ایک دن فنا ہو جائیں گے اور میرا محبوب شہر ریو بھی۔۔ میں اکثر سوچتی ہوں کہ یہ شہر صفحہِ ہستی سے کیسے غائب ہوگا، زلزلے، لاوے یا سونامی سے؟ میں نے یہ بھی سوچ رکھا ہے۔ میرا دل چاہتا ہے کہ ایک دن سمندر کا پانی بہت بلند ہو اور پورے ریو کو اس کی عمارات، باسیوں، جانوروں اور پہاڑوں سمیت اپنے اندر سمیٹ لے۔ پانی کا ایک شفاف گولا بنے اور پورا شہر اس میں مقید ہو جائے۔ کاش ایسا ہو جائے اور ریو ڈی جنیرو کی خوب صورتی محفوظ ہو جائے۔