شاعر کی موت (افسانہ)

خلیل جبران

رات اپنے تاریک بازو کائنات پر پھیلا چکی تھی۔۔ فضا پر سناٹا طاری تھا۔۔ برف گر رہی تھی۔۔ لوگ اپنے مکانوں محلوں اور جھونپڑیوں میں گھسے ہوئے تھے۔۔ راستے ویران اور سڑکیں سنسان تھیں۔۔

شہر سے باہر ایک نواحی بستی میں دوسرے مکانات سے الگ ایک ٹوٹی پھوٹی جھونپڑی میں ایک نوجوان اپنی زندگی کے آخری سانس لے رہا تھا۔۔ اس کے قریب ہی طاق پر کڑوے تیل کا ایک دیا ٹمٹما رہا تھا۔۔ جیسے وہ اپنے مالک کی حالت کا آئینہ دار ہو۔۔۔

یہ نوجوان شاعر تھا۔۔ جس نے مختصر سی زندگی میں بہت سے تجربات حاصل کر لئے تھے۔۔ یہ نوعمر انسان یہ محسوس کر چکا تھا کہ وہ وقت دور نہیں، جبکہ وہ زندگی کے آرام و مصائب سے آزاد ہو جائے گا۔۔ وہ موت کا اس طرح منتظر تھا، جیسے موت اس پر کوئی احسان کرنے والی ہے۔۔۔ اس کے زرد چہرے پر امید کی جھلک تھی۔۔۔ اس کے ہونٹوں پر ایک یاس انگیز مسکراہٹ تھی اور اس کی آنکھوں سے صبر و سکون ظاہر ہو رہا تھا، جیسے اسے دنیا سے کوئی شکایت نہ ہو۔۔۔

وہ ایک شاعر تھا، جو دولت مندوں کے اس عظیم شہر میں فاقہ کشی کی موت مر رہا تھا۔۔ وہ اس مادی دنیا میں اس لئے آیا تھا کہ انسان کے دل میں اپنے روح پرور نغموں کی امنگ اور آگے بڑھنے کا حوصلہ پیدا کرے۔۔ اس کی روح عظیم تھی۔۔۔ شعور کی دیوی نے اسے دنیا میں بھیجا تھا، تاکہ وہ انسان کی روح اور اس کے باطن کو منور کرے۔۔ انسان کے قلب کو گندگی سے پاک کرے۔۔۔ لیکن آہ! وہ اس خود عرض دنیا سے واپس جا رہا تھا۔۔ اس دنیا کو الوداع کہہ رہا تھا۔۔ مگر اسے الوداع کہنے والا کوئی نہ تھا۔۔۔ اس دنیا کے خود غرض لوگوں سے اسے ایک مسکراہٹ بھی نہ مل سکتی تھی۔۔۔

وہ مر رہا تھا۔۔ کڑوے تیل کے چھوٹے سے چراغ کے علاوہ اس کے پاس اور کوئی نہ تھا۔۔ وہ اکیلا تھا، تنہا۔۔۔ وہ رو رہا تھا۔۔ اس کے سرہانے کوئی نہ تھا۔۔ اردگرد بھی کوئی نہ تھا، سوائے کاغذ کے چند ٹکڑوں کے، جن پر اس کا پیغام لکھا ہوا تھا۔۔ جب اس کے جسم میں بلکل طاقت نہ رہی تو اس نے اپنا ہاتھ بڑی مشکل سے سیدھا کیا اور اوپر اٹھا لیا اور جھونپڑی کی چھت کی طرف مایوس نظروں سے دیکھنے لگا، جیسے اس کی آنکھیں چھت سے پار بادلوں سے آنکھ مچولی کرتے ہوئے ستاروں کو دیکھنا چاہتی ہوں۔۔۔

پھر وہ کمزور آواز میں بڑبڑایا۔۔!!

”آ۔۔۔ اے حسین موت۔۔۔ اے پیاری موت آجا۔۔ میری روح تیری منتظر ہے۔۔ ادھر آ۔۔ میرے قریب آ اور زندگی کی ان زنجیروں کو توڑ کر پھینک دے۔۔ جن کی بندش اور جن کے بوجھ سے میں تھک چکا ہوں۔۔ آ پیاری موت۔۔ آجا اور مجھے میرے پڑوسیوں سے علیحدہ کر دے۔۔ جو مجھے پاگل دیوانہ سمجھتے ہیں، اس لئے کہ میں ان کو فطرت کا پیغام سناتا ہوں۔۔ جلدی کر۔۔ انہوں نے محض اس لئے مجھے تاریکی میں دھکیل دیا کہ میں غریب اور کمزور پر رحم کرتا ہوں، جبکہ یہ سرمایہ پرست چاہتے ہیں ان کمزوروں کو زیادہ سے زیادہ ستایا جائے۔۔

آ۔۔ اے فیاض موت!! مجھے اپنے بازوؤں میں چھپا لے۔۔ اس لئے کہ میرے ساتھیوں کو میری ضرورت نہیں۔۔ آ۔۔ اے موت مجھے گلے لگا لے۔۔ آ۔۔ اے پیاری موت ان ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں سے چوم لے۔۔ جنہیں ماں کے ہونٹوں کا لمس حاصل نہ ہوسکا۔۔ جنہوں نے کسی حسین پیشانی کو بوسہ نہیں دیا، جو کسی محبوبہ کی انگلی کی حرارت سے نا آشنا ہیں۔۔ اے پیاری موت آجا، مجھے اپنے ساتھ لے چل۔۔۔“

اس وقت مرنے والے شاعر کے سرہانے ایک فرشتہ نظر آیا، جو غیر معمولی حسن کا مالک تھا۔۔ اس کے ہاتھوں میں حسین للی کے پھولوں کا حسین ہار تھا۔۔

فرشتہ نے شاعر کو اپنی آغوش میں لے لیا اور اس کی آنکھیں بند کر دیں تاکہ وہ اس مادی دنیا کو زیادہ نہ دیکھ سکے۔۔ جو کچھ دیکھے صرف روح کی آنکھوں سے۔۔۔ فرشتے نے اس کے ہونٹوں کو ایک طویل بوسہ لیا، جس نے اس کے ہونٹوں کو غیر فانی مسکراہٹ بخش دی۔۔

اور پھر وہ جھونپڑی ہمیشہ کے لئے خالی ہو گئی اور وہاں کاغذ کے چند ٹکڑوں کے سوا، جن پر شاعر نے اپنا آخری پیغام لکھا تھا، کچھ بھی باقی نہ رہا۔۔۔

دن گزرتے رہے۔۔۔

سینکڑوں برس بعد جب اس کے شہر کے لوگ ناقدر دانی، جہالت اور ناواقفیت کی تکیلف دہ نیند سے بیدار ہوئے، انہوں نے شہر کے سب سے خوبصورت باغ میں اس شاعر کا مجسمہ نصب کیا۔۔۔ اس کے نام پر عمارات بنائی گئیں۔۔ ادارے کھولے گئے اور لوگ ہر سال نہایت دھوم دھام سے اس شاعر کی برسی منانے لگے۔۔ جس کے پیغام نے انہیں آزادی علم اور عرفان کی دولت سے مالا مال کیا تھا۔۔۔!!

آہ انسان کی ناواقفیت کتنی ظالم ہے۔۔!!

’کلیاتِ خلیل جبران‘ سے ماخوذ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close