’’کیا نام تھا اس کا؟ اُف بالکل یاد نہیں آ رہا ہے۔۔‘‘ کیدارناتھ نے اپنے اوپر سے لحاف ہٹا کر پھینک دیا اور اٹھ کر بیٹھ گئے۔
’’یہ کیا ہو گیا ہے مجھے۔۔ ساری رات بیت گئی، نیند ہی نہیں آرہی ہے۔۔ ہوگا کچھ نام وام۔۔ نہیں یاد آتا تو کیا کروں، لیکن نام تو یاد آنا ہی چاہیے۔۔ آخر وہ میری بیوی تھی، میری دھرم پتنی۔‘‘ انہوں نے پیشانی پر ہاتھ رکھا۔ پچھتّر سالہ کیدارناتھ کے ماتھے کی بے شمار جھریاں بوڑھی ہتھیلی کے نیچے دب کر پھڑپھڑانے لگیں۔
’’سرلا کی ماں۔۔۔‘‘ ان کے منہ سے بے ساختہ نکل پڑا۔
’’وہ تو ٹھیک ہے مگر کچھ نام بھی تو تھا اس کا۔۔ کیا نام تھا؟ اس کے نام کا پہلا اکشر۔۔۔ ہاں کچھ یاد آ رہا ہے ۔۔۔‘‘ انہوں نے پیر پلنگ کے نیچے لٹکا دیے اور وہ لائٹ آن کرنے کے لیے دیوار میں لگے سوئچ کی طرف بڑھے۔
’’اس کے نام کا پہلا اکشر۔۔۔ ’کے‘ نہیں نہیں۔۔۔ ہاں ہاں یاد آ گیا۔‘‘
ان کا جھریوں سے بھرا پوپلا منہ مسکرانے کے لیے تیار ہو ہی رہا تھا کہ کھانسی کا ایک ٹھسکا لگا اورپھر بھول گئے کہ وہ اکشر کیا تھا۔
کمرے میں چاروں طرف روشنی پھیل چکی تھی۔
’’ڈھائی بجنے کو ہیں۔‘‘ ان کی نظر ٹائم پیس پر پڑ گئی۔
’’ٹائم پیس۔۔۔؟ ہاں۔۔۔ ٹا۔۔۔ نہیں، پیس۔۔۔’سا‘
ارے ہاں۔۔۔۔
’’سا‘‘ ہی تو تھا اس کے نام کا پہلا اکشر۔‘‘
”سا؟ نہیں یہ تو سرلا کی ماں۔۔۔
پھر سرلا کی ماں۔ آخر نام بھی تو کچھ تھا اس کا۔‘‘ کیدارناتھ نے جھنجھلا کر سرہانے رکھی چھڑی کو اٹھایا، گلے میں کس کے مفلر لپیٹا اور بار بار چھڑی فرش پر پٹخنے لگے۔ پھر دونوں ہاتھوں میں چھڑی کو جکڑ کر اس طرح سر کے قریب لائے، جیسے اس کے ہتھے سے اپنا سر پھوڑ ڈالنا چاہتے ہوں۔
’’تعجب ہے، اپنی بیوی کا نام بھول گیا! اسے مرے ہوئے بھی تو چالیس برس گزر گئے ہیں۔ تین سال کا عرصہ ہوتا ہی کتنا ہے۔ صرف تین سال ہی تو اس کے ساتھ رہ پایا تھا میں۔‘‘
وہ خالی خالی نظروں سے کمرے کو گھور رہے ہیں۔پلنگ، میز، کرسی اور الماری، کتابیں۔۔۔ الماری کتابوں سے بھری پڑی ہوگی، الماری کے پٹ بند ہیں۔ وہ پلنگ کی جانب بڑھے اور پھر الماری کی طرف مڑ گئے۔ دروازہ کھولا، الماری خالی تھی۔۔۔ نہ اس میں کتابیں تھیں اور نہ خانے۔
’’ارے اس میں تو پچھلی دیوار بھی نہیں ہے۔‘‘ وہ لرز گئے اور گھبرا کر ایک پاؤں اس کے اندر رکھ دیا پھر دوسرا پاؤں ،اب وہ دروازے کے باہر کھڑے تھے۔ سب کچھ خالی تھا، ان کے ذہن کی طرح، وہ سمت بھول گئے تھے اور الماری کے بجائے باہر جانے والا دروازہ کھول بیٹھے تھے۔ باہر سڑک پر کہرا جما ہوا تھا۔ کھمبوں کے بلب مدھم دیوں کی طرح ٹمٹما رہے تھے۔ سنسان سڑک پر انہیں لگا کہ یکایک بھیڑ امنڈ آئی ہے۔ چاروں طرف شور ہو رہا ہے۔ باجے کے شور سے کان پھٹے جا رہے ہیں۔ دور کہرے میں چھپی ہوئی ڈولی۔۔۔ سرخ جوڑا پہنے دلہن مسکرا رہی ہے۔
سڑک پر ایک پتھر کا ٹکڑا پڑا تھا، انہیں ٹھوکر لگی اور لڑکھڑا کر کھمبے سے جا ٹکرائے۔ بہت زور سے دھکا دیا تھا محلے بھر کی لڑکیوں نے، اور پھر دروازہ بند۔۔ ’’کیا نام ہے تمہارا؟‘‘ نام معلوم ہوتے ہوئے بھی اس کا نام پوچھا تھا انہوں نے ۔ وہ شرما گئی تھی اور گھٹنوں میں منہ چھپا لیا تھا۔ انہوں نے پھر پوچھا تو اس نے آہستہ سے اپنا نام بتایا۔
’’کیا بتایا تھا اس نے؟ اُف بالکل یاد نہیں۔‘‘ اور وہ چھڑی زمین پر ٹیکتے ہوئے تیز تیز قدموں سے چل پڑے۔ انہیں کہاں جاناہے؟ پتہ نہیں۔۔ پھر بھی وہ چلتے رہے اور اب اپنے گھر سے بہت دور نکل آئے تھے۔
”یہ علاقہ کون سا ہے؟ کیلاش نگر؟ ہاں شاید وہی ہے۔۔“ آگے دائیں طرف ان کے دوست شرما جی کی کوٹھی ہے۔ باہر گیٹ پر نیم پلیٹ لگی ہے۔ ’ست پرکاش شرما۔‘ وہ ان کے دفتر کے ساتھی تھے۔ گزرے ہوئے کئی برس ہو گئے۔
اچانک کیدارناتھ ٹھٹھکے اور رک گئے۔ ’’ارے یہی تو ہے شرماجی کی کوٹھی، ہاں بالکل یہی ہے۔ وہاں لگی ہے ان کے نام کی پلیٹ۔‘‘ کیدارناتھ کو کہرے کی دھندلی فضا میں ایک تختی نظر آئی۔
’’شرما۔۔۔‘‘ انہوں نے پڑھا۔ ’’رام پرکاش شرما۔‘‘
’’رام پرکاش۔۔۔؟ نہیں ان کا نام تو ست پرکاش تھا۔“ پھر غور سے دیکھا۔
’رام پرکاش شرما (ایڈوکیٹ)‘ صاف صاف لکھا تھا۔
انہیں یاد آیا کہ ایک روز شرماجی نے کہا تھا، ’’میرا بیٹا رام پرکاش ایڈوکیٹ ہو گیا ہے۔“
’’اچھا تو اپنے باپ کے نام کی پلیٹ اکھاڑ کر۔۔۔‘‘ کھٹ سے کوئی چیز گری۔ انہیں لگا کہ ان کے ذہن سے کوئی چیز نکل کر قدموں میں آن گری ہے۔ وہ سہم گئے اور مجرم کی طرح گردن جھکالی۔ یہ کسی کے نام کی پلیٹ تھی۔ مگر ایک حرف بھی صاف نہیں۔ سب کچھ مٹ چکا ہے۔ ان کے جسم میں سنسناہٹ سی ہونے لگی۔ لاغر ٹانگیں، جو ابھی ابھی کانپ رہی تھیں، پیاسے ہرن کی طرح کلانچیں مارنے کو بیتاب ہو اٹھیں۔
وہ بھاگ رہے ہیں۔ نہیں آہستہ آہستہ چل رہے ہیں۔۔ یا رینگ رہے ہیں یا پھر کھڑے کھڑے ہی۔۔۔ یہ تو معلوم نہیں مگر اب وہ اپنے گھر سے کئی میل دور سرلا کے گھر کے بہت قریب آن پہنچے ہیں۔
سرلا سے اس کی ماں کا نام پوچھ ہی لیں گے۔
سرلا کو اپنی ماں کا نام یاد ہوگا؟ کیوں نہیں۔۔۔ کوئی ماں کا نام بھی بھولتا ہے کیا۔
’پاروتی دیوی۔۔۔‘ ان کی ماں کا نام پاروتی دیوی تھا۔ انہیں پچھتّر سال کی عمر میں بھی اپنی ماں کا نام یاد ہے۔
’’پاروتی دیوی کی جے۔۔۔‘‘ بچپن میں وہ اپنے باباکے ساتھ بیٹھے پوجا کر رہے تھے۔ ’’بابا۔۔۔اماں کا نام بھی تو پاروتی دیوی ہے۔ ‘‘
’’ہاں بیٹے یہی پاروتی دیوی ہیں، جن کے نام پر تمہاری اماں کا نام رکھا گیا ہے۔‘‘
اور اس روز سے وہ آج تک روزانہ پاروتی دیوی کی پوجا کرتے ہیں اور جے بولتے ہیں۔ ماں تو بھگوان کاروپ ہوتی ہے، پھر بھلا سرلا کیسے اپنی ماں کا نام بھولی ہوگی۔
کیدارناتھ کادل اندر سے اتنا خوش ہو رہا تھا کہ ہاتھ پاؤں پھولنے لگے۔ رفتار میں دھیماپن آ گیا مگر وہ اپنے بوڑھے جسم کو دھکیلتے ہوئے آگے بڑھتے چلے جا رہے تھے۔۔۔!!
’’بابوجی آج اتنے سویرے آپ ادھر۔۔۔؟‘‘ سرلا نے کسی سوچ میں ڈوبے کیدارناتھ کو چائے کی پیالی دیتے ہوئے پوچھا۔
بوڑھے آسمان کی گود سے نئے سورج کا گولا جھانک رہا ہے۔ کیدارناتھ کے پنجوں کی انگلیاں سرد ہو کر سُن پڑ چکی ہیں، جیسے ان میں گوشت ہے ہی نہیں اور وہ اندر سے بالکل خالی، بالکل کھوکھلی ہو چکی ہیں۔ پرندے ان کے سر پر منڈلا تے سرلا کے مکان کے اوپر جا بیٹھتے ہیں اور وہ سرلا کے مکان کے باہر کھڑے کھڑے تھک چکے ہیں۔
’’میں یہاں کھڑا ہوں۔ آتے جاتے لوگ دیکھ کر کیا سوچیں گے۔ اب تو دن چڑھے کافی دیر ہو گئی ہے۔ سرلا سو کر اٹھ گئی ہوگی۔ اندر چلنا چاہیے۔۔ لیکن کیا واقعی سرلا نے اب تک اپنی ماں کا نام یاد رکھا ہوگا؟ شرماجی کے بیٹے نے اپنے باپ کی نام کی پلیٹ اکھاڑ کر ۔۔۔‘‘ کھٹ سے کوئی چیز گری، انہیں لگا کہ ان کے ذہن سے کوئی چیز نکل کر قدموں میں آن گری ہے۔ دھندلے دھندلے حروف ابھرنے لگے اور ان کی آنکھوں میں اندھیرا چھا گیا۔ اندھیری رات۔۔۔ کُہرے سے بھری ہوئی سرد رات۔۔۔ بے شمار کتوں کے بھونکنے کی آوازیں، کئی آوارہ کتے ان کے پیچھے لگ گئے ہیں۔ وہ کتوں سے بچنے کے لیے ملٹن پارک میں گھس جاتے ہیں۔ ملٹن پارک؟ اب تو اس کانام گاندھی پارک ہو گیا ہے۔ گاندھی پارک ہو یا ملٹن پارک، ہے تو یہ وہی پارک جہاں وہ شادی کے دو دن بعد اسے لے کر آئے تھے۔ پارک کی بارہ دری ٹوٹ کر کھنڈر بن گئی ہے۔ٹوٹی ہوئی بارہ دری کے پتھروں کے نیچے سے ہوتی ہوئی ان کی نظریں چالیس برس پرانی بارہ دری میں گھس جاتی ہیں۔
’’آؤ یہاں بیٹھو۔۔۔ کتنی خوبصورت ہیں یہ محرابیں۔‘‘ وہ دونوں سنگ مرمر کے ستون سے کمر ٹکا کر بیٹھ جاتے ہیں اور پھر وہ دنیا سے بے خبر بہت دیر تک اس کے پاس بیٹھے رہے۔ مہینوں۔۔۔برسوں۔۔۔ کہ اچانک ان کی بیٹی سرلانے انہیں چونکا دیا۔
’’بابوجی آپ چپ کیوں ہیں؟ کیا سوچ رہے ہیں؟“
’’کچھ نہیں بیٹی۔ میں سوچ رہا تھا آج اتنے سویرے۔۔۔ اصل میں، میں نے سوچا جوگیندر کے دفتر جانے سے پہلے ہی پہنچ جاؤں تو اچھا ہے۔‘‘
’’بابو جی آج تو اتوار ہے۔‘‘
’’اوہ، ہاں آج تو اتوار ہے۔ کیا کروں بیٹی ریٹائر ہونے کے بعد دن تاریخ یاد ہی نہیں رہتے۔‘‘
وہ دل ہی دل میں سوچنے لگے۔ ’دن تاریخ کیا، اب تو بہت کچھ یاد نہیں رہا۔‘
اتنے میں جوگیندر بھی آنکھیں مَلتے ہوئے آئے اور کیدارناتھ کو پرنام کرکے صوفے پربیٹھ گئے۔ ’’بابوجی اتنے سویرے؟ سب ٹھیک ہے نا۔‘‘
’میرے جلدی آنے پر یہ لوگ اتنا زور کیوں دے رہے ہیں۔ ضرور میرے اچانک آنے سے یہ سب ڈسٹرب ہوئے ہونگے۔ مجھے چلے جانا چاہیے، ابھی۔۔۔‘
کیدارناتھ کو خاموش بیٹھا دیکھ کر سرلا بول پڑی، ’’ارے بابوجی تو بھول ہی گئے تھے کہ آج اتوار ہے، اسی لیے تو اتنی جلدی۔۔۔‘‘
’آج اتوار ہے اور میں اس طرح بغیر بتائے یہاں چلا آیا ہوں۔ ہو سکتا ہے ان دونوں کا کوئی پروگرام ہو۔ اب میری وجہ سے۔۔۔‘
’ہفتے میں چھٹی کا ایک ہی دن توملتا ہے ان لوگوں کو۔۔مگر میں بھی تو روز روز نہیں آتا۔۔ گھر سے چل پڑا تھا، بس چلتا رہا اور چلتے چلتے جب سرلا کے گھر کے قریب آ گیا تو سوچا، ملتا چلوں، کیا یہ لوگ آج میرے لیے اپنے پروگرام نہیں چھوڑسکتے؟‘
کیدارناتھ کی آنکھوں میں آنسو چھلک آئے ہیں۔
’کمبخت بڑھاپے میں آنسو بھی کتنی جلدی نکل آتے ہیں۔‘ وہ آنسوؤں کو چھپانے کی کوشش کر رہے تھے کہ سرلا نے ان کی آنکھوں میں جھانک کر دیکھا، ’یہ اس طرح کیا دیکھ رہی ہے؟ کہیں سب کچھ سمجھ تو نہیں گئی۔‘
’کیاسمجھے گی؟ یہ کہ میں اپنی بیوی کانام بھول گیا ہوں اور رات بھر جاگتا رہا ہوں یا یہ کہ میں رو رہا ہوں۔‘
’’بیٹی آج مجھے جوگیندر سے کچھ کام تھا۔۔۔‘‘
’’بابوجی مجھ سے؟‘‘جوگیندر نے حیرت زدہ ہوکر پوچھا۔
’’ہاں یوں ہی، کوئی خاص بات نہیں تھی۔۔۔‘‘ پھر وہ لان کی طرف جھانکنے لگے۔ ’’آج بہت سردی ہے۔ تمہارے لان میں تو سویرے ہی دھوپ آجاتی ہے۔‘‘
سرلانے لان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا: ’’ہاں بابوجی، ابھی تو دھوپ میں تیزی بھی نہیں آئی اور اوس بھی بہت ہے، پورا لان گیلا۔۔۔‘‘
وہ کہہ رہی تھی کہ جوگیندر بیچ میں بول پڑے، ’’بابوجی ابھی کچھ کام کے سلسلے میں آپ کہہ رہے تھے۔۔۔‘‘
’کیا یہ لوگ چاہتے ہیں کہ میں جلدی سے کام بتا کر چلتا بنوں تاکہ ان کے پروگرام ڈسٹرب نہ ہوں۔‘ کیدارناتھ کھانسنے لگے اور کافی دیر تک کھانستے رہے۔
وہ کھانس رہے تھے اور سوچتے جارہے تھے کہ اب کیا کہوں کہ بغیر سوچے سمجھے ہی بول پڑے۔۔۔۔۔۔
’’بیٹے تمہیں نام یاد رہتے ہیں؟‘‘
’’کیسے نام بابوجی؟ ویسے میں ہمیشہ نام یاد رکھنے میں کمزور رہا ہوں، اسی لیے ہسٹری کے پرچے میں میرے نمبر بہت کم آتے تھے۔‘‘
’اب کیا پوچھوں؟ کیا سرلا سے یہی سوال کروں؟ مگر یہ تو بڑی بے تکی بات ہوگی۔ اگر سرلا خود ہی بول پڑے کہ بابوجی مجھے نام یاد رہتے ہیں،تو جلدی سے پوچھ لوں کہ بتاؤ تمہاری ماں کا نام کیا تھا۔۔۔‘
کیدارناتھ نے حسرت بھری نظروں سے سرلاکی طرف دیکھا لیکن وہ خاموش بیٹھی رہی اور پھر اٹھ کر کچن کی طرف چل دی۔۔۔۔۔۔
سورج چڑھے کافی دیر ہو چکی تھی۔ دھوپ میں بھی تیزی آتی جا رہی تھی۔ لان کی ہری گھاس پر جمے شبنم کے قطرے اپنا وجود کھو چکے تھے۔ کیدارناتھ نے اپنے جسم پر چڑھے گرم کپڑوں کو اس طرح ٹٹولا جیسے وہ ڈھونڈ رہے ہوں کہ کپڑوں کے اندر جسم ہے بھی یا نہیں۔
دوپہر کا کھانا تیار تھا۔۔ لیکن ابھی تک سرلا سے اس کی ماں کا نام پوچھنے کاموقع نہیں مل پایا تھا۔ سرلا صبح سے کھانا تیار کرنے میں لگی ہوئی تھی۔ کیدارناتھ باہر دھوپ میں جا کر بیٹھتے تو کبھی اندر آکر برآمدے میں ٹہلنے لگتے۔ کبھی جوگیندر سے ادھر اُدھر کی باتیں ہوتیں اور کبھی سرلاںآتی تو اس موقع کی تلاش میں رہتے کہ ذرا جوگیندر اٹھ کر جائیں اور وہ اکیلے میں سرلا سے اس کی ماں کا نام پوچھ لیں۔
’اب دوپہر کے کھانے کا وقت ہو چکا ہے۔ کھانے پر بات میں بات نکلے گی، تب تو پوچھ ہی لوں گا۔‘ انہوں نے سوچا اور مطمئن ہو گئے۔
کھانے کی میز سج چکی ہے۔سرلا نے کئی طرح کی سبزیاں بنائی ہیں۔۔۔ کھانا بہت لذیذ ہے۔ آج بہت دنوں بعد اپنی بیٹی کے ہاتھ کا کھانا ملا ہے۔ نوکر کے ہاتھ کا کھاتے کھاتے ان کا دل بھر گیا تھا۔ سرلا کی ماں کے ہاتھ کا ذائقہ تو اب انہیں یاد بھی نہیں۔ اس کا نام بھی تو یاد نہیں۔۔۔ ان کا جی چاہا کہ جلدی سے پوچھ لیں۔ ’’بیٹی تمہاری ماں کا کیا نام تھا۔‘‘
’ارے یہ کیا۔ اگر اس طرح وہ کوئی سوال کریں گے تو یہ دونوں کیا سوچیں گے۔ دونوں قہقہہ مار کر ہنس پڑیں گے۔۔۔‘
کیدارناتھ خود پرقابو پانے کی کوشش کرنے لگے کہ کہیں بھول کر یہ سوال ان کے منہ سے نہ نکل پڑے۔۔۔۔
’کس سے پوچھوں؟ کمبخت خود ہی میرے ذہن میں آ جائے تو پوچھنا ہی کیوں پڑے؟‘ انہوں نے بھنویں سکوڑیں، پیشانی پر بے شمار بل پڑگئے پھرآنکھیں بندکرلیں اور اپنے ذہن سے جوجھنے لگے، ’آج سرلا کا بیٹا نظر نہیں آ رہا ہے، شاید اسے اپنی نانی کا نام یاد ہو۔۔۔ باتوں باتوں میں اس سے تو پوچھ ہی لوں گا ۔۔۔‘
’’سرلا آج تمہارا بیٹا۔۔۔؟‘‘
’’ہاں پتاجی میں تو بتانا بھول ہی گئی۔ بی۔اے پاس کرنے کے بعد اس نے کمپٹیشن کی تیاری شروع کر دی تھی۔ کل سے اس کے امتحان ہیں۔ دو دن پہلے ہی دلّی چلا گیا ہے ۔۔۔۔‘‘
’’او۔۔۔اچھا۔۔۔ تو گھر پر نہیں ہے۔‘‘ کیدارناتھ ایک ٹھنڈی سانس لے کر پھر کھانے میں مصروف ہوگئے۔ کھانا ختم ہو گیا اور کیدارناتھ کو اپنی بیوی کا نام یاد نہیں آیا۔
کھانے کے بعد چائے اور پھر دیکھتے دیکھتے ہی شام ہو گئی۔ کیدارناتھ بغیر نام پوچھے ہی وہاں سے اٹھ پڑے۔گھر لَوٹنے کے لیے بس پکڑی۔ اب ان کے جسم کی ساری رگیں ڈھیلی پڑ چکی تھیں۔ ہر ایک شخص کو دیکھ کر انہیں لگتا کہ اسے ضرور میری بیوی کا نام معلوم ہوگا۔ وہ ہر ایک سے پوچھنا چاہتے ہیں مگر کوئی شخص نہ تو ان کی طرف متوجہ ہوتا اور نہ ہی کچھ پوچھنے کے لیے ان کے ہونٹ کھلتے۔ سفر جاری رہا اور پھر اچانک ایک جھٹکے کے ساتھ بس رکی۔ انہوں نے کھڑکی سے باہر جھانکا اور اترنے کے لیے سیٹ سے اٹھ کھڑے ہو گئے۔
کمرے میں چاروں طرف اندھیرا ہے۔ وہ بغیر روشنی کیے بستر پر ڈھیر ہو گئے۔اندھیرا گہرا ہوتا جا رہا تھا، کیدارناتھ کو محسوس ہوا کہ دیواریں ان کی طرف کھسکتی چلی آ رہی ہیں۔انھوں نے آنکھوں پر زور دے کر دیواروں کی طرف دیکھا توان کی آنکھوں میں جلن ہونے لگی۔ پورے کمرے میں دھواں بھر گیاتھا۔ ’اٹھ کر لائٹ جلادی جائے۔‘ انہوں نے سوچا۔ مگر روشنی میں تو انہیں نیند ہی نہیں آتی۔اندھیرے میں بھی کب آتی ہے۔
اب ان کی آنکھیں شعلوں کی طرح دہکنے لگی تھیں۔ جسم سے بھی آگ نکلنے لگے گی۔ آگ کی لپٹیں بہت تیز ہوگئی ہیں۔ سرلا کی ماں کی چتا جل رہی ہے، روشنی بہت تیز ہے اور انہیں نیند نہیں آرہی ہے۔ تو پھر آنکھیں نیند سے بوجھل کیوں ہوتی جا رہی ہیں۔۔۔؟ جگہ جگہ سے جسم گل گیا ہے۔ وہ جدھر کروٹ لیتے ہیں، ادھر ہی سے شدید درد کی لہر اٹھتی ہے۔
ان کے ہاتھ پیر بالکل ٹھنڈے ہوتے جا رہے تھے کہ اچانک ذہن سے کوئی چیز نکل کر پلنگ کے نیچے فرش پر جا پڑی۔ کیدارناتھ اٹھ کر بیٹھ گئے۔ لائٹ جلائی اور الماری کھول کر تمام کتابیں فرش پر بکھیر دیں۔ ایک ایک کرکے میز کی دراز کے تمام کاغذات نکال ڈالے اور پرانے بکس سے کچھ فائلیں نکالیں، پھر دیوانوں کی طرح انہیں الٹ پلٹ کر دیکھنے لگے۔۔۔۔ کسی کاغذ کو پڑھتے، کسی کو پھاڑ کر پھینک دیتے اور کسی کو تہہ کر کے رکھ لیتے۔
’کمبخت اس کی کوئی چٹھی بھی تو نہیں مل رہی ہے۔‘ اب کیدارناتھ نے جھنجھلا کر کتابوں، کاغذوں اور فائلوں کو نوچ کر پھینکنا شروع کر دیا ہے۔ دونوں ہاتھ بالکل شل ہو چکے ہیں۔ سانس رکنے لگی ہے۔ انہوں نے گھبرا کر گلے میں بندھے مفلر کا بل کھولنا چاہا کہ پتا نہیں کیسے گرفت اور تنگ ہو گئی پھر ایک جھٹکے کے ساتھ مفلر کھینچ لیا اور بری طرح ہانپنے لگے۔
’ڈھونڈنے سے کوئی فائدہ نہیں۔۔۔ یاد کرنا بھی بیکار ہے، اب کچھ یاد نہیں آئے گا۔‘ اور وہ یاد کرنے لگے کہ ان کی بیوی کا نام کیا تھا۔
شانتی۔۔۔؟
نہیں۔۔۔۔
سروجنی۔۔۔۔
نہیں۔۔۔ نہیں
سرشٹھا۔۔۔؟
اُف یہ بھی نہیں۔۔۔۔
ہزاروں نام ان کے ذہن میں تیزی سے آنے لگے۔ پھر وہ بھول گئے کہ وہ کیا یاد کر رہے تھے۔
آج کون سا دن ہے؟
اتوار۔۔۔
نہیں اتوار تو کل تھا۔
کل؟
اتوار تواس دن تھا، جب وہ سرلا کے گھر گئے تھے اور سرلا کے گھر گئے ہوئے اب صدیاں گزر چکی ہیں۔
ان کی آنکھوں سے زرد روشنائی ٹپک کر پورے کمرے میں پھیل گئی ہے۔ کتابیں ،کاغذات اورفائلیں۔۔۔کچھ دھندلے دھندلے حروف نظرآئے۔
’شرما۔ ہاں میرے دفتر کے ساتھی شرما۔‘
’پورانام کیا تھا ان کا؟‘
’یہ بھی بھول گیا؟‘
’اور ان کے بیٹے کا؟‘
’نہیں ،اب مجھے کچھ بھی یاد نہیں ہے۔‘
پارک۔۔۔۔
’کون سا پارک؟‘
’ہاں وہی پارک، جہاں وہ کھڑی مسکرا رہی ہے۔‘
’لیکن اب تو اس پارک کا نام بھی بدل گیا ہے۔‘
’کیا ہے اس کا نیا نام؟‘
’نیا ہی کیا، اب تو پرانا بھی یاد نہیں۔ میں سب کچھ بھولتا جا رہا ہوں۔‘
’میری بیٹی۔۔۔۔‘
’اُف اس کا نام بھی یاد نہیں آ رہا ہے۔‘
’اس کے شوہر کا نام؟‘
’ہے بھگوان مجھے کیا ہوتا جا رہا ہے۔ اب تو کچھ بھی یاد نہیں۔‘
کیاصرف بیوی کے نام کے لیے وہ اتنے پریشان ہیں۔
نہیں، کوئی اور چیز بھی ہے، جسے وہ بھول گئے ہیں۔
’’کیا چیز ہے وہ ؟‘‘
وہ نیم پلیٹ جو باربار ان کے ذہن سے نکل کر گر پڑتی ہے!
کیالکھا ہے اس میں؟ کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ سب کچھ مٹ چکا ہے۔۔۔۔۔
دیواریں، چھت، دروازے اور فرش۔۔۔کچھ بھی نہیں ہے۔ دور تک پھیلا ہوا ایک بہت بڑا میدان ہے۔ زمین میں جگہ جگہ دراڑیں پڑ چکی ہیں۔سورج کا گولا پھیل کر اتنا بڑا ہو گیا کہ پورا آسمان اس کے پیچھے چھپ جاتا ہے۔ روشنی اتنی تیز ہے کہ کچھ دکھائی نہیں دیتا کہ اچانک دور کوئی بہت چھوٹی سی چیز نظر آئی۔
’’کیا ہے وہ ؟‘‘
’’کوئی انسان ہے جو اپنے چاروں طرف مڑمڑ کر دیکھ رہا ہے۔ اس کے قریب کوئی بھی نہیں ہے، وہ تنہا ہے، بالکل تنہا۔‘‘
’’ارے وہ تو میری طرف بڑھ رہا ہے، اور اب میری آنکھوں کے اتنا قریب آگیا کہ اس کے پیچھے سارا میدان، آسمان اور سورج کا پھیلا ہوا گولا بھی چھپ گیا ہے۔‘‘
’’کون ہے یہ شخص؟‘‘
’’میں؟‘‘ اوران کی آنکھوں کے سامنے خود ان کی اپنی ذات اندھیرا بن کے چھانے لگی۔
’’مگر میں کون ہوں؟کیا نام ہے میرا؟‘‘
’’ایں۔۔۔ اب تو میں اپنا نام بھی بھول گیا۔‘‘ وہ ماتھے پر ہاتھ رکھ کر زور سے چیخے اور بغیر ریڑھ کی ہڈی والے آدمی کی طرح دہرے ہوتے ہوتے اپنے آپ میں سمٹنے لگے۔ انہیں لگا کہ وہ کئی گز زمین کے اندر دھنس گئے ہیں۔ ان کا دم گُھٹ رہا ہے۔ سربری طرح چکرانے لگا اور آنکھوں میں نیلے پیلے بادل اُمنڈ آئے ہیں۔ ہاتھ پاؤں سُن پڑ چکے ہیں اور گلا رندھ گیا ہے، جیسے کوئی بہت موٹی سی چیز اس میں اٹک گئی ہو۔
کانپتاہوا ہاتھ انہوں نے گردن پر رکھ لیا اور کھنکارنا چاہا مگر انہیں لگا کہ کھنکارتے ہی ہچکی آجائے گی اور وہ مرجائیں گے۔
’’نہیں۔۔۔‘‘ وہ بہت زور سے چیخے۔ ان کے ہاتھ کی گرفت گلے پر خود بخود مضبوط ہو گئی تھی۔ دھندلے دھندلے حروف ابھرنے لگے۔
’’کے۔۔۔کے۔۔۔‘‘ اُف لگتا ہے دماغ کے پرخچے اڑ جائیں گے اور زبان کٹ کر دور جا گرے گی۔انہوں نے غور سے دیکھا، حرف کچھ کچھ صاف دکھائی دینے لگے تھے۔ ’’کے دااا۔۔۔‘‘
اور پھر انہوں نے پڑھ لیا ’’کیدارناتھ ۔‘‘ وہ خوشی سے چیخ پڑے اور گلے پر ہاتھ کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی۔ دل بہت زور سے دھڑکا، پورے بدن میں گدگدی سی ہونے لگی اور وہ لڑکھڑاتے ہوئے پلنگ پر جا پڑے۔
’’کیدارناتھ، کیدارناتھ۔۔۔‘‘ وہ زور زور سے کہنے لگے، جیسے اب انہیں سب کچھ یاد آ گیا ہو۔
اپنی بیٹی کا، دوست کا، اس پارک کا اور اپنی بیوی کا نام۔۔۔ کیدارناتھ! محسوس ہوا کہ ساری دنیا کا نام کیدارناتھ ہے۔
پھر آہستہ سے اٹھے ،لائٹ بجھائی اور کیدارناتھ، کیدارناتھ کہتے ہوئے لحاف میں گھس گئے۔
صبح ہوئی تو انہوں نے خود کو بہت مطمئن محسوس کیا۔ رات بہت گہری اور سکون کی نیند آئی تھی۔۔!