کھیت میں پیدا ہونے والا بچہ (ترک ادب سے منتخب افسانہ)

اورحان کمال (ترجمہ: ڈاکٹر نثار احمد اسرار)

کپاس کے کھیت میں حدِ نظر پندرہ بیس مزدور مرد اور عورتیں دکھائی دے رہی تھیں۔ وہ کپاس کے تخم دار بوٹوں کے اطراف میں اُگ آنے والے جنگلی پودوں اور جھاڑیوں کو صاف کررہے تھے۔ ساتھ ہی ساتھ فصل بھی کاٹ رہے تھے۔

درجۂْ حرارت تیز دھوپ میں 41 سینٹی گریڈ تک پہنچا ہوا تھا۔ لُو چلتی ہوئی ہوا اور گرد سے بھرے بھورے آسمان پر ایک بھی پرندہ پر نہیں مار رہا تھا۔ ہر طرف گرم سورج کا راج تھا۔ پسینوں میں تر انسان اپنی درانتیوں اور بیلچوں کی ایک خاص آہنگ سے چلا رہے تھے۔ درانتیوں اور بیلچوں کو تیز دھار، نرم زمین کو ’تھرش، تھرش‘ کی آواز کے ساتھ ادھیڑ رہی تھی۔ کاشتکاروں اور مزدوروں کے گیتوں کے بول، ان زرعی آلات کی آواز کے ساتھ مل گئے تھے۔ یہ ملی جلی آواز، سورج کی چلچلاتی گرمی میں گم ہورہی تھی:
باقی بچی زمین میں وہ بو رہے ہیں جو
وہ اسے بو رہے، کاٹ رہے اور جمع کر رہے ہیں
میری محبوبہ نے مجھے ناشپاتی اور انار بھیجے ہیں۔۔

فرحو ازیر نے اپنے گھٹے پڑے ہوئے ہاتھوں کا پسینہ پونچھا اور اپنی ڈھیلی ڈھالی شلوار کو درست کیا۔ اپنی سرخ آنکھوں سے اپنی بیوی کی طرف دیکھا، جو اس کے پاس ہی ہولے ہولے اپنی درانتی چلا رہی تھی۔ اس نے کرد زبان میں پوچھا:
”کیا ہوا، کیا بات ہے؟“

گلزار چوڑے شانوں والی ایک فربہ عورت تھی۔ اس کے کھردرے چہرے پر جو کہ پسینے سے شرابور تھا، سخت تکلیف اور درد کے تاثرات نمایاں تھے۔ اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔

فرحو ازیر کو غصہ آ گیا۔ اس نے گلزار کی کہنی کو سختی سے پکڑ کر پوچھا، ”اوئے عورت، تجھے ہوا کیا ہے؟“

گلزار نے اپنے شوہر کو تھکی تھکی نگاہوں سے دیکھا۔ اس کی آنکھیں مستقل ہراس اور سرسیمگی کی وجہ سے اپنے حلقوں میں دھنس گئی تھیں۔ معاً اس کی درانتی اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر گر گئی۔ اپنے بڑے سے پیٹ کو پکڑ کر جھکی اور دھڑ سے جلتے سورج کی گرمی سے دراڑیں پڑی ہوئی سرخ زمین پر گھٹنوں کے بل بیٹھ گئی۔

مزدوروں کے سردار نے، جو ایک بڑی سی کالی چھتری کے نیچے بیٹھا ہوا تھا، وہیں سے آواز دی : ”گلزار، کیا تم ہو؟ کام کرنا چھوڑ دو، جاؤ چلی جاؤ۔“

وہ درد و کرب سےتڑپ رہی تھی۔ اس نے اپنی ناہموار لیکن مضبوط انگلیوں کو زمین کی دراڑ میں ڈالا اور ان پر زور ڈالنے لگی تاکہ اس کے منہ سے چیخ نہ نکلے آخر اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا تھا۔ اور وہ برداشت نہ کرسکی اور ”ہائے میں مر گئی“ کہا۔ اجنبیوں کے لئے درد زہ میں مبتلا کسی عورت کی چیخ کو سننا بڑی شرم کی بات تھی۔ فرحو ازیر نے ایک موٹی سی گالی دی، اور اس کی پسلی میں زور سے لات ماری۔

عورت زمین پر دوہری ہو گئی۔ وہ جانتی تھی کہ اس کا خاوند، اس کی چیخ پر اسے کبھی بھی معاف نہیں کرے گا۔ وہ تپتی زمین پر ہاتھ کا سہارا لے کر اٹھنے کی کوشش کر رہی تھی۔ سردار نے پھر آواز دی: ”گلزار بہن ، کیا کر رہی ہو؟ تم جاؤ، چلی جاؤ۔“

اس کا درد یک بیک ختم ہو گیا۔۔ لیکن اس کو احساس تھا کہ یہ درد دوبارہ زیادہ شدت سے شروع ہوگا۔ وہ تیزی سے اس گڑھے کی طرف چلی جو کھیت کے کنارے پر واقع تھا۔

فرحو ازیر اپنی بیوی کو زور زور سے کوستا اور گالی دیتا رہا۔ پھر سردار کے قریب کھڑی اپنی برہنہ پا نو سالہ بچی کو آواز دی، ”چل ، اپنی ماں کی جگہ لے۔“

لڑکی کو پہلے ہی اس کی توقع تھی۔ اس نے درانتی کو اپنے قد کے برابر اٹھایا۔ اس کے دستے پر اب بھی اس کی ماں کے ہاتھوں کا پسینہ موجود تھا۔ وہ فوراً ہی دوسری عورتوں اور مزدوروں کی صف میں شامل ہو گئی۔

یہ سب معمول کے واقعات تھے۔ فصل کی کٹائی، گیت اور درانتی کے چلنے کی آواز ہم آہنگی کے ساتھ جاری رہی۔

سورج کی دھوپ گوبر سے پُر گڑھے پر پوری طرح پڑ رہی تھی۔ لال زمین پر سبز چھپکلیاں رینگ رہی تھیں۔ گلزار گڑھے میں سیدھی کھڑی تھی۔ اس نے اپنے آس پاس کا غور سے جائزہ لیا اور تپتی دھوپ اور گرمی میں لوگوں اور دوسرے جانداروں کی آوازیں سننے کی کوشش کرنے لگی۔ آس پاس کوئی بھی نہیں تھا۔ ایک لق دق صحرا کی طرح زمین اور خلاء ہر طرف پھیلے ہوئے تھے۔ اس نے اپنی گھیردار شلوار کی جیبوں کو خالی کیا اور ان میں سے وہ اشیاء نکالیں، جو وہ بچے کی پیدائش کے وقت استعمال کرنا چاہتی تھی۔ اس نے ایک پلاسٹک کا ٹکڑا نکالا، جس کے اوپر دھاگہ لپٹا ہوا تھا۔ ایک زنگ آلود بلیڈ نکالا۔ پھر مختلف رنگوں کے کپڑوں کے ٹکڑے، چیتھڑے۔۔ نمک اور ایک لیموں، جو خشک ہو چکا تھا۔ اس نے ان میں سے بعض چیزوں کو کھیت میں پڑے کوڑے کرکٹ کے ڈبے سے لیا تھا۔ اس کا ارادہ تھا کہ وہ نوزائیدہ بچے کی آنکھوں میں لیموں کا عرق ٹپکائے گی اور اس کے جسم پر نمک ملے گی۔
اس نے شلوار اتار لی اور کمر سے ننگی ہو گئی۔ اس نے شلوار کو ایک بڑے سے پتھر کے نیچے دبا دیا۔ چیتھڑوں کو زمین پر پھیلا دیا۔ دھاگے کو کھولا اور لیموں کے دو ٹکڑے کئے۔ وہ جھک کر بچے کی پیدائش کی تیاری کر رہی تھی تو اس نے اپنی پشت پر سرسراہٹ محسوس کی۔ اس نے جھٹ اپنے ہاتھوں سے اپنا آگا چھپا کر پیچھے کی طرف دیکھا۔ یہ ایک بڑا سا کتا تھا۔ عورت نے ایک پتھر اٹھایا، کتا کھڑا رہا اور اپنی نتھنی سے اپنے اطراف کو سونگھتا رہا۔ گلزار پریشان ہو گئی ۔ اگر اس نے بچے کو فوراً جنم دیا اور اس دوران بے ہوش ہوگئی تو کتا اس کے بچے کو چیر پھاڑ دے گا۔ اس نے کرد لڑکی فیر یجے کے واقعے کو یاد کیا۔

فیریجے نے بھی اس کی طرح ایک گڑھے میں اپنے بچے کو جنم دیا تھا اور بچے کو اپنے پہلو میں لٹا کر بے ہوش ہو گئی تھی۔ جب وہ ہوش میں آئی اور اِدھر اُدھر دیکھا تو معلوم ہوا کہ بچہ غائب ہے۔ اس نے ہر طرف تلاش کیا۔ آخر کار ایک جھاڑی کے نیچے دیکھا کہ بچے کو ایک شکاری کتے نے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے۔

گلزار نے ایک بار پھر کتے کی طرف دیکھا اور اس کا قریب سے جائزہ لیا۔ کتا بھی اسے ٹکٹکی باندھ کر دیکھ رہا تھا۔ اس کی نگاہ عجیب سی تھی۔
”زعفران“ اس نے کہا، ”تیری نگاہ اچھی نہیں ہے، زعفران۔“

گلزار کو اس بات کی فکر لگی ہوئی تھی کہ وہ اپنی مدد کے لئے اپنی چھوٹی بچی کو کیسے بلائے، جو اس سے کافی دور تھی اور جس کو اس کی آواز نہیں پہنچ سکتی تھی۔۔

”چلا جا، دفع ہو جا، حرامی کتے!“ اس نے اسے ڈرانے کی کوشش کی۔

کتا ہچکچاتے ہوئے، اس سے کچھ پیچھے ہٹ گیا، لیکن پھر رکا اور اپنی ٹانگوں پر اکڑوں بیٹھ گیا۔ اس کی آنکھوں میں معنی خیز نیلی چمک تھی۔ وہ کسی خاص موقعے کا انتظار کر رہا تھا۔

اس لمحے گلزار کو شدید درد محسوس ہوا۔ یہ اب تک درد کی شدید ترین لہر تھی۔ وہ کراہتی ہوئی اپنے برہنہ گھٹنوں کے بل بیٹھ گئی اور اپنے ہاتھوں کو زمین پر رکھ کر اپنے جسم کو سہارا دینے کی کوشش کرنے لگی۔

اس کی انگلی جیسی موٹی شہ رگ پھڑک رہی تھی۔ اب درد کا دورہ شروع ہو گیا تھا اور لہر پر لہر آرہی تھی اور ہر لہر پہلے سے زیادہ شدید تھی۔ اس کا چہرہ درد وکرب کی شدت سے خوفناک ہوگیا تھا۔

اس کی آنکھوں میں اندھیرا چھا گیا۔۔۔

”ابے او فرحو، اٹھ“ مزدوروں کے سردار نے تاکید کی، ”جا اور اپنی بیوی کو دیکھ۔۔۔۔۔ تو عجیب آدمی ہے، اس کا ذرا بھی خیال نہیں ہے، بیچاری مر سکتی ہے، اسے کچھ بھی ہو سکتا ہے۔“

فرحو نے اس گڑھے کی طرف دیکھا، جہاں اس کی بیوی زچگی کی شدید تکلیف سے دوچار تھی۔ اس نے نفرت سے سر ہلایا، گالیاں دیں، بیوی کو لعنت ملامت کی اور دوبارہ اپنے کام میں جت گیا۔ اس کے اندر اپنی بیوی کے خلاف غصہ بھڑک رہا تھا۔ اس کی پیشانی سے ٹھنڈا پسینہ بہہ رہا تھا اور اس کے گھنے بھنوؤں سے اس کی قطرے ٹپک رہے تھے۔

”ارے بیوقوف!“ سردار نے پھر آواز دی، ”جاتو سہی، دیکھ کہ اس غریب عورت کو کیا ہوا؟ کیا پتہ کیا ہوجائے؟؟“

فرحو نے اپنی درانتی ایک طرف رکھی اور وہاں سے چلا۔ وہ اس نامراد عورت کے ایک اور لات جمانا چاہتا تھا، پھر ایک لات اور، ایک لات اور۔۔۔ وہ اپنے ذہن سے یہ بات نکال نہ سکا تھا کہ اس ناہنجار عورت نے چیخ مار کر اس کی عزت خاک میں ملا دی تھی۔

وہ گڑھے کے کنارے پہنچا اور نیچے کی طرف دیکھا۔ گلزار زمین پر ایک طرف لڑھک گئی تھی۔ خون سے لت پت کپڑوں میں لپٹا ارغوانی رنگ کا بچہ پھڑک رہا تھا اور ایک بڑا سا کتا اسے کھینچنے کو کوشش کر رہا تھا۔

وہ گڑھے میں کودا۔ کتا وہاں سے چھلانگ لگا کر نکل گیا، وہ اپنے خون سے بھرے منہ کو زبان سے چاٹتا جا رہا تھا۔

فرحو ازیر نے سبز پروں والی مکھیوں کو بھگانا شروع کر دیا، جو اس کے بیٹے کے چہرے پر جمع ہونے لگتی تھیں۔ بچے کی آنکھیں بند تھیں، لیکن وہ ہل جل رہا تھا۔ فرحو نے کپڑوں کی پرتوں کو کھولا اور دیکھا، وہ ایک لڑکا تھا۔

فرحو کا رویہ یکدم بدل گیا۔ اس نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا۔ اس کے کرخت چہرے میں نرمی پیدا ہوئی اور ساتھ ہی ساتھ مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ اس نے بچے کو خون آلود کپڑوں کے ساتھ اٹھایا۔ ”میرا بیٹا“ اس نے نعرہ لگایا۔

وہ خوشی سے پاگل ہوا جا رہا تھا۔ چار لڑکیوں کے بعد ایک لڑکا۔ گلزار نے خاوند کی قربت کے خوشگوار احساس سے اپنی آنکھیں کھولیں اور انتہائی کمزوری اور نقاہت کے باوجود اٹھنے کی کوشش کی۔

”جیتی رہ بیگم “ فرحو ازیر نے کہا، ”جیتی رہ“

وہ بجلی کی سی تیزی سے گڑھے سے بچے کو اپنے بازوؤں میں لیے ہوئے اٹھا۔ سردار نے دیکھا کہ وہ دراڑیں پڑی ہوئی سرخ زمین پر سے تیزی سے چلا آ رہا ہے۔

”دیکھو ، دیکھو“ اس نے کہا، ”فرحو آ رہا ہے، اس طرف۔۔“

فصل کی کٹائی رک گئی۔ سارے مزدور چھوڑ چھاڑ کر دیکھنے لگے۔ فرحو دوڑتا ہوا، پھولی سانس کے ساتھ پہنچا اور چیخا، ”میرا بیٹا، میرا ایک بیٹا ہوا ہے۔“

اس نے بچے کو، جو اب بھی خون میں لت پت کپڑوں میں لپٹا ہوا تھا، اپنے سینے سے لگا لیا۔

”ابے خیال کر پاگل آدمی“ سردار نے کہا، ”خیال کر اس کو اس طرح نہ بھینچ۔ اس کی سانس رک جائے گی۔ چل اب اپنے گھر جا۔۔ جا، نانبائی کو کہہ کہ وہ تجھے تھوڑا سا تیل اور شکر آلود پانی دے، اسے اس کو چٹانے کی کوشش کر۔۔ جا“

فرحو اوزیر کو اب کوئی شکایت محسوس نہیں ہورہی تھی، اس کو اب گرمی بھی نہیں لگ رہی تھی۔ وہ ایک اکیس سالہ نوجوان کی طرح زندہ دل اور زندگی سے پر تھا۔

وہ گاؤں کے ان مکانوں کی طرف چلا، جن کی چھتیں جھکی ہوئی تھیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close