زویا (یوگوسلاوین ادب سے منتخب افسانہ)

آئیو ایندریک (ترجمہ: جاوید بسام)

جب کسی شخص کی بچپن کی عرفیت لوگ اس کی زندگی کے آخری ایام تک یاد رکھتے ہیں تو یہ خود اس کے اور لوگوں میں اس کی حیثیت کے بارے میں بہت کچھ بتاتی ہے۔ میری ذاتی یادوں میں ایک بوڑھی ناتواں عورت ہمیشہ زندہ رہتی ہے جو ہمیشہ سرمئی اسکارف باندھتی تھی اور زویا کہلاتی تھی۔ زویا کا تعلق ایک بڑے امیر الیکسیچ خاندان سے تھا۔ جن کے کئی گھر، ایک بڑی آرا مشین، ایک فلنگ مل اور بہت سی عمارتیں شہر سے آدھے گھنٹے کی مسافت پر ایک گھاٹی میں، تیز رفتار پہاڑی دریا کے ساتھ، پانی ذخیرہ کرنے والے تالابوں سے گھری ہوئی تھیں۔ وہاں ایک چھوٹا سا گاؤں آباد تھا جسے الیکسک تالاب کہتے تھے۔

وہ عورت جھریوں زدہ اور کھردری جلد والی، چھوٹی اور دبلی پتلی، لیکن بہت قابل اور مضبوط تھی، چوڑے نیک فطرت چہرے، چھوٹی سی چپٹی ناک اور روشن چمکیلی آنکھوں کے ساتھ جن میں ہمیشہ حیرت یا خوف نظر آتا، لیکن بہت معمولی سا، گویا مذاق میں۔۔ غرض وہ ایک از خود رضاکارانہ غلام، عمر بھر کی خادم اور خاندان بھر کی سب سے پیاری فرد تھی۔

زویا گھر کے سارے کام کرتی تھی، لیکن سب سے زیادہ اسے بچوں کی فکر تھی۔ اس کے آقا کی اولاد کی دو نسلیں اس کی گود میں پروان چڑھی تھیں۔ جب بچہ پیدا ہوتا، چاہے لڑکا ہو یا لڑکی، وہ اس کی پرورش کرتی اور اس کی شادی تک اس کی دیکھ بھال کی ذمے داری سنبھال لیتی، الا یہ کہ بچہ کسی ناگہانی سے پہلے ہی دنیا سے گزر جائے۔ خاندان بڑا اور کئی کنبوں والا تھا، بہوئیں اور داماد تھے، زویا کے پاس ہمیشہ بہت کام ہوتا تھا۔ وہ انتھک محنت کرتی اور ہمیشہ نومولود بچے کو اپنے چوڑے اور بے خمیری کیک جیسے سرخ ہاتھوں میں قبول کرتی تھی۔

الیکسیچ کی بیٹیاں اور بیٹے پھر اس کے پوتے اور نواسے، جیسے جیسے پیدا ہوتے گئے۔ انہوں نے آنکھ کھول کر ہمیشہ زویا کو اپنے اردگرد دیکھا۔ وہ ان کی ماؤں سے کم نہیں تھی، بلکہ ان سے بھی زیادہ پیار کرنے والی اور محبوب تھی۔ یہ بات سب جانتے تھے اور اس کے بغیر زندگی کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ دنیا ان کے سامنے زویا کے ذریعے کھلتی تھی۔
الیکسیچ کے بچے بچیاں اس کے ساتھ ہنستے، کھیلتے، گاتے اور روتے تھے۔ کبھی بیمار ہو جاتے، وہ زویا سے شہد اور گاڑھی بالائی روٹی کے ساتھ کھاتے۔ اس کے ساتھ موسم اور تعطیلات مناتے، خوش دلی سے پہلی فصل کی چیری چنتے، تربوز کاٹتے، پہلی برف باری پر خوش ہوتے۔ وہ اس کے ساتھ پاٹ پر بیٹھتے، کڑوی دوا نگلتے اور اپنے پہلے دانت نکالتے۔ وہ اس کے سامنے اپنی شرارتوں اور چھوٹے گناہوں کا اعتراف کرتے اور اپنی پہلی ناکامی یا خوشی بانٹتے تھے۔ زویا کے ذریعے پرورش پانے والے بچے زویائی کہلاتے تھے۔

اس بات کو طویل عرصے سے فراموش کر دیا گیا تھا کہ وہ کب اور کیسے الیکسیچ کے پاس آئی تھی۔ اب کوئی نہیں پوچھتا تھا کہ وہ ان کی کون ہے اور وہ اس کے کون ہیں؟

زویا ہمیشہ سب کی دسترس میں ہوتی۔ وہ کسی پر بوجھ نہیں تھی اور سب کے لیے کار آمد تھی۔ وہ ہر اس جگہ ہوتی، جہاں ایلکسیچ اور ان کے بچے، جوان اور جانور اپنی تمام ضروریات کے ساتھ موجود ہوتے تھے۔

خلاصہ یہ کہ یہ تین گھر تھے جو نصف صدی سے زائد عرصے میں تعمیر کیے گئے، ایک دوسرے سے جڑے اور ایک دوسرے سے کندھا بھڑائے کھڑے تھے۔ کئی تعمیرات کے بعد انہوں نے بالآخر دریا کے پانیوں کو تالابوں اور ڈیموں میں مسدود کرلیا تھا۔ زویا ان تینوں گھروں کی خدمت کرتی تھی، ایسا لگتا تھا کہ جیسے وہ ایک مہربان روح ہے جو ایک ساتھ ہر جگہ موجود ہے اور ہر کسی کی خدمت کے لیے تیار ہے۔ یہ ہی اس کی زندگی اور یہ ہی اس کی دنیا ہے۔ وہ صرف الیکسیچ خاندان کے بارے میں جانتی تھی، ان کے بچوں کے بارے میں اور ان کے ساتھ کیا تعلق ہے۔ وہ بوڑھی ہو رہی تھی، لیکن کبھی کسی نے اسے اپنے بارے میں بات کرتے یا اپنے لیے کچھ مانگتے نہیں سنا تھا۔ وہ عورتوں کی نری بک بک اور گپ شپ نہیں سنتی تھی اور نہ ہی سمجھتی تھی، لیکن جب وہ اکیلی ہوتی اور کوئی کام کر رہی ہوتی تو بڑبڑاتے ہوئے سرگوشی میں خود سے کچھ کہنے لگتی، یہ نہ نثر تھی نہ نظم۔ اس کی بنا دانتوں کی بڑبڑاہٹ سے ایک یکساں راگ ابھرتا، جو چمنی کے قریب دیوار میں جھینگروں کی سیٹیوں کی یاد دلاتا تھا۔ بچے زویا کی اس عجیب گائیکی سے چونک کر خوفزدہ ہو جاتے۔ پھر جب سمجھ جاتے تو خوف پر قابو پاتے اور ہنسی کو دباتے ہوئے، زویا کو غور سے سننے یا خود کچھ کہنے کے لیے چپکے سے اٹھتے تھے۔ اس طرح وہ نہ صرف اس گھر کے لوگوں بلکہ ہم ہائی اسکول کے ان طالب علموں میں بھی جانی اور یاد کیا جاتی تھی، جو شہر سے الیکسیچ کے پوتے پوتیوں کے ساتھ کھیلنے کے لیے آتے تھے۔

زویا نے پچاس سال سے زیادہ عرصہ پانی کے اوپر ایک سایہ دار گھاٹی میں گزارا، خاموشی اور لگن سے الیکسیچ کی خدمت کی۔ اس نے اپنے پہلے آقا مانوئیلو اور اس کی بیوی کو سپردِ خاک کیا۔ پھر ان کے گھر میں اولادوں خدمت کرتی رہی۔ یہاں تک کہ کئی سال بعد ان کے آل اولادوں کی دیکھ بھال کرتے ہوئے آخر ایک دن وہ مر گئی۔ ایک رات وہ اپنی الماری میں سونے گئی اور اگلی صبح کام پر نظر نہیں آئی۔ وہ زندگی اور گھر والوں سے ایسے ہی دور ہو گئی تھی، جیسے وہ خاموشی اور غیر محسوس طور پر ان میں شامل ہوئی تھی۔

ایلکسیچ اس کی موت کو سمجھنے اور قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھے، زویا کے بغیر زندگی کا تصور ان کے لیے محال تھا۔ ایسے امیر اور مستحکم گھرانوں میں جو اپنے قریبی اور عزیز ترین مردہ لوگوں کے بارے میں بھی زیادہ بات نہیں کرتے، خاص طور پر ان لوگوں کے ساتھ جو قریبی خاندانی حلقے سے تعلق نہیں رکھتے۔ انہوں نے اس کی موت کو انتہائی سنجیدگی سے لیا تھا۔ وہ اسے نہیں بھول سکتے تھے۔ پچھتاوا ان کا مقدر بن گیا تھا۔ انہیں چپ لگ گئی تھی۔ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ گویا یہ اعزاز زویا کو دیا گیا تھا۔

تاہم زویا کی موت کے بعد، بلکہ اس کی زندگی کے آخری سالوں میں الیکسیچ کی زندگیوں میں تبدیلیاں آنے لگی تھیں۔ اب ان کی افزودگی نہیں ہو رہی تھی۔ یہ چھوٹا قبیلہ جس کا شمار پہلے رؤسا میں کیا جاتا تھا، اب صرف کھاتے پیتے لوگوں میں گنا جاتا تھا۔ بالآخر وہ بکھرنے لگے۔ نوجوان مرد یہاں تک کہ لڑکیاں بھی پوری دنیا کا سفر کر رہی تھیں اور شاذ و نادر ہی ان میں سے کوئی زویائی، الیکسیچ کے تالابوں والے گھر میں واپس آتا تھا۔ وہاں کام کرنے اور جائیداد کو سنھبالنے کے لیے بہت کم نوجوان رہ گئے تھے، جیسا کہ ان کے آباؤ اجداد کے دور میں تھا۔ پھر چھوٹی اور بڑی جنگیں آئیں اور ساتھ ہی انتقامی کارروائیاں جو ان حصوں میں سب سے زیادہ ظالمانہ اور خونریز تھیں۔ لوگوں کی تعداد کم ہوتی گئی اور بہت سے لوگ چلے گئے۔ لہٰذا اب آپ پورے بوسنیا اور یوگوسلاویہ میں اور دنیا کے مختلف حصوں میں موجود الیکسیچ سے مل سکتے تھے، لیکن وہاں قصبے میں کوئی نہیں تھا۔ پچھلی جنگ کے بعد پانی کے اوپر کوئی بڑا مکان یا عمارت نہیں بچی۔ اب یہ ٹوٹے ہوئے ڈیموں کے درمیان جلے ہوئے کھنڈرات کا ڈھیر ہے جو رفتہ رفتہ دلدل میں تبدیل ہو رہے ہیں۔ ہر وہ چیز جو کبھی الیکسیچ سے تعلق رکھتی تھی اور ان کے نام سے پہچانی جاتی تھی۔ اب وہ صرف قصبے کے پرانے لوگوں کی دھندلی یادوں میں زندہ ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مگر آج دوپہر بغیر کسی وجہ کے اچانک وہ میرے صحن میں جیتی جاگتی اور اسی پرانے حلیہ میں نمودار ہوئی، جس طرح میں نے اسے بچپن میں دیکھا تھا۔ اسے پھاٹک پر ایک بڑی پوٹلی کے ساتھ آتا دیکھ کر مجھے وہ بوڑھی عورتیں یاد آگئیں جو کم از کم ایک دو دن کے لیے کسی سے ملنے آتی تھیں۔ وہ اس قدر سکون و اطمینان سے گھر میں داخل ہوئی جیسے اس نے عشائیے اور رات کو وہاں ٹھہرنے کا فیصلہ کر لیا ہو۔ ہم کافی دیر تک بیٹھے الیکسیچ کے بارے میں باتیں کرتے رہے۔ اس نے ان کی زندگی کی چھوٹی سے چھوٹی بات کو یاد کیا۔ بوڑھے باپ مانوئیلو الیکسیچ سے شروع کرتے ہوئے جو ایک قابل آدمی تھا۔ وہ مقامی باشندوں کے سرمئی ماس سے الگ ہونے میں کامیاب ہوا اور وہ جڑ بن گیا جس سے الیکسیچ خاندان کی بنیاد پڑی اور ان کی منفرد خصوصیات پنپی۔ پھر اس کے بیٹے بیٹیوں اور پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں تک جو پوری دنیا میں بکھر گئے اور بغیر کسی سراغ کے غائب ہوگئے۔ میں نے کئی بار زویا سے اس کے بارے میں، اس کی زندگی اور اصلیت کے بارے میں بات کرنے کی کوشش کی، لیکن کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ وہ صرف الیکسیچ اور ان کے خاندان کے مصاحبین کے بارے میں بات کر سکتی تھی۔ جس میں ہر وہ شخص جو ان سے کسی بھی طرح کا تعلق رکھتا تھا، ان کے رشتہ دار اور دوست، ساتھی اور کارکن، حریف اور دشمن سب شامل تھے، وہ ان سے متعلق پوری دنیا سے واقف تھی۔

میں پوچھ پوچھ کر تھک گیا۔ آخر جب میں نے دیکھا کہ وہ واقعی اپنے بارے میں بات نہیں کر سکتی، یا نہیں کرے گی تو ہم کچھ دیر کے خاموش ہو گئے۔ پھر میں نے خاموشی اور نیم اندھیرے میں پہلے دور سے، مبہم طور پر، پھر بلند اور واضح طور پر جانی پہچانی لمبی بڑبڑاہٹ سنی، جسے ہم بچپن میں زویا کی مضحکہ خیز عادت، سادگی اور کمزوری سمجھ کر ہنستے تھے۔

اندھیرا تیزی سے گہرا ہو رہا تھا۔ میں نے کان لگا کر ایک یکساں اور مسلسل راگ سنا جو زویا، چمنی کی گرم دیوار میں چھپے جھینگر کی طرح گارہی تھی اور جو کبھی بوڑھے ہونٹوں کی میکانکی حرکت دکھائی دیتی تھی، اب مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ وہ انسانی بول چال کے قریب ہے، بامعنی ہے اور کسی نامعلوم اور نئی چیز کے بارے میں بتاتی ہے۔ آخر میں خود کو اور زمان و مکاں کو بھول کر سانس روکے سنتا رہا۔ میرے سامنے ایک مشکل مگر حقیقی کہانی چل رہی تھی کہ زویا کون تھی۔ وہ کیسے الیکسیچ کے پاس آئی، ان کے ساتھ آباد ہوئی اور وہی بن گئی۔

یہ بہت پہلے کی بات ہے جب سربیا کی ترکوں کے ساتھ جنگ ہوئی۔ زویا کے والد کا گھر سرحد کے قریب تھا۔ اسے سنہرے بالوں والی دبلی پتلی ماں زیادہ یاد نہیں تھی، لیکن باپ اچھی طرح یاد تھا جو غصہ ور اور سخت رویے والا ایک سنولا، پستہ قد اور موٹا آدمی تھا۔ اس کی بیوی کا جلد انتقال ہوگیا تھا اور وہ دو چھوٹے بچوں کے ساتھ اکیلا رہ گیا۔ پریسٹا نامی ایک بالغ رشتہ دار بیوہ نے گھر چلانے اور بچوں کی پرورش کا کام سنبھالا، لیکن جنگ سے عین پہلے وہ بھی کسی متعدی بیماری سے مر گئی۔ وہ پھر اپنے پندرہ سالہ بیٹے اور چودہ سالہ بیٹی کے ساتھ اکیلا رہ گیا، جسے وہ پیار سے زویا کہتا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ جنگ اور بغاوت اسے اپنی طرف متوجہ کر رہی ہے۔ آخر اس نے بیٹے کو اپنے ساتھ لے جانے اور بیٹی کو ایک اچھے اور قابلِ بھروسہ خاندان میں چھوڑ دینے کا فیصلہ کیا، جس کے سربراہ کا نام مانوئیلو الیکسیچ تھا اور جسے پیار سے فادر کہا جاتا تھا۔ اس وقت وہ ایک نئے راستے اور روشن مستقبل کا آغاز کر رہا تھا اور اپنی زندگی کے ابتدائی دور میں تھا۔ وہ ایک بیمار بیوی اور تین چھوٹے بچوں کے ساتھ رہتا تھا۔ پہاڑی ندی کے اوپر اس کا پہلا مکان ابھی تعمیر ہوا تھا۔ باپ اپنی بیٹی کو وہاں لے گیا اور اسے مانوئیلو کے حوالے کیا اور خدا اور سینٹ جان سے دعا کی۔ پھر مانوئیلو سے کہا کہ وہ اسے اپنی خدمت میں لے لے، اسے کھانے کو روٹی اور چھت فراہم کرے۔ کیونکہ وہ اس کے علاوہ بچی کو کسی اور کے پاس نہیں چھوڑ سکتا تھا۔ پھر اسی رات وہ الوداع کہے بغیر جھلسی ہوئی سرخ زمین کے ایک ڈھلوان راستے پر چل دیا اور پہاڑ کی چوٹیوں پر چھائے ہوئے تاریک جنگل میں غائب ہو گیا۔

زویا اجلی رنگت اور سنہرے بالوں والی پتلی دبلی، لیکن مضبوط لڑکی تھی۔ اس کے چھوٹے لڑکوں جیسے بال ایسے لگتے تھے جیسے کبھی کنگھی سے چھوئے نہیں گئے۔ وہ مختلف سمتوں میں الجھے ہوئے تھے۔ بڑی مشکل سے انہوں نے اسے اس کے گندے دیہاتی اسکرٹ اور بغیر آستین والے بلاؤز سے نجات دلائی اور ایک پرانا شہری طرز کا گھریلو خاتون کا لباس پہنایا، جس کی کانٹ چھانٹ کی ضرورت نہیں پڑی تھی۔ کیوں کہ مانوئیلو کی بیوی پتلی دبلی اور چھوٹی تھی۔ زویا گھر کے کام کاج میں مدد کرتی، لیکن خاموشی اور اداسی سے، وہ بات چیت اور میل جول سے گریز کرتی اور سب کے سامنے نظریں نیچی رکھتی تھی۔

ایک دن جب وہ کام سے فارغ تھی اور قریب کوئی نگرانی کرنے والا نہیں تھا۔ وہ موقعے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے گھر کے پیچھے ڈھلوان پر چڑھ گئی اور گھنی شاخوں والے دیودار کے اونچے درختوں میں غائب ہوگئی۔

اس مقام پر پہاڑی دریا سے نہریں نکلتی تھیں جو تھوڑا آگے چل کر وادی میں ایک آرا مل کی طرف مڑتی تھیں۔ پتھروں سے بنی ایک نہر پر بڑا بند اور ایک چھوٹا پل بھی تھا۔ جس تک ایک خشک اور ڈھلوان راستہ آتا تھا۔ وہ پل پر چڑھ گئی اور لکڑی کی ریلنگ پر ٹیک لگائے نم آنکھوں سے نیچے کے چوڑے اور اتھلے تالاب کو دیکھنے لگی۔ اسے وہ منظر بہت پسند آیا۔ پانی ڈیم کی قید سے نکل کر جھاگ اڑاتا شور کے ساتھ نیچے دوڑ رہا تھا۔ وہ یہاں گھنٹوں ٹہر سکتی تھی اور یہی وہ چیز تھی جس کی وجہ سے پریشانی شروع ہوئی۔

الیکسیچ نے اسے خبردار کیا کہ وہ گھر سے باہر نہ نکلے، کہیں دور نہ جائے اور پہاڑوں پر نہ چڑھے، کیونکہ خواتین کو اس مشکل وقت میں، پہلے سے زیادہ گھروں میں رہنے کی ضرورت ہے۔ وہ خاموش رہی اور یہ ظاہر کیا جیسے سمجھ گئی ہو، لیکن جونہی موقع ملا، وہ پھر غائب ہوگئی اور لکڑی کے پل کی ریلنگ سے ٹیک لگا کر بڑے تالاب کے کالے پانی کو دیکھنے لگی جو چھوٹی چھوٹی ندیوں میں بٹا، شور مچاتا نیچے گر رہا تھا اور کسی مشین پر مضبوطی سے پھیلے کینوس کی یاد تازہ کر رہا تھا۔ اس کی نظریں بے چینی سے پانی اور کینوس پر روشنی اور سائے کے کھیل کا پیچھا کرتی رہی اور اس میں اطمینان نہ پا سکی۔

پھر منہ کھولے بغیر اس نے کوئی ایسا راگ نکالا جو نہ گانا تھا اور نہ ہی معقول انسانی تقریر۔۔ اس کی آواز گرتے ہوئے پانی کے شور میں گھل مل گئی۔ جب یہ بات معلوم ہوئی کہ تنبیہات اور ڈانٹ ڈپٹ سے کوئی فائدہ نہیں ہوا تو اسے دھمکی دی گئی کہ اگر وہ دوبارہ گھر سے اتنی دور پکڑی گئی تو اسے کوڑے مارے جائیں گے، لیکن وہ باہر جاتی رہی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک شام زویا وہاں گئی اور ریلنگ پر ٹیک لگا کر ساکت کھڑی ہو گئی، پانی کے اڑتے چھینٹوں اور اس پار دوڑتے سائے کے تیز کھیل سے وہ مسحور ہو گئی تھی۔ سورج غروب ہو رہا تھا۔ پہاڑ کی چوٹی پر سیاہ دیوداروں کے گھنے سایوں کے پیچھے اس کی نارنجی ٹکیہ اداسی سے چمک رہی تھی۔ زویا نے محسوس کیا کہ اسے جلد از جلد گھر لوٹ جانا چاہیے۔ اس نے خود سے یہ بات دھیمی آواز میں کہی، لیکن اس میں اتنی طاقت نہیں تھی کہ وہ ہموار گرم ریلنگ سے خود کو جدا کر سکے جو اس کے سینے کو پیار سے چھو رہی تھی اور اس جگہ سے لوٹ جائے اور اپنی واحد شدید خوشی کو قربان کر دے۔ وہ دیکھنا چاہتی تھی کہ آگے کیا ہوتا ہے؟ آخر وہ آ گیا۔ وہ جھلسی ہوئی سرخ زمین کے ڈھلوان راستے پر آیا جو جنگل سے اتر کر سیدھا پل تک پہنچتا تھا۔ زویا نے پانی کی طرف دیکھا پھر آسمان کی طرف جہاں بائیں طرف روشنی کے آخری کرنیں باقی تھیں۔ اس کے بصارت کے میدان کے بالکل کونے میں، اچانک ایک چھوٹا سا سایہ نمودار ہوا، جیسے مکھی نے پرواز کی ہو، جسے آپ دیکھنے کے بجائے محسوس کرتے ہیں۔ سایہ قریب آتا گیا اور تیزی سے ایک وسیع لبادے میں، ایک بڑے آدمی کی مبہم شکل میں بدل گیا، جو ڈھلوان سے نیچے آ رہا تھا۔ کچھ دیر بعد وہ ایک موڑ کے گرد غائب ہو گیا، لیکن زویا نے محسوس کیا کہ پوشیدہ ہو کر بھی وہ قریب سے قریب تر ہوتا جا رہا ہے اور سرخی مائل راستہ جو ہر گزرتے لمحے کے ساتھ اندھیرے میں ڈوب رہا ہے، خود اسے پل تک لے آئے گا۔ پھر وہ لامحالہ اس کے پیچھے سے گزرے گا اور پل اتنا تنگ ہے کہ وہ اجنبی مسافر یقیناً اسے اپنی عجیب بے رنگ لبادے سے چھولے گا۔ زویا نے اس لمس کو پہلے ہی محسوس کر لیا اور اس سے خوفزدہ ہو گئی۔ وہ پل سے ہٹ سکتی تھی، اس مڈبھیڑ سے گریز کر سکتی تھی، لیکن وہ نہیں ہلی۔ وہ مڑ بھی سکتی تھی، تاکہ کم از کم اس کا سامنا کر سکے جو وہاں سے گزرنے والا تھا، تاہم اس نے حرکت نہیں کی۔ بس ریلنگ پر ٹیک لگا کر کالے پانی کی طرف دیکھتی رہی جو ڈیم سے نکل کر شور مچاتا آگے چلا جا رہا تھا۔ وہ کھڑی اس کا انتظار کرتی رہی جو اٹل، تاریک اور اونچے پہاڑ سے نیچے آ رہا تھا۔ یہ آہستہ آہستہ اور نہ جانے کتنی دیر تک ہوا۔ ”یا تو ہاں، یا نہیں، یا تو یہ ہوگا، یا نہیں ہوگا۔“

”ہاں یہ ہوگا۔“ اور جب اس نے اپنے آپ سے یہ کہا تو اچانک اندھیرا اور سرد ہو گیا اور پہاڑ سے ایک مسافر اس کے پیچھے آ کھڑا ہوا اور اسے اپنے جسم اور اپنی بڑے لبادے سے ڈھانپ لیا، جس سے پہاڑی ڈھلوانوں کی سردی نکلتی محسوس ہو رہی تھی۔ وہ خاموشی سے کھڑا تھا اور کوئی حرکت نہیں کر رہا تھا، لیکن زویا نے محسوس کیا کہ وہ اس کے بہت قریب ہے اور اندھیرے اور نمی کی طرح اسے پوری طرح گھیرے ہوئے ہے۔ وہ پانی کی طرف جھکی ہوئی تھی، اس کا چہرہ نہیں دیکھ سکتی تھی، لیکن اسے محسوس کر رہی تھی۔ اس کے ذہن میں اب بھی یہ خیال گردش کر رہا تھا کہ اسے جلد از جلد وہاں سے بھاگ جانا چاہیے، کم از کم کچھ مزاحمت کرنی چاہیے، لیکن دیر ہو چکی تھی۔

آخر اجنبی کی ٹھوڑی اس کے سر کے پچھلے حصے پر ٹک گئی اور اس کے سخت اور کھردرے ہاتھ اس کی رانوں پر پھسلنے لگے، خوف اور برہنگی کی شرمندگی سے اس کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ وہ خود کو ڈھانپنا چاہتی تھی، لیکن اس کے پاس اتنی طاقت نہیں تھی۔ وہ کمر پر مزید جھکا اور اس کے دونوں بڑے ہاتھ پھیل کر اس سے لپٹ گئے، دباؤ سخت اور ایک جگہ پر مرکوز ہوتا گیا اور پھر شدید درد میں بدل گیا۔ وہ درد اس کی ریڑھ کی ہڈی کو توڑ رہا تھا۔ اسے چار حصوں میں پھاڑنا چاہتا تھا، جس طرح روٹی کو لمبائی اور چوڑائی کی سمت توڑتے ہیں۔ وہ اس کے ساتھ کیا کر رہا ہے؟ اس سے کیا چاہتا ہے؟ وہ شدید نفرت کے ساتھ خود سے پوچھ رہی تھی اور گہرے کڑوے آنسو نگل رہی تھی۔

ایک نامعلوم خوفناک قوت اسے آدھے حصے میں توڑنا چاہتی تھی، اسے پھاڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کر دینا چاہتی تھی۔ یقیناً یہی ہوگا اگر وہ اسے جھکائے رکھے گا اور اس پر دباؤ ڈالتا رہے گا۔ ایسے ہی لوگ مارے جاتے ہیں۔ یہ بوجھ کون برداشت کر سکتا ہے؟ اس سے خود کو کیسے اور کس طرح بچایا جائے؟ کاش وہ ریلنگ سے تھوڑا سا دور ہو جائے، اِس غیر مرئی آدمی کے نیچے سے کھسک جائے اور اسے ایک ضرب یا کم از کم ایک چیخ سے پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دے، لیکن وہ اب جنبش کرنے کے قابل نہیں رہی تھی۔ یہ درد اور بوجھ اس پر مزاحمت کرنا اور برداشت کرنا ناممکن تھا۔ بس یہ خاتمہ ہے۔ وہ محسوس کرتی ہے کہ اس کا شعور مٹ رہا ہے اور اندھیرا اسے اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔

رات ڈھل رہی تھی، جب گھبرائے ہوئے گھر والوں نے آرا مل سے لڑکوں کو بلایا اور انہیں روشن مشعلوں کے ساتھ زویا کی تلاش کے لیے بھیجا۔ انہوں نے اسے آوازیں دیں اور تاریک کونوں کھدروں کو چھان مارا۔ آخر ان میں سے ایک نے، جس نے سب سے پہلے پل پر قدم رکھا تھا، اسے وہاں بے ہوش پایا۔ اس نے دوسروں کو بلایا۔ وہ ریلنگ کے پاس مڑی تڑی پڑی تھی، سکڑی اور سمٹی ہوئی، پھٹے ہوئے اور ضائع شدہ خواتین کے زیر جاموں کے ڈھیر کی طرح۔ انہوں نے اسے اٹھایا اور ایک چٹائی پر لٹا کر گھر لے گئے۔

زویا کئی دنوں تک ہوش میں نہیں آئی۔ وہ اس کی زندگی سے نا امید ہو چکے تھے۔ تاہم، وہ زندہ رہی۔ انہوں نے پادری یوتسو کو صحت یابی کی دعا کرنے کے لیے بلایا، لیکن بظاہر ڈوبرون کی ایک بوڑھی عورت نے اپنی جڑی بوٹیوں سے اس کی مدد کی۔ زویا پانچ ہفتے بستر پر پڑی رہی۔ پھر وہ اچانک اٹھی، کپڑے پہنے اور بغیر کسی سوال یا وضاحت کے گھر میں اسی طرح بھاگ بھاگ کر کام کرنے لگی، جیسے وہ پہلے کیا کرتی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں دیر تک خاموشی سے زویا کی باتیں سنتا رہا۔ وہ دوبارہ اپنی خدمت کے سالوں کے بارے میں بات کر رہی تھی، یعنی صرف الیکسیچ اور ان کی خاندانی زندگی کے بارے میں کہ وہ کیسے پیدا ہوئے، بڑے ہوئے، شادی کی اور خود بچوں کو جنم دیا، بیمار ہوئے اور مر گئے۔ اسے ہر چھوٹی سے چھوٹی تفصیل یاد تھی اور ہر چیز اس کے لیے اتنی ہی اہم تھی۔ وہ چاہتی تھی کہ میں بھی ان کے بارے میں سب کچھ جانوں۔ اس کی اکتا دینے والی کہانی نے مجھے تھکا دیا اور مجھ پر غنودگی طاری ہونے لگی، لیکن مجھے اس کی باتوں میں مداخلت کرنے کی ہمت نہیں تھی۔ بعض اوقات میں نے الیکسیچ کے بارے میں اس طویل کہانی کا سرا کھو دیا۔ ان کے رشتہ داروں اور ساتھیوں کے نام آپس میں الجھ گئے۔ میری پلکیں خود بخود بند ہو گئیں اور غنودگی مجھ پر غالب آگئی۔ آخرکار میں نے ہار مان لی اور پُرسکون نیند کے ایک دودھیا بادل میں گھر گیا۔
کسی دستک نے مجھے جگایا۔ میں ایک مجرم کی طرح کانپ گیا اور اپنا سر دائیں ہاتھ سے اٹھایا جو بالکل بے حس ہو چکا تھا۔ کمرے میں خاموشی اور اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ میں نے الجھن اور خوف محسوس کرتے ہوئے بمشکل سوئچ تلاش کیا۔ جب روشنی ہوئی تو میں نے دیکھا کہ کمرے میں میرے علاوہ کوئی نہیں ہے۔ زویا نہ اس کی گرہ۔

جب سے میں اس گھر میں رہ رہا ہوں، میں ایسے مہمانوں کا عادی ہوگیا ہوں جو اچانک نمودار ہوتے ہیں، عجیب و غریب سلوک کرتے ہیں اور پھر بھوتوں کی طرح غائب ہو جاتے ہیں، لیکن اس دن اس عورت نے، اس کی آمد اور اس سے بھی بڑھ کر اس کے غائب ہونے سے مجھے بہت صدمہ پہنچا۔ میں کمرے کے بیچ کافی دیر تک بے حرکت کھڑا دمکتی روشنی میں آنکھیں جھپکاتا رہا۔ مجھے ہوش میں آنے اور شام کی حقیقی سرگرمیوں کی طرف لوٹ آنے میں کافی وقت لگا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close