انہوں نے ہمیں رملہ اور قدس کو جوڑنے والی شاہراہ کے دونوں طرف، دو قطاروں میں کھڑا کر دیا۔ پھر ہم سے کہا کہ اپنے ہاتھ فضا میں اچھی طرح بلند کریں۔ جب ایک یہو-دی فوجی نے میری ماں کو دیکھا، جو مجھے اپنے سامنے کھڑا کرنے کی پوری کوشش کر رہی تھی تاکہ میں جولائی کی دھوپ سے بچ سکوں، تو اس نے میرا ہاتھ پکڑ کر بہت زور سے کھینچا۔ اس کے بعد، مجھے شارعِ الترب کے وسط میں ایک ٹانگ پر کھڑے ہونے اور اپنے بازوؤں کو سر کے اوپر سختی سے اٹھانے کا حکم دیا۔
میری عمر اس وقت نو سال تھی۔ صرف چار گھنٹے قبل ہی میں نے یہُو-دیوں کو رملہ میں داخل ہوتے دیکھا تھا۔ میں شارعِ رمادی کے وسط میں کھڑا، ان کی کارروائی کو بغور دیکھ رہا تھا کہ کس طرح یہُو-دی بوڑھی اور جوان عورتوں کے زیورات تلاش کر رہے تھے اور تشدد و درندگی کے ساتھ انہیں چھین رہے تھے۔ وہاں کچھ سیاہ فام خواتین سپاہی بھی اسی عمل کو بھرپور جوش و خروش کے ساتھ انجام دے رہی تھیں۔ میں یہ بھی دیکھ رہا تھا کہ میری ماں خاموشی سے سسکتی ہوئی مجھے دیکھ رہی تھی۔ میں نے اس لمحے دل کی گہرائیوں سے خواہش کی کہ کاش میں اپنی ماں کو بتا سکوں کہ میں بالکل ٹھیک ہوں اور سورج کا اثر مجھ پر ویسا نہیں پڑ رہا، جیسے وہ سوچ رہی تھی۔۔
میں ہی واحد بچ جانے والا تھا۔ ان حادثات کی ابتدا سے ایک سال قبل میرے والد کا انتقال ہو گیا تھا اور رملہ میں قدم رکھتے ہی میرے بڑے بھائی کو قید کیا گیا تھا۔ مجھے یہ سمجھنے میں دشواری ہو رہی تھی کہ میں اپنی ماں کے کس کام کا ہوں، لیکن اب سوچتا ہوں کہ اگر میں اس وقت دمشق پہنچنے کے بعد اس کے ساتھ نہ ہوتا تو حالات کیسے ہوتے۔۔ میں اس کی خاطر بس اسٹاپس پر چیختے چلاتے روزنامے بیچتا رہا۔
سورج کی تپش نے خواتین اور بزرگوں کی پامردی کو آہستہ آہستہ پگھلانا شروع کر دیا۔ یہاں وہاں سے مایوسی بھرے احتجاج اٹھنے لگے۔ میں نے کچھ ایسے چہرے بھی دیکھے، جو میں رملہ کی تنگ گلیوں میں روز دیکھا کرتا تھا؛ وہ چہرے رنج و الم کی گہری علامت بنے ہوئے تھے، لیکن میں اس درد کی شدت کو کبھی بیان نہیں کر پاؤں گا۔ اچانک میری نظر چچا عثمان پر پڑی، جہاں ایک یہُو-دی خاتون سپاہی ان کی داڑھی کے ساتھ ہنستی ہوئی کھیل رہی تھی۔
چچا ابو عثمان میرے حقیقی چچا نہیں ہیں، بلکہ وہ رملہ کے ملنسار طبیب اور حجام ہیں۔ انہیں پہلی بار دیکھتے ہی آدمی ان کی محبت اور شخصیت کا گرویدہ ہو جاتا ہے۔ سب لوگ تعظیماً انہیں چچا کہہ کر پکارتے ہیں۔ وہ اپنی چھوٹی بیٹی فاطمہ کو اپنے پہلو سے لگائے ہوئے تھے، جو اپنی فراخ اور سرمئی آنکھوں سے سیاہ فام یہُو-دی خاتون کو بڑی توجہ سے دیکھ رہی تھی۔
”یہ آپ کی بیٹی ہے؟“
ابو عثمان نے گھبراتے ہوئے سر ہلایا، لیکن ان کی آنکھیں ایک حیرت انگیز، گھنگھور پیشین گوئی سے چمک رہی تھیں۔ بڑی لاپرواہی سے، یہو-دی خاتون نے اپنی چھوٹی توپ اٹھائی اور فاطمہ کے سر پر نشانہ باندھنے لگی، جو کہ چھوٹی سی گندم گوں جلد اور سرمئی آنکھوں والی، ہمیشہ با حجاب بچی تھی۔
اسی لمحے ایک یہو-دی سپاہی میرے سامنے گھومتے ہوئے آیا اور اس کی نظریں منظر پر ٹک گئیں، وہ میرے اور منظر کے درمیان آڑ بن کر کھڑا ہو گیا۔ لیکن میں نے تین مختلف گولیوں کی آواز سنی۔ پھر میں نے ابو عثمان کو دیکھا، جن کا چہرہ بھیانک درد اور اذیت سے بھر گیا تھا۔ فوراً میری نظر فاطمہ کی طرف گئی، جس کا سر آگے کی طرف جھک گیا تھا اور خون کے قطرے اس کی سیاہ بالوں سے گرم بھوری زمین پر ٹپک رہے تھے۔
تھوڑی دیر بعد، ابو عثمان میرے پاس سے گزرے۔ وہ فاطمہ کی لاش کو اپنے بوڑھے بازوؤں میں اٹھائے ہوئے تھا، گنگ اور ہک وک تھا، وحشت ناک خاموشی کے ساتھ آگے دیکھ رہا تھا۔ وہ تیز قدموں سے میری طرف دیکھے بغیر گزر گیا اور دونوں صفوں کے درمیان سے پہلے موڑ تک خاموشی سے چلتا رہا۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو اس کی بیوی زمین پر بیٹھی ہوئی تھی، جس کا سر دونوں ہاتھوں کے درمیان تھا۔ وہ اداس، کراہتی ہوئی رو رہی تھی۔ ایک یہو-دی سپاہی اس کی طرف بڑھا اور اسے کھڑی ہونے کے لیے اشارہ کیا، لیکن بوڑھی عورت نہ اٹھ سکی، وہ مایوسی اور بے چینی میں دکھی تھی۔۔
اس بار جو کچھ ہوا، میں نے سب کچھ صاف صاف دیکھا۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ کس طرح سپاہی نے اسے اپنے پاؤں سے لات ماری اور بوڑھی عورت کس طرح پیٹھ کے بل گر گئی، اس کے چہرے سے خون کے فوارے پھوٹنے لگے۔ پھر میں نے اسے واضح طور پر دیکھا، سپاہی نے اپنی بندوق کا بیرل اس کے سینے پر رکھا اور ایک ہی گولی چلا دی۔
اگلے ہی لمحے، وہی سپاہی میری طرف بڑھا، بہت سکون کے ساتھ مجھے ٹانگ اٹھانے کو کہا، جو میں نے بغیر کچھ محسوس کیے، زمین پر رکھ دی تھی۔ جب میں نے سر جھکاتے ہوئے اپنی ٹانگ اٹھائی، تو اس نے مجھے دو زور دار تھپڑ رسید کیے اور اپنے ہاتھ کو میری خون آلود قمیض سے صاف کیا۔ شدید درد نے میری جسمانی حالت کو متاثر کیا، لیکن میں نے اپنی ماں کی طرف دیکھا، جو عورتوں کے گروہ میں اپنے بازو ہوا میں بلند کیے، خاموشی سے روتی جا رہی تھی۔ رونے کے دوران، اس کے چہرے پر ایک چھوٹی سی آنسو بھری مسکراہٹ بھی ابھری۔ مجھے محسوس ہوا کہ میری ٹانگیں اپنے وزن کے نیچے مڑ رہی ہیں اور ایک دردناک بلا تقریباً میری ران کو کاٹنے کے قریب ہے، مگر میں با دلِ ناخواستہ ہنس پڑا اور دل کی گہرائی سے خواہش کی کہ کاش میں اپنی ماں کے پاس دوڑ کر جا سکوں، اس سے کہوں کہ مجھے دو تھپڑوں سے کوئی تکلیف نہیں ہوئی، میں ٹھیک ہوں۔۔ آنسو بہاتے ہوئے اس سے التجا کروں کہ وہ نہ روئے، جیسے ابو عثمان نے ایک لمحہ پہلے کیا تھا، وہ بھی اسی طرح بن جائے۔
یک دم میری خیال آرائی ٹوٹ گئی۔ ابو عثمان فاطمہ کو دفنانے کے بعد اپنی جگہ پر واپس آ رہا تھا۔ جب وہ مجھ سے قریب ہوا، اس نے میری طرف بالکل نہیں دیکھا۔ مجھے یاد آیا کہ یہو-دیوں نے اس کی بیوی کو بھی مار ڈالا ہے۔ اب اسے ایک نئے سانحے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ میں ترس بھرے دل سے، تھوڑا سا سہما ہوا، اسے مسلسل دیکھتا رہا، یہاں تک کہ وہ اپنی جگہ پر پہنچ گیا۔ وہ ایک لمحے کے لیے کھڑا رہا، اپنی جھکی ہوئی، پسینے سے شرابور پشت پھیری۔ میں اس کے چہرے کی کیفیت کو سمجھ سکتا تھا: بے جنبش، ساکت، اور چمکتے پسینے کے قطرے اس کی جلد پر گاڑھے ہوئے تھے۔ ابو عثمان اپنی بیوی کی لاش کو اپنے بوڑھے بازوؤں میں اٹھانے کے لیے جھک گیا، جسے میں ہمیشہ اس کی دکان کے سامنے، ٹانگوں سے ٹانگیں لگائے، دیکھتا تھا۔ وہ ابو عثمان کے دوپہر کے کھانے کا انتظار کرتی تاکہ خالی برتنوں کو ساتھ لے کر گھر واپس جا سکے۔
اتنے میں وہ تیسری بار میرے پاس سے گزرا، پیہم کم و بیش ہانپتا ہوا، اس کے جھری دار چہرے پر پسینے کی لڑیاں بہہ رہی تھیں۔ وہ میری طرف متوجہ ہوئے بغیر گزرا، مجھے بالکل بھی نہیں دیکھا۔ میں نے پھر سے پسینے سے بھیگی ہوئی اس کی جھکی ہوئی کمر کو دیکھا۔ وہ دونوں قطاروں کے درمیان آہستہ آہستہ چل رہا تھا۔۔
لوگوں نے آہ و زاری بند کر دی تھی، عورتوں اور بوڑھوں پر ایک اذیت ناک خاموشی چھا گئی تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ ابو عثمان کی یادیں مسلسل لوگوں کی ہڈیوں کو کھا رہی ہوں، وہ یادیں جو ابو عثمان نے حجام کی کرسی پر بیٹھا کر رملہ کے لوگوں کو سنائیں۔ وہ یادیں جنہوں نے لوگوں کے دلوں میں اپنی خاص جگہ بنا لی تھی، اب لوگوں کی ہڈیوں کو مسلسل چبھتی نظر آتی تھیں۔
ابو عثمان زندگی بھر ایک پرامن اور پیارے آدمی رہے تھے، جو ہر چیز پر یقین رکھتے تھے، سب سے بڑھ کر اپنے آپ پر یقین رکھتے تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی کو لا شیئ سے شروع کیا۔ جب جبل النار انقلاب نے انہیں رملہ میں پھینک دیا، تو وہ سب کچھ کھو چکے تھے۔ انہوں نے از سر نو زندگی کا آغاز کیا، جیسے ارضِ رملہ کے سبز پودے اور لوگوں کی محبت اور خوشی حاصل کی۔ جب فلسطین کی آخری جنگ چھڑ گئی، تو انہوں نے سب کچھ بیچ کر ہتھیار خریدے، جو انہوں نے اپنے رشتہ داروں میں تقسیم کیے تاکہ وہ جنگ میں اپنا فرض ادا کر سکیں۔ ان کی دکان بارود اور ہتھیاروں کے گودام میں تبدیل ہو چکی تھی، وہ اس قربانی کی کوئی قیمت نہیں چاہتے تھے۔ ان کی سب سے بڑی خواہش یہ تھی کہ وہ رملہ کے خوبصورت، درختوں سے آراستہ قبرستان میں دفن ہو جائیں۔
ایسی چھوٹی چھوٹی باتیں لوگوں کو خاموش کر دیتی تھیں۔ پسینے سے بھیگے چہرے ان یادوں کے بوجھ تلے لرز رہے تھے۔ میں نے اپنی والدہ کی طرف دیکھا، جو اپنے بازو ہوا میں بلند کیے، اپنے قد کو بڑھاتے ہوئے، جیسے وہ اب کھڑی ہوئی ہوں اور ابو عثمان کو دیکھ رہی ہوں۔ خاموشی سیسہ کے ڈھیر کی مانند تھی۔ ابو عثمان ایک یہو-دی محافظ کے سامنے کھڑے باتیں کر رہے تھے اور اپنی دکان کی طرف اشارہ کر رہے تھے۔ جلد ہی وہ اکیلا ہی تیز قدموں سے دکان کی طرف چلا گیا، ایک سفید تولیہ لے کر واپس آیا، جس میں اپنی بیوی کی لاش کو لپیٹ لیا اور قبرستان کی طرف چل پڑا۔
پھر میں نے اسے دور سے بھاری قدموں کے ساتھ واپس آتے ہوئے دیکھا۔ اس کی پیٹھ جھکی ہوئی تھی، اس کے بازو تھکن کے عالم میں لڑھک رہے تھے۔ چلتے چلتے میرے قریب آیا، پہلے سے زیادہ عمر رسیدہ لگ رہا تھا۔ گرد آلود، کافی دیر تک ہانپ رہا تھا، اس کی چھاتی پر مٹی سے لت پت خون کے بہت سے دھبے تھے۔ جب وہ میرے سامنے آیا، مجھے ایسے دیکھا جیسے وہ پہلی بار میرے پاس سے گزر رہا ہو، مجھے جولائی کی تپتی دھوپ تلے، گلی کے بیچوں بیچ کھڑا دیکھ رہا ہو: خاک آلود، پسینے میں شرابور، کٹے ہوئے ہونٹوں کے ساتھ جن پر خون جما ہوا تھا۔ وہ کافی دیر تک ہانپتا ہوا دیکھتا رہا، اس کی آنکھوں میں بہت سارے احساسات تھے جنہیں میں سمجھ نہیں پا رہا تھا مگر محسوس کر رہا تھا۔ پھر وہ دھیرے دھیرے، گرد آلود اور ہانپتا ہوا، اپنی جگہ کی طرف چل دیا، اپنا چہرہ سڑک کی طرف موڑ لیا، اپنے بازوؤں کو فضا میں بلند کیا۔
لوگوں کے لیے ابو عثمان کو اس کی چاہت کے مطابق دفن کرنا ممکن نہ تھا، کیونکہ جب وہ کمانڈر کے کمرے میں اپنی جانکاری کا اقرار کرنے گیا، تو لوگوں نے ایک زوردار دھماکے کی آواز سنی، جس سے گھر منہدم ہو گیا اور ابو عثمان کے اعضا ملبے تلے دب کر ضائع ہو گئے۔
میری والدہ کو بتایا گیا، جب وہ مجھے پہاڑوں کے پار اردن لے جا رہی تھیں، کہ ابو عثمان اپنی بیوی کو دفنانے سے پہلے اپنی دکان پر گئے، مگر وہ صرف سفید تولیہ لے کر واپس نہیں آئے۔