قربانی (منتخب افسانہ)

محمد جمیل اختر

خواہشات بغیر دستک دیے آدمی کے دل میں گھر کر جاتی ہیں اور جب تک وہ غور کرتا ہے تو یہ خواہشات اندر تک سرائیت کر چکی ہوتی ہے۔

اس آدمی کے اندر بھی خواہشوں کا جال پھیل رہا تھا لیکن اس کی تنخواہ محض 35 ہزار روپے تھی۔ وہ جب اپنی یا اپنے اردگرد لوگوں کی کوئی خواہش پوری نہ کر پاتا تو بے حد رنجیدہ ہو جاتا اور اپنے دفتر ہی کے ایک بزرگ ساتھی اشرف صاحب سے اپنے دکھ بیان کرتا رہتا، جو جواباً اس کی بہت حوصلہ افزائی کرتے اور کہتے کہ نصیر بیٹا پریشان نہیں ہونا، آگے اچھے دن بھی آئیں گے۔

وہ سوچتا کہ معلوم نہیں وہ اچھے دن آخر کب آئیں گے۔

نصیر کا ایک بیٹا تھا جو شادی کے تین سال بعد پیدا ہوا اور اب وہ آٹھ سال کا تھا۔ اسے اپنے بیٹے سے بے حد پیار تھا اور وہ چاہتا تھا کہ بیٹے کی ہر خواہش پوری کرے۔

عید کے دن قریب آتے جا رہے تھے اور محلے میں بکروں اور گائیوں کی آوازوں میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ وہ شام کو جیسے ہی دفتر سے گھر لوٹتا تو شاہد کا ایک ہی سوال ہوتا کہ ابو ہمارا بکرا کب آئے گا؟

وہ تین دن مویشی منڈی میں مارا مارا پھرتا رہا لیکن تلاش کے باوجود بھی اسے کوئی ایسا جانور نہیں ملا جو اس کی جیب میں موجود رقم سے خریدا جا سکتا ہو۔ وہ ہر شام بیٹے سے جھوٹ بولتا اور کہتا کہ بکرا تو خرید لیا ہے لیکن مویشی منڈی والے کہہ رہے ہیں کہ عید سے ایک دن پہلے ہی آپ اسے لے کر جا سکتے ہیں۔

”لیکن پھر باقی سب لوگ اپنے اپنے بکرے پہلے کیوں لے آئے ہیں؟“ اس کا بیٹا پوچھتا۔

”یہ لوگ تو چپکے سے بغیر بتائے مویشی منڈی سے لے آتے ہیں، اگر بتائیں تو پھر کون لانے دیتا ہے، دیکھو ساری گلی میں کتنی گندگی پھیلا دی جانوروں نے؟ اسی لیے تو وہ کہتے ہیں کہ عید سے ایک دن پہلے گھر لے کر جاؤ۔“ وہ بہت سی ایسی باتیں اپنے بیٹے کو بتاتا۔

ننھے شاہد کے ذہن میں کچھ سمجھ آتا اور کچھ نہ آتا اور وہ اپنے پڑوسیوں کے بچوں کو بکرے سے کھیلتے دیکھتا تو دکھی ہو جاتا اور وہ قریب جا کر کہتا کہ مجھے بھی اپنے بکرے کے ساتھ کھیلنے دو، میں بھی اسے چارہ کھلانا چاہتا ہوں۔۔ کبھی کبھار وہ اسے کھیلنے دیتے اور کبھی کہتے کہ وہ لوگ اپنا بکرا کیوں نہیں خریدتے۔

عید آنے میں ابھی دس روز رہتے تھے کہ ایک رات نصیر کی بیوی کے پیٹ میں درد کی شدید لہر اٹھی، وہ بہت پریشان ہو گیا۔ پانچ روز پہلے اس کی موٹر سائیکل بھی خراب ہو چکی تھی، جس کے دونوں ٹائر اب نئے خریدنے تھے۔ پریشانی کے عالم میں پہلے وہ اپنی موٹرسائیکل نکال کر گلی میں لے گیا، پھر اسے خیال آیا کہ اس کے تو دونوں ٹائر خراب ہو چکے ہیں۔ وہ وہاں سے دوڑ کر باہر سڑک پر گیا اور ایک رکشہ لے آیا اور بیگم کو قریبی ہسپتال لے گیا، جہاں کچھ ٹیسٹ وغیرہ کرانے کے بعد معلوم ہوا کہ بیوی کے گردے میں پتھری ہے، وقتی طور پر کچھ انجکشن اور ادویات دے کر درد تو ختم کر دیا گیا لیکن اس کا حل آپریشن ہی تھا۔

وہ رات گئے گھر لوٹ آئے، بستر پر کروٹیں بدلتے بدلتے اور یہ سوچ سوچ کر صبح ہو گئی کہ آخر آپریشن کی رقم کہاں سے آئے گی؟ اس نے دفتر سے قرض لینے کا فیصلہ کر لیا لیکن جب وہ دفتر گیا تو شام تک اس شش وپنج کا شکار رہا کہ اگر اس نے قرض لے لیا تو ہر ماہ تنخواہ سے رقم کٹتی رہے گی، تنخواہ پہلے کون سی زیادہ ہے، اور اس طرح تو وہ مزید کم ہو جائے گی۔

’ڈاکٹر سے مشورہ کروں گا، ممکن ہے آپریشن کچھ ماہ تک مؤخر کیا جا سکتا ہو تو دوائیاں خریدلوں گا اور ہر ماہ تھوڑی بہت رقم بچا کر رکھوں گا۔۔‘ چھٹی تک وہ کسی فیصلے پر نہ پہنچ سکا۔

جب وہ دفتر سے نکل کر سڑک پر آیا تو خیالات کا ایک طوفان اس کے اندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔ اس نے ہاتھ کے اشارے سے ایک رکشے والے کو روکا، کرایہ طے کرکے بیٹھ گیا۔ دفعتاً اس کی نظر سیٹ کے کونے میں موجود ایک لفافے پر پڑی۔ جانے اس کے دل میں کیا آیا کہ اس نے رکشے والے سے نظر بچا کر وہ تھیلا اپنے دفتری بیگ میں رکھ لیا۔ ایسا کرتے ہوئے اس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔

حتیٰ کہ وہ اتنا پریشان ہوا کہ اپنے گھر کی گلی سے کافی فاصلے پر ہی رکشہ رکوا کر کرایہ ادا کیا اور پیدل ہی گھر کی طرف چلنے لگا۔ اسے معلوم نہیں تھا کہ تھیلے میں کیا ہے لیکن پھر بھی اسے دفتری بیگ کا وزن بے تحاشا زیادہ اور گلی روز کی نسبت طویل محسوس ہونے لگی تھی۔

خدا خدا کر کے وہ گھر پہنچا، بیوی بستر پر لیٹی ٹی وی دیکھ رہی تھی اور شاہد اپنے کھلونوں سے کھیل رہا تھا۔ باپ کو دیکھ کر وہ خوشی سے چلایا۔ اس نے بیوی کا حال پوچھا اور فوراً اپنا بیگ لے کر دوسرے کمرے میں چلا گیا۔

اس نے جب وہ تھیلا کھولا تو اسے یوں محسوس ہوا جیسے اس کی ساری دعائیں رنگ لے آئی ہیں اور سب پریشانیاں فوراً ہی ختم ہو گئی ہیں کیونکہ اس تھیلے میں ہزار ہزار کے کئی نوٹ تھے، اس نے احتیاط سے دو دفعہ گنتی کی۔ رقم ایک لاکھ تھی ساتھ ایک عطر کی شیشی تھی، جسے اس نے کوڑا دان میں پھینک دیا۔

اندر ہی اندر اس کے ضمیر نے اسے ملامت کیا کہ معلوم نہیں یہ کس کی رقم ہے لیکن پریشانیاں اس کے سامنے منہ کھولے کھڑی تھیں۔ اس نے دفتر سے چھٹیاں لے لیں اور اگلے ہی دن وہ آپریشن کی غرض سے بیوی کو لے کر ہسپتال گیا۔ آپریشن کے تین دن بعد وہ جب بیوی کو گھر لایا تو بہت خوش تھا کہ پچاس ہزار روپے میں اس کی بیوی ٹھیک ہو گئی تھی۔

ابھی بھی اس کے پاس اتنی رقم تھی کہ وہ قربانی کے لیے ایک بکرا خرید سکے۔ اگلی صبح بیٹے کو لے کر مویشی منڈی گیا اور اس کی پسند کا بکرا خرید لایا۔ بیوی اور بیٹے کے چہرے پر پھیلی مسکراہٹ اسے بے حد اطمینان دے رہی تھی لیکن تھوڑی تھوڑی دیر بعد اندر سے ایک عجیب سا خیال ڈسنے لگتا کہ وہ رقم کس کی تھی، لیکن وہ سر جھٹک کر قہقہوں میں گم ہو جاتا۔

عید آئی اور اس نے قربانی کی۔ چھٹیاں گزار کر جب وہ دفتر پہنچا تو پتا چلا کہ اشرف صاحب کی طبیعت خراب ہے، وہ شام کو ان کی خیریت دریافت کرنے ان کے گھر گیا تو بے چارے کمبل لپیٹے صدیوں کے بیمار نظر آ رہے تھے۔

”ارے اشرف صاحب یہ کیا؟ چند ہی دنوں میں آپ اس قدر کمزور کیسے ہو گئے؟“ ، اس نے بیٹھتے ساتھ ہی پوچھا۔

”بس پریشانیاں آدمی کو ایسے ہی لمحوں میں کھا جاتی ہیں۔۔“ اشرف صاحب نے کمزور سی آواز میں کہا۔

اس نے اشرف صاحب کو ہمیشہ باہمت انسان کی صورت دیکھا تھا بلکہ وہ تو اسے حوصلہ دیتے تھے اور آج خود کیسے اتنا ٹوٹا ہوا دکھائی دے رہے تھے۔

”اشرف صاحب سب خیریت تو ہے، ایسی کیا پریشانی آن پڑی، کچھ تو بتائیں؟“

”نصیر صاحب بس کیا بتاؤں، کئی سالوں سے بیٹی کی شادی کے لیے رقم جمع کر رہا تھا، ایک روز بینک سے رقم نکلوائی لیکن معلوم نہیں راستے میں مجھ سے کہیں گم ہو گئی۔۔ اب اس مہنگائی کے زمانے میں، میں کہاں سے رقم لاؤں اور اگلے ہفتے بیٹی کی شادی بھی ہے۔“

”کتنی رقم تھی اشرف صاحب؟“ اس نے پوچھا۔

”ایک لاکھ روپے تھے۔ مجھے ایسا خیال آتا ہے، بینک سے رقم نکلوا کر میں جس عطر فروش کی دکان پر رکا تھا، تھیلا وہیں بھول گیا تھا لیکن وہ دکاندار اب مان ہی نہیں رہا۔“

یہ سن کر تو نصیر پر جیسے سکتہ طاری ہو گیا، اس کے دل میں اداسی نے گھر کرلیا۔

زندگی بعض اوقات آدمی کو کیسے عجیب دوراہے پر لاکھڑا کرتی ہے۔۔ وہ جو کئی دنوں سے ضمیر کی آواز کو دبا رہا تھا، آج یکدم منوں بوجھ تلے دب گیا۔ اسے معلوم نہیں کہ اس نے اشرف صاحب سے مزید کیا کیا باتیں کیں، کیسے رخصت لی۔ اسے کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی۔ ساری رات کروٹیں بدلتا رہا۔

اگلے دن اس نے دفتر میں ایک لاکھ قرض کی درخواست دے دی، جب تک اسے قرض کی رقم نہ ملی وہ اس بوجھ تلے دبا رہا۔ بیوی اور بچے سے کوئی بات نہ کرتا، کھانا کھانے کو جی نہ چاہتا۔ ہر وقت ایک ہی خیال ستاتا کہ اس نے اشرف صاحب اور ان کی بیٹی کے ساتھ اچھا نہیں کیا۔ یوں محسوس ہوتا جیسے اس رقم سے کی گئی قربانی بھی زمین و آسمان کے درمیان کہیں معلق ہو کر رہ گئی ہے، اس کی اپنی زندگی بھی ان چار دنوں میں ایک خلا میں گزر رہی تھی۔ یہ بوجھ تب جا کر اترا، جب دفتر سے ملی قرض کی رقم اس نے اشرف صاحب کو لوٹا دی۔

ان کے گھر سے واپسی پر وہ خود کو بے حد ہلکا پھلکا محسوس کر رہا تھا جیسے کوئی بھاری پتھر اس کے سینے سے اتر گیا ہو اور آج جا کر اس کی قربانی قبول ہوئی ہو۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close