اداکار کی موت (منتخب افسانہ)

انتون چیخوف (ترجمہ: شاہد اختر)

شیانوف ایک لحیم شحیم اداکار تھا۔ اداکاری کے فن میں نہ سہی اپنی جناتی ضخامت کی وجہ سے تھیٹر میں خاصا کامیاب بھی تھا اور سادہ لوح طبیعت کے باعث مقبول بھی۔ دوسرے اداکار اس سے چھیڑ چھاڑ کرتے رہتے۔ کوئی اس کو گینڈا کہتا۔ کوئی سرکاری سانڈ۔۔ لیکن سب اسے پیار کرتے تھے۔ وہ ڈراموں میں رستم، ہرکولیس اور سیمسن جیسے کردار ادا کرتا اور تماشائیوں سے خوب داد لیتا۔ کبھی کبھی تو تماشائی اس کی اداکاری سے اتنے خوش ہوتے کہ زور زور سے سیٹیاں بجاتے اور اسٹیج پر پیسے پھینکتے۔

ایک دن ریہرسل کے دوران شیانوف کا ڈائرکٹر زوکوف سے کسی بات پر سخت جھگڑا ہوا۔ غصے میں ایسی باتیں کہی گئیں جن کا نتیجہ پچھتاوے کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا۔ نوبت تُو تُو میں میں تک آ گئی۔ یہ رویہ شیانوف کا وتیرہ نہیں تھا۔ اس نے یہ بات دل پر لے لی۔ اسے لگ رہا تھا جیسے اس کا دل ٹوٹ گیا ہو۔ غصے، صدمے اور اداسی کے ملے جلے جذبات لیے وہ ریہرسل درمیان میں ہی چھوڑ کر اپنے ہوٹل کے کمرے میں واپس آ گیا۔ اس نے ابھی تک اپنا میک اپ تک نہیں اتارا تھا۔ جلدی میں صرف مصنوعی داڑھی کو ٹھوڑی سے اتار کر میز پر پھینک دیا تھا۔

وہ پنجرے میں قید جنگلی جانور کی طرح بے چینی میں اِدھر سے اُدھر چکر پر چکر لگا رہا تھا۔ جب بہت تھک گیا تو بستر کے کونے پر بیٹھ گیا اور ساری رات اسی حالت میں گزار دی۔ وہ خدا جانے کن سوچوں میں گم اسی طرح بیٹھا رہا۔ صبح ہو گئی۔ وہ پھر بھی نہ ہلا۔ دوپہر کے وقت دروازے پر دستک ہوئی۔ شیانوف نے کوئی جواب نہ دیا۔

تھیٹر کا مزاحیہ اداکار گسٹاف کمرے میں داخل ہوا۔ اس کے منہ سے واڈکا کی بھبک آ رہی تھی۔ شیانوف کے ماتھے سے کل کے باسی میک اپ میں رنگے پسینے کے قطرے ٹپک رہے تھے۔ وہ سردی سے ٹھٹھر رہا تھا اور اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔

گسٹاف گھبرایا تو سہی لیکن اس گھبراہٹ کو چھپانے کی کوشش کرتے ہوئے بولا، ”یہ کیا بیہودگی ہے؟ ریہرسل کے لئے کیوں نہیں آئے؟“

شیانوف نے اس پر کوئی توجہ نہ دی۔ اسے بس اتنا خیال آیا کہ وہ کل رات دروازے کو چٹخنی لگانا بھول گیا تھا۔ گسٹاف ذرا آگے بڑھا اور شیانوف کا سانس سونگھنے کے لئے منہ اس کے نزدیک لایا، لیکن شیانوف کے سانس میں شراب کے کوئی آثار نہیں تھے۔

اب گسٹاف یہ جانتے ہوئے بھی کہ شیانوف کی حالت خراب ہے، مصنوعی غصے میں بولا، ”جواب کیوں نہیں دیتے؟ تم بیمار ہو؟“

”میں نے گھر جانا ہے۔ بس۔“ شیانوف نے دھیمی سی آواز میں کہا۔

”لیکن تم گھر میں ہی تو ہو۔ اب کون سے گھر جانا ہے؟“

”اپنے گھر۔ راستوف۔“

”کون سے راستوف؟“

”جہاں میرا گھر ہے۔“

”گھر ہے، یا تھا؟“

شیانوف خاموش رہا۔

”بھلے آدمی اب وہاں تمہارا کون ہے؟ اماں اور ابا تو تمہارے کب کے مٹی میں مل چکے۔۔ اب تو تمہیں ان کی قبریں بھی نہیں ملیں گی۔ تمہیں اس شہر کے لوگ اب پہچانیں گے بھی نہیں۔ کیا لینا ہے وہاں جا کر؟“

”میں نے گھر جانا ہے۔ مجھے نہیں پتہ۔۔ بس میں گھر جاؤں گا۔“

”پاگل ہو گئے ہو کیا؟ کل تمہارے شو کی آخری ریہرسل ہے۔ تمہیں سفاک ژار کا رول ادا کرنا ہے۔ چلو اٹھو گرم قہوہ تھوڑے سے کاسٹر آئل کے ساتھ پیو۔ تمہارے پاس کاسٹر آئل کے پیسے ہیں؟ یا رہنے دو ، میں جا کر لے آؤں گا۔“

مسخرہ اداکار اب واقعی شیانوف کے بارے میں فکر مند ہو گیا تھا۔ اس نے اپنی جیبیں ٹٹولیں۔ اس میں آدھے روبل کے کچھ سکے ملے۔ وہ شیانوف کو تسلی دے کر باہر نکلا اور ایک گھنٹے کے بعد کاسٹر آئل کی ایک چھوٹی سی بوتل لے کر واپس لوٹا۔

”یہ لو۔ بس بوتل ہی کو منہ لگا کر پی جاؤ۔ شاباش۔ ہاں ایسے۔ تھوڑا سا ہے۔ اسے ختم کر دو۔۔ اور اس کے بعد ایک الائچی چبا لو تاکہ تمہارے منہ سے اس کاسٹر آئل کی منحوس بدبو نہ آئے۔“

گسٹاف تھوڑی دیر اور بیٹھا اور پھر یہ کہہ کر چلا گیا کہ اسے سفاک ژار کی ریہرسل پر پہنچنا ہے۔

شام ہونے کو آئی تو تھئیٹر کمپنی کا ہیرو برام، شیانوف کو دیکھنے آیا۔ وہ اسٹیج پر تو خیر ہیرو تھا ہی لیکن اسٹیج کے علاوہ بھی اس کا برتاؤ ایسے ہوتا جیسے ادا کاری کر رہا ہے۔

”میں نے سنا ہے تم بیمار ہو؟“
برام نے ایک ہاتھ چست پتلون میں ڈال کر اور دوسرے ہاتھ سے سگار کی راکھ جھاڑتے ہوئے پوچھا۔

شیانوف نے کوئی جواب نہ دیا۔ برام بڑے اداکارانہ انداز میں کھڑکی کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا۔ ”ٹھیک ہے۔ تم چپ ہی رہو۔ بولنے سے اور طبیعت خراب ہوگی۔ تمہیں چکر تو نہیں آ رہے؟“

”مجھے گھر جانا ہے۔“ شیانوف نے کمزور آواز میں جواب دیا۔

”کہاں ہے تمہارا گھر؟“

”راستوف میں۔“

”راستوف میں!؟“ برام نے چلا کر کہا، ”میرے بھائی! راستوف یہاں سے ہزار میل دور ہے۔۔ اور وہاں جا کر کرو گے کیا؟“

اب شیانوف میں بھی گھٹیا ڈراموں کے اداکار کی روح حلول کر آئی تھی۔ اس نے جذباتی ہو کر ، سارے دن میں پہلی مرتبہ بلند آواز سے ڈرامے کے ڈائیلاگ بولنے کے انداز میں کہا، ”میری مٹی مجھے بلا رہی ہے۔ میری قبر مجھے آواز دے رہی ہے۔ میں راستوف میں مرنا چاہتا ہوں۔۔ میرا شہر مجھے پکار رہا ہے۔۔ میں اپنی آبائی زمین میں دفن ہونا چاہتا ہوں۔“

”شاباش بیٹا شاباش۔ زندگی میں پہلی مرتبہ ذرا سے بیمار ہوئے ہو اور اسی میں مرنا چاہتے ہو۔ ارے تم جیسے بھینسے کا یہ معمولی سی بیماری کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ تھیٹر والے تمہیں گینڈا جو کہتے ہیں تو کسی وجہ سے کہتے ہیں۔ تم سو سال کے ہو کر بھی مر گئے تو بڑی بات ہے۔ اچھا بتاؤ درد کہاں ہے؟“

”درد تو کہیں بھی نہیں مگر۔۔۔“ شیانوف نے کہنا شروع کیا مگر برام نے اس کی بات کاٹ دی۔

”تو پھر یہ مرنے کی رٹ کیوں لگا رکھی ہے؟“

”مجھے لگتا ہے کہ میں مرنے والا ہوں۔“

”کچھ نہیں لگتا وگتا۔ اصل میں ایک تو تم بہت تگڑے ہو اور اوپر سے بڑے ہی نا شکر گزار بھی۔۔ سیدھا سادا وہی کرو جو ہم سب کرتے ہیں۔ میں واڈکا کی بوتل لاتا ہوں۔ ڈٹ کے پیو اور مدہوش ہو جاؤ۔ جب نشہ اتر جائے تو تھیٹر واپس آ جاؤ۔ سفاک ژار تمہارا منتظر ہے۔ بزرگوں کا کہنا ہے کہ واڈکا ہر مرض کی دوا ہے۔ تمہیں یاد ہے سینٹ پیٹرزبرگ میں تم نے کیا کیا تھا؟ میں اور ساشا بڑی مشکل سے اتنا بڑا واڈکا کا مٹکا اٹھا کر لائے تھے اور تم اکیلے ہی غٹاغٹ اس کو پی گئے تھے۔ اور یاد ہے بعد میں تم نے تھئیٹر کے باہر نیا نیا لگا بجلی کا کھمبا جڑ سے کھاڑ پھینکا تھا؟“ برام نے ہنستے ہوئے کہا۔

اس یادگار واقعے کے ذکر پر شیانوف کی نیم مردہ آنکھوں میں پہلی مرتبہ چمک کے آثار نمودار ہوئے۔ اس نے خفیف سی مسکراہٹ سے کہا، ”ہاں، اور تمہیں یہ بھی یاد ہے کہ میں نے پھر کتنی زبردست اداکاری کی تھی۔ لوگوں نے کتنے پیسے پھینکے تھے۔۔ اور پردہ گرنے کے بعد میں نے کمپنی کے مینیجر کی کیسی ٹھکائی کی تھی۔۔ وہ تیتیسواں مینیجر تھا، جس کو میں نے پیٹا تھا۔۔۔
اور تمہیں یہ بھی یاد ہے برام جب پندرہ غنڈے تھیٹر میں گھس آئے تھے اور میں نے ان سب سے ناک رگڑوائی تھی۔ جب وہ بچوں کی طرح رو رو کر کہہ رہے تھے چاچا اس مرتبہ معاف کر دو ، آئندہ ایسی حرکت نہیں کریں گے۔“

اب شیانوف پھر سے رونے لگا تھا۔ سسکیاں بھرتے بھرتے اس نے اپنی فتوحات کی داستان جاری رکھی، ”اور یاد ہے جب میں نے سائبیریا میں ایک گھوڑے کو گھونسے مار مار کر ہلاک دیا تھا۔“

”تو پھر رو کیوں رہے ہو، بے وقوف؟“ برام نے پوچھا۔

”اب سب کچھ ختم ہو چکا ہے۔ کچھ نہیں رہا۔۔ اب میرے آخری دن آ گئے ہیں۔۔ میں مرنے کے قریب ہوں۔۔۔ موت میرے سامنے کھڑی ہے“

شیانوف پھر سے خاموش ہو گیا تھا۔ اس نے اپنا سر دونوں ہاتھوں میں پکڑا ہوا تھا۔ کچھ دیر خاموشی رہی۔ پھر اچانک شیانوف ایک جھٹکے کے ساتھ بستر سے اٹھا، میز پر سے اپنی ٹوپی اٹھائی، بوٹ پہنے اور چہرے پر ایک پُر عزم تاثر کے ساتھ دروازے کی جانب بڑھا۔

”اوئے پاگل کیا کر رہے ہو؟“ برام کچھ پریشان ہو گیا تھا۔

”میں راستوف جا رہا ہوں۔ خدا حافظ۔“ شیانوف اب ایسے بول رہا تھا جیسے نشے میں ہو۔

”تمہارے پاس ٹکٹ کے پیسے ہیں؟“

”میں پیدل ہی چلا جاؤں گا۔“

”تمہارا دماغ چل گیا ہے کیا؟“

دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ شاید بیک وقت دونوں کو ناقابلِ سفر جنگلوں، ناقابلِ عبور دریاؤں اور اور دلدلوں اور تا حدِ نظر چٹیل میدانوں کا خیال آیا تھا۔ شیانوف پھر بستر پر بیٹھ گیا تھا۔

”میں بتاتا ہوں اب کیا کرو۔ ابھی میں جاتا ہوں اور شراب فروش نتاشا کی دکان سے ادھار پر واڈکا کی بوتل لاتا ہوں۔ تمہیں اس وقت بس صرف واڈکا کی ضرورت ہے۔ “

برام فوراً نکلا اور آدھے گھنٹے کے بعد واپس لوٹا۔ نتاشا ادھار پر واڈکا دینے کو راضی ہو گئی تھی۔ شراب کی بڑی بوتل کے ساتھ برام ایک کاسٹر آئل کی چھوٹی سی بوتل بھی لے آیا تھا۔

شیانوف ساکن بستر میں بیٹھا تھا۔ اس کی آنکھیں کمرے کے فرش پر جھکی ہوئی تھیں۔ چہرے سے مایوسی اور اداسی جھلک رہی تھی۔ خاموشی سے اس نے کاسٹر آئل پیا۔ واڈکا کی بوتل پوری کی پوری چڑھا گیا۔ برام نے اسے لحاف سے ڈھکا اور احتیاطاً اوپر اس کا اوورکوٹ بھی اڑھا دیا تاکہ شیانوف کو اچھی طرح پسینہ آئے۔

برام کے جانے کے بعد شیانوف بستر پر لیٹا چھت کو گھورتا رہا۔ جب کھڑکی سے اسے چاند نظر آیا تو کروٹ بدل کر وہ چاند کو دیکھتا رہا۔ اتنی شراب پینے کے باوجود ساری رات اس نے پلک تک نہ جھپکی۔ اسی طرح صبح ہو گئی۔ نو بجے کے قریب تھیٹر کا ڈائریکٹر زوکوف کمرے میں داخل ہوا۔

”پیارے، میرے پیارے شیانوف، یہ کیا مطلب؟ یہ تمہیں بیمار ہونے کی کیا سوجھی؟ تمہارا اور بیماری کا کیا تعلق؟ اس ڈیل ڈول کے ساتھ تم کیسے بیمار ہو سکتے ہو؟ سچی بات بتاؤں، میں ڈر گیا تھا کہیں ہماری کل کی گفتگو نے تو تمہیں بیمار نہیں کر دیا؟ تمہیں میری باتیں بری تو نہیں لگیں؟ ٹھیک ہے میں نے کچھ سخت الفاظ کہے تھے لیکن تم نے بھی تو گالم گلوچ میں کچھ کسر نہیں رکھی۔۔ اور اوپر سے مجھے ایک مکہ بھی رسید کر دیا تھا۔ خیر میں در گزر کرتا ہوں۔ بلکہ تم سے معافی بھی مانگتا ہوں۔۔ مگر تم میری وجہ سے بیمار مت ہو۔ تم مجھے بہت عزیز ہو۔ حالانکہ تم میرے کوئی رشتہ دار نہیں لگتے، اس کے باوجود جیسے ہی میں نے سنا تم بیمار ہو، میں بھاگا ہوا آیا۔۔ اور یہ دیکھو تمہارے لئے کاسٹر آئل بھی لے کر آیا ہوں جس سے تمہیں فوراً شفا ہو جائے گی۔ چلو منہ کھولو۔“

چھوٹی سی یہ بوتل بھی لمحہ بھر میں ختم ہو گئی۔ یہ کہہ کر زوکوف نے اپنی چاہت کی یاد دہانی کراتے ہوئے اجازت چاہی۔

دو گھنٹے کے بعد تھیٹر کمپنی کا حجام، جو جراح کے فرائض بھی ادا کرتا تھا، کمرے میں داخل ہوا۔ اس کے کندھے سے ایک پوٹلی لٹکی ہوئی تھی۔ کچھ دیر خاموشی سے شیانوف کو دیکھنے کے بعد حجام نے پوٹلی سے چھوٹی چھوٹی بیس آب کش پیالیاں نکالیں۔ ایک بوتل میں جونکیں بھری ہوئی تھیں جن کو ایک ایک کر کے اس نے شیانوف کی چھاتی پر چسپاں کر کے ان کو پیالیوں سے ڈھانپ دیا۔

”تمہاری بیماری کا بس ایک یہی علاج ہے۔ تمہارا خون فاسد ہو گیا ہے۔ جیسے ہی یہ جونکیں اپنا کام دکھائیں گی، تم بالکل صحت یاب ہو جاؤ گے۔ بالکل نئے نویلے۔۔ تم نے مجھے پہلے کیوں نہیں بلایا۔ بیماری کو نظر انداز کرنا اچھی بات نہیں۔۔ یہ دیکھو ان پیالیوں میں فاسد خون جمع ہو رہا ہے۔“

تھوڑی دیر کے بعد اس نے خون سے بھری پیالیاں شیانوف کی چھاتی سے اتاریں اور جیب سے کاسٹر آئل کی بوتل نکال کر چمچوں سے شیانوف کو پلانا شروع کر دیا۔ جب بوتل ختم ہو گئی تو حجام نے خاص طور پر شیانوف کو یاد دہانی کرائی کہ اس نے علاج کے پیسے اس لیے نہیں لیے، کیونکہ وہ شیانوف کو اپنے بھائیوں کی طرح چاہتا ہے۔

اگلی صبح گسٹاف، وہی کل واڈکا والا مسخرہ اداکار، دوبارہ اس کے پاس آیا۔ اس نے دیکھا کہ شیانوف کی آنکھوں میں دھندلاہٹ چھا گئی تھی۔ وہ بستر میں اوورکوٹ اور لحاف کے باوجود سردی سے کپکپا رہا تھا۔ درد سے تڑپ رہا تھا اور رک رک کر سانس لے رہا تھا۔ اس کے ہونٹ ہل رہے تھے جیسے کچھ کہنے کی کوشش کر رہا ہو۔ گسٹاف نے قریب ہو کر سننے کی کوشش کی۔

”راستوف، راستوف، مجھے راستوف لے چلو۔“ شیانوف نے کمزور آواز میں کہا۔

”دیکھو شیانوف، حد ہوتی ہے ہر بات کی۔۔ یہ بے وقوفی بہت ہو چکی۔ راستوف کا خیال دل سے نکال دو۔ تم جیسا اپنے ہنر میں یکتا اداکار راستوف جا کر کیا کرے گا؟ تھیٹر تمہاری دنیا ہے، تمہاری زندگی ہے۔۔ لوگ تمہاری اداکاری کو پسند کرتے ہیں، تم سے پیار کرتے ہیں۔ وہاں تمہارا کون ہے؟ تم وہاں تنہا ہوگے۔ کوئی تمہاری اداکاری سے خوش ہو کر سیٹیاں نہیں بجائے گا۔ کوئی اسٹیج پر پیسے نہیں پھینکے گا۔“

مسخرہ اداکار اب بہت مضطرب ہو گیا تھا۔ وہ کسی طرح سے شیانوف کی توجہ بٹانا چاہتا تھا۔ اس نے جھوٹ موٹ ہی کہہ دیا کہ آج صبح ہی کمپنی کے مینیجر نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ شیانوف کو چند ہفتوں کے لئے آرام اور چھٹی کے لیے اڈیسہ بھجوانے پر تیار ہے۔ کمپنی کے خرچ پر۔

لیکن درد میں تڑپتا شیانوف کچھ نہیں سن رہا تھا۔ اپنی کمزور دھیمی آواز میں وہ اپنے شہر کے نام کی رٹ لگائے جا رہا تھا۔

مسخرے اداکار کو اب انتہائی تشویش لاحق ہو گئی تھی۔ اسے احساس ہو گیا تھا کہ کوئی بات شیانوف کے اس اٹل فیصلے کو نہیں بدل سکتی۔ اس کا دل پسیج رہا تھا۔ اب وہ صرف اپنے اس سادہ لوح اور قوی ہیکل دوست کو تسلی دینا چاہتا تھا۔ اسے کسی طرح تسکین پہنچانا چاہتا تھا۔ دوستی کا حق ادا کرنا چاہتا تھا۔ اس نے اب خود ہی راستوف کی باتیں کرنی شروع کر دیں۔

”ہاں شیانوف، راستوف اچھی جگہ ہے۔ میں وہاں آپ جا چکا ہوں۔ وہاں کی زندگی کتنی سادہ اور پیاری ہے۔۔ اور وہاں کے کیک کتنے لذیذ ہیں۔ اس شہر کے لوگ کتنے اچھے ہیں۔ ضرور جاؤ شیانوف۔۔ اپنے وطن ضرور جاؤ۔۔ تمہاری مٹی تمہیں بلا رہی ہے۔ وہاں تم بہت خوش رہو گے۔ بہت ہی خوش۔“

پُر نم آنکھوں سے یہ الفاظ کہتے ہوئے مسخرہ اداکار کمرے سے چلا گیا۔

شام پڑنے تک شیانوف دم توڑ چکا تھا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close