ایک مرتی جھیل کا دکھ (افسانہ)

امر گل

میں ایک جھیل ہوں، جس نے اپنی گہرائیوں میں زمانوں کا عکس محفوظ کر رکھا ہے۔ میرے کناروں پر زندگی کے کئی رنگ کھلے، کئی مناظر بنے اور بکھرے، مگر آج میں تیزی سے خشک ہو رہی ہوں، جیسے مرنے کے قریب ایک بوڑھا جسم اپنی آخری سانسیں لے رہا ہو۔

میں زمانوں سے قائم، پہاڑوں کے درمیان سانس لیتی، پانیوں کا خواب بُنتی رہی۔۔ میری سطح کبھی ماں کی گود کے جیسی تھی، جس کی لہروں پر فطرت جھولا جھولتی تھی۔ میرے پانی گنگناتے تھے، پرندے میرے سینے پر رقص کرتے، ہوا میرے کنارے کو چومتی۔۔ اور میں موسموں کی شدتوں، بارشوں کے بادلوں، اور ہوا کے بوسوں کی گواہ تھی۔۔ مجھ میں اپنا عکس دیکھنے والے چاند نے مجھے محبتوں کے گیت سنائے تھے، میرے سینے پر چمکتے سورج نے مجھے ہمیشہ کی زندگی کا خواب دکھایا تھا۔۔ لیکن آج، میں اس خواب کی دھند میں ڈوب رہی ہوں۔

ایک وقت تھا جب پہاڑوں سے بہتی ندی میرے وجود میں آ کر شامل ہوتی تھی، میرے پانیوں کو تازگی دیتی تھی، میرے سینے کو بھر دیتی تھی۔ میں اپنے پانیوں میں نیلا آسمان قید کر لیتی تھی، اور میرے وجود پر ہزاروں پرندے اپنا مسکن بناتے تھے۔ میرے ساتھ بگلے، چکور، بطخیں، اور نہ جانے کتنے آبی پرندے رہتے تھے۔ ان کے پروں کی ہوا، ان کی آوازیں، ان کی ہجرتیں سب میری یادوں کا حصہ ہیں۔ جنگل کے کتنے ہی جانور میرے پانیوں سے اپنی پیاس بجھانے میری دہلیز پر آتے تھے۔۔ ہم نے کئی دن ساتھ گزارے، جب گرمی آتی تھی تو وہ میرے پانیوں میں اتر کر اپنی پیاس بجھاتے تھے، سردیوں کی آمد پر وہ میرے کناروں پر چہچہاتے تھے، مجھ سے باتیں کرتے تھے، ان کی خوشیاں چہچہاتی بولیوں میں گھل کر اور ان کے دکھ آنسوؤں میں بہہ کر میرے وجود کا حصہ بن جاتے تھے۔۔

میری جڑیں جہاں تک پھیلی تھیں، وہاں اب کنکریٹ کے جنگل اُگ چکے ہیں۔ وہ ندی جو مجھے زندگی دیتی تھی، اب سیمنٹ اور اینٹوں کے ڈھیر میں دفن ہو چکی ہے۔ وہ ندی جس نے مجھے ہمیشہ زندہ رکھا، اب میرے وجود سے روٹھ گئی ہے۔ اس کا راستہ روک دیا گیا ہے، اور میرے دل کی دھڑکنیں اب دھیرے دھیرے تھم رہی ہیں۔ ہاؤسنگ سوسائٹی نے میرے دوست پہاڑوں کو کاٹ کر اپنے گھر بنا لیے، اور ان پہاڑوں کے سینے سے بہنے والا پانی مجھے چھوڑ چکا ہے۔ کبھی میرے اندر زندگی کا شور ہوتا تھا، وہاں اب خاموشی کے ڈیرے ہیں۔۔ جہاں کبھی پانی کی مستیاں تھیں، وہاں اب سوکھے مٹیالے کنارے ہیں۔

میری مچھلیاں، جو کبھی میرے وجود کی رونق تھیں، اب دم توڑ رہی ہیں۔ مچھلیاں، جو میرے پانیوں میں کھیلتی تھیں، اب ساکت ہو چکی ہیں۔ میری مچھلیاں، جنہوں نے میری گہرائیوں میں رہ کر سکون پایا، اب مرجھا رہی ہیں۔ میرے اندر کی مچھلیاں، جو کبھی میری گہرائیوں میں چھپتی تھیں، آج میری گہرائیوں کے ختم ہونے پر خاموش ہیں۔ وہ مر رہی ہیں، اور میں ان کے مرنے کی گواہ ہوں۔ میں بس دکھ اور بے بسی سے اپنی زندگی ان کے ساتھ ختم ہوتے دیکھ رہی ہوں۔

میری کہانی ان پرندوں کی بھی ہے، جو کبھی میرے پانیوں پر تیرتے تھے۔ وہ بگلے، جو صبح کے وقت میری سطح پر سفید پنکھ پھیلائے اڑتے تھے، اب یہاں نہیں آتے۔ وہ مجھ سے اپنی خوشیاں کہتے تھے، مجھے اپنے دکھڑے سناتے تھے، میں ان کی ہنسی سنتی تھی، ان کے پروں کی سرسراہٹ کو اپنے سینے میں جذب کرتی تھی۔ وہ اپنے پروں سے لپٹی تھکن کی گرد کو میرے پانیوں سے دھو کر تازہ دم ہو جاتے تھے۔۔ وہ مجھ سے کہتے تھے کہ میں ہمیشہ رہوں گی، ہمیشہ ان کا مسکن ہوں گی۔ مگر آج، میرا پانی سوکھ چکا ہے، اور ان کی آوازیں غائب ہیں۔ پرندے، جو میری سطح پر گاتے تھے، اب دور کسی اور جھیل کی تلاش میں ہیں۔۔ ان کی آنکھوں میں آنسو ہیں، جو میرے دامن میں ٹھہرے پانیوں کی آخری نشانی کی طرح لگتا ہے۔

درخت، جو میرے کناروں پر اپنے سائے ڈالتے تھے، اب خشک ہو کر گر رہے ہیں۔ کبھی ان درختوں کے نیچے لوگ بیٹھ کر قصے کہانیاں سناتے تھے، پر اب وہاں صرف ویرانی اور خاموشی ہے۔ ان درختوں کی جڑیں میری سوکھی مٹی میں بے جان ہو گئی ہیں، جیسے میرے سینے میں کسی نے کئی خنجر گھونپ دیے ہیں۔ میرے کنارے پر کھڑے درخت، جو موسموں کے راز میرے ساتھ بانٹتے تھے، اب مرجھا رہے ہیں۔ وہ ہوا، جو ان کے پتوں کے ساتھ کھیلا کرتی تھی، آج نوحہ کناں ہے۔ میں ان درختوں سے اپنے درد کا ذکر کرتی ہوں، لیکن ان کے ہونٹوں پر اب بس درد بھری اک خاموشی کپکپاتی ہے، جیسے وہ بھی میرے درد کا بوجھ اٹھانے سے قاصر ہوں۔۔ وہ خود اپنے درد کے بوجھ تلے دب رہے ہیں۔۔

میری آواز دھندلی ہو رہی ہے، جیسے میرے وجود کی باقیات بھی مٹ رہی ہوں۔ میرے پرندے، میری مچھلیاں، میرے کناروں کے درخت، سب اداس ہیں۔ میری موت یقینی ہے، اور یہ ایک ایسی موت ہے جو آہستہ آہستہ ہر زندہ چیز کو اپنے ساتھ لے جا رہی ہے۔

میں نے تاریخ کے کئی ادوار دیکھے۔ میں نے کئی زمانوں کی سختیاں جھیلیں۔۔ میں نے عروج و زوال دیکھے، جنگیں، محبتیں، سردیاں اور گرمیاں۔۔ میں نے انسانوں کو آتے جاتے دیکھا۔۔۔ اور اب میں دیکھ رہی ہوں کہ میں بھی ایک ایسے زوال کا شکار ہو رہی ہوں جو شاید کبھی نہ رکے۔

مجھے یاد ہے وہ دن جب لوگ پہلی بار میرے پاس آئے تھے۔ وہ خوش تھے، میری ٹھنڈی ہوا، میرے صاف پانی، اور پرندوں کی چہچہاہٹ نے ان کے دل موہ لیے تھے۔۔ مگر آج وہ لوگ مجھے بھول چکے ہیں، میں ان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن چکی ہوں۔

میری داستان ختم ہو رہی ہے، اور میں اس امید کے ساتھ سوکھ رہی ہوں کہ شاید کوئی، کہیں، میری آخری آواز، میری آخری ہچکیاں سن لے۔۔ مگر شاید یہ بھی صرف ایک خواب ہے، جیسے میرے کنارے کھڑے مرتے ہوئے وہ درخت جو ہوا کے ایک الوداعی نرم جھونکے کا انتظار کر رہے ہیں۔

انسان، جو کبھی میرے کنارے پر آتے تھے، اپنی شامیں گزارتے تھے، اب مجھ سے منہ موڑ چکے ہیں۔ وہ میرے پانیوں سے سیراب ہوتے تھے، یہاں اپنی یادیں چھوڑ جاتے تھے۔ میں نے ان کے قہقہے سنے، ان کے غم میں شریک ہوئی، اور ان کی محبتوں کی گواہی دی۔۔ لیکن آج، جب میں مر رہی ہوں، وہ خاموش ہیں۔ انہیں شاید احساس نہیں کہ جس جھیل نے انہیں سکون دیا، وہ اب انہیں کبھی نہیں ملے گی۔۔ انہیں نہیں معلوم کہ وہ کیا کھو رہے ہیں۔۔

مستقبل کی خشک گرم ہواؤں میں جب وہ میرے کھوکھلے کناروں پر آئیں گے، تب انہیں میری کمی محسوس ہوگی۔ وہ اپنی پیاس بجھانے آئیں گے، لیکن یہاں کچھ نہ ہوگا۔ میں انہیں چیخ کر بتانا چاہتی ہوں کہ وہ دن دور نہیں جب انہیں میری ضرورت ہوگی، مگر شاید تب تک میں فقط ایک خشک گڑھا بن چکی ہوں گی، محض اپنی یادوں کی اک ویران قبر۔۔

میری زندگی کا آخری صفحہ لکھا جا رہا ہے، اور یہ صفحہ بہت اداس ہے۔ اس کے ہر اک لفظ میں درد کی سلوٹیں ہیں۔۔ میں ایک جھیل ہوں، جسے ان انسانوں نے ختم کر دیا، کہ میں جن سے ماں کی طرح محبت کرتی تھی۔۔

مگر میری یادیں ہمیشہ ان ہوا کے جھونکوں میں رہیں گی، جو کبھی میرے پانیوں کو چھو کر گزرتے تھے۔

میرے اندر کا درد اب میرے پانی کے ساتھ ختم ہو رہا ہے۔ میں اک جھیل ہوں، اور میری کہانی بس اتنی ہی تھی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close