کنجوس جواری (افسانہ)

محمد جمیل اختر

اس بات کا حتمی اندازہ لگانا تو شاید ممکن نہیں کہ کریم بخش کو کنجوسی کی عادت کب سے پڑی تھی، دراصل بخیلی کی اپنی ایک دنیا ہے جس میں آدمی ایک بار داخل ہو جائے تو باہر نکلنا ممکن نہیں رہتا، پھر چاہے ساری دنیا اس آدمی کو بُرا بھلا کہتی رہے۔

کریم بخش جو اَب پینسٹھ برس کا سن رسیدہ بوڑھا تھا مگر اب بھی وہ اپنی اس بخل کرنے کی عادت کو ترک نہیں کر سکا۔ ساٹھ برس تک وہ سرکاری نوکری کرتا رہا، ملازمت کے ان برسوں میں بھی اس نے سرکاری گھر میں رہنے کے بجائے قصبے میں اپنے آبائی گھر میں رہنے کو ترجیح دی تھی، اور وہ کرائے کی مد میں کٹنے والی معمولی سی رقم بھی ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا، چاہے اس کے بدلے اسے روازنہ دس کلومیٹر سائیکل پر سفر کرنا پڑے۔

وہ کہتا کہ ایسا وہ اس لیے کرتا ہے کہ اس عمل سے اس کی صحت اچھی رہتی ہے، مگر قصبے کے لوگوں کو یقین تھا کہ ایسا وہ اپنی کنجوسی کی وجہ سے کرتا ہے۔ تینوں بیٹے اور بیوی سمیت وہ پورا گھرانہ ہی ایسا تھا۔ اگر ان کے بس میں ہوتا تو وہ سانس بھی نہ لیتے اور اسے بھی بچا بچا کر رکھتے۔

گرمیوں کی تپتی دوپہروں میں جب لوگ اپنے اپنے گھروں میں پنکھوں کے نیچے قیلولہ کر رہے ہوتے تھے، ایسے میں کریم بخش اپنی چارپائی گلی کے نکڑ پر موجود شیشم کے گھنے پیڑ کے نیچے رکھے استراحت کر رہا ہوتا، ایسے میں قصبے کا کوئی آدمی پاس سے گزرتا اور پوچھتا کہ کریم بخش تم یہاں کیوں سو رہے ہو تو وہ جواب دیتا کہ ”ان بجلی سے چلنے والی مشینوں کی مصنوعی ہوا کا درختوں کی تازہ ہوا سے بھلا کیا مقابلہ؟ جو نیند درختوں کی چھاؤں میں آتی ہے وہ پنکھوں کے نیچے نہیں آ سکتی۔“

عرصہ ہوا اس کے گھر مہمانوں نے آنا ترک کر دیا تھا، کیونکہ بارہا ایسے ناخوشگوار واقعات ہو چکے تھے کہ رشتہ داروں نے اسی میں اپنی عافیت سمجھی کہ وہ کریم بخش کے گھر نہ جائیں تو بہتر ہے۔ مہمان گھنٹوں گھر میں آ کر بیٹھے رہتے مگر یہ لوگ ان سے کچھ کھانے پینے کو نہ پوچھتے اور مجبوراً انہیں واپس جانا پڑتا۔

گزشتہ بیس برس سے ہر سردیوں میں وہ ایک ہی نیلا کوٹ پہنے پھرتا تھا، جو اس نے اپنے تیسرے بیٹے کی پیدائش پر خریدا تھا۔ اب اس کوٹ کا رنگ نیلا نہیں رہا مگر اسے اس بات کی چنداں پروا نہیں تھی اور وہ اکثر اپنے اس پرانے کوٹ کی تعریف کرتے ہوئے کہتا کہ ایسا عمدہ کوٹ اس نے کبھی زندگی میں نہیں پہنا اور یہ اس قدر گرم ہے کہ سردیوں کی دھند میں بھی اسے پسینے آ رہے ہوتے ہیں۔ وہ اپنی معمولی سے معمولی چیز کی تعریف میں بھی ہمیشہ مبالغہ آرائی سے کام لیتا تھا۔ جیسے

دس سال پرانے جوتوں کا تلوہ بے حد مضبوط تھا۔ پندرہ برس پرانی فَر کی ٹوپی انگلینڈ سے بن کر آئی تھی۔۔ اور جب لالٹین کی مدد سے اتنی زیادہ روشنی حاصل کی جا سکتی ہے تو بلب جلانے کی چنداں ضرورت نہیں اور اس طرح کی بہت سی باتیں۔۔

وہ جب ریٹائر ہوا تو اسے پانچ لاکھ روپے ملے۔ نور حسین مستری نے خود مجھے بتایا تھا کہ میں چوتھا آدمی ہوں، جس تک وہ یہ خبر پہنچا رہا ہے اور مجھے ہرگز یہ بات کسی دوسرے کو نہیں بتانی چاہیے کہ اس نے کریم بخش کے گھر میں ایک خفیہ خانہ بنایا ہے، جس میں وہ اپنی ساری دولت چھپا کر رکھتا ہے۔

بہت عرصہ تک وہ یہی سمجھتا رہا کہ یہ بات ہم چار لوگوں کے علاوہ کسی کو معلوم نہیں، تاہم جب کبھی قصبے کے لوگوں سے بات ہوتی اور کریم بخش کا ذکر ہوتا تو لوگ کہتے کہ انہیں نور حسین مستری نے ایک ایسی بات بتائی ہے جو وہ کسی کو بتا نہیں سکتے، لیکن یہ جان لیں کہ بوڑھے کے پاس بے تحاشا دولت ہے جو اس نے گھر ہی میں ایک جگہ چھپا کر رکھی ہوئی ہے۔

قصبے کے بڑے بوڑھے جو کریم بخش کے ہم عمر تھے، وہ کہتے کہ یہ آدمی بچپن ہی سے کنجوس ہے اور انہوں نے اپنی زندگیوں میں اس سے بڑھ کر بخیل آدمی کوئی دوسرا نہیں دیکھا۔ عین جوانی میں اس کا زبیدہ سے عشق صرف اور صرف اس کی بخیل طبعیت کے باعث ناکام ہوا تاہم اس نے کبھی اس بات کا اقرار نہ کیا۔

زبیدہ کو وہ کبھی تحفہ نہ دیتا اور ہمیشہ کہتا کہ میں تو دل و جان سے تمہارا ہوں، اس سے بڑھ کر بھلا تمہیں اور کیا چاہیے۔ ممکن ہے وہ اس عشق میں کامیاب بھی ہو جاتا، اگر زبیدہ کے باپ نے شادی کے لیے یہ شرط نہ عائد کی ہوتی کہ وہ اپنا گھر زبیدہ کے نام کر دے۔ ایسا بھلا کیسے ممکن تھا؟ وہ تو چند ہزار روپے بھی خرچ کرنے کا روادار نہ تھا۔ اس نے زبیدہ کا خیال ترک کیا اور اپنے چچا کی بیٹی سے شادی کرلی، جس سے اب اس کے تین بیٹے تھے۔

وہ لوگوں سے کہتا کہ زبیدہ سے اس نے اس لیے شادی نہیں کی کہ وہ مخالف فرقے سے تعلق رکھتی تھی۔ بارہا کہا کہ شادی اسی شرط پر ہوگی کہ تمہیں میرے فرقے پر چلنا پڑے گا، پر وہ بھی ضد کی بڑی پکی تھی، انکار کر دیا لیکن ضد نہ چھوڑی۔ اب بھلا میں بھی دنیا کے حصول کے لیے آخرت کا خطرہ تو مول نہ لے سکتا تھا۔

وہ پینسٹھ برس کا تھا جب اس کے دوست دلدار شاہ نے قصبے میں پہلا جوا خانہ قائم کیا۔ بیٹھک میں جوا ہوتا رہتا، پولیس کو اپنا حصہ پہنچ جاتا تھا، کریم بخش بھی سارا دن وہیں لوگوں کو پتے کھیلتے دیکھتا رہتا تھا۔ دلدار شاہ کا جوا خانہ کریم بخش کی زندگی میں بڑی تبدیلی لے آیا تھا۔ ایک تو اس کی زندگی یکدم مصروف ہو گئی تھی، دوسرا اسے اندازہ نہیں تھا کہ یہ کھیل اس قدر دلچسپ ہو سکتا ہے کہ آدمی بیٹھے بیٹھے اپنی رقم کو کئی گنا بڑھا سکتا ہے تاہم وہ خود بازی لگانے سے اجتناب برتتا تھا۔

دلدار شاہ اسے بارہا کہتا کہ کریم بخش میرے دوست کبھی تو تم بھی کوئی بازی لگاؤ۔

وہ ہنستا اور یہ کہتے ہوئے بات ٹال دیتا کہ ہم تو تماش بین ہیں، بس دیکھنے آتے ہیں۔ تاہم اندر ہی اندر اس کا بہت جی چاہتا کہ وہ اپنی رقم کو کئی گنا بڑھا لے۔

روز روز کے اصرار کے بعد آخر ایک دن اس نے تھوڑی سی رقم جوئے میں لگائی اور جیت بھی گیا۔

’یہ تو بہت شاندار ہے‘ ، اس نے سوچا اور وہ ہمیشہ سے ایسا ہی کچھ چاہتا تھا، جس سے اس کی دولت بہت زیادہ ہو جائے۔

ابھی تھوڑی دیر پہلے اس کی جیب میں پانچ سو روپے تھے جو چند منٹوں کے کھیل کے بعد ایک ہزار ہو گئے تھے۔ بس یہی وہ لمحہ تھا جس نے اسے اس بڑھاپے میں بدل کر رکھ دیا تھا۔ اب وہ ہر شام بازی لگاتا۔ جیت جاتا تو بے حد خوشی ہوتی، ہار جاتا تو ساری ساری رات جاگ کر سوچتا رہتا کہ کیسے وہ کل اپنی رقم واپس حاصل کرے گا اور یہ واپسی کئی ہفتوں نہ ہو پاتی بلکہ اس دوران مزید رقم ڈوب جاتی۔

ہر ہاری ہوئی بازی کے بعد اسے دنیا ڈوبتی ہوئی محسوس ہوتی تھی اور رقم دیتے ہوئے ہمیشہ اس کے ہاتھ کانپنے لگتے تھے۔ کئی بار اسے خیال آیا کہ وہ جوا کھیلنا ترک کر دے مگر جو رقم وہ ہار چکا تھا، اس کا خیال اسے چین نہ لینے دیتا۔ دس بارہ روز وہ دلدار شاہ کی بیٹھک پر نہ جاتا مگر اسے کوئی دوسرا ایسا طریقہ سمجھ نہ آتا، جس سے وہ چند دنوں میں اپنی ہاری ہوئی رقم واپس حاصل کر لیتا۔ پھر وہ اپنے آپ سے وعدہ کرتا کہ جس روز وہ اپنی کھوئی ہوئی رقم واپس حاصل کرلے گا، اسی دن جوا کھیلنا ترک کردے گا اور وہ دن تھا کہ آ ہی نہیں رہا تھا۔

اس نے ایک چھوٹی سی ڈائری خریدی تھی، جس میں وہ اپنے ایک ایک روپے کا حساب لکھتا رہتا تھا۔ اگلے دو سالوں میں اس کی ہاری جانے والی رقم دو لاکھ بائیس ہزار روپے تھی۔ اتنی رقم کا ہندسہ دیکھ کر اس کا خون کھول اٹھتا، راتوں کی نیند حرام ہو گئی تھی۔ اس کے تینوں بیٹے جو اَب خود ملازمت کرتے تھے، اس سے جھگڑتے رہتے، بیوی الگ طعنے دیتی کہ اس عمر میں جوئے کی لت پڑ گئی ہے۔ وہ ان سب کی باتیں سنتا رہتا پھر اونچی اونچی آواز میں کہتا کہ وہ ایک دن ایسی بازی لگائے گا کہ ساری رقم واپس آ جائے گی، بس وہ مناسب وقت کا انتظار کر رہا ہے۔

بڑھاپے میں جوئے کی لت کا مزہ پرانی شراب جیسا ہوتا ہے اور وہ اس نشے میں ڈوب چکا تھا۔ قصبے کے لوگ اسے دیکھ کر حیران ہوتے کہ کیسے کریم بخش نے ہزاروں روپے جوئے میں لٹا دیے، حالانکہ وہ ایک روپیہ بھی کسی کو دینے کا روادار نہ تھا۔

تین سال بعد اس کے پاس اتنی رقم بھی نہیں تھی کہ وہ بازی لگا سکے، تبھی وہ دلدار شاہ کی بیٹھک کا چوکیدار بن گیا مگر ابھی تک اس معمے کو حل کرنے سے قاصر تھا کہ کیسے وہ ہاری ہوئی رقم واپس حاصل کر سکتا ہے۔

انسان ہمیشہ اپنے جرائم اور گناہوں کا ذمہ دار دوسروں کو ٹھہراتا ہے، یہی وجہ تھی کہ وہ اپنے ان دگرگوں حالات کا ذمہ دار دلدار شاہ کو سمجھتا تھا۔ دوسری طرف دلدار شاہ کی دولت میں ہر آتے دن کے ساتھ اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ اس نے قصبے میں کئی ایک پلاٹ بھی خرید لیے تھے۔ یہ دیکھ کر کریم بخش دل ہی دل میں کُڑھتا رہتا۔ دلدار شاہ کو دیکھتے ہی اب اسے غصہ آنا شروع ہو جاتا تھا، اگر وہ اسے اتنا مجبور نہ کرتا تو وہ کبھی جوئے کی لت میں گرفتار ہو کر اپنی دولت سے ہاتھ نہ دھو بیٹھتا۔

سردیوں کی ایک دوپہر کا ذکر ہے، نہایت چمکدار سنہری دھوپ نکلی ہوئی تھی۔ دلدار شاہ نے اسے کہا کہ چھت پر بیٹھ کر دھوپ سینکنی چاہیے کہ سردیوں کی دھوپ سے بڑھ کر فرحت بخش شے بھلا کیا ہوگی۔ سو وہ چھت پر چلے گئے۔ کریم بخش کو دلدار شاہ پر غصہ تو بہت آتا تھا تاہم وہ سمجھتا تھا کہ اپنی کھوئی ہوئی دولت وہ اس آدمی کے بغیر حاصل نہیں کر سکتا، تو وہ ہر حالت میں اس کے ساتھ بنا کر رکھتا تھا۔

خلافِ معمول دلدار شاہ آج بے حد سنجیدہ تھا۔ ایک گہری چُپ نے اسے گھیر رکھا تھا اور وہ چھت پر موجود کرسی پر آنکھیں موندے بیٹھا تھا۔

”یہ کس قدر عجیب بات ہے دوست، تم نے کبھی سوچا کہ دولت انسان کو خوشی نہیں دے سکتی۔“ دفعتاً بیٹھے بیٹھے دلدار شاہ اس سے مخاطب ہوا۔

کریم بخش، جس کی ساری زندگی روپے جمع کرتے ہوئے گزری تھی، اس کے لیے یہ جملے ہرگز شناسا نہیں تھے۔ وہ بھلا کیسے یہ یقین کر لیتا کہ دولت کا خوشی سے کوئی تعلق نہیں، وہ اپنی زندگی سے دولت کی جستجو نکال کر دیکھتا تو وہ بالکل خالی ڈھول کی مانند محسوس ہوتی تھی۔

”میں نے جرم کیے، جوا کھیلا بلکہ پورا اڈا قائم کیا۔ دولت کی ریل پیل ہو گئی مگر میں سمجھتا ہوں، یہ سب کچھ بیکار ہے، آدمی کو کچھ اور جستجو کرنی چاہیے۔“ دلدار شاہ نے کہا۔

کریم بخش نے سوچا کہ آدمی کے پاس اتنی دولت آ جائے، جتنی اس سامنے بیٹھے شخص کے پاس ہے تو یقیناً وہ خوشی کو بھی پا سکتا ہوگا۔

کچھ دیر ان کے درمیان کوئی گفتگو نہ ہوئی، دلدار شاہ اٹھا اور چھت کے کنارے جا کر کھڑا ہو گیا۔ وہ بے حد اداس دکھائی دے رہا تھا۔ یہی وہ لمحہ تھا جب کریم بخش کے دماغ میں ایک عجیب و غریب خیال نے جنم لیا۔ وہ اٹھا اور آہستہ آہستہ چلتے ہوئے دلدار شاہ کے بالکل پیچھے جا کر کھڑا ہو گیا۔ میری دولت اسی شخص کی وجہ سے ختم ہوئی ہے۔ یہ نقصان میرا مذاق اڑاتا ہے۔

”ہم خوشی حاصل کرنے کے لیے بھاگتے دوڑتے ہیں، مگر وہ سنہرے پرندے کی مانند ایک شاخ سے دوسری شاخ بدلتی رہتی ہے اور ہماری آنکھوں سے اوجھل رہتی ہے۔ اب جب میرے بالوں میں سفید چاندی اتر چکی ہے، میں ابھی بھی اس سنہرے پرندے کو نہیں پکڑ سکا۔ ایسا کیوں ہوتا ہے میرے دوست؟“ دلدار شاہ نے کہا۔

کریم بخش بالکل اس کے پیچھے کھڑا اسے گھور رہا تھا۔ ’یہی وہ آدمی ہے جس کی وجہ سے میری رقم ڈوبی ہے۔‘ اس نے سوچا

دلدار شاہ پھر گویا ہوا۔ ”پتا نہیں کیوں آج کل میں ایسا سوچنے لگا ہوں۔ میں اتنا خوفزدہ ہوں کہ چند روز پہلے اپنی وصیت بھی لکھ چکا ہوں۔ تمہیں معلوم ہے میں نے اس میں تمہارے لیے۔۔۔۔“ اس کا جملہ ادھورا رہ گیا۔

کریم بخش جو اس کی کسی بھی بات پر غور کرنے کے بجائے، اپنی ڈوبی ہوئی رقم کا حساب کرنے میں مگن تھا، اچانک اس نے پوری قوت سے دلدار شاہ کو دھکا دیا اور وہ دو منزلہ عمارت کی چھت سے نیچے جا گرا۔

دھکا دیتے ہوئے وہ یہ بھول گیا تھا کہ اردگرد کی عمارتوں سے کئی لوگ اسے دیکھ رہے تھے، جنہوں نے گواہی دی اور پولیس کریم بخش کو پکڑ کر لے گئی۔ جیل میں سزا کاٹتے ہوئے اسے ایک روز معلوم ہوا کہ مقتول دلدار شاہ نے اپنی وصیت میں دس لاکھ روپے اس کے نام کیے تھے، جنہیں اس نے محض ایک سیکنڈ کی جلد بازی کے باعث کھو دیا تھا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close