کمر توڑ مہنگائی کے باعث لوگ قرض لینے، اثاثے فروخت کرنے پر مجبور۔۔

ویب ڈیسک

گزشتہ ڈیڑھ برس کے عرصہ میں منہگائی کے عفریت نے، جس طرح عام آدمی کو دبوچا ہے کہ لوگوں کو دو وقت کی روٹی کے بھی لالے پڑ گئے ہیں۔ بنیادی اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں دیکھتے ہی دیکھتے کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے لیکن ذرائع آمدن ہیں کہ سکڑتے جا رہے ہیں

معاشی مسائل نے زندگی کو پھیکا اور بے سکون کر دیا ہے۔ بے یقینی کی ایسی فضا ہے کہ، کل کی فکر میں دستیاب وسائل کو استعمال کرتے بھی ہاتھ رک جاتا ہے۔ جب زندگی کو رواں رکھنا ہی ایک جدوجہد بن جائے تو سکون اور راحت کے معنی بدل جاتے ہیں

ہر دو ہفتے بعد پٹرول کی قیمت میں ہونے والے بڑے اضافے سے اشیائے صَرف کی قیمتوں پہ آتے اثر کو سمجھنا کوئی راکٹ سائنس نہیں کہ جب بظاہر معقول آمدن والے خاندانوں کے دستیاب وسائل کا منہگائی سے تقابل کیا جائے تو بنیادی ضرورتوں کو محض پورا کرنا دشوار سے دشوار تر ہوتا جا رہا ہے۔ آسائشوں کا ذکر ہی کیا، صورت حال یہاں تک آن پہنچی ہے کہ ہوش ربا مہنگائی کی حالیہ لہر اور معاشی بحران کے باعث عوام اب روزمرہ کی ضروریات، جیسے بجلی کے بل، اسکول کی فیس، مکان کا کرایہ اور دیگر اخراجات پورے کرنے میں سخت مشکلات کا شکار ہیں

زبیدہ بی بی ایک بیوہ خاتون ہیں جو ٹیکسلا کی بلال کالونی میں کرائے کے مکان میں رہتی ہیں۔ جب اگست کے بجلی کے بل گھریلو بجٹ میں ادا نہیں کیے جا سکے تو ان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں بچا کہ وہ اپنی تین دہائیوں پرانی منگنی کی انگوٹھی ایک پڑوسی کے پاس گروی رکھوا کر بل ادا کرنے کے لیے رقم ادھار لیں

وہ اپنی پنشن حاصل کرنے کے بعد انگوٹھی واپس حاصل کرنے کے لیے پرامید تھیں، جو ابھی جاری ہونی ہے

کراچی کے رہائشی چالیس سالہ احمد زمان اپنے چھ افراد کے خاندان کے واحد کفیل ہیں، ان کی ماہانہ ڈیڑھ لاکھ روپے تنخواہ گزشتہ برس تک گھریلو اخراجات کے لیے کافی تھی، لیکن اب نہیں ہے

انہوں نے اپنے روز مرہ کے اخراجات کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ رواں ماہ میں نے اپنی بیوی سے مدد مانگی اور اس نے اپنی سونے کی بالیاں بیچ دیں، جو اسے ہماری شادی پر ملی تھیں

احمد زمان نے بتایا ”میں جس گھر میں رہتا ہوں اس کا کرایہ پینتیس ہزار روپے ہے، میرا بجلی کا آخری بل چالیس ہزار روپے سے زیادہ تھا“

پاکستان کے سب سے بڑے شہر کے رہائشی پچیس سالہ حسن شبیر کا کہنا ہے کہ اس وقت ان کے سات رکنی خاندان میں سے تین افراد کما رہے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی ان کے لیے اپنے اخراجات پورے کرنا ناممکن ہو گیا ہے

حسن شبیر نے بتایا ”میرے والد، بھائی اور میں کام کرتا ہوں، ہماری مجموعی آمدنی تقریباً ایک لاکھ تیس ہزار روپے ہے لیکن گزشتہ چند ماہ کے دوران مجھے مہینے کے اختتام کے قریب دوستوں سے پیسے ادھار لینے پڑے، میرے لیے یہ قرض کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ بنتا جا رہا ہے“

حسن شبیر کے خاندان کو قرض ادا کرنے کے لیے اپنی کار تک بیچ دینی پڑی

وہ لوگ، جنہیں اثاثے بیچنے یا قرض لینے کی اشد ضرورت نہیں ہے، وہ بھی اپنے ایسے اخراجات کو کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو بنیادی ضروریات سے متعلق نہیں ہیں

اکتیس سالہ سمیر راشد حال ہی میں باپ بنے ہیں، ان کا خیال تھا کہ ماہانہ ایک لاکھ روپے کی آمدنی ان کے اہل خانہ کے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے کافی ہوگی لیکن زمینی حقائق اس سے مختلف ہیں

انہوں نے بتایا ”صرف میرے نومولود بچے کے اخراجات بارہ سے تیرہ ہزار روپے ہیں، رواں ماہ بجلی کا بل تیس ہزار روپے ادا کیا، موٹر سائیکل کے ذریعے کام پر جانے کے لیے تیرہ ہزار روپے کا پیٹرول خرچ ہوتا ہے، اس کے علاوہ راشن اور دیگر ضروری اخراجات ہیں، میں نے خرچوں کی وجہ سے فیملی اور دیگر تقریبات میں جانا چھوڑ دیا ہے“

ایسے میں بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جب ڈیڑھ لاکھ روپے ماہانہ آمدن والے افراد محض گزارا کرنے کے لیے قرض لینے پر مجبور ہیں تو ماہانہ بیس پچیس ہزار کمانے والے خاندانوں کی حالت کیا ہوگی

اگرچہ اخراجات کو معقول بنانا بحرانی معاشی صورتحال کا منطقی نتیجہ معلوم ہوتا ہے لیکن یہ ریٹیلرز اور دیگر صنعتوں سے وابستہ افراد کے لیے پریشانی کا باعث بن رہا ہے

ٹیکسلا کے علاقے لالہ رخ میں پولٹری کی دکان کے مالک احسان علی نے بتایا کہ ان کی فروخت پہلے کے مقابلے میں تقریباً ساٹھ فی صد تک گر گئی ہے، گاہکوں کی تعداد میں کمی کے باعث وہ اپنی دکان کو چلانے کے لیے ہوٹلوں، ریسٹونٹس اور شادی ہالوں پر انحصار کر رہے ہیں

احسان علی نے بتایا کہ مہنگائی کی وجہ سے مرغی کی قیمتیں عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہو گئی ہیں، گاہک اب گوشت کے بجائے پوٹا، کلیجی اور پنجے خریدتے ہیں

ٹیکسلا چوک پر ہوٹل چلانے والے آفتاب حسین نے اپنے چائے کے آرڈرز کی تعداد میں واضح کمی دیکھی ہے

انہوں نے بتایا ”میرے زیادہ تر گاہک اب پورے کپ کے بجائے کٹ (آدھا کپ) چائے کا آرڈر دیتے ہیں، اسی طرح ہوٹل میں گوشت کے سالن جیسے قیمہ، قورمہ کے بجائے اب زیادہ تر صارفین سبزیوں اور دال جیسی سستی ڈشز کو ترجیح دیتے ہیں“

فیصل شہید روڈ پر واقع مدرسے کے منتظم ہمایوں بٹ کا دعویٰ ہے کہ گزشتہ دو ماہ کے دوران داخلوں کی تعداد دوگنی ہو گئی ہے، جب کہ لوگ اپنے بچوں کو نجی اسکولوں سے نکال کر دینی مدارس کا انتخاب کر رہے ہیں

یہاں تک کہ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی اپنے بچوں کو مدرسے میں داخل کرا رہے ہیں، جہاں طلبہ کو مفت رہائش فراہم کی جاتی ہے

ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں بنیادی طور پر یتیم، کم آمدنی والے یا مذہبی پس منظر والے بچے مدرسے میں داخلہ لیتے تھے لیکن صورتحال ہر گزرتے دن کے ساتھ بدل رہی ہے، اب لوگ اپنے بچوں کو کھانا کھلانے کے قابل نہیں رہے اور بچوں کو ایسے اداروں میں داخل کرا رہے ہیں جہاں مفت کھانا اور رہائش فراہم کی جاتی ہے

اس سال ادارہ شماریات کے مطابق گزشتہ سال کی نسبت منہگائی کی شرح میں 27.38 اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق آنے والے دنوں میں پٹرول، ڈیزل کی قیمتوں میں مزید اضافے کا امکان ہے، جس کا اثر براہ راست ضرورت کی تقریباً ہر شے کی قیمت پر پڑے گا۔

ملک کے بیشتر خاندان انہی مسائل سے دو چار ہیں اور انہیں محدود آمدن کے ساتھ اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنے کی جنگ کا سامنا ہے

اسکولوں کی فیس میں ہر کچھ عرصے بعد اضافہ ہو رہا ہے، اسکول بس کے کرائے ایک سال میں دو گنا ہو چکے ہیں، بنیادی غذائی ضروریات کو پورا کرنے والی اشیائے خورد و نوش کی قیمتیں عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہو چکی ہیں، تو ایسے میں معیارِ زندگی کو کیسے بر قرار رکھا جائے؟

رہی سہی کسر بجلی کے بلوں نے پوری کر دی ہے۔ میدانی علاقوں میں جھلسا دینے والی گرمی اور شدید حبس آلود موسم میں چند گھنٹے کی نیند کے لیے جو سارا خاندان ایک ایئر کنڈیشنر پر انحصار کرتا تھا، اسے چلائے رکھنا بھی اب ممکن نہیں رہا

دوسری طرف معیار زندگی کو بر قرار رکھنا ایک ایسا تکلیف دہ دباؤ ہے کہ جو بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ اس سب کا نتیجہ ہر وقت کے ایک غیر محسوس اضطراب اور ڈپریشن کی شکل میں نکل رہا ہے۔ اخراجات کے دباؤ کا ہی سبب ہے کہ سکون کی نیند بھی میسر نہیں ہوتی اور ہمہ وقت دل وسوسوں میں گھرا رہتا ہے

لیکن اس سب کے باوجود حکمران طبقہ اپنے اخراجات کم کرنے اور عوام کو کسی قسم کا رلیف دینے کی بجائے مہنگائی میں مزید اضافہ کر رہے ہیں۔ ایسے میں کوئی حرف تسلی کار گر نہیں ہے۔ اس منہگائی اور غذائی بحران نے کتنے افراد کے دلوں سے خوشیاں اور ہونٹوں سے مسکراہٹیں چھین لی ہیں، شاید ہی انھیں دکھائی دیتا ہو۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close