سارے کا سارا پیپل کا درخت کھلکھلا کر ہنس پڑا اور ہنستےہنستے اس کا قد فٹ بھر اور اونچا ہو گیا۔
پرندوں نے پیپل کی ہلتی ہوئی شاخوں پر اپنے پیر دبا لیے۔۔ اور ایک کوا کائیں کائیں کرنے لگا۔
’’گھبراتے کیوں ہوں بھئی؟ اپنا پیپل کاکا ذرا ترنگ میں آ گیا ہے اور بس۔‘‘
’’کاکا ہے کہاں۔ ماں؟‘‘ ایک چڑیا کے بچے نے اپنی ماں سے پوچھا اور جواب سننے سے پہلے ہی گھونسلے میں چاول کے ایک دانے کی طرف متوجہ ہو گیا۔
’’تمہاری یہ بات مجھے ایک آنکھ نہیں بھاتی چھوکرے،‘‘ اس کا باپ بولا۔
’’تو پھر دوسری آنکھ سے دیکھو،‘‘ چڑیا پھر سے اپنے بچے کے قریب آ گئی اور پیار سے اپنی چونچ کو اس کے پروں میں گھسیڑ لیا، ’’تمہارا ہی بچہ ہے، یا کم سے کم اپنی ہی ذات میں سے کسی کا ہے، کسی کوے کی اولاد تو نہیں۔‘‘ اس نے اپنی آواز ذرا آہستہ کرلی کہ آس پاس کوئی اس کے بول کی بھنک نہ پا لے۔ پہلے ہی سے سب کو شکایت تھی کہ اس براہمنی کو اپنی اونچی ذات پر بڑا مان ہے۔
’’بس جی چپ رہو تم۔ بچے کی نیّا ڈبو کر دم لو گی۔‘‘
’’پھر وہی موئے آدم زاد کا کانا سا محاورہ۔۔۔ ہمیں نیّا ویا سے کیا لینا ہے؟ ہمارے یہ پر سلامت رہیں۔۔۔‘‘ اس نے اپنے پر پھیلا کر اپنے نر کی طرف آنکھیں مٹکائیں، ’’کہو، کیسے ہیں؟‘‘
اور نر اپنی مادہ کے قریب سرک آنے کی خواہش سے بے تاب ہو ہو کر اس سے آگے نکل گیا اور پھر لوٹ کر اس سے جڑ کر بیٹھ گیا۔
ان کا گھونسلا چھوٹا سا تھا لیکن وہ تینوں اس قدر جڑ کر بیٹھے تھے کہ معلوم ہوتا تھا، ابھی دس اور بھی آ کر ان سے جڑ جائیں تو گھونسلا اتنا ہی کھلا لگے گا۔۔
’’گڈ مارننگ، ایوری باڈی!‘‘
پیپل کے کئی مکینوں نے تعجب سے سر اٹھا کر دیکھا کہ یہ کون کیا کہہ رہا ہے۔
اور سب سے اونچی شاخ پر بیٹھے ہوئے ایک طوطے نے ان کی بوکھلاہٹ سے لطف اندوز ہو کر چیخنے کے انداز میں دہرایا۔ ”گڈ مارننگ ایوری باڈی!“
نہ طوطے کو معلوم تھا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اور نہ پیپل کے باسیوں کو، اس لیے بولنے اور سننے والوں میں ازخود طے پا گیا کہ ضرور کوئی بڑا گہرا نکتہ ہے۔
’’نہیں، کوئی گہرا وہرا نکتہ نہیں،‘‘ کبوتر نے غصے سے اپنی مادہ کی طرف دیکھ کر کہا جو دیوانوں کی مانند سر اٹھائے پرائے مرد کو گھورے جارہی تھی۔ ”میں بتاتا ہوں کہ اصل بات کیا ہے۔ اس طوطے کے اندر ایک دیو چھپا ہوا ہے۔‘‘
کبوتری نے برقعہ اوڑھ لینے کے انداز میں اپنی دونوں آنکھیں بند کرلیں، ’’ہائے اللہ! تم کیسی ڈراؤنی باتیں کرتے ہو؟‘‘
’’تو پھر وہ اپنی زبان سے کیوں نہیں بول رہا ہے؟‘‘
’’گڈمارننگ ایوری باڈی!‘‘
’’سن رہی ہو۔۔۔؟ اتنا بڑا دیو غریب کے گلے میں آلتی پالتی مار کر بیٹھا ہوا ہے۔ بے چارہ اپنے من کی سیدھی سادی بات کر پائے تو کیوں کر۔۔۔؟ اور سنو! اری سو گئی ہو۔۔۔؟ سنو۔۔۔ اگر اس طوطے نے یہیں ڈیرے ڈال لیے تو دیو ہمارے پیپل کاکا کی جڑوں میں اتر کر انہیں کھا جائے گا اور پھر کاکا اور تم اور میں اور ہم سب دھڑام سے نیچے جا گریں گے۔‘‘
’’گڈمارننگ، ایوری باڈی!‘‘
طوطے نے اپنے پر کھول کر باریک سی شاخ سے اپنے پاؤں اٹھا لیے تو شاخ بھی اس کے پیچھے جانے کی خاطر بے اختیار اچھلی۔
’’ار۔رر!‘‘ کاکا اسے تھام نہ لیتا تو وہ ٹوٹ کر گر جاتی۔
’’کہاں جا رہی ہو؟‘‘ شاخ نے لہرا کر طوطے کی طرف دیکھا۔
’’جسے خود آپ معلوم نہیں کہ وہ کہاں جا رہا ہے، اس کے پیچھے تم کہاں جاؤ گی؟‘‘
کاکا نے اسے گلے میں ڈال لیا۔ تیرا میرا مقدر ایک ہے پگلی۔ مجھے چھوڑ کر کہاں جاؤ گی۔۔۔؟ اور جانا بھی چاہو گی تو ٹوٹ کر دم توڑ دو گی۔
طوطا نظروں سے اوجھل ہو چکا تھا اور شاخ نے اپنے بھرے بھرے جی سے اپنی باہیں پیپل کے گلے میں کس لی تھیں اور اسے محسوس ہو رہا تھا کہ کسی ہری بھری سہاگن کی مانند وہ بڑھتی پھیلتی جا رہی ہے۔
’’ایک بات پوچھوں؟‘‘ اس نے اپنے پیپل سے کہا، ’’تمہارے پر کیوں نہیں ہیں؟‘‘
’’پر نہ پیر، پگلی، اڑتے یا چلتے ہوئے محبت نہیں کی جا سکتی،‘‘
پیپل کو اپنا پچھلا جنم یاد آ رہا تھا۔
’’میری کہانی سنو گی؟ کئی سو سال ہو لیے ہیں۔ یہاں اگنے سے پہلے میں ایک آدمی تھا، ایک مسافر جسے کہیں بھی کوئی نہ جانتا تھا، سب لوگ،سب جگہیں میرے لیے اجنبی تھیں۔ مجھے کسی سے محبت نہ تھی۔ کوئی مجھ سے محبت نہ کرتا تھا۔ میری ساری عمر یوں ہی گھومتے پھرتے بیت گئی اور بیت گئی تو مجھے پتہ چلا کہ ہر جگہ وہی جگہ ہے، وہی آسمان ہے۔ میں نے آسمان سے دوستی کرنا چاہا لیکن اس کی جانب ٹکٹکی باندھ کر مجھے محسوس ہوتا کہ وہ بہت دور ہے، میں کتنا ہی قریب جانا چاہوں، یہ دوری جوں کی توں رہے گی۔ یہ دوری ۔۔۔ اری سو گئی ہو کیا؟ جب میں آدمی تھا اور پیہم چل چل کر دنیا کی ہر شے کے قریب آ جانا چاہتا تھا تو ہر شے مجھ سے جوں کی توں دور رہتی تھی۔ میں کسی کو اپنا نہ سکا۔۔ اور تو اور، میں اپنے آپ سے بھی چھن گیا، چلتے پھرتے جانے کہاں نکل گیا اور یوں اپنی ناکام تلاش میں میری ساری عمر گزر گئی۔ ارے نیند آ رہی ہے کیا؟ آنکھیں کھول کر میری بات سنو!‘‘
’’میں آنکھیں بند کر لیتی ہوں تو تم مجھے سارے کے سارے نظر آتے رہتے ہو۔ بولتے جاؤ۔‘‘
’’تو سنو۔۔۔ جب میں مرنے لگا تو بہت خوش تھا کہ میری روح پھر سے اڑ کر آکاش سے جا ملے گی۔۔۔ پھر اچانک میری روح نامعلوم کہاں چلی گئی یا شاید مجھے میری روح سمیت ہی دفن کر دیا گیا۔۔۔ یہیں، جہاں میں اگا ہوا ہوں اور۔۔۔ اور۔۔۔ نہیں یوں نہیں، آنکھیں کھول کر میری بات سنو۔ اس طرح مجھے لگتا ہے کہ میں اپنی ساری باتیں اپنے آپ سے ہی کیے جا رہا ہوں۔‘‘
پیپل کی ساری شاخیں پیپل کو سن سن کر، اس کے قریب سرک سرک کر اس کے اندر آ دھنسی تھیں اور انہیں لگ رہا تھا کہ وہ سب اپنے محبوب کے باطن میں ایک دوسرے سے لپٹی ہوئی ہیں اور لپٹ کر سب ایک وہی شاخ ہو گئی ہیں جو اس وقت پیپل کی گود میں سر ٹکائے اس کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔
’’لو، میں نے آنکھیں کھول لیں۔ بولو اب!‘‘
پیپل کی ملائم سی جڑ اس کی آنکھوں میں کھنچ کر گھل مل گئی۔ ”بس میری یہی ایک مشکل ہے میری جان تم اپنی آنکھیں کھول لیتی ہو تو میں سب کچھ بھول جاتا ہوں۔‘‘
’’تو میں پھر اپنی آنکھیں بند کر لوں؟‘‘
’’نہیں، یوں ہی میری طرف تک تک کر مجھے سنتی رہو۔‘‘
’’بولو!‘‘
”ہوا یہ کہ جب لوگوں نے مجھے یہاں دفنا دیا تو میں ابھی مرا نہ تھا، لیکن دھرتی سے باہر آنے کے لیے اب میرے لیے ایک ہی راستہ کھلا تھا، میں دھرتی میں سرایت ہو جاؤں، اور میں اسی راہ پر چل نکلا اور مٹی میں سرایت ہو ہو کر ایک دن مٹی کے باہر آ پہنچا اور منھ کھول لیا۔“
’’ہائے جب تم نئے نئے اگے ہوگے تو کیسے لگتے ہوگے؟‘‘
’’میں اگ کر باہر آیا تو میری پہلی خواہش یہ تھی کہ بے اختیار اڑنا شروع کردوں۔ ’ارے کہاں جانا چاہتے ہو؟‘ ساری کی ساری زمین نے مجھے اوپر نیچے سے دبا کر پکڑ رکھا تھا اور میں بھری بھری مٹی کے اندر ہی اندر اٹھنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن میرے وجود کے نیچے اب پاؤں نہیں رہے تھے، میری جڑیں تھیں جو اتنی آہستگی سے بڑی ہو ہو کر زمین میں دھنستی جا رہی تھیں کہ مجھے ان کے ہلنے جلنے کا قطعاً پتہ نہ چلتا تھا۔ اوپر اوپر سے ہوا میں پھڑپھڑاتے ہوئے مجھے لگتا گویا اپنی بے اختیار دوڑنے کی خواہش سے میری سانس پھولی ہوئی ہے۔ اور پھر میں تھک ہار کر سو جاتا اور خواب میں مجھے دکھائی دیتا کہ۔۔۔“
’’تم میرے ہی پاس آنا چاہتے تھے نا؟‘‘ آکاش دھرتی سے آ لگا ہے۔
’’ہاں!‘‘
’’تو لو، میں خود ہی تمہارے پاس آ گیا ہوں۔‘‘
پیپل کی سب سے اونچی تازہ دم شاخ کا آنچل اڑ کر اس کے گھٹنوں پر آ گرا تھا مگر وہ اپنے اٹوٹ انہماک سے سنتی رہی۔
اور پیپل اپنا سر اٹھاکر اس کی طرف دیکھنے لگا اور اسے اس طرح ننگے منھ، ننگے سر اپنی طرف متوجہ پا کر جھوم گیا اور جھومتے ہوئے اسے اپنی بات یاد نہ رہی۔ ’’سنو!‘‘
’’سن تو رہی ہوں۔‘‘
’’نہیں، میں۔‘‘
’’میں وَیں کچھ نہیں۔ اپنی کہانی جاری رکھو۔‘‘
’’ہاں، بابا، لیکن۔۔‘‘
’’میں سب جانتی ہوں، تمہارے من میں کوئی میلا سا خیال آیا ہو تو منھ دھو آؤ۔‘‘
’’کیا فائدہ؟ منھ دھو کر بھی خیال تو میلا ہی رہے گا،‘‘ پیپل نے شاخ پر ہاتھ ڈالنا چاہا مگر وہ ہل ہل کر اس سے صاف بچتی رہی۔
’’ہہ ہہ۔۔۔ہہ!‘‘
’’پیپل کاکا کے ہنسنے کی آواز کہاں سے آ رہی ہے؟‘‘
’’اوپر اپنی رانیوں کے پاس گیا ہوگا۔۔۔ آؤ، ادھر آؤ ذرا چونچ پھیر کر تمہارے پر صاف کر دوں۔‘‘
’’اچھا کم سے کم میری بات تو سن لو۔‘‘
’’ہاں، شریفوں کے مانند صرف باتیں کرنا ہے تو دن رات کرتے رہو، بولو!‘‘
’’دھیان سے سنو، بڑی خاص بات ہے۔‘‘ پیپل کی دوسری شاخیں بھی جھک کر سننے لگیں۔
مجھے پیدا ہوئے کئی سو سال ہو چکے ہیں اور اس دوران میں اپنی ان گنت شاخوں سے بیاہ رچا چکا ہوں۔ ہر نئے موسم میں پوری کھیپ سے شادی کرلیتا ہوں، اور پھر وہ کھیپ پرانی ہو جاتی ہے تو میں اور وہ سب ایک ہو جاتے ہیں، ایک پیپل جسے آئندہ اپنی نئی شاخوں سے والہانہ محبت کرنا ہے۔
میری محبت اور عمر کوزوال نہیں، کیوں کہ میری ذات میری ان بے حساب محبوباؤں سے بھی عبارت ہے جنہیں ابھی صدیوں پیدا ہوتے چلے جانا ہے۔۔۔ سن رہی ہو۔۔۔؟ اپنی جن شاخوں سے بھی میں نے اب تک محبت کی ہے، انہوں نے بالآخر میری ذات بن کر میری سبھی محبتوں میں شرکت کی ہے، مستقبل کی سبھی محبتوں میں شرکت کریں گی۔‘‘ پیپل نے شاید اپنے مستقبل کی طرف نظر اٹھائی اور نیچے سے اوپر تک اپنی سب شاخوں سمیت بہ یک قالب و بہ یک روح لہرا اٹھا اور یہ سوچ کر لہراتا رہا کہ میری روایتیں اور جدتیں ہم وجود ہیں۔
پیپل کی دو تہائی بلندی پر گنجان شاخوں میں سے ایک کوے نے سر جھکا کر کے نیچے دیکھا اور اپنی مادہ سے گویا ہوا، ’’ارے سنتی ہو؟ گھونسلے سےباہر آؤ۔‘‘
کوی تیز برآمد ہو کر اپنے کوے کے پاس آ گئی اور اس کی گردن پر چونچ مار کر کہنے لگی، ’’پل بھر بھی چین سے بیٹھنے دیتے ہو؟ بولو، کیا بات ہے؟‘‘
’’وہ دیکھو، وہ عورت کاکا کو پانی پلا رہی ہے۔‘‘
’’تو میں کیا کروں؟‘‘
’’خودکشی، تاکہ میری جان چھوٹے،‘‘ کوے کو غصہ آنے لگا، ’’ہر وقت لڑائی کے لیے تیار رہتی ہو۔‘‘
’’کو۔۔۔‘‘
کوے نے سر اونچا کر کے کوئل کی جانب دیکھا، جو ابھی ابھی وہاں آ بیٹھی تھی۔
’’کو۔۔۔کو!‘‘
’’کتنی میٹھی آواز ہے!‘‘ کوے نے اپنی چڑچڑی مادہ سے کہا، ’’اور کتنا پیارا رنگ ہے، گھور کالا! تم بھی اتنی چڑچڑی نہ ہوتیں تو تمہاری سیاہی پھیکی پڑنے سے بچی رہتی۔‘‘
’’وہ موئی راضی ہو،‘‘ کوی نے تنک کر کہا، ’’تو اسی سے اپنا گھونسلا آباد کرلو۔ میں چلتی ہوں۔‘‘ وہ پھڑپھڑانےلگی۔
’’کہاں؟‘‘
’’اتنی بڑی برادری ہے، تم نہ سہی، کوئی اور سہی۔‘‘
’’بڑی نرموہی ہو، پل بھر میں برسوں کا ساتھ چھوڑ دینے پر تیار ہو جاتی ہو۔ ابھی تو ہمیں ڈیڑھ سو برس اور اکٹھا گزارنے ہیں۔‘‘
’’کو۔کو۔‘‘
’’اب کہیں جاکے ہمارے بھوگ بلاس کے دن شروع ہوئے ہیں۔ تم چلی گئیں تو میرا کیا ہوگا؟‘‘
جیسے کوی کی کوئی تنی ہوئی گانٹھ اپنے آپ کھل گئی ہو، وہ دھیرے سے اپنے نر کے قریب مسکرانے لگی اور کوے کو برسنے سے پہلے تھمی ہوئی گھور گھٹا کی طرح کالی کالی معلوم ہونے لگی۔
’’کو۔۔۔کو!‘‘
کوے کی آوارہ نظر اچانک نیچے کی طرف گھوم گئی جہاں وہ عورت کھڑی پیپل کو پانی دے رہی تھی۔
’’وہ دیکھو۔۔۔ جانتی ہو وہ عورت پیپل کو پانی کیوں دے رہی ہے؟‘‘
’’کیوں؟‘‘ وہ اپنی چونچ سے اپنے نر کاوجود صاف کرنے لگی یا اس کے وجود سے اپنی چونچ۔
’’اپنی ہی پیاس بجھانے کے لیے۔۔۔ کتنی پیاسی نظر آ رہی ہے۔ ادھر سے دیکھو، اس کی آنکھوں میں پورا ساگر بھرا ہوا ہے لیکن بیچاری کا حلق سوکھا ہوا ہے۔ میٹھے پانی کی ایک بوند بھی میسر نہیں۔‘‘
’’بس تمہاری اسی ایک بات سے میں چڑ جاتی ہوں۔ سیدھی بات تمہارے منھ سے نکلتی ہی نہیں۔ اتنے سیانے بنتے ہو کہ لگتا ہے، تم محبت کر ہی نہیں سکتے۔‘‘
’’بے وقوف، میں سیانا نہ ہوتا تو سینکڑوں ہزاروں میں سے ایک میں ہی تمہیں اڑا کر کیسے لے آتا؟‘‘
’’لیکن میرے سیانے کوے، اب ذرا بے وقوف بننا بھی سیکھ لو، نہیں تو کوئی اور مجھے اڑا لے جائے گا۔‘‘
’’اور تم چپ چاپ اس کے ساتھ اڑ جاؤ گی؟‘‘
’’اس وقت کے بارے میں تمہیں آج کیا بتا سکتی ہوں؟ کوی کی بجائے عورت ہوتی تو مجھے معلوم ہوتا کہ کس دن، کس وقت مجھے کس مردوئے کو چھوڑ دینا ہے۔‘‘
’’اری دیکھو،‘‘ کوے نے اپنی مادہ کے لیے جگہ بنانے کے لیے شاخ پر ذرا پرے ہٹ کر کہا۔ ’’وہ عورت ہاتھ جوڑ کر پیپل کاکا سے کچھ مانگ رہی ہے۔ جانتی ہو، کیا؟‘‘
’’کیا؟‘‘
’’بچہ!‘‘
’’ہاں، اسے اپنے شوہر کے مقابلے میں ہمارے پیپل کاکا پر زیادہ وشواس ہے۔‘‘
’’ہاں، کیوں کہ وہ جب بھی یہاں آتی ہے اکا یہیں اس کا منتظر ہوتا ہے۔ مردوں اور کووں کا کیا بھروسہ آج کسی سے ملو تو کل اس کی شکل بدلی ہوئی معلوم ہوتی ہے، شاید مولا اپنی جگہ کوئی اور کھڑا کر کے کہیں نکل جاتا ہے۔‘‘
میری طرف دیکھو، کیا میں بھی۔؟
’’مجھے کیا پتہ، تم وہی ہو، یا کوئی اور ہو؟‘‘ کوئی بڑی بے چارگی سے کائیں کائیں کرنے لگی۔ ”پھر بھی شکر ہے کہ کوئی نہ کوئی تو ہو۔۔ تم جو بھی ہو، تم بھی نہ ہوتے تو میں تمہارا کیا بگاڑ لیتی؟ بس اس عورت کے مانند کاکا کو نہلانے کا کام اپنے ذمے لے لیتی جہاں بھی چھوڑ جاؤ، کاکا وہیں کا وہیں رہتا ہے۔‘‘
’’تو جایا کرو اپنے کاکا کے ہی پاس،‘‘ کوّے کو تاؤ سا آنے لگا۔ ’’پیٹ میں درخت کا اتنا بڑا انڈا ہو گیا تو دم نکل جائے گا۔‘‘ وہ غصہ بھول کر اپنی بات پر کائیں کائیں ہنسنے لگا۔
’’شرم کرو، کاکا کے بارے میں کیسی باتیں کرتے ہو؟‘‘
’’تو کیا ہوا؟‘‘
کّوا اور کوّی اپنے گھونسلے سے تھوڑے فاصلے پر بیٹھے باتوں میں مشغول تھے کہ اچانک اس ٹہنی پر کہیں سے ایک ناگ رینگ آیا اور گھونسلے میں رکھے ہوئے کوّے کے انڈوں کی طرف متوجہ ہو گیا۔
’’کائیں! کائیں! کائیں!‘‘ کوّی اس جانب دیکھ کر چیخنے لگی۔
’’کائیں! کا۔۔۔!‘‘ کوّے نے مدد کے لئے پکار کی۔
لیکن سانپ زبان چاٹ چاٹ کر بڑے انہماک سے اپنے کام میں لگا رہا۔
’’کائیں! کائیں! کائیں! کا۔۔۔!‘‘
چڑے نے اپنی چڑی سے کہا۔
’’کوّے کی ذات کتنی بدتمیز ہوتی ہے، خواہ مخواہ شور مچا مچا کر ہمیں پریشان کر رہے ہیں۔ جاہل، آوارہ!‘‘
چھوڑو، تمہیں کیا؟ لڑائی بھی انہی سے کرنا چاہئے جو شریف اور مہذب ہوں۔‘‘
کبوتری نے اپنی آنکھیں بدستور بند رکھیں اور اپنے کبوتر سے کہنے لگی۔ ”کاکا سب اچھوں بُروں کو یہاں ہنس کر جگہ دے دیتا ہے۔ ان کی کائیں کائیں سن کر مجھے ڈر لگنے لگتا ہے کہ تم بھی اپنی گٹ۔۔۔ گوں چھوڑ کر ایک دن اچانک کائیں کائیں کرناشروع کر دو گے۔‘‘
اور کبوتر نےاس کی گردن میں اپنی گردن ڈال دی۔ ’’چپ چاپ اسی طرح پڑی رہو۔ ہمیں کیا لینا دینا ہے؟‘‘
’’کائیں! کائیں! کائیں! کا۔!‘‘
سانپ نے زبان چاٹ چاٹ کر ٹوٹے پھوٹے انڈوں سے منھ موڑ لیا۔ ذرا رک کر، مسکرا کر کوے کوّی کی جوڑی کی طرف دیکھا اورنیچے کی طرف رینگنے لگا اور جب کافی نیچے اتر گیا تو کوا کوی اپنے گھونسلےکی طرف لپکےاور اپنے ٹوٹے پھوٹے انڈوں کےخالی خولی چھلکے دیکھ کر آہ و زاری کرنے لگے۔ ’’کائیں! کا۔‘‘
کئی اور کوے وہاں جمع ہو کر ان کے سوگ میں شامل ہوگئے۔
’’ارےبھئی، کیا ہو گیا ہے؟“ پیپل کاکا شاید اپنے اندر گھسا ہوا تھا جو اتنی دیر اسے یہ چیخ پکار سنائی نہ دی۔
’کووں کی برادری نے بہ یک زبان فریاد کی، ’’کائیں!‘‘
اور کاکا نے گھونسلے میں ٹوٹے ہوئے انڈوں کو دیکھا اور ابھی وہ کچھ سوچ ہی رہا تھا کہ اپنے ٹخنے پر کسی کا رینگنا محسوس کر کے چونک پڑا۔
اسی اثنا میں کاکا کے چونکنے کے احساس سے کالے ناگ نے اس کا تنا ڈس لیا اور زہر سے کٹ کر اس کی کھال کا ایک ٹکڑا نیچے آ گرا۔
کاکا نے ناگ کو اپنے پیروں تلے مسل دینا چاہا لیکن جوں کا توں کھڑا رہا کہ اس کے پیر ہی کہاں تھے؟
ناگ اپنی فتحیاب پھنکاریں بلند کر کر کے اچھل کر زمین پر آ گیا اور سب کے دیکھتے ہی اوجھل ہوگیا۔
کاکا غصے سے دانت پیس پیس کر اپنی جڑوں سمیت اپنے وجود کے اندر ہی بھاگ رہا تھا لیکن سانپ تو کہیں باہر چھپا ہوا تھا۔ شاید اس سے دو ایک قدم پر چھپ کر، اپنی زبان چاٹ چاٹ کر کاکا کی مجبوری پر ہنس رہا تھا کہ جس کا آدھا وجود زمین میں گڑا ہو، وہ اتنا بڑا ہونے پر بھی میرا کیا بگاڑ سکتا ہے، جب میرا جی چاہے گا اس پر جا چڑھوں گا۔ اپنی اسی جگہ گڑے گڑے اس کی کھال اتنی موٹی ہو گئی ہے کہ اسے پتہ ہی نہیں میں اس کے وجود پر مزےسے رینگ رہا ہوں، اپنے اندر ہی اندر پھیل پھیل کر خوش ہوتا رہتا ہے۔
’’میں۔ میں۔‘‘ کاکا اپنے بارے میں سوچ کر غصے سے کانپ رہا تھا اور اس سے جڑی ہوئی ساری شاخیں سائیں سائیں کر کر کے اس کی منت سماجت کر رہی تھیں اور ہوا تیز ہوتی جا رہی تھی۔
’’کائیں۔۔۔ کائیں!‘‘
کاکا کے ٹخنے کے قریب ایک چھوٹا سا پودا ہوا میں پھڑ پھڑا رہا تھا اور لگ رہا تھا کہ اس نے منوں مٹی کےجکڑ سے آزاد ہوجانے کا تہیہ کر رکھا ہے۔
نئی نسل کے اس نمائندے کی تندی کاکا کو بھلی معلوم ہونے لگی اور وہ اپنے ٹخنے میں بیٹھ کر اس پودے سے گویا ہوا، ’’ذرا اور زور لگاؤ۔ میرے نو عمر دوست، ورنہ ابد تک تمہارے سینے پر سانپ لوٹتے رہیں گے۔ شاباش۔۔۔ اور زور لگاؤ۔۔۔ مٹی سے باہر نکل کر تمہیں ظلم کا پیچھا کرنا ہے، دوڑ دوڑ کر جینا ہے! شاباش! اسی ایک جگہ پر اونچے ہو گئے تو اور پستی میں جا دھنسو گے، قیامت تک زندہ درگور ہوگے، زندگی تمہاری سزا ہوگی۔
’’شاباش!‘‘
پیپل کاکا کی سب سے اونچی شاخ پر لٹکنے کےانداز میں بیٹھا کوئی الو دن دھاڑے قہقہے لگانے لگا، جس سے تند ہواؤں کی سائیں سائیں سناٹے کا سماں باندھنے لگی۔