لفٹ ملازم نے گھما کر لفٹ کا دروازہ کھولا اور اماں اور مجھے گہری تنقیدی نظروں سے دیکھا۔
اس کے انداز سے یہ واضح تھا کہ وہ ہم سے زیادہ متاثر نہیں تھا: اماں اپنی سادہ سوتی ساڑھی میں اپنے ہلکے سفید بالوں کو روایتی انداز میں پیچھے باندھے ہوئے، دعوت نامے کو حفاظت کے پیش نظر سختی سے یوں پکڑے ہوئے بہت سیدھی بلکہ مزدور پیشہ لگ رہی تھی۔ میں اپنے ڈھیلے کُرتے میں جو استخوانی کندھوں سے عجیب طور پر ڈھلک گیا تھا، تنگ پاجامہ پہنے جو پانچ سال پہلے فیشن کی دوڑ سے باہر ہو گیا تھا، بغیر مونڈی ٹھوڑی کو کھجلاتے ہوئے، وجیہہ کے بجائے کہیں زیادہ بد ہئیت لگ رہا تھا۔
اس نے ابرو اچکائے اور ذرا سا بائیں طرف سرکا، گویا موجود لوگوں کے لیے راستہ بنا رہا ہو۔ میں نے امّاں کو لفٹ میں تھاما۔ جب انہوں نے عجیب و غریب انداز میں قدم اندر رکھا، انہیں خود پر اعتماد نہیں تھا مگر پُراعتماد نظر آنے کی کوشش کر رہی تھیں۔
ملازم نے اپنی جگہ سے حرکت نہیں کی۔ اس نے مزید مسافروں کا انتظار کیا – وہاں کوئی نظر نہیں آرہا تھا – جب کہ ہم بے چین تھے۔ پھر اس نے چہرے کا رخ ہلکا سا میری طرف موڑا۔ ”کہاں؟“ اس نے پوچھا۔
”نئے بوتیک کے افتتاح پر۔۔“ اماں نے خود کو ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہوئے میری طرف سے جواب دیا، ”میں۔۔۔۔ اررر۔۔۔۔“ انہوں نے کارڈ کو دیکھا، ”پلازہ لاؤنج۔ وہ کون سی منزل پر ہے؟“
ملازم نے انہیں بے یقینی اور پھر حقارت سے دیکھا۔ تب اس نے سمجھنے کے انداز میں سر ہلایا اور لفٹ کا دروازہ بند کرنے کو کہا۔ دور ہوٹل کے داخلی دروازے پر، ایک فربہ خاتون کافی مہنگے لباس میں ملبوس مٹکتی چلی آ رہی تھی اسے دیکھ کر ملازم اپنے اگلے عمل سے باز رہا تاکہ وہ لفٹ تک پہنچ جائے۔ اس دورانیے میں وہ ہمیں پہلی منزل پر چھوڑ کر واپس آ سکتا تھا؛ لیکن اس نے انتظار کیا، اور ہمیں بھی انتظار کرنا پڑا۔ میرا اچانک دل کیا کہ میں لفٹ، ہوٹل اور علاقے سے ہی کہیں باہر نکل جاؤں۔ یہ ہماری جگہ نہیں تھی۔ ہمارا تعلق یہاں سے نہیں تھا۔
لیکن میں نے ایسا نہیں کیا۔
بے چاری اماں نئے بوتیک کی افتتاحی تقریب میں شرکت کے لیے آنے کو بہت بے چین تھیں، اور اپنی ہچکچاہٹ کے باوجود میں نے انہیں لے جانے پر رضامندی ظاہر کر دی۔
والد شہر کے معروف اخبار کے ادارتی شعبہ میں معمولی ملازم تھے اور انہیں اکثر یہ دعوتیں ملتی رہتی تھیں۔ وہ ہمیشہ ان دعوت ناموں کو فخر سے گھر لاتے تھے، گویا اماں اور مجھے یہ دکھانا مقصود تھا کہ وہ اتنے ناکام نہیں تھے، جتنا ہم سمجھتے تھے کہ وہ ہیں، اور وہ ان کے وقار کی علامت کے طور پر خواب گاہ کی میز پر بے کار پڑے رہتے تھے۔ ہم نے انہیں شاذ و نادر ہی استعمال کیا تھا۔
لیکن یہ پہلی دفعہ تھا، جب اماں اصرار کر رہی تھیں۔ وہ ہمیشہ یہ دیکھنے کے لیے بے چین رہتی تھیں کہ انہوں نے جن جدت پسند شرفاء کے بارے میں سنا تھا، ان کا رہن سہن کیسا ہے۔ اب انہیں ان کے قدرتی مسکن میں دیکھنے کا موقع ملا تھا۔ وہ زندگی بھر میں ملنے والے اس موقع کو ضائع نہیں کر سکتی تھیں، اور وہ اکیلی بھی نہیں جا سکتی تھیں، تو وہ مجھے گھسیٹ کر ہمراہ لے گئیں۔
فربہ عورت لفٹ کے پاس پہنچی، اور ملازم اس کے اندر جانے کے لیے احترام سے ایک طرف ہٹ گیا۔ وہ اماں کی عمر کے لگ بھگ تھی۔ میں نے اندازہ لگایا، اس نے ایک وگ پہنی تھی، وہ میک اپ کی زیادتی، بہت سارے اصلی نظر آنے والے زیورات سے آراستہ اور غرور و برتری کے احساس سے بھری ہوئی تھی۔ خاصے مہنگے پرفیوم کی مہک اس سے دس گز آگے تھی۔ اماں اس کے لفٹ میں داخل ہوتے ہی بے چینی سے قدرے تاریک گوشے میں پیچھے دبک گئیں۔
دروازہ بند ہو گیا اور لفٹ آگے بڑھ گئی۔ میرے اندر ترس اور ہمدردی پیدا ہو گئی۔ فطری طور پر میں نے ان کے بازو پر ہاتھ رکھ دیا۔ ’آپ فکر نہ کریں اماں‘ میں نے سوچا، ’میں آپ کی حفاظت کروں گا۔‘ ۔۔۔ ’تم حفاظت کرو گے؟‘ الفاظ نے میرے دماغ میں میرا مذاق اڑایا، ’کس چیز سے؟‘
میں نے جلدی سے اپنا ہاتھ ان کے بازو پر سے گرا دیا۔
لفٹ رکی، دروازہ کھلا، اور فربہ عورت پہلے باہر نکلی۔ یہ فطری امر تھا، بلا شبہ یہ اس کا حق تھا۔ میں نے امّاں کو اس کی پیروی کرنے دی اور پھر ملازم کا شکریہ ادا کر کے میں بھی باہر نکل آیا۔ اس نے مجھے یکسر نظر انداز کر دیا۔
امّاں اُس سوئیٹ کی طرف اترنے سے بہت حیران ہوئیں، جہاں بوتیک تھا۔ دیوار سے دیوار تک بچھے قالین، ایئر کنڈیشنڈ ماحول، سوٹڈ بوٹڈ لوگوں کے چھوٹے چھوٹے گروہ۔ اچانک مجھے بھی اپنا آپ کلاس سے باہر محسوس ہوا۔ میں خواہش کرنے لگا کہ میں نے اپنے حلیے پر زیادہ توجہ دی ہوتی۔ میں نے آئینہ دار ستونوں میں سے ایک میں جھانکا اور عجلت میں اپنے بالوں کو درست کیا۔
لوگ اب بوتیک میں جا رہے تھے۔ تعداد میں وہ بہت زیادہ نہیں تھے۔ شاید پندرہ، شاید بیس۔۔ ہم دیر سے پہنچے تھے؛ تقریریں کرنا اور ربن کاٹنا، اگر ایسی کوئی تقریب ہوئی تھی، تو ختم ہوتی دکھائی دی۔ لوگ دو تین کی ٹولیوں میں کھڑے تھے، ایک وردی والے ویٹر کی طرف سے پیش کی گئی کافی کے گھونٹ بھر رہے تھے اور فروخت کے لیے کچھ چیزوں کا جائزہ لے رہے تھے۔ اماں اور میں ہچکچاتے ہوئے اندر چلے گئے۔ کسی نے بھی ہماری طرف کوئی دھیان نہیں دیا۔
ویٹر نے ہمیں دیکھا اور بغیر رکے ہمارے پاس سے گزر گیا۔ پہلے میں نے سوچا کہ کافی کی قیمت ادا کرنی پڑے گی، پھر دیکھا کہ وہ تمام مہمانوں کو گرما گرم بھاپ اڑاتے کپ پیش کرتے ہیں۔ جو کوئی بھی چاہے، وہ ایک کپ کافی لے سکتا ہے۔ مجھے اپنے اندر غصے کی لہر اٹھتی محسوس ہوئی۔ ہماری توہین کی گئی تھی۔ جب وہ نصف خالی ٹرے کے ساتھ واپس مڑا تو میں نے جسمانی طور پر راستے میں کھڑے ہو کر اسے روکا ’’یہاں بھی۔‘‘ میں نے کہا۔
اس نے ایک لمحے کے لیے ناگواری سے مجھے گھورا، پھر ٹرے مجھے پیش کی۔ میں نے ایک کپ لیا اور اسے اماں کی طرف بڑھایا۔ ہچکچاتے ہوئے انہوں نے تعمیل کی۔ اماں نے شکریہ اور مسکراہٹ کے ساتھ انکار کر دیا۔
”آپ نے ایسا کیوں کیا اماں؟“ ویٹر کے جانے کے بعد میں نے پوچھا، ”میں نے سوچا کہ آپ کو کافی پسند ہے۔“
انہوں نے جواب نہیں دیا؛ اس کے بجائے انہوں نے اپنے ارد گرد دیکھا اور کہا، ’’آؤ، دیکھتے ہیں یہاں کیا ہے۔‘‘
میں ان کے پیچھے مردانہ ملبوسات کے لیے باذوق سجاوٹ والے حصے میں گیا۔ وہاں چند لوگ فروخت کے لیے رکھے ہوئے کپڑوں کو دیکھ رہے تھے۔ ایک نوجوان جوڑا بے مقصد ادھر ادھر گھوم رہا تھا، ایک مسکراتی ہوئی سیلز گرل ان کے پاس آئی اور پوچھا، ”کیا میں آپ کی مدد کر سکتی ہوں؟“ انہوں نے کہا ”نہیں، شکریہ“ اور وہ چلی گئی۔ اس نے ہمیں اتنے ہی واضح انداز میں دیکھا، لیکن ہم سب کو نظر انداز کر دیا۔
اماں نے اپنے سامنے قمیصوں، ٹائیوں اور جیکٹوں کی متاثر کن صف کو دیکھا۔ سیاہ چمڑے کی ایک جیکٹ نے انہیں خاص طور پر اپنی طرف متوجہ کیا۔ انہوں نے کہا، ’’میں ہمیشہ سے چاہتی تھی کہ تم کچھ ایسا ہی پہنو، بیٹا، اور خدا جانتا ہے کہ ہم تمہارے لیے کچھ خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔۔ لیکن تمہیں تمہارے سادہ کپڑوں میں دیکھ کر، اور یہاں ان لڑکوں کو اتنے عمدہ لباس میں دیکھ کر — میں چاہتی ہوں کہ تم یہ لو۔ میں جانتی ہوں کہ یہ تم پر سجے گی، میرے بیٹے۔ تم ایک خوبصورت لڑکے ہو، اور یہ تمہیں اچھی لگے گی۔“
انہوں نے آستین پر انگلی پھیری۔ وہاں کوئی قیمت کا ٹیگ منسلک نہیں تھا۔ بے چاری اماں اس کے سحر میں مبتلا ہو گئیں۔ میں کہنا چاہتا تھا کہ ’نہیں، امّاں، مجھے یہ نہیں چاہیے، مجھے اس کی بالکل ضرورت نہیں، میں اپنے پاس موجود کپڑوں سے کافی مطمئن ہوں‘ لیکن میں خود کو اس چمڑے کی جیکٹ میں ملبوس، لڑکوں کے حسد اور محلے کی لڑکیوں کے تعجب کو تصور کر سکتا تھا اور میرے ہونٹوں سے کوئی لفظ نہ نکلا۔ میں نے انہیں دیکھا، وہ امید و بیم کے شش و پنج میں تھیں۔
اماں نے جیکٹ کو سہلاتے ہوئے اسے ہینگر سے اتار دیا۔ ”میرے بیٹے، قریب آؤ۔“ انہوں نے اسے میرے جسم پر لگاتے ہوئے کہا، تاکہ وہ مجھے اس کے ساتھ دیکھ سکے، ”یہ شاندار لگ رہی ہے. میں حیران ہوں کہ اس کی قیمت کتنی ہوگی۔“
”یہاں، آپ اشیاء کو چھو نہیں سکتے۔“ سیلز گرل نے اچانک اماں کے پیچھے آتے ہوئے کہا، ”کیا تم علامت نہیں دیکھ سکتے؟“ اس نے کپڑوں کے درمیان ’پلیز ڈونٹ ٹچ کارڈ‘ کی طرف اشارہ کیا۔ ”کیا آپ کو انگریزی نہیں آتی؟“
اماں شرمندگی سے لال ہو گئیں۔ ”مجھے افسوس ہے،“ جلدی سے اسے واپس کرنے کی کوشش کرتے ہوئے وہ الجھن میں بڑبڑائیں، ”میں تو صرف۔۔۔ میں نے نہیں دیکھا۔۔۔۔ اس کی قیمت کتنی ہے؟“
سیلز گرل نے ان کے ہاتھ سے جیکٹ لے لی اور انہیں ترس کھا کر دیکھا۔ ’’سات سو روپے۔‘‘ اس نے کہا۔
اماں اتنی غیر متوقع رقم سن کر مکمل طور پر حواس باختہ ہو گئیں۔ ”کیا۔۔۔ معاف کیجیے گا۔۔۔۔ سات سو روپے؟“ انہوں نے الجھن اور شرمندگی سے پوچھا۔
’’جی یہی درست قیمت ہے، میڈم،‘‘ لڑکی نے جیکٹ کو اس کی جگہ پر رکھتے ہوئے کہا، ”اور براہ کرم کپڑوں کو مت چھونا۔“
’’سب ٹھیک ہے اماں۔‘‘ میں نے کہا، ”مجھے ویسے بھی یہ نہیں چاہیے تھی۔ میں ایسی جیکٹ کا کیا کروں گا؟“
اماں اب بھی اداس لگ رہی تھیں، سو میں نے مزید کہا، ”ویسے بھی یہ میرے سائز سے بہت بڑی ہے — اگر میں اسے پہنوں تو لگے گا کہ کسی پہلوان کی اترن پہنی ہے اور اس میں بد نما نظر آؤں گا۔“
ان کا غم غلط نہیں ہوا تھا۔
اسی وقت ایک مشہور ریڈیو ڈسک جوکی بوتیک میں داخل ہوا اور سب کی نظریں اس کی طرف اٹھ گئیں۔ لمبا قد، مضبوط اور خوب رو، اس نے ریشم کی قمیص اور اسکارف اور بھڑکتی ہوئی پتلون پہن رکھی تھی، اور میں اس سے شدید حسد کرتا تھا۔ وہ مردانہ کپڑے فروخت کرنے والی لڑکی کی طرف بڑھا اور کہا، ”ہیلو۔“
”اوہ، ہیلو، جے۔“ لڑکی نے کہا، ”ہمارے پاس ایک ایسی چیز ہے جو آپ واقعی پسند کریں گے – ٹائیوں میں سب سے نئی چیز، اور اتنی سستی۔ کیا یہ شاندار نہیں ہے؟ اور یہ صرف ستر روپے کی ہے۔“
”ہمم،“ ڈی جے نے ریک پر ٹائیوں کو پلٹتے ہوئے معمول کے مطابق پرسکون انداز میں کہا۔ میں کسی طور اس سے نظریں نہ ہٹا سکا۔ وہ، وہ سب کچھ تھا جو میں بننا چاہتا تھا، متاثر کن شخصیت، پالش شدہ جوتے، خوش لباس، مقبول اور امیر۔۔ اماں بھی اسے دیکھ رہی تھیں۔
ٹائیوں کو چھانٹتا، ادھر ایک رنگ پسند کرتا، ادھر دوسرے کی چوڑائی پر اعتراض کرتا، اور اس وقت ان کی نظریں اس کے ہاتھوں سے پھسل کر ’پلیز ڈونٹ ٹچ‘ کارڈ کی طرف سفر کر رہی تھیں جو ریک کے نچلے حصے میں رد شدہ کپڑوں کے ڈھیر کے درمیان کسی کے بھی دھیان سے اوجھل پڑے تھے۔
اچانک میں نے خود کو جسمانی طور پر بیمار محسوس کیا۔ میں وہاں سے نکلنا چاہتا تھا، مصنوعی، ایئر کنڈیشنڈ ماحول سے، دیوار تا دیوار بچھے قالین والے فرش سے باہر، ہر آئینہ دار ستون سے دور جو مجھے یاد دلاتے تھے کہ میں واقعی کیا ہوں۔ ایک قسم کی متلی کی کیفیت مجھ پر چھا گئی، اور لمحہ بہ لمحہ میرا سر گھومنے لگا، فرشوں، دیواروں، شیشوں، ڈیزائنوں اور نمونوں، سجاوٹ اور کپڑوں نے گھومتے اور چکراتے ہوئے سوالیہ نشان میں تبدیل ہو کر مجھ سے پوچھا، ’تم یہاں کیا کر رہے ہو؟‘ اور یہاں یکا یک مجھے احساس ہوا کہ میں نہیں جانتا، میں نہیں جانتا تھا کہ میں وہاں کیا کر رہا ہوں، اور سوالیہ نشان میرے ذہن میں ایک تیر کی طرح سیدھا پیوست ہو گیا، ایک سیدھی لکیر کی طرح، اور میں جانتا تھا کہ یہ لکیر کہاں لے کر جا رہی ہے- باہر، گرم فرش اور شام کی خوبصورت اداسی سے نجات کی طرف۔۔ پلازہ لاؤنج کی بروکیڈ، آئینہ دار دیواروں کے پار۔۔
”اماں،“ میں نے ان کی آستین کو پکڑتے ہوئے کہا، ”چلو چلتے ہیں۔“
لیکن وہ سنتی دکھائی نہیں دے رہی تھیں۔ ان کے چہرے پر ایک عجیب، نیم عزم، نیم حیرت کا تاثر تھا اور وہ مجھ سے دور جا رہی تھیں۔ میں نے اس روپ کو پہچان لیا؛ میں نے اس روپ کو اکثر دیکھا تھا۔ جب کبھی میں گھر میں کوئی غلط کام کرتا تھا تو وہ مجھے ایسے ہی ’ناشکری‘ کا احساس دلاتی تھیں۔ اچانک مجھے احساس ہوا کہ وہ کیا کرنے جا رہی ہیں۔ میں نے انہیں روکنے کی کوشش کی لیکن وہ پہلے ہی کاؤنٹر پر پہنچ چکی تھیں۔
”یہاں،“ وہ شکایت بھری بلند اور تیکھی آواز میں کہہ رہی تھیں، ”میں نے سوچا کہ ہمیں کپڑوں کو ہاتھ نہیں لگانا چاہیے۔“
مجمع پر ایک ناگوار خاموشی چھا گئی۔ ہماری طرف دیکھنے کے لیے چہرے مڑ گئے۔ اس گستاخی پر، معافی یا سرزنش کی توقع میں اماں نے سر اٹھا کر سیلز گرل کو دیکھا، وہ دونوں میں سے کسی بھی بات کے لیے تیار تھیں۔
ڈی جے نے بھی ٹائیوں اور عورتوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ سے باز آ کر ہم پر قدرے کبیدہ خاطر نظر ڈالی۔ پھر وہ واپس مڑا اور سیلز گرل سے اپنی بات چیت دوبارہ شروع کی۔ ہمارے اردگرد آوازوں کا شور و غل دوبارہ شروع ہو گیا۔
وقفہ ختم ہو چکا تھا۔ ہماری بھونڈی مداخلت کو بڑی حد تک فراموش کر دیا گیا تھا۔ لیکن سیلز گرل کے چہرے پر تنی سخت لکیروں سے میں جانتا تھا کہ اسے کبھی معاف نہیں کیا جائے گا۔
”اماں – چلیں۔“ وہ ایک لمحے کے لیے ساکت کھڑی رہی، ان کے چہرے پر بے یقینی اور دکھ کے آثار تھے، اور پھر آہستہ آہستہ، باصبر انداز میں، تلخی یا ناراضی کے اشارے کے بغیر، وہ دھیمی پڑ گئیں اور کاؤنٹر سے دور چلی گئیں۔ جب وہ بولیں تو ان کی آواز میں ایک شکستگی تھی۔ ’’ہاں بیٹا چلو۔۔۔ آؤ۔“
خاموشی اور اداسی سے، ہم دروازے کی طرف چل دیے۔ کسی نے ہمارے باہر نکلنے پر دھیان نہیں دیا۔ ایسا لگتا تھا جیسے چائے کے کپ سے کوئی مکھی نکالی گئی ہو، جس کو پہلے ہی وہاں نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اسے پہلی فرصت میں نکال دیا گیا تھا۔ میں گزرنے والوں کی نظروں سے کترا گیا۔
ہم نے اترنے کے لیے سیڑھیاں استعمال کیں۔ جب ہم ہوٹل سے باہر نکلے اور سڑک پر آئے تو ماحول ظالمانہ تھا۔ میرا جی چاہا کہ ایک اینٹ، ایک پتھر، فٹ پاتھ سے ایک ٹائل، کچھ بھی اٹھاؤں اور اسے عمارت کے سامنے کے شیشے پر دے ماروں۔۔ لیکن میں نے ایسا نہیں کیا۔ میں نہیں کر سکا، مجھے ایسا کرنے کا حق نہیں تھا۔
امّاں نے کہا، ’’بیٹا ٹیکسی لیتے ہیں۔“
’’نہیں اماں،‘‘ میں نے جواب دیا اور اچانک میرے گلے میں پھنسی گانٹھ اتنی بڑی نہیں رہی، ”ہم بس اڈے کی طرف چلیں گے، ہمیشہ کی طرح۔“
میرے لہجے میں کسی چیز نے انھیں مڑ کر میری طرف دیکھنے پر مجبور کیا۔
میں مسکرایا، ’’ہم گھر جا رہے ہیں اماں۔‘‘ میں نے کہا۔ میں نے اپنے بازو پر ان کے ہاتھ کا دباؤ محسوس کیا جب ہم بس کے انتظار میں بنی قطار میں شامل ہونے کے لیے آہستہ آہستہ چل رہے تھے۔