رات کی سیاہی اپنی چادر پھیلا چکی تھی اور چہار سو مہیب خاموشی کا راج تھا۔ ریڈ انڈین قبیلے کا ایک بوڑھا شخص ایلان، قدیم جنگل کے کنارے اداس بیٹھا تھا، جہاں کبھی اس کا قبیلہ آزاد گھومتا تھا۔ یہ جنگل اب جدید دنیا کے تیز رفتار قدموں کے نیچے دب چکا تھا۔
یہاں کی ہوائیں، ندیاں، اور پہاڑ ہمیشہ سے ان کے ہمراز تھے۔ جنگلوں کی گہری خاموشی میں قدیم مناجات کی بازگشت مگر آج بھی محفوظ تھی۔ ان کے قبیلے کی زندگی زمین کے ساتھ جڑی ہوئی تھی، اور زمین ان کی ماں تھی، جو کبھی ان سے ناراض نہ ہوتی۔
جنگل کے آخری کنارے پر دریائے اوہایو اپنی تھکن اتارتا تھا۔ اوہایو کا دریا چاندنی راتوں میں جب چمکتا، تو ایسا لگتا گویا زمین کے زخموں پر کوئی شفاف مرہم رکھا جا رہا ہو۔ ریڈ انڈین بچے اس کے کنارے کھیلتے، جیسے پانی کی موجوں سے دوستی کا پیمان باندھتے ہوں۔
اسی دریائے اوہایو کے ساتھ ایلان خاموشی سے آگ کے قریب بیٹھا تھا۔ آگ کی ہلکی آنچ اس کے جھریوں بھرے چہرے پر ٹمٹما رہی تھی۔ ایلان کی آنکھوں میں وقت کی گرد جم چکی تھی، مگر یادوں کی روشنی اب بھی جل رہی تھی۔ پاس ہی جلتی آگ کے شعلے داستان گو کی طرح رقص کر رہے تھے، جیسے صدیوں پرانی کہانیاں سنانے کی تیاری کر رہے ہوں۔ رات کے سناٹے میں، جلتی ہوئی لکڑیوں کی ہلکی سی چٹک سنائی دے رہی تھی۔ ان کے قریب خشک پتے سرسرا رہے تھے، گویا کہانی سننے کو بیتاب ہوں۔
یہ سرد رات بھی کسی پرانی یاد کی طرح ایلان کے دل میں اتر رہی تھی۔ وہ اس شام کو یاد کر رہا تھا، جب ٹی وی کی اسکرین پر ایک رعونت بھرا چہرہ نمودار ہوا تھا۔ امریکہ کے نئے منتخب صدر نے اعلان کیا تھا کہ ’مہاجرین ہمارے ملک میں جرائم اور بدنظمی پھیلانے کے ذمہ دار ہیں۔ ہمیں ان سے محفوظ رہنے کی ضرورت ہے۔‘
یہ جملے ایلان کے دل پر کسی قدیم زخم کی طرح لگے تھے، ایک ایسا زخم جو وقت کے ساتھ بھی نہ بھر سکا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے ماضی کی وہ تصویریں رقص کرنے لگیں، جو اس نے اپنے باپ دادا سے سنی کہانیوں سے اخذ کی تھیں۔ وہ دن زمین کے زخموں میں گم ہو چکے ہیں، ہواؤں میں مگر اب بھی پرانی کہانیاں سرگوشیاں کرتی ہیں۔
یہ ان سیاہ دنوں کی کہانیاں تھیں، جب دور سمندر کے کنارے، افق پر عجیب بادبان ابھرے تھے۔۔ سفید، بے جان، سرد، اور اجنبی۔۔ ریڈ انڈین قبیلوں نے ان بادبانوں کو حیرت سے دیکھا۔ سفید بادبان والے جہازوں سے سفید چمڑی والے اجنبی لوگ اترے تھے، جن کی زبان اور رنگ ان کے لیے نئے تھے۔
پہلا ہاتھ دوستی کے طور پر بڑھا۔ قبیلے کے بزرگوں نے اپنے دل کی پاکیزگی کے ساتھ ان اجنبیوں کو خوش آمدید کہا۔ شکار کی دعوت دی، مکئی کے کھیتوں میں خوشبو بھری روٹی توڑ کر دی۔ مگر ان بادبانوں کے پیچھے آنے والے چہرے نرم الفاظ میں چھپی سفاکی کے ساتھ آئے تھے۔
”ہمارے آبا و اجداد نے انہیں خوش آمدید کہا تھا،“ ایلان نے خود سے کہا، ”ہم نے اپنی زمینیں، اپنے شکار کے میدان، اپنی جھیلوں کے کنارے ان کے حوالے کیے۔ ہم نے ان سے دشمنی نہیں کی۔ مگر پھر کیا ہوا؟“
”مہاجرین؟“ ایلان نے سر اٹھا کر چاند کی طرف دیکھا، ”انہیں بھی یہی تو کہا جاتا تھا جب یہ سفید چمڑی والے جہازوں سے اترے تھے۔ وہ یہاں آئے، انہوں نے ہمارے پیروں تلے زمیں اور سروں سے درختوں کی چھاؤں چھین لی، انہوں نے ہمارے منہ سے نوالہ اور ہمارے بچوں سے زندہ رہنے کا حق چھین لیا، وہ ہمارے گاؤں جلانے والے بن گئے۔“
ایلان کی یادوں میں وہ دلسوز کہانیاں ابھر آئیں، جن میں اس کا آبائی قبیلہ بستا اور سانسیں لیتا تھا، دھوئیں میں ڈوبے ہوئے خیمے، بے بس چیخیں، اور خون سے رنگین مٹی۔۔ ”ہم مہاجر نہیں تھے، ہم تو اپنے ہی گھر میں تھے… اور پھر بھی بے گھر کر دیے گئے۔“
پھر زمین نے اپنی تقدیر بدلتی دیکھی۔ جنگلوں کے درختوں کی گردنیں کٹنے لگیں، دریاؤں کے سینے زخمی ہوئے، اور مقدس چٹانوں پر زخموں کی لکیریں کھنچ گئیں۔ یہ سفید چمڑی والے اجنبی نہ صرف مہمان بلکہ زمین کے بے رحم مالک بن گئے۔ وہ جو مقدس شجر تھے، ان کے مقام پر پتھر کی دیواریں کھڑی ہو گئیں۔
ایلان کے اجداد شام کی آگ کے پاس بیٹھ کر قصے سناتے، ”وہ ہمارے گھروں کے دروازے کھول کر داخل ہوئے اور ہمارے خوابوں کے دروازے بند کر گئے۔۔ ہم نے انہیں زندگی دی، اور انہوں نے ہمیں موت کا تحفہ دیا۔“
اجنبیوں نے معاہدوں کے کاغذوں پر دستخط کیے، جو ہوا کی ایک سرگوشی سے زیادہ بے وقعت تھے۔ معصومیت نے مکر و فریب کے سامنے ہار مانی، اور زندگی تاریخ کے اوراق میں بکھرتی چلی گئی۔
ان سفید فاموں کی آمد سے پہلے، امریکہ میں ایلان کے آبائی قبائل صدیوں سے رہتے تھے۔ یورپیوں نے اپنی نوآبادیاتی توسیع کے دوران دھوکہ دہی اور طاقت کے ذریعے صدیوں سے یہاں بسنے والے زمیں زادوں کی زمینوں پر قبضہ کیا۔ انہیں جنگوں، بیماریوں اور جبری ہجرتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ یورپی بیماریوں جیسے چیچک اور خسرہ سے لاکھوں مقامی افراد ہلاک ہوئے۔
حد سے بڑھی ہوئی لالچ جب ظلم و جبر میں ڈھلی، تو ایلان کے اجداد نے آ دھمکنے والوں سے پونییک کی جنگ اور لٹل بِگ ہارن کی لڑائی سمیت کئی مزاحمتی جنگیں لڑیں۔۔ لیکن تب بہت دیر ہو چکی تھی۔۔
اور پھر وہ وقت بھی آیا، جب 1830 میں ایک امریکی صدر نے ’انڈین ریموول ایکٹ‘ نافذ کیا، جس کے تحت مقامی قبائل کو ان کی آبائی زمینوں سے زبردستی نکال کر مغرب میں ’ریڈ انڈین ٹیریٹری‘ میں منتقل کیا گیا۔۔ جسے ’آنسوؤں کا راستہ‘ کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے۔
ایلان کا دل دکھ سے بوجھل ہو گیا۔ ”آج وہی لوگ جو زمین پر اپنے قبضے کے حق میں کہانیاں گھڑتے ہیں، دوسروں کو مجرم کہتے ہیں۔۔ کیسے!؟ جب ان کی تاریخ خود خون، ظلم اور غصب کی داستان ہے۔“
یادوں کا زہر تیزی سے پھیلنے لگا۔ وہ جنگ، وہ جبر، وہ لوٹ مار، ماؤں کی چیخیں، بچوں کے روتے چہرے، اور جوانوں کی لاشیں، سب کچھ جیسے دوبارہ زندہ ہو گیا۔ ”ہم تو یہاں کے اصل باسی تھے، مہاجر نہیں۔۔۔ مگر ہمیں مجرم قرار دے کر ہماری زمینوں سے نکالا گیا۔“
ایلان نے زمین پر ہاتھ رکھا۔ ”یہ زمین تو ہمیشہ ہماری تھی۔۔۔ شاید اب بھی ہے، مگر ہمارے خوابوں میں۔“
آگ کے شعلے تھم گئے تھے، جیسے کہانی بھی ختم ہو چکی ہو۔ مگر ایلان جانتا تھا کہ یہ کہانی ختم نہیں ہوئی۔ آج بھی زمین چھینی جا رہی ہے، آج بھی اصل باشندوں کو مجرم کہا جا رہا ہے، آج بھی ظلم زندہ ہے۔
اس نے آسمان کی طرف دیکھا، جہاں بادل چاند کو ڈھانپ رہے تھے۔ اس کے ہونٹوں پر تلخ مسکراہٹ پھیل گئی، ”تم بھی چھپ جاؤ، چاند،“ ایلان نے تلخی سے کہا، ”یہ دنیا سچائی کی روشنی سے ڈرتی ہے۔“
دریا کی موجوں نے جیسے ایلان کے الفاظ کو اپنے ساتھ بہا لے جانے کی ذمہ داری لی ہو۔ رات اور بھی گہری ہو گئی تھی، مگر بوڑھے ایلان کی آنکھوں میں اب بھی ایک امید کی چمک تھی۔۔۔ ایک ایسی امید، جو کسی دور دراز مستقبل میں اپنے وطن کے خدوخال دوبارہ ابھرتے دیکھنے کے انتظار میں زندہ تھی۔
آگ کی چنگاریاں آسمان میں بکھرتی گئیں، جیسے تاریخ کے بکھرے ہوئے اوراق۔۔ ایلان کے ہاتھ دعا کے انداز میں اٹھے، جیسے اپنی نسل کی بے بسی کو آسمان تک پہنچانے کی یہ ایک آخری کوشش ہو۔