کٹھ پتلی (ایرانی ادب سے منتخب افسانہ)

مہین دخت حسنی زادہ (ترجمہ: احمد شہریار)

مرد کمرے میں داخل ہوا اور دروازے کے پاس آ کر کھڑا ہو گیا: ”تم ابھی تک تیار نہیں ہوئیں؟“

عورت نے پہلے اپنے بال سر کے اوپر جمع کیے، پھر انہیں اپنے شانوں پر گرا دیا اور آئینے میں اپنا چہرہ دیکھنے لگی۔ اس نے پاؤڈر کا ڈبہ اٹھایا اور اپنا مخصوص پاؤڈر چہرے اور گردن پر ملنے لگی: ”تھوڑی دیر اور۔۔ بس تیار ہو چکی۔“
جب اس نے آئینے میں مرد کو دیکھا تو پلٹ کر چلائی: ”یہ تم نے کیا پہن رکھا ہے؟“

مرد نے آئینے میں خود پر ایک نگاہ ڈالی اور اپنا گریبان ٹھیک کرتے ہوئے کہا: ”کوئی خرابی ہے ان کپڑوں میں؟“

”ابھی بدلو جا کر! اس برے ربن کو تو دیکھو ذرا!“

”کیا برائی ہے اس میں؟“

”پرانا ہو گیا ہے! کچھ نہیں، تم بس اپنا کالا کوٹ پینٹ پہن لو۔۔ اور ٹائی باندھنا مت بھولنا۔“

مرد نے اپنے کندھے اچکائے اور کمرے میں چلا گیا۔ عورت کے بتائے ہوئے کپڑے پہنے اور واپس لوٹ آیا۔ عورت ابھی تک آئینے کے سامنے بیٹھی اپنے بالوں میں کنگھی کر رہی تھی: ”سوچ رہی ہوں اپنے بال باندھوں کے انہیں کھلا چھوڑ دوں؟“

مرد کھڑکی کے پاس صوفے پر بیٹھ کر باہر جھانکنے لگا، ”دونوں طرح ہی خوبصورت ہیں۔“

”تم نے ایک بھی اچھا مشورہ دیا ہے کبھی؟؟“ عورت نے اپنے ناخن پر گوند لگائی اور مصنوعی ناخن ان پر چپکا دیے، ”ویسے اگر خالہ توران نے پوچھا تو کیا کہوں؟“

”کس بارے میں؟“

اس نے اپنا ہاتھ اوپر اٹھا کر اس پر پھونک ماری، ”اتنا جلدی بھول گئے؟ مہیار کے کام کا کیا ہوا؟“

”ایکسیڈنٹ ہوا ہے اس کا؟“

”نہیں بابا!“

”تو کیا چیک ویک کا مسئلہ ہے؟“

”او ہو! تمہیں ڈاکٹر کی ضرورت ہے۔ تمہاری یاد داشت چلی جائے گی۔ مجھ پر بوجھ بنے رہو گے۔“ عورت الماری کی طرف جا کر کپڑے ایک ایک کر کے آگے ہٹانے لگی، ”سنہری بالوں کے ساتھ گہرے رنگ کے کپڑے ٹھیک رہیں گے؟“

”دعوت میں دیر ہو جائے گی!“

”تم نے اس کے لئے کیش والے آفس میں کوئی کام ڈھونڈنا تھا۔ بھولنے کی اداکاری مت کرو۔۔ مجھےمعلوم ہے، تمہیں یاد ہے۔“

”لیکن وہ لڑکا۔۔۔“

عورت نے اپنے کپڑے بدلے، ”لیکن ویکن کچھ نہیں۔۔ میں نے وعدہ کیا ہے اس سے۔۔ ہفتے کو اسے تمہارے پاس دفتر بھیج رہی ہوں۔“

مرد کے پاس کہنے کو کچھ نہیں۔ اپنی انگلی سے کھڑکی کے شیشے پر طبلہ بجانا شروع کیا۔ عورت لمبے کالے کپڑے پہن کر بڑے سے آئینے کے سامنے کھڑی ہو کر خود کو آئینے میں دیکھنے لگی، ”کیسی لگ رہی ہوں؟“

مرد نے اس کی طرف دیکھے بغیر کہا، ”بہت خوبصورت!“

”ڈاکٹر کہتا ہے کہ مجھ میں ایک کیلو بھی اضافی وزن نہیں ہے اور میں اب بالکل فٹ ہوں۔“

مرد بڑبڑاتا ہے: ”ذلیل انسان!“

عورت نے گھوم کر کہا: ”میرا تو اپنا کوئی خاص ارادہ نہیں تھا۔ وہی اس بات کا باعث بنا۔“

"”س نے پیسے بھی تو اچھے خاصے لئے تم سے۔“

”تو کیا ہوا۔۔ ہفتے میں تین بار میرا چیک اپ کرتا تھا۔ تمہیں کیا لگتا ہے، اتنی ساری چربی کیسے پگھل گئی؟ دیکھو تو! میں بالکل ویسے لگ رہی ہوں، جیسے شادی سے پہلے تھی۔“

مرد نے اپنا سر ہلایا، ”یقیناً! یقیناً! ڈاکٹر کہتا ہے تو یقیناً ٹھیک ہی کہتا ہوگا۔“

”تم میرا مذاق اڑا رہے ہو؟“ عورت نے الماری سے تصویروں کا البم نکالا اور اسے مرد کی گود میں پھینک دیا، ”پکڑو! خود دیکھ لو! مجھ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ ڈاکٹر کہتا ہے میں کرمان کے قالین کی طرح ہوں۔“

مرد نے البم کھولا۔ پہلے صفحے پر اس کے والدین کی ایک بڑی سی بلیک اینڈ وائٹ تصویر تھی۔ والد نے فوجی سوٹ پہن رکھا تھا اور والدہ نے اپنی چادر سے چہرہ یوں ڈھانپ رکھا تھا کہ اس کے چہرے کا ایک چھوٹا سا حصہ دکھائی دے رہا تھا اور بس۔ اگلی تصویر انہوں نے اپنی پرانی حویلی میں حوض کے کنارے اتاری تھی۔ اس کے والد نے اپنا ہاتھ والدہ کے کاندھے پر رکھا تھا جبکہ والدہ خود کو چھڑانے کی کوشش کر رہی تھیں اور اس کی بہن ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو رہی تھی۔ تصویر لینے والا وہ خود تھا۔ وہ پھر بڑبڑایا: ”کتنے اچھے دن تھے!“

”صفحہ پلٹو۔ اگلے صفحے پر ہے۔“

اگلا صفحہ عورت کی تصویروں سے بھرا ہوا تھا؛ بچپن سے لے کر جوانی تک۔ ہر طرح کے کپڑوں میں۔ مختلف مقامات پر۔ عورت نے آئینے سے مرد کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، ”دیکھ رہے ہو؟“

مرد نے کہا، ”ہاں!“ اور پھر اس کی نظریں اپنی ایک تصویر پر پڑی۔ اس نے آرام سے کہا، ”میں کتنا بدل چکا ہوں۔“ اور پھر عورت کی طرف دیکھ کر کہا، ”تم نے آج تک یہ ساری تصویر میں سنبھال کر رکھی ہیں؟؟“

عورت مرد کے سرہانے آئی، ”ہاں! دیکھ رہے ہو؟ فوجی لباس تم پر بالکل نہیں جچتے۔ اچھا کیا جو یہ کام چھوڑ دیا۔“

”یہ تمہاری خواہش تھی۔“

”اس سے تمہیں کوئی نقصان تو نہیں ہوا۔ ہوا کیا؟“

مرد نے کندھے اُچکائے۔ عورت نے اپنا ہاتھ کمرے کی طرف گھمایا، ”ہماری حالت تو دیکھو۔ تم نے اپنی زندگی ایک پرانی حویلی سے شروع کی تھی اور آج ایک سے ایک بڑی بڑی عمارتیں بناتے ہو۔“

”ایک پرانی حویلی جس کے تمام رہنے والوں کو زبردستی اولڈ ہاؤس بھیج دیا گیا ہو، اس سے زیادہ انسان کی ترقی میں اور کیا چیز مفید ہو سکتی ہے بھلا؟“

عورت سنگھار میز کی طرف واپس لوٹی، ”ایک دولتمند باپ جو میرا باپ ہے اور ایک نظم و ضبط والی بیوی جو تمہاری بیوی ہے۔“

مرد نے البم بند کر کے اسے میز پر پھینک دیا، ”اب چلیں! دیر ہو رہی ہے۔“

”ٹھہرو بھی۔ ابھی میرا کام ختم نہیں ہوا۔ تم بھی اپنی حالت ٹھیک کر لو۔ میں نے کتنی بار تمہیں بالوں میں خضاب کرنے کو کہا ہے۔ بوڑھے لگ رہے ہو۔“

مرد نے آئینے پر ایک نظر ڈالی۔ عورت کے سولہ سنگھار کیے ہوئے چہرے کے پہلو میں برف پڑے بالوں اور کٹی ہوئی مختصر مونچھوں کے ساتھ اس کی تصویر کچھ زیادہ ہی سادہ لگ رہی تھی۔ عورت ایک بار پھر اپنے چہرے پر پاؤڈر لگا رہی تھی۔ مرد نے اپنی گھڑی پر ایک نظر ڈالی، ”ہمارے پہنچنے تک سب جا چکے ہوں گے۔“

”سب جاچکے ہوں گے!؟ ایسا ہو سکتا ہے بھلا!؟ وہ میرے منتظر رہیں گے، چاہے آدھی رات بھی ہو جائے۔“

مرد زیر لب غرایا: ”ہاں ہاں! بالکل! تمام مجلسوں کی جان جو ہو تم!“

عورت نے آئینے میں خود کو دیکھا تو مسکرا کر کہا، ”ڈاکٹر مجھے دیکھے گا تو کیا کہے گا؟“

مرد کھڑکی کے پاس جاکر باہر جھانکنے لگا۔ ایک منزلہ چھوٹی چھوٹی عمارتیں آسماں سے باتیں کرتے ہوئے نو ساز بڑی بڑی عمارتوں کے پیچھے چھپ گئی تھیں۔

عورت نے اسے بلایا، ”ذرا میرا لاکٹ تو باندھ دو۔“

مرد نے لاکٹ کا ہک باندھا اور پاؤڈر کا ڈبہ سنگھار میز سے اٹھایا۔ اس کا ڈبہ چینی کا بنا ہوا تھا جس پر سونے کا کام کیا گیا تھا اور اس پر ایک جوان عورت کی تصویر تھی، جس کا چہرہ مہرہ اور کپڑے قدیم یورپی شہزادیوں جیسے تھے۔ ڈبے پر بنی عورت نے اپنے گھنگریالے خرمائی بالوں کو کھلا چھوڑا تھا اور کسی انجانے نقطے کو گھور رہی تھی۔ اس نے ڈبہ کھولا اور اسے سونگھا۔ اس میں برش رگڑ کر کہا، ”تمہاری گردن کی پچھلی طرف بھی پاؤڈر لگاؤں؟؟“

عورت ایک طرف کو ہٹ گئی، ”میرا مذاق اڑا رہے ہو؟ یہاں کھڑے مجھے ٹکر ٹکر دیکھ رہے ہو۔ مجھے ٹھیک سے اپنا کام بھی نہیں کرنے دیتے۔“

مرد نے پاؤڈر کا برش اپنے چہرے پر پھیرا تو اس کے چہرے پر ایک سفید لکیر سی کھینچ گئی، ”کیسی ہے؟“

عورت ہنسی ”جب تک تم اپنی وہ بے تکی مونچھیں نہیں کاٹو گے، ویسے ہی رہو گے۔“

مرد دوبارہ کھڑکی کے پاس جا کر باہر دیکھنے لگا۔ وہاں اوپر سے انسان چھوٹے چھوٹے مہروں کی طرح دکھائی دے رہے تھے جو ادھر ادھر پھر رہے تھے، ”تمہارے خیال میں وہاں نیچے تک کا فاصلہ کتنا ہوگا؟“

”کہاں تک؟“

مرد نے سڑک کی طرف انگلی سے اشارہ کیا، ”سڑک کی بات کر رہا ہوں۔“

”لفٹ میں؟“

”نہیں۔ اگر کوئی یہاں سے چھلانگ لگادے؟“

عورت نے مڑکرات دیکھا، ”کون چھلانگ لگا رہا ہے؟“

”بس یونہی پوچھ رہا ہوں۔“

”تم نے سنا سپیدہ کے منگیتر نے بیڈروم سے نیچے چھلانگ لگادی تھی؟ گرتے ہی مر گیا۔۔ ہے بیوقوف لڑکا! میں نے سپیدہ سے کہا: تمہاری قسمت اچھی تھی جو اس نے خود کشی کر لی، ورنہ تمہارا جیناحرام کر دیتا۔“

مرد نے شیشے پر اپنا ہاتھ پھیرا، ”خود کشی کے لئے بھی حوصلے کی ضرورت ہوتی ہے۔“

عورت بولی، ”کیسا حوصلہ! سپیدہ کے ابو نے اس کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کیں کہ پہلے گھر اور پتا نہیں کیا کیا خریدے۔۔ اس نے بھی جب دیکھا کہ اتنا کچھ نہیں خرید سکتا، تو اپنی جان دے دی۔“

”اچھا بندہ تھا۔ میں نے دیکھا تھا اسے۔“

عورت ہنسی، ”بعض لوگوں کی اوقات ہی نہیں ہوتی اچھی زندگی گزارنے کی۔“

مرد نے مڑ کر عورت کی طرف دیکھا، جو اپنی ٹانگوں پر تیل کی مالش کر رہی تھی اور کوئی گانا گنگنا رہی تھی، ”بس میرا کام ختم ہو گیا۔ جاؤ جا کر گاڑی اسٹارٹ کرو۔“

مرد کھڑکی کے پاس سے ہلا تک نہیں۔ اس نے پاؤڈر کا ڈبہ کھول کر نیچے دیکھا۔ سڑک کے بلب اچانک جل اٹھے۔

”سڑک روشنیوں میں نہا گئی۔ دیکھا تم نے؟“ مرد نے پوچھا۔

”یہ کوئی نئی بات تو نہیں ہے۔ بڑی عمارتوں کی یہی تو خوبی ہوتی ہے۔“

مرد نے عورت کی طرف مڑ کر دیکھا۔ بڑے آئینے میں، سنگھار میز کے آئینے میں اور دوسرے کئی چھوٹے بڑے آئینوں میں عورت کی تصویر نظر آرہی تھی، جس نے اپنا سر ایک طرف جھکایا تھا اور اپنے کان میں بالی ڈال رہی تھی۔ ایک لمحے کے لئے وہ عورت کے حسن اور شکوہ میں کھو گیا۔ پھر اپنی نگاہیں دوبارہ سڑک کی طرف پھیر لیں، ”اب اپنے پاؤڈر کو خدا حافظ بھی کہہ دو۔“

عورت نے آئینے میں مرد کو کھڑکی کے پاس دیکھا۔

”سن رہی ہو؟ اپنے پاؤڈر کو الوداع کہہ دو! کافی ہے۔ اس کی زندگی ختم ہونے کو ہے۔“

عورت بولی، ”یہ کیا کر رہے ہو؟“

”کچھ نہیں۔ بس اسے آزاد کر رہا ہوں۔“ مرد نے پاؤڈر کا ڈبے کو ہوا میں ہلایا، ”دیکھو! دیکھو!! ختم ہو گیا۔“

”تم ایسا کچھ نہیں کرو گے!“

مرد نے کچھ نہیں کیا۔ عورت کی طرف اپنی پیٹھ کر کے کھڑکی سے باہر جھکا۔ عورت لپکی کہ اسے اس کام سے باز رکھے لیکن اتنی دیر میں ڈبہ مرد کے ہاتھ سے چھوٹ چکا تھا۔ اس کے ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ پھیل گئی۔ عورت مرد پر جھپٹی۔ اس کا ناخن ٹوٹ گیا اور بال کھل گئے۔ مرد پیچھے ہٹا۔

”کیا کر رہے ہو ؟“

مرد نے آئینے میں اپنے چہرے پر عورت کے ناخن سے بنی ہوئی خراش دیکھی۔ عورت آئینے کے سامنے رکھی ہوئی کرسی پر گری اور اس کی سانسیں تیز تیز چلنے لگیں۔

”تمہیں بالکل ویسا ہی خریدنا ہوگا میرے لئے؛ لیکن اگر تمہیں مل جائے۔ اس کا ڈبہ ہاتھ کا بنا ہوا تھا۔ ابھی جاکر میرے لئے مصنوعی ناخن خرید کر لاؤ۔ تمہارا دماغ چل گیا ہے۔ تم پاگل ہو گئے ہو۔ آج رات میں ڈاکٹر سے ضرور اس بارے میں بات کروں گی۔ تمہیں علاج کی ضرورت ہے۔“

مرد نے سنگھار کی روئی سے اپنے چہرے پر لگا خون صاف کیا اور دروازے کی طرف چلا گیا :

”پٹی امپورٹڈ ہو، یاد رکھنا۔“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close