کہتے ہیں کہ ایک وادی تھی، جو دو گاؤں کے بیچوں بیچ پھیلی ہوئی تھی۔ یہ گاؤں اپنی زمین کی زرخیزی، اپنی قدیم روایات اور ایک دوسرے سے نفرت کے لیے مشہور تھے۔ پہلا گاؤں ’کھیت گاؤں‘ اور دوسرا ’جبل گاؤں‘ کہلاتا تھا۔ دونوں کے درمیان ایک سرسبز میدان تھا، جو کبھی ان کی یکجہتی کی علامت ہوا کرتا تھا، مگر اب وہی میدان دونوں کے درمیان نفرت کا وسیع صحرا بن چکا تھا، جہاں ہر وقت کدورتوں کی ریت اڑتی رہتی۔
اکثر اس میدان کے قطعات پر دونوں طرف کے شریر گاؤں واسیوں کی جانب سے ملکیت کے دعوے سامنے آتے اور پھر لفظی گولہ باری شروع ہو جاتی جو کبھی کبھار سر پھٹول تک جا پہنچتی۔ بڑے بوڑھے بیچ بچاؤ کراتے اور اس کے بدلے ان پر بزدلی کے الزام کا بوجھ لاد دیا جاتا۔
جبل گاؤں والوں کا ماننا تھا کہ وہ زیادہ محنتی، بہادر اور خالص ہیں، جبکہ کھیت گاؤں کے لوگ خود کو زیادہ ذہین اور برتر سمجھتے تھے۔ دونوں ہی گاؤں کے لوگوں میں ایک قدر مشترک تھی کہ وہ اپنے اجداد کے شجرے کو ربڑ کی طرح یوں کھینچتے کہ وہ توبہ توبہ کر اٹھتا۔۔ علاوہ ازیں وہ اپنے ماضی کے عشق اور آباؤ اجداد کی شان و شوکت کے نشے میں مخمور رہتے، یہ ایک ایسا نشہ تھا، جس نے ان کا وہ حال کر دیا تھا کہ وہ اپنے حال اور مستقبل کو بھی مخمور نظروں سے دیکھتے۔
دونوں گاؤں کے درمیان چھوٹے چھوٹے جھگڑے ہمیشہ ہوتے رہتے تھے: کبھی پانی کی تقسیم پر، کبھی کھیتوں کی حد بندی پر، اور کبھی محض اس پر کہ کس کے گاؤں کی فصل زیادہ سرسبز ہے۔ ’یہ میرا، وہ میرا‘ بھی لگا رہتا۔۔۔
یہ دونوں گاؤں ایک مشترکہ دشمن کے نشانے پر تھے۔ وہ دشمن تھا ’پتھر نگر‘ کے طاقتور لوگ، جو شہروں سے نکل آتے اور دونوں گاؤں کی زمینوں پر قبضہ کرتے جا رہے تھے۔ وہ کھیتوں میں آگ لگا دیتے، پانی کے چشمے بند کر دیتے، وہ ان کے بچوں کو اغوا اور قتل کرتے اور ہر طرف خوف و ہراس پھیلا دیتے۔
مگر کھیت گاؤں اور جبل گاؤں کے باسی اپنی زمین کے دشمن کو پہچاننے کے بجائے ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھہراتے۔ ”یہ کھیت گاؤں والے ہی ہیں جن کی کمزوری کی وجہ سے دشمن ہم پر غالب آ رہا ہے!“
”یہ جبل گاؤں والے خود دشمن سے ملے ہوئے ہیں اور ہمیں بزدلی اور غداری کا طعنہ دیتے ہیں!“
ایک رات، جب پتھر نگر کے لوگ کھیت گاؤں کی زمینوں پر قبضہ کر رہے تھے، جبل گاؤں کے لوگ انہیں بزدل کہہ کر خوش تھے کہ ان کا گاؤں محفوظ ہے۔ ”دیکھا، یہ ان کے غرور کی سزا ہے!“ جبل گاؤں کے ایک شخص نے کہا۔
مگر جلد ہی وہی دشمن، جبل گاؤں پر چڑھ دوڑا اور اس کے کئی نوجوانوں کو اٹھا کر لے گیا۔
”یہ سب کھیت گاؤں والوں کی چال ہے!“ جبل گاؤں کے نوجوانوں نے غصے میں آ کر کھیت گاؤں پر حملہ کر دیا۔
دونوں گاؤں کے درمیان ایک چرواہا رہتا تھا، جو اپنی بکریوں اور بھیڑوں کے ساتھ اس میدان میں گھومتا رہتا تھا۔ وہ اکثر گاؤں والوں کو سمجھاتا، ”دشمن تم دونوں کا مشترکہ ہے، تمہیں ایک ہو جانا چاہیے!“
مگر دونوں گاؤں کے لوگ اسے دیوانہ سمجھتے، ”یہ چرواہا کس کے لیے کام کرتا ہے؟ کھیت گاؤں یا جبل گاؤں؟“ وہ سوال کرتے۔
وہ دونوں اسے مخالف گاؤں کا ایجنٹ گردانتے۔
چرواہا من ہی من سوچتا کہ یہ لوگ تو اس کی بکریوں اور بھیڑوں کی طرح ہیں۔ وہ بکریوں کی طرح ’میں میں‘ کرتے ہیں اور بھیڑوں کی طرح بھیڑ چال چلتے ہیں۔۔
ایک دن پتھر نگر کے لوگ کھیت گاؤں اور جبل گاؤں دونوں پر بیک وقت حملہ آور ہوئے۔ وہ زمینیں جن پر کبھی فصلیں اگتی تھیں، اب راکھ ہو چکی تھیں۔ میدان جو کبھی سبز تھا، اب سنسان اور بنجر ہو گیا۔
چرواہا، جو ان دونوں گاؤں کی تباہی دیکھ رہا تھا، اپنی بکریوں کے ساتھ میدانوں اور پہاڑوں کی طرف چلا گیا۔
”یہ گاؤں کے باسی اندھے تھے۔ انہیں اپنی دشمنی کے آگے کچھ دکھائی نہیں دیا۔ اب ان کے پاس کچھ باقی نہیں رہا، نہ زمین، نہ عزت، نہ زندگی۔” وہ زیرِ لب بڑبڑایا۔ اس کے الفاظ کرب کے آنسوؤں سے بھیگے ہوئے تھے۔۔
کہتے ہیں کہ اس کے یہ آنسو سیاہی بن گئے اور اس نے اسی سیاہی سے یہ کہانی لکھی، جو ایک کھنڈر سے برآمد ہوئی۔