کراچی میں زیرِ تعمیر بحریہ ٹاؤن اور سندھ کا مستقبل (قسط 5)

گل حسن کلمتی

آگے چل کر گڈاپ اور مول والا راستہ (سیوہانی سڑک) کو بھی بند کیا جاۓ گا تو مول جانے کے لیے گڈاپ کے لوگوں کو سری سے گھوم کر جانا پڑے گا چونکہ مول اور گڈاپ کاروباری مراکز ہونے کے باعث روزانہ سینکڑوں لوگ اس راستے سے سفر کرتے ہیں، چنانچہ انہیں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا. مال کی منڈیاں بھی گڈاپ اور سہراب گوٹھ کی طرف ہیں ۔ اس لئے مول اور آس پاس کے دیہاتی اور جہاں بحریہ ٹاؤن بن رہا ہے ، وہاں کے دیہاتی اپنا مال اس راستے سے مال منڈیوں تک لاتے ہیں ۔ سبزی اور پولٹری فارم کی مرغیاں بھی مارکیٹ پہنچانے کے لیے یہی راستے استعمال ہوتے ہیں ، جن کی بندش کے باعث یہ سب لوگ پریشان ہوں گے۔

10- ان علاقوں میں جہاں بحریہ ٹاؤن فیز1 اور فیز2 کا کام چل رہا ہے ، حکومت کی طرف سے زیر زمین پانی میں اضافے کے لیے، تا کہ زراعت اور پینے کے پانی کے کنوؤں میں پانی کی سطح بڑھے، چار چھوٹے چیک ڈیم بنائے ہیں۔ جن میں لنگھیجی ، جرندو، کرکٹی اور تھدھو ندی پر یہ چیک ڈیم بناۓ گئے ہیں جن پر حکومت نے دو ارب روپے سے زائد خرچ کیا ہے ۔ان چیک ڈیموں کی وجہ سے پانی کی سطح میں اضافہ بھی ہوا ہے ۔ یہ چاروں ڈیم بحریہ ٹاؤن میں آنے کے باعث حکومت کے 2 ارب روپے بھی ضایع ہوں گے ۔ ان کے ختم ہونے سے زراعت کو کاری ضرب لگے گی ۔ ندی کا پانی روکنے کی وجہ سے ان چیک ڈیموں کے علاوہ ملیر ندی پر ڈملوٹی کے نزدیک تعمیر شدہ دو چیک ڈیم اور جام گوٹھ کے نزدیک مصنوعی جھیل تک پانی نہ پہنچ سکے گا تو وہ بھی بیکار اور کسی کام کے نہیں رہیں گے۔ زراعت کا نقصان الگ ہوگا جس کی تفصیلات قبل ازیں تحریر کر چکے ہیں ۔ جب بحریہ ٹاؤن ان دو فیز کے علاوہ فیز3 سابقہ یونین کونسل موئیدان کی 12 دیہوں میں رہائشی منصوبوں کے لیے کام شروع کرے گا، جو سب دیہہ نیشنل پارک کی سینکچری میں ہیں ۔ یہاں بھی لٹھ کرمتانی ندی پر ایک چیک ویئر (ڈیم) کھارندی پر بھی چیک ویئر ، مہیر برساتی نالے پر چیک ویئر ، کنڈ اور نمن برساتی نالے پر قائم چیک ڈیم متاثر ہوں گے ۔ان چیک ڈیموں پر حکومت نے اربوں روپے خرچ کئے ہیں۔

یہ نقشہ سنگت میگ کو گل حسن کلمتی نے فراہم کیا۔

11- قدیم ورثہ، پوری دنیا میں اقوام اپنے تاریخی مقامات اور ورثے کو بچانے کے جتن کر رہی ہیں لیکن سندھ واحد خطہ ہے جہاں حکومت کی سربراہی میں تاریخی مقامات اور اپنے لوک ورثے کو تباہ کیا جار ہا ہے ۔ فقط ضلع ملیر میں ملاحظہ کریں تو باکران سے حب اور مائی گاڑھی تک کئی آرکیالوجیکل سائٹس ، پتھر کے دور کے آثار ، چوکنڈی طرز تعمیر کی تراشیدہ گھاڑی قبریں، پتھروں پت نقش گری، پرانے قبرستان اور قدیم مقامات اور راستے موجود ہیں ۔

سسئی کا تاریخی باغ ، سسئی کا راستہ (کیچ مکران کا راستہ) باکران، امیلانو کی تاریخی سائٹس ، یہاں موجود چوکنڈی طرز تعمیر یے نقشہ گری قبروں کا جو حشر کیا گیا، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ۔ یہاں ان قدیم ورثوں کا ذکر کریں گے جو بچے ہوۓ ہیں تاہم اب ان کا وجود خطرے میں ہے ۔ یہ مکمل طور پر تباہ ہو جائیں گے، کیوں کہ جہاں بحریہ ٹاؤن فیز1 اور 2 پر کام چل رہا ہے ان علاقوں میں جو آثار قد یمہ ہیں وہ ختم کئے جائیں گے، اس لیے کہ ملک ریاض کو ہماری تاریخی ثقافت اور قدیم ورثے سے کیا تعلق؟ یہ ورثہ اور آثار تو ہماری مالکی کے ثبوت ہیں، جن کو ختم کرنا تو ان کا پہلا فرض ہوگا۔ معروف تاریخ دان ڈاکٹر مبارک علی نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ’’تاریخی مکانات اور جگہیں ہمارے تاریخی ورثے ہیں ۔ ایک ہے تحریری تاریخ ، دوسری ہے جگہوں اور مکانات کی جیتی جاگتی تاریخ ۔ جگہیں اور مکانات جو تاریخ بیان کرتے ہیں وہ زیادہ صداقت آمیز اورمؤثر ہوتی ہے اس لئے کہ جگہیں جھوٹ نہیں بوتیں۔‘‘

کراچی کے وہ علاقے مکانات جگہیں ، پہاڑ ،ندیاں، برساتی نالے، پرنالے، پگڈنڈیاں ، راستے اور گوٹھ جو اس علاقے کے تاریخی نشانات ہیں انہیں ختم کرنا ہماری تاریخ کو ختم کرنے کے مترادف ہے۔ اس پوری اراضی میں، جسے فیز1 اور فیز2 کی صورت میں بحریہ ٹاؤن کو الاٹ کیا گیا ہے، سینکڑوں بلڈوزر دن رات کام میں مشغول ہیں ۔ یہاں قدیم ’’پاہوار و پہاڑ‘ ہے جس کا زیادہ تر حصہ تو ڑ کر زمین بوس کر دیا گیا ہے۔ یہاں بھٹائی کا آستانہ تھا۔ گنجو ٹکری سے جہاں سیلانی جوگی ہنگلاج کے لئے پیدل جاتے ہیں ، ان میں سے زیادہ تر اسی راستے سے جاتے ہیں ۔ ’پاہوارو چوٹی‘‘ پر لطیف کے آستانے پر ایک رات قیام کر کے پھر آگے شاہ نورانی اور ہنگلاج ماتا کی طرف بڑھتے ہیں ۔ یہ آستانہ مسمار کیا گیا ہے ۔ اب یہاں’’گرینڈ جامعہ مسجد‘ بنائی جا رہی ہے۔ پاہوارو چوٹی بھی بہ ذات خود ایک تاریخ ہے ۔ سسئی بھنبھور سے کیچ ہوت پنہوں کی تلاش میں نکلی تھیں، تو ’’پاہوارو چوٹی‘‘ سے گزری تھیں ، جس کا ذکر بھٹائی صاحب نے یوں کیا ہے

جانا مجھ پر واجب ہوا صبح سویرے
پب کی طرف چھوڑ کے پاہوارو
دھوبن کا ڈاکہ ڈال، جت مجھ معصوم پر

ایک جانب بحریہ ٹاؤن کی طرف سے 45 گوٹھوں کو اٹھانے کا منصو بہ ہے جہاں پر ہر گوٹھ میں ایک مسجد ہے۔ 45 گوٹھوں کی مساجد کو مسمار کیا جاۓ گا اور دوسری جانب گرینڈ جامعہ مسجد کو بنایا جاۓ گا ۔ یہ کون سے اسلام کی خدمت ہے!؟

قدیم راستے جن کا ذکر پہلے کر آئے ہیں ۔ یہاں سے ایک راستے سے سسئی وندر کی طرف جاتی تھی ۔ تاریخی جگہ پاہوارو پہاڑ اور لطیف کے آستانے کو ختم کیا گیا ہے۔ یہاں تین چوکنڈی طرزقمیر کے نقشہ گری قبرستان بھی ہیں جو پتھر کے نقوش پر مبنی فن نقاشی کے پہلے دور سے تعلق رکھتے ہیں ۔ ان میں ایک جمعہ موریو گبول گوٹھ دیہہ لنگھیجی کے نزدیک ہے، جہاں پتھر کے ایک بڑے چبوترے پر پانچ نقاشی کی قدیم قبریں اور چبوترے سے باہر دس گھاڑی (تراشیدہ) نقاشی والی قبریں اور دیگر سادہ قبریں ہیں. چبوترے پر محراب بھی بنی ہوئی ہے جس پر "بنگلے کلمے” اور "بنکی علی/ علمی” کندہ ہے.

تھدھو برساتی نالے اور کُرکُٹی اور پر نالے کے اتصال کے مقام پر پیر محمد گبول گوٹھ نزد دیہہ لنگھیجی میں ایک وسیع علاقے پر چوکنڈی طرز تعمیر کے نقشہ گری اور سادہ پتھر کی قبریں موجود ہیں ۔ یہاں بھی چبوترے (رانک) میں پانچ قبریں اور باہر 12 سے زائد چوکنڈی طرز تعمیر کے نقشہ گری قبریں ہیں ۔ مقامی لوگ انہیں ’’رومیوں‘‘ بھی کہتے ہیں ۔ دونوں قبرستانوں کے ’’چبوتروں‘‘ کے لیے بڑے گھڑے ہوئے/تراشیدہ پتھر استعمال کئے گئے ہیں ۔ دیہہ بولہاڑی میں نوشیروان گوندر اور روزی گوندر گوٹھ نزد "منہہ بُٹھی” کے قریب سات گھاڑی قبریں ہیں جن میں ایک پر’’حاجی نوتق‘‘ لکھا ہوا ہے جو انگریزوں کے خلاف لڑے تھے اور مجاہد آزادی تھے ۔ ان چوکنڈی طرز تعمیر کے نقشہ گری قبرستانوں کے علاوہ تھدھو(ٹھنڈی) ندی سے لنگھیجی تا کاٹھوڑ تک جو پراناراستہ جا تا ہے ، حاجی نوتق والی گھاڑی بھی اسی راستے پر ہے ۔ آگے کاٹھوڑ تک اس سڑک پر دونوں اطراف کہیں ایک، کہیں ایک سے زائد چوکنڈی طرز تعمیر کی نقشہ گری قبریں موجود ہیں ۔ چوکنڈی طرز تعمیر کے نقشہ گری قبروں کے علاوہ یہاں’’میلہ قبرستان‘‘ کُرکُٹی برساتی نالے کے کنارے والا قبرستان ، ہادی بخش گبول گوٹھ سے آگے والا قبرستان قابل ذکر ہیں ۔ یہ پرانے اور قدیم پتھر کے تھل والے قبرستان ہیں.

دیہہ کاٹھوڑ میں لال بخش کاچھیلو گوٹھ کے نزدیک ایک بڑا تاریخی قبرستان ہے ۔ یہاں بھی بڑی تعداد میں چوکنڈی طرز تعمیر کے نقشہ گری قبریں ہیں ۔ یہ قبریں لاشاری اور برفت قبیلے کے لوگوں کی ہیں ۔ یہ بھی چوکنڈی طرز تعمیر کے نقشہ گری والی قبریں ہیں ۔ ان پہاڑوں میں جہاں بحریہ ٹاؤن کا کام چل رہا ہے ( فیز1 اور فیز2) پتھر پر نقاشی کی کچھ سائٹس ہیں جو آثارقدیمہ کے ماہرین کے مطابق بدھ مت کے آثار ہیں ۔ ان میں لَلَو پِڑ سے کاٹھوڑ جاتے ہوۓ علی محمد گبول گوٹھ کے نزدیک ایک سخت پتھر پر چپل کے دو قدیمی نشانات ہیں۔ پتھر پر کندہ تحریر کو Rock Carving Petroglyphs کہا جاتا ہے ۔ پتھروں پر یہ نقوش سندھ کے کوہستان میں موجود ہیں ۔ جب کہ پاکستان کے شمالی علاقوں میں یہ بڑی تعداد میں موجود ہیں ۔ سندھ میں پتھر پر نقاشی کے حوالے سے معروف ماہرین آثار قدیمہ کلیم لاشاری ، بدر ابڑو اور ذوالفقارکلہوڑو نے قابل قدر تحقیق کی ہے ۔ان پتھروں پر مختلف نشانات کے علاوہ مذہبی نشانات یا تحاریر کے علاوہ بخت پتھر پر انسانی ہاتھوں کے نشان ، چپل کے نشان اور جانوروں کے پنجوں کے نشانات بھی موجود ہیں ۔ یہ اس سرزمین پر قدیم انسانی موجودگی کے نشانات اور ہماری گم گشتہ تاریخ کے امین ہیں ۔ جہاں اس وقت بحریہ ٹاؤن زیر تعمیر ہے ۔ فیز2 میں تھدھو ندی کے کنارے بیدی گوندر گوٹھ کے نزدیک 20 چھوٹے اور بڑے پتھروں پر اس قسم کی نقاشی کے 200 سے زائد حروف و اشکال کندہ ہیں ۔ یہاں مختلف اقسام کی جیومیٹریکل علامات کے علاوہ بدھ مت کے اسٹوپا، گول دائرے، دھرم چکر ، کنول پھول ، سواستیکا ، نقطوں پر تحاریر ، سندھو تہذیب کی تحریر جیسی علامتیں ، چوکور خانے ، بے ترتیب مثلث موجود ہیں ۔ ان نقوش کے مشرقی سمت ایک کلومیٹر کی مسافت پر واقع میلہ ندی کے نزدیک پرانا مقام (میلہ قبرستان) ہے، جہاں سخت پتھر پر تین کپ مارکس ، پیالے کی مانند کندہ ’’گڑ ھے‘‘ بنے ہوئے ہیں، جنہیں یہاں کے لوگ ’نگوں‘‘ کہتے ہیں ۔

ذوالفقارکلہوڑو کی تحقیق کے مطابق پاکستان میں ملنے والے کپ مارکس میں یہ سب سے گہرے ہیں، جو سندھ کے لیے ایک اعزاز ہے ۔ اس سے ملحقہ ایک پہاڑی چوٹی پر زرتشی دور کے آتش کدے کے آثار اور لمبے پتھروں کا ایک طویل سرکل (دائرہ) بھی موجود ہے ۔

تھدھو ندی کے مغربی کنارے پر بھی ایسے ان گنت نشانات سخت پتھر پر موجود ہیں ۔ پتھروں پر انسانی مجسمے ہنے ہوئے ہیں، جو دو سے چار فٹ تک ہیں ۔ یہاں بھی 12 کے قریب ”نگوں“ (کپ مارکس) ہیں۔ کاٹھوڑ کی طرف جاتے ہوۓ لنگھیجی برساتی نالے کے اس پار گوٹھ ہادی بخش گبول کے مشرق جنوب کی سمت ایک بُٹھی یا ٹیلے پر بڑے پتھروں سے ’’کوٹیرڑو‘ بنا ہوا ہے ۔ یہ ‘کوٹیرڑو’ قدیم دور کی نشانیاں ہیں ۔ کوٹڑو یا کوٹیرڑو بڑے بڑے پتھروں سے بناۓ ہوئے چھوٹے قلعوں کا کہا جا تا ہے ۔ مذکورہ بالا تمام آثار قدیمہ بحریہ ٹاؤن کے فیز1 اور 2 میں آ جاتے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close