![Urdu-Stories-and-fictions](https://sangatmag.com/wp-content/uploads/2025/02/Urdu-Stories-and-fictions-780x470.jpg)
میں کہانی ہوں۔ میں نے کتنی ہی زندگیاں تراشی ہیں، کتنے ہی خواب بُنے ہیں، کتنی ہی تقدیریں سنواری ہیں۔ میری سطروں میں محبت کے چراغ جلے، غموں کے سائے دراز ہوئے، اور بغاوت کی صدائیں گونجیں۔ میں نے ظالموں کو گرایا، مظلوموں کو اٹھایا، وقت کو پلٹا، زمین کو آسمان سے جوڑا۔۔ مگر کیا آپ کو معلوم ہے؟ میں جس قلم سے لکھی جاتی ہوں، وہ ہاتھ اکثر بے بسی سے لرزتا ہے، اور جو انگلیاں میرا بدن تراشتی ہیں، وہ اکثر خالی ہاتھ رہتی ہیں۔
جی ہاں، میں ایک کہانی ہوں۔۔ ایک عام کہانی نہیں، بلکہ اس شخص کی کہانی جو کہانیاں لکھتا ہے۔ وہ جو دوسروں کے لیے زندگی کے دروازے کھولتا ہے، مگر خود بند کمروں میں قید رہتا ہے۔ میں اس کی تحریر کا سایہ ہوں، اس کے قلم کی لرزش سے جنم لینے والی وہ تخلیق، جو یہ بتانے سے قاصر ہے کہ میں اس کے خوابوں کا بکھراؤ ہوں یا ترتیب۔۔ ہاں، میں یہ بات مگر بغیر کسی تردد کے کہہ سکتی ہوں کہ میں اس کی خامشی میں گونجتی آہ ہوں، اس کی آنکھوں میں ٹھہری وہ نمی ہوں، جسے وہ الفاظ میں ڈھالنے کی کوشش کرتا ہے، مگر وہ ہمیشہ کسی نہ کسی جملے کے پیچھے چھپ جاتی ہے۔
وہ میری تخلیق کرتا ہے، میرے کردار بُنتا ہے، لیکن خود اسے اپنی تقدیر پر کوئی اختیار حاصل نہیں۔ وہ اپنی کہانیوں میں چاہے تو کسی بھکاری کو بادشاہ بنا دے، کسی نادار کو دولت سے نواز دے، کسی بے بس و بے کَس کو آزادی کی چادر اوڑھا دے، مگر خود؟ خود وہ ہمیشہ ان اندھی گلیوں میں بھٹکتا رہتا ہے، جہاں روشنی کی کوئی کرن نہیں۔
میں نے اسے اکثر کہتے سنا ہے:
”میں اپنے کرداروں کو جس راہ پر چاہوں لے جا سکتا ہوں، مگر میں خود زندگی کے ہاتھوں ایک مہرہ ہوں۔ میں اپنے کرداروں کو امر کر سکتا ہوں، مگر میں خود فانی ہوں۔ میں بغاوت لکھ سکتا ہوں، مگر حقیقت میں بغاوت نہیں کر سکتا۔ میں محبت تخلیق کر سکتا ہوں، مگر اپنی زندگی میں اسے اپنے لیے بچا نہیں سکتا۔ میں خواب دکھا سکتا ہوں، مگر خود خواب دیکھنے کی سکت نہیں رکھتا۔ میں تقدیریں بدل سکتا ہوں، مگر اپنی تقدیر پر اختیار نہیں رکھتا!“
وہ جو الفاظ کے تیز دھار خنجر تراش کر ظالموں کے سینے میں پیوست کرتا ہے، وہ خود حالات کی تلوار سے زخمی ہے۔ میں نے اسے اکثر راتوں کو جلتے ہوئے پیلے بلب کی مدھم روشنی میں دیکھا ہے۔ کاغذ پر جھکی وہ آنکھیں، جن میں نیند کی بجائے شکستگی کا سایہ ہوتا ہے۔ ہاتھ میں قلم ہوتا ہے، مگر انگلیوں میں سکت نہیں۔ مجھے اور میرے کردار تخلیق کرنے والا یہ شخص، خود ایک بے بس کردار ہے، جو اپنی ہی دنیا میں بے اختیار ہے۔
وہ مجھے تراشتا ہے، کرداروں کو سانسیں دیتا ہے، ان کی محبتیں ترتیب دیتا ہے، ان کے نصیب بدل دیتا ہے۔۔ مگر اس کے اپنے ہاتھ خالی ہیں، اس کی جیب میں محض چند مڑے تڑے نوٹ اور ایک سستے قلم کی روشنائی کے دھبے ہیں۔
وہ جب قلم اٹھاتا ہے، الفاظ اس کے سامنے قطار باندھ کر کھڑے ہو جاتے ہیں، اس کی انگلیوں کی جنبش پر کہانیوں کی دنیا آباد ہوتی ہے، مگر جب وہ اپنی دنیا کی طرف دیکھتا ہے تو وہاں خالی کاغذوں کی طرح بے رنگ دن اور بے خواب راتیں بکھری ہوتی ہیں۔ اس کے کردار خوش ہوتے ہیں، محبت کرتے ہیں، روتے ہیں، ہنستے ہیں، مگر وہ؟ وہ صرف لکھتا ہے۔
وہ اپنے کرداروں کے چہرے تراشتا ہے، ان کے چہروں پر تاثرات کے رنگ بھرتا ہے، ایک اک رنگ میں گم ہو جاتا ہے لیکن اسے کبھی آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر اپنے چہرے کو دیکھنے کا خیال نہیں آتا۔ وہ اپنے بکھرے خیالات میرے دامن میں سمیٹتا ہے لیکن اسے اپنے بکھرے بالوں کو سنوارنے کا خیال بہت کم آتا ہے۔
کبھی کبھی وہ خود سے سوال کرتا ہے، ”کیا میں اپنے کرداروں سے بھی کمزور ہوں؟“ وہ جو اپنی تحریر میں محبت کی دنیا بسا دیتا ہے، خود محبت سے محروم کیوں ہے؟ وہ اپنی کہانیوں میں وصل کے لمحے تخلیق کرتا ہے، مگر اس کے اپنے شب و روز ہجر سے بھرے ہیں۔ وہ جو الفاظ سے انقلاب برپا کر سکتا ہے، اپنی زندگی میں کیوں کوئی تبدیلی نہیں لا سکتا؟
میں اس کی تکلیف کی ساتھی ہوں، میں جانتی ہوں کہ وہ راتوں کو جاگ کر سوچتا ہے کہ کیا اس کی کہانیاں کبھی امر ہوں گی؟ کیا اس کی تحریریں کبھی اس کی محرومیوں کا ازالہ کریں گی؟ یا وہ بھی ان گمشدہ لکھاریوں میں شامل ہو جائے گا جن کے افسانے تو زندہ رہتے ہیں، مگر وہ خود وقت کے ملبے میں دب کر مٹ جاتے ہیں؟
اس کی میز پر کچھ پرانے صفحات پڑے ہیں، کچھ رد شدہ مسودے، کچھ ناشروں کی طرف سے بھیجے گئے ”ہم معذرت خواہ ہیں۔“ کے پیغامات۔۔ وہ انہیں پڑھتا ہے، مسکراتا ہے، پھر ایک نیا صفحہ نکال کر لکھنے لگتا ہے۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ جب تک اس کا قلم چلتا رہے گا، وہ زندہ ہے۔
میں، کہانی، اس کے ساتھ زندہ ہوں۔ مگر یہ نہیں جانتی کہ میں کب ختم ہو جاؤں گی۔ کیا وہ مجھے کسی شاندار انجام تک پہنچائے گا، یا میں بھی ادھوری رہ جاؤں گی؟ مگر ایک بات طے ہے۔ میں اس کی تحریر کا حصہ ہوں، اور جب تک وہ لکھتا رہے گا، میں سانس لیتی رہوں گی۔
وہ رات کو لکھتا ہے، دن میں خواب دیکھتا ہے، اور حقیقت کی دنیا میں صرف زندہ رہنے کی مشقت کرتا ہے۔ اس کی جیب میں چاہے کچھ نہ ہو، مگر اس کے ذہن میں خیالات کا ایک سمندر ہے جو کبھی پرسکون نہیں ہوتا۔ وہ ان کہانیوں کو ترتیب دیتا ہے جو شاید کبھی کسی کتاب کی شکل میں نہ ڈھل پائیں، ان کرداروں کو سنوارتا ہے جو شاید کبھی کسی قاری کے ذہن میں زندہ نہ ہوں، اور ان جملوں کو کاغذ پر اتارتا ہے جنہیں شاید کوئی پڑھ کر سرسری انداز میں پلٹ دے۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ میرا جنم کس سے ہوتا ہے؟ دکھ سے، پیاس سے، تنگدستی سے، ناقدری سے۔۔۔! ہاں، میں نے اسے اکثر اپنی جیبیں ٹٹولتے دیکھا ہے۔ کاغذ خریدنے کے پیسے نہ ہوں تو وہ پرانی رسیدوں، سگریٹ کی خالی ڈبیہ، اخباری ٹکڑوں پر لکھتا ہے۔ چائے کے آخری گھونٹ کے ساتھ جب قلم چلتا ہے، تو کہانی میں ایک عجیب سی تڑپ آ جاتی ہے، مگر وہ چائے اکثر ادھار کی ہوتی ہے۔۔
دکان کا بوڑھا مالک جانتا ہے کہ یہ شخص کبھی نہ کبھی اس کا ادھار چکائے گا، لیکن وقت کا سود اس پر بھاری ہے۔ میں نے اسے اکثر سوچوں میں ڈوبا دیکھا ہے، جب دکاندار کی نظریں حساب مانگتی ہیں، اور اس کی نظریں زمین پر گڑ جاتی ہیں۔
اس کے کمرے میں ایک پرانا پنکھا گھومتا ہے، فرش پر کتابوں کے چند بوسیدہ صفحات بکھرے ہوئے ہیں۔ ایک گوشے میں قلموں کا ایک ڈھیر ہے، جن میں سے کچھ کی روشنائی ختم ہو چکی ہے، کچھ ٹوٹے ہوئے ہیں، اور کچھ ایسے ہیں جن کے ساتھ وہ کسی خاص دن، کسی خاص خیال کو قید کرنے میں کامیاب ہوا تھا۔ وہ ان قلموں کو یوں دیکھتا ہے جیسے یہ اس کی رفاقت کے پرانے ساتھی ہوں، جیسے ان میں اس کی زندگی کے لمحے قید ہوں۔
اس کا لکھنا کبھی اسے تسکین دیتا ہے، کبھی اذیت۔ وہ کاغذ پر الفاظ بکھیر کر ایک لمحے کے لیے اپنی تکلیف بھول جاتا ہے، مگر جیسے ہی قلم رکھتا ہے، حقیقت کی تیز دھوپ اسے پھر جھلسانے لگتی ہے۔ اس کے ہم عصر وہ لوگ ہیں جو زندگی میں آگے بڑھ چکے ہیں، جنہوں نے اپنی تحریروں کے بدلے میں کامیابی خرید لی ہے، مگر وہ؟ وہ اب بھی کسی ناشر کے دروازے پر ایک مسترد شدہ مسودے کی صورت میں پڑا ہے۔
کبھی کبھار وہ سوچتا ہے، ”اگر میں کہانیاں نہ لکھتا تو شاید میں بھی ایک عام آدمی ہوتا۔ میں بھی ان لوگوں میں شامل ہوتا جو اپنی صبحوں اور شاموں کو کسی مشین کی طرح گزارتے ہیں، جن کے ہاتھ میں تنخواہ کے چند نوٹ ہوتے ہیں، جنہیں کسی کتاب میں امر ہونے کی خواہش نہیں ہوتی۔“ مگر اگلے ہی لمحے اسے احساس ہوتا ہے کہ وہ ایسا نہیں کر سکتا۔ وہ اپنی کہانیوں کے بغیر، اپنی تحریر کے بغیر کچھ بھی نہیں ہے۔
میں دیکھتی ہوں کہ وہ دن بہ دن اپنی کہانیوں میں کھو رہا ہے۔ اس کی زندگی ایک ایسے دائرے میں گھوم رہی ہے جہاں روشنی کم اور سائے زیادہ ہیں۔ کبھی کبھی وہ سوچتا ہے کہ اگر اس کے لکھے ہوئے الفاظ زندہ ہو سکتے، تو شاید وہ خود بھی زندہ ہو جاتا۔ اگر اس کے کردار ایک دن اس کے لیے کھڑے ہو سکتے، تو شاید وہ بھی دنیا کے سامنے اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہو جاتا۔
مگر میں جانتی ہوں، اور وہ بھی، کہ زندگی کے پاس اس کے لیے کوئی خاص رعایت نہیں ہے۔ وہ لکھتا رہے گا، شاید اپنے ہی سائے میں دھندلا ہو جائے گا، مگر اس کے الفاظ۔۔۔ شاید وہ ہمیشہ کے لیے زندہ رہ جائیں۔ اور میں؟ میں اس کے قلم کی آخری جنبش تک اس کے ساتھ ہوں، اس کے ساتھ زندہ ہوں، اس کے ساتھ ہی مروں گی۔
کبھی کبھار، جب رات گہری ہو جاتی ہے، میں اپنے لکھاری کو دیکھتی ہوں۔ وہ میز پر جھکا ہوتا ہے، ہاتھ میں قلم تھامے۔ ایک ادھورا جملہ، ایک ادھورا خواب۔۔ میں چاہتی ہوں کہ اسے بتاؤں کہ وہ ہار نہ مانے، کہ شاید کوئی دن آئے جب لوگ اسے پہچانیں، جب اس کے لفظ امر ہوں۔۔ مگر میں تو کہانی ہوں، میں بس لکھی جا سکتی ہوں، بول نہیں سکتی۔
وہ مجھے لکھتا رہتا ہے۔۔۔ اور زندگی اسے لکھتی رہتی ہے۔