
شدید گرمی کی اس دوپہر تو میرے صبر کی حد ٹوٹ گئی۔۔۔ اسکول سے لوٹتے ہوئے کافی دنوں کے بعد میں نے اچانک اسے دیکھا تھا۔
کیا یہ محض ایک اتفاق تھا کہ میں نے اسے اسی جگہ بیٹھا دیکھا، جہاں میں نے اسے پہلی بار دیکھا تھا؟ پالش کے دھبوں سے اٹے اپنے چوبی بکس کے پیچھے وہ اکڑوں بیٹھا سڑک پر کسی جوتے کے شکار کی فراق میں تھا۔ میں بے ہوش ہوتے ہوتے بچا۔ مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ میں اسی جھوٹے کیک فروش کو دیکھ رہا ہوں۔ اپنی تذلیل کا احساس مجھے عود کر آیا تھا۔ جب تک میں فیصلہ کر پاتا کہ میں کیا کروں، میرا ہاتھ اس کے گریبان تک پہنچ کر اسے درشتی سے کھینچ رہا تھا۔
”جھوٹے مکار!“
”سر!“ اس نے معمول کی طرح انگلی اٹھاتے ہوئے کہا، ”ہاں سر، میں جھوٹا ہوں، لیکن میری بات تو سن لیجیے۔“
اس کی آنکھیں سکڑ گئیں اور مجھے لگا جیسے بس آنسو ٹپکنے والے ہیں۔
”بس ایک بار سن لیجیے سر۔“ اس کی آواز میں لرزش تھی۔
”جھوٹے!“ میں نے تیز لہجے میں کہا، ”اپنی ماں کے ساتھ رہتے ہو، ایسا ہی مجھ سے کہا تھا نہ تم نے؟“
”سر، میں اپنی ماں کے ساتھ نہیں رہتا کیونکہ وہ مر چکی ہیں۔۔ لیکن میں یہ بات سب کو نہیں بتا سکتا۔ ماں کا جب انتقال ہوا تھا، میرے والد نے ہمیں اس بارے میں زبان بند رکھنے کو کہا تھا۔“
میری گرفت ڈھیلی پڑ گئی اور میں نے فوراً سوال کیا، ”کیوں؟“
”ان کے پاس تدفین کے لیے بھی پیسے نہیں تھے اور وہ حکومت سے خائف تھے۔“
میرا ہاتھ میرے پہلو میں لٹک گیا۔ آج مجھے اس کی آنکھوں میں جھلکتے اس معصوم اندیشے کا راز معلوم ہوا جو اب تک وہاں چھپا تھا۔
”تم نے مجھ سے یہ کیوں کہا تھا کہ تم کیک بیچتے ہو؟ کیا تمہیں اپنے اس کام سے شرم آتی ہے؟“
حمید کی نظریں نیچے جھک گئیں۔ پھر اس نے اپنی گہری، شفاف آنکھوں سے میری طرف دیکھتے ہوئے کچھ شرمسار لہجے میں کہا، ”نہیں، ایسی بات نہیں ہے۔ میں واقعی میں کیک بیچا کرتا تھا، بس کل ہی میں پھر سے اس کام میں لگا ہوں۔“
”لیکن کیک بیچ کر تم زیادہ نہیں کما لیتے تھے؟“
”ہاں، لیکن۔۔۔“ نظریں اٹھائے بغیر اس نے پھسپھساتے ہوئے کہا، ”رات کے آخری پہر مجھے بھوک لگ جاتی تھی، اور میں دو تین کیک خود ہی کھا جاتا تھا۔“
میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ میں کیا کہوں اور کیا کروں۔ پہلے تو یہ خیال گزرا کہ وہاں سے بھاگ کھڑا ہوں، لیکن میرے اندر اس کی سکت نہیں بچی تھی۔
اس کا سر، جس پر کالے کھردرے بال چمک رہے تھے، جھک رہا تھا۔ بے خیالی میں میں نے اپنا پاؤں اٹھایا اور اسے چوبی بکس کے کوہان پر رکھ دیا۔
دو چھوٹی ہتھیلیاں مہارت سے جوتے پر حرکت کرنے لگیں، ساتھ میں اس کا چھوٹا سر بھی ایک لے میں ہلتا جا رہا تھا۔ پھر وہ بڑی سادگی سے بولا، ”سر! آپ نے سال بھر سے اپنا جوتا نہیں بدلا۔ یہ وہی سستا والا جوتا ہے!“