الیکشن کمیشن اساتذہ سے معذرت کرے

آصف محمود

انتخابات کے بعد ہر سیاسی جماعت کا مقدمہ لڑنے والے موجود ہیں، کوئی ہے جو اساتذہ کا مقدمہ بھی پیش کر سکے، جنہیں الیکشن ڈیوٹی کے نام پر توہین، تضحیک اور تذلیل کے ایک دانستہ عمل سے گزارا جاتا ہے اور اس کے بعد الیکشن کمیشن رسمی سی معذرت تو کیا شکریے کے دو لفظ بھی ادا نہیں کر پاتا۔ کیا یہ اساتذہ انسان سے کم تر درجے کی کوئی مخلوق ہیں جن کی توہین، تحقیر اور تذلیل الیکشن کمیشن اور ضلعی انتظامیہ کے لیے جائز قرار دے دی گئی ہے؟

میڈیا اور سوشل میڈیا، لمحے لمحے کی خبر دیتے ہیں، بال کو پکڑتے ہیں اور اس کی کھال اتار دیتے ہیں، لیکن اس ساری مشق میں یہ بات ایک لمحے کے لیے زیرِ بحث نہیں آ سکی کہ الیکشن ڈیوٹی کے نام پر اساتذہ کو کس تذلیل سے گزرنا پڑا اور یہ سب کس کی نا اہلی اور غفلت سے ہوا۔

ہماری بیوروکریسی اور ہمارے اہلِ سیاست کے ہاں یہ بات اب شاید ایک غیر تحریری اصول کا درجہ پا چکی ہے کہ اساتذہ اس معاشرے کے اجتماعی کمی کمین ہیں، ڈینگی سے مردم شماری تک اور مردم شماری سے الیکشن تک انہیں ہر جگہ جھونکا جا سکتا ہے اور انہیں کسی مناسب سہولت کی ضرورت ہے نہ انسانی درجے میں احترام دینے کی۔۔ اہل اقتدار اور ان کی افسر شاہی کے خیال میں یہ بس روبوٹ سے ذرا اوپر اور انسانوں سے کافی نیچے کی ایک مخلوق ہے، جسے ہر بے ہودہ حکم پوری شانِ بے نیازی سے سنایا جا سکتا ہے۔

اس ساری مشق کا حاصل چند سوالات ہیں۔ الیکشن کمیشن کے پاس کوئی جواب ہے تو ہم منتظر ہیں۔۔

پہلا سوال یہ ہے کہ الیکشن ڈیوٹی میں اساتذہ ہی کا انتخاب کیوں؟ دیگر بہت سارے محکمے موجود ہیں۔ نگاہِ کرم ادھر کیوں نہیں جاتی؟ بے شک الیکشن ایک قومی ذمہ داری ہے لیکن کیا یہ صرف اساتذہ کی ذمہ داری ہے؟ کیا الیکشن کمیش بتا سکتا ہے کہ ملک میں کتنے محکمے کام کر رہے ہیں اور الیکشن ڈیوٹی میں ان کا تناسب کیا تھا؟

دوسرا سوال یہ ہے کہ الیکشن ڈیوٹی اندھا دھند کیوں لگائی جاتی ہے؟ عمر اور صحت سمیت جو سنجیدہ مسائل ہیں انہیں ملحوظِ خاطر کیوں نہیں رکھا جاتا؟ کوئی سلیقہ، تمیز اور ترتیب تو ہو۔ یہ کیسی افسر گردی ہے کہ اساتذہ کی فہرستیں منگواؤ اور مجنون انداز میں ڈیوٹیاں لگاتے چلے جاؤ؟ حالیہ انتخابات میں نہ عمر دیکھی گئی نہ صحت۔۔ جو ریٹائرمنٹ کے قریب تھے، انہیں بھی الیکشن میں جھونک دیا گیا۔ شوگر اور دل کے مریضوں کی بھی ڈیوٹی لگا دی گئی۔ کیا عمر کے اس حصے میں، سنگین بیماریوں کے ساتھ اتنی سخت ڈیوٹی کا مطالبہ کرنا بذاتِ خود ایک مریضانہ رویہ نہیں؟ کوئی مریض ہو یا پچاس کی دہائی کے آخری نصف میں ہو، تو کیا ایسا آدمی اتنی سخت ڈیوٹی کرنے کے قابل ہوتا ہے؟ کیا الیکشن کمیشن بتا سکتا ہے کہ اس نے کوئی ایسا باقاعدہ بندوبست کیوں نہیں بنایا کہ عمر رسیدہ اور بیمار افراد کی ڈیوٹی نہ لگائی جائے اور اگر لگ جائے تو وہ باوقار انداز سے اطلاع دے کر اس ڈیوٹی سے استثنا حاصل کر سکیں؟

تیسرا سوال یہ ہے کہ خواتین اساتذہ کی الیکشن ڈیوٹی لگانے میں کوئی ایس او پی کیوں نہیں وضع کیا گیا؟ نانیوں اور دادیوں کی عمر کی اساتذہ کو، جن کی ریٹائرمنٹ کو چند مہینے رہ گئے ہوں، الیکشن ڈیوٹی میں جھونک دینا کیا انسانی اور اخلاقی رویہ ہے؟ خواتین کی ڈیوٹیاں ان کے شہروں سے دور کیوں لگائی گئیں؟ اگر الیکشن کمیشن میں اہلیت کا فقدان ہے یا بیوروکریسی کوئی کام ڈھنگ سے کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو چکی ہے تو اس کی سزا اساتذہ کو کیوں دی جائے؟

چوتھا سوال بھی الیکشن کمیشن اور بیوروکریسی کی انتظامی اہلیت سے متعلق ہے۔ خواتین اساتذہ کی ڈیوٹیاں شہر سے دور لگا دی گئیں۔ پھر ان پریزائڈنگ افسران سے کہا گیا کہ ایک دن پہلے آ کر سامان لے جائیں اور رات پولنگ اسٹیشن پر گزاریں۔ سامان لینے کے لیے یہ اساتذہ دن گیارہ بجے پہنچے تو کچھ کو شام ہو گئی اور کچھ کو اس سے بھی تاخیر۔۔ اس بد انتظامی کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا سامان کی ترسیل کا کوئی شریفانہ طریقہ نہیں ہو سکتا اور کیا اساتذہ کو گھنٹوں لائنوں میں کھڑے کرنا ایک موزوں طرزِ عمل ہے؟

جنہوں نے صبح سارا دن الیکشن ڈیوٹی دینی ہے، ان پریزائڈنگ افسران کے لیے پولنگ اسٹیشنوں پر رہائش کے کیا انتظامات تھے؟ کاش کوئی پٹواری وہ واٹس ایپ میسج الیکشن کمیشن کو بھیج دے جو انہیں بھیجے گئے کہ یہ یہ کام آپ نے کرنے ہیں ورنہ کارروائی کے لیے تیار رہیں۔ کیا حسنِ انتظام کا معیار یہ ہوتا ہے کہ اسٹاف کو تذلیل اور توہین کے عمل سے گزارو اور خود پریس ٹاک کر کے سرخرو ہوتے رہو؟

پانچواں سوال نتائج کی ترسیل سے تھا۔ پچھلے دن اور پھر الیکشن والے دن کے تھکے ہارے پریزائڈنگ افسران جب نتائج آر اوز کو دینے پہنچے تو آگے سے لمبی لائنیں لگی تھیں۔ بد انتظامی کا یہ عالم رہا کہ خواتین پریزائڈنگ افسران ساری رات وہیں کھڑی رہیں کہ عالی جاہ آر او صاحب تشریف لاویں، نتائج وصول فرماویں اور وہ گھر جا سکیں۔ بڑی تعداد میں خواتین اساتذہ جب رزلٹ جمع کرا کر گھر پہنچیں تو صبح ہو چکی تھی یا ہونے والی تھی۔ اس سردی کے عالم میں خواتین اساتذہ نے ووٹوں کے بورے خود اٹھائے ہوئے تھے، ساتھ اسٹاف تک نہیں تھا۔ انہوں نے اکثر مقامات پر رات شامیانوں تلے اور کھلے آسمان کے نیچے گزاری۔ واش روم تک کا کوئی مناسب بندوبست نہیں تھا۔ سوال وہی ہے کہ الیکشن کمیشن اور افسر شاہی کے خیال میں کیا اساتذہ انسان سے کم تر درجے کی کوئی مخلوق ہیں؟

چھٹا سوال موبائل سروس کی بندش سے متعلق ہے۔ خواتین پولنگ اسٹاف میں سے جن کی ڈیوٹی شہروں سے باہر لگی، موبائل سروس کی بندش کی وجہ سے پولنگ ختم ہونے کے بعدان کا اپنے بھائی، باپ اور شوہر سے رابطہ ممکن نہ رہا۔ الیکشن کمیشن کے افسران نے تو شانِ بے نیازی سے فرما دیا کہ فون کی بندش سے ان کے کام پر کوئی اثر نہیں پڑا، لیکن کیا بابو لوگوں کو کوئی احساس اور اندازہ تھا کہ پولنگ کے خواتین اسٹاف کے لیے اس سے کیسے کیسے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ کیا اتنا بھی نہیں ہو سکتا تھا کہ پولنگ اسٹیشن پر عارضی انٹرنیٹ کی سہولت فراہم کر دی جاتی تا کہ اسٹاف کا گھر والوں سے رابطہ ہو پاتا۔

یہ وہ چند مسائل ہیں، جن کا اظہار اساتذہ سوشل میڈیا پر کر رہے ہیں لیکن ان کی کوئی سن نہیں رہا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ رات بھر آر اوز کے دفاتر کے باہر لائنوں میں لگی خواتین پریزائڈنگ افسران کے مسائل پر کسی چینل نے ایک ٹکر تک نہیں چلایا حالانکہ میڈیا ہر مرکز پر موجود تھا۔ سب کے نزدیک خبر صرف ایک تھی کہ کس نے کتنے ووٹ لیے۔ اس سارے عمل میں پولنگ اسٹاف کس اذیت، تذلیل، توہین اور غیر انسانی سلوک کا شکار ہوا، یہ سرے سے کوئی خبر ہی نہیں تھی۔

کیا الیکشن کمیشن کے پاس کوئی جواب ہے؟ اگر جواب نہیں ہے تو پھر چیف الیکشن کمشنر کو اساتذہ سے معذرت کرنی چاہیے اور شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ ان کی غفلت کا بوجھ اساتذہ کو اٹھا پڑا۔

بشکریہ روزنامہ 92 نیوز

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close