مشاہدہ (برطانوی ادب سے منتخب افسانہ)

گراهم گرین (ترجمہ: صغیر ملال)

لندن کے اُس ریستوان میں، جہاں میں اکثر جایا کرتا تھا، آج آٹھ جاپانی ایک میز کے گرد بیٹھے انگریزی کھانے میں مشغول تھے۔ وہ آپس میں جاپانی زبان میں گفتگو کر رہے تھے، جس کا ایک لفظ بھی سمجھنا میرے لیے ناممکن تھا، لیکن ان کے لبوں پر رقصاں دائمی مسکراہٹ اور ہر بات سے پہلے ادب سے جھک جانا اور دوسرے کا جواب سننے کے دوران مستقل تائید میں سر ہلاتے رہنا، مجھے بہت بھلا لگ رہا تھا۔ اُن آٹھ شائستہ اور مہذب جاپانی شہریوں میں سے سات نے عینکیں پہنی ہوئی تھیں۔

ریستواں کی کھڑکی کے ساتھ بیٹھی خوبصورت لڑکی وقفے وقعے سے ان جاپانیوں پر اچٹتی ہوئی نگاہ ڈالتی، مگر اس لڑکی کو کوئی ایسا مسئلہ در پیش تھا، جس کے سبب وہ اپنی ذات اور سامنے بیٹھے اپنے ساتھی کے علاوہ دنیا کی کسی چیز پر توجہ نہیں دے پارہی تھی۔

لڑکی کے بال بھورے اور چہرے کے نقوش دل کش لطافت کے حامل تھے۔ اس کی شخصیت کا مجموعی تاثر نرم اور دھیما تھا، لہجے میں تندی اور جارحیت کی جھلک تھی جو کبھی کبھی مہم زیریں رو سے بڑھ جاتی۔ ایسےموقعوں پر لڑکی کی باتوں میں تلخی کا عنصر نمایاں ہو جاتا تھا۔ اس کے دائیں ہاتھ کی منگنی کی انگلی پر ایک جدید طرز کی انگوٹھی چمک رہی تھی۔
گفتگو کے دوران لڑکی اس انگلی کو زیادہ حرکت دیتی تھی۔

”۔۔۔تو تم سمجھ گئے۔ ہم اگلے ہفتے شادی کر سکتے ہیں۔“ لڑکی نے کہا۔

”ہاں۔“ لڑکے نے اثبات میں گردن ہلائی۔

لڑکے کی آنکھوں میں وہ خلا تھا جو عام طور پر غائب الدماغی یا غبی لوگوں کی آنکھوں میں نظر آتا ہے۔ وہ کچھ دیر تک یوں ہی بے دھیانی سے سر ہلاتا رہا اور پھر جذبات سے عاری آواز میں بولا، ” لہم شادی تو کر لیں گے مگر امی“

میں لڑکے کا جملہ پورا نہیں سن سکا کیوں کہ اس لمحے جاپانیوں کے گروہ کا سب سے عمر رسیدہ شخص کھڑا ہو کر اپنی مادری زبان میں کوئی پُرمزاح مکالمہ ادا کرنے لگا اور اچانک دوسرے جاپانیوں کی فطری مسکراہٹ دبے دبے قہقہوں میں تبدیل ہونے لگی۔ وہ اپنی بے ساختہ ہنسی کے دوران بھی فرطِ ادب سے دہرے ہو کر ایک دوسرے کے سامنے سر خم کر رہے تھے اور میں مجلسی آداب کے اس دل چسپ نظارے میں محو ہو گیا تھا۔

لڑکی کے منگیتر کی شکل لڑکی سے ملتی تھی۔ اُن کے چہروں کے نقوش یوں مشابہ تھے کہ دیکھنے والے کو محسوس ہوتا تھا جیسے ایک ہی مصور کی بنائی ہوئی ’نر اور مادہ‘ کی تصویر میں آمنے سامنے رکھی ہوں۔ لڑکا گزشتہ صدی میں پیدا ہوتا تو انگلینڈ کی نیوی میں شمولیت اختیار کر سکتا تھا۔ اُس زمانے میں نازک نقوش اور حساس طبیعت ، فوج میں عہدہ بہ عہدہ ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتے تھے۔

”وہ مجھے پانچ سو پاؤنڈ تو ایڈوانس دے رہے ہیں،“ لڑکی نے کہا، ”اور غیر مجلد ایڈیشن کے حقوق وہ پہلے ہی فروخت کر چکے ہیں۔ سمجھے؟“

گھر یلو نظر آنے والی لڑکی کے اس خالص کاروباری انداز گفتگو نے مجھے حیرت زدہ کر دیا۔ حیرت کا ایک اور سبب بھی تھا، لڑکی میرے ہی پیشے سے وابستہ تھی۔ وہ بھی کتابیں لکھتی تھی۔ اس کی عمر بہ مشکل بیسں سال تھی۔ بیس برس کی خوبصورت لڑکی اور ادیب بننے کی خواہش سے تو زندگی سے کوئی اچھی اور آسان چیز طلب کرنا چاہیے تھی۔

”لیکن میرے چچا۔۔۔“ لڑکا بولا

”تمہارے تعلقات ان سے ویسے بھی کوئی خاص خوشگوار نہیں ہیں اور اس طریقے سے ہم بہت جلد خود کفیل ہو جائیں گے۔“

”تم“ ، لڑکے نے ہونٹ بھینچ کر کہا، ”تم خود کفیل ہو جاؤ گی۔ میں نہیں“

”میں نے پبلشر سے تمہارے بارے میں بھی بات کی تھی۔ اس نے کہا کہ اگر وہ واقعی اس طبیعت کا ہے تو میرے خیال میں تم پہلے اچھی کتابیں پڑھنی شروع کر دو مشہور ناول افسانے“

”لیکن مجھے تو کتابوں سے کبھی دور کا واسطہ بھی نہیں رہا۔“

”ابتدائی رہ نمائی کے لیے میں موجود ہوں۔“

”امی کہتی ہیں کہ عملی زندگی میں ادب کمزور بیساکھی ثابت ہوتا ہے۔“

”پانچ سو پاؤنڈ پیشگی اور غیر مجلد کے حقوق خاصی کمزور بیساکھی ہے!؟“ لڑکی کے لہجے میں طنز تھا۔

لڑکا خاموش ہو گیا۔ اس کی پیشانی پر گہری سوچ کی شکنیں اُبھر آئی تھیں۔

اُس کے بارے میں میرا خیال غلط ثابت ہورہا تھا۔ وہ گزشتہ صدی کی نیوی میں بھی ترقی کا زینہ طے نہیں کر سکتا تھا۔ لڑکی نے چند لمحوں تک گفتگو میں اُسے اُس کی زندگی کے بنے بنائے اور طے شدہ راستے سے ہٹا دیا تھا اور اب وہ مکمل نئے سانچے میں ڈھلنے کی تیاری کر رہا تھا۔ اس لڑکے کی زندگی میں پے در پے ٹھوکریں لکھی تھیں۔

”تمھیں معلوم ہے مسٹر وائٹ نے کیا کہا ہے؟“ لڑکی نے پوچھا۔

”مسٹر وائٹ کون ہے؟“

”اُف فوہ۔۔ ایک تو تم کوئی چیز ٹھیک طرح سنتے بھی نہیں۔ میں تمھیں بتا چکی ہوں کہ مسٹر وائٹ میرے پبلشر کا نام ہے۔ ہاں تو مسٹر وائٹ نے کہا کہ انہوں نے گزشتہ دس برسوں میں کسی نئے لکھنے والے کے پہلے ناول میں مشاہدے کی ایسی گہرائی نہیں دیکھی۔“

”یہ بہت بڑی بات ہے ۔“ لڑکے نے سپاٹ لہجے میں کہا، ”پبلشرز صلاحیتیں پہچانتے ہیں۔“

”بس مسٹر وائٹ چاہتے ہیں میں ناول کا نام بدل دوں۔“

”واقعی؟“

”مستقل بہتی ندی، انہیں یہ نام پسند نہیں۔ وہ کہتے ہیں اس کا نام ’پانی‘ ہونا چاہیے۔“

”تم نے کیا جواب دیا؟“

”میں مان گئی۔ جب مصنف کی پہلی کتاب چھپ رہی ہو تو اسے اپنے پبلشر کے مشورے مان لینے چاہئیں۔ خصوصاً جبکہ وہ ہماری شادی کا خرچ بھی برداشت کر رہے ہیں۔“

اُس نے بے دلی سے کہا، ”یقیناً تم نے بہت اچھا کیا۔“ اور بدستور اپنی پلیٹ پر رکھی ہوئی مچھلی کے قتلے بنانے میں مصروف رہا۔ وہ تمام گفتگو کے دوران اسی طرح سر جھکائے چھری کانٹے سے مشغول رہا تھا۔ اگر وہ کبھی سر اٹھاتا بھی تو محض اس کی خالی الذہنی واضح ہوتی تھی۔

جاپان کے معززین نے مچھلی ختم کر لی تھی اور اب وہ اپنی شکستہ انگریزی اور انتہا کی خوش خلقی کو کام میں لاتے ہوئے ادھیڑ عمر بیرے کو تازہ پھل لانے کو کہہ رہے تھے۔ ان کی پوری گفتگو ’براہ مہربانی براہ مہربانی.. شکریہ شکریہ‘ پر مشتمل تھی۔ لڑکی نے جاپانیوں پر نظر ڈالی پھر مجھے دیکھا اور دوبارہ لڑکے پر نگاہیں گاڑ دیں۔ اُسے اپنے مستقبل کی فکر لاحق تھی۔ میرا جی چاہا کہ میں اُٹھ کر اس کے پاس جاؤں اور اسے سمجھاؤں کہ اپنے پہلے ناول پر مستقبل کی بنیاد رکھنا انتہائی غیر دانش مندی کی بات ہے۔ میں لڑکے کی ماں کے اعتراض کو حق بجانب سمجھتا تھا کیوں کہ شاید غالباً میں اس کی ماں کا ہم عمر تھا۔

میں لڑکی سے پوچھنا چاہتا تھا کہ ’وہ اپنے پبلشر کی بات سو فی صد درست کیوں مان رہی ہے؟ پبلشرز بھی انسان ہوتے ہیں۔ خوبصورت اور نوجوان لڑکیوں کی صلاحیتوں کے بارے میں مبالغہ کرنا عام انسانی کمزوری ہے۔ کیا تمھیں یقین ہے کہ تمہاری ناول ”پانی“ کا پہلا ایڈیشن پانچ سال میں فروخت ہو جائے گا؟ تم خود کو ناکامی کے ان پانچ برسوں میں مستقل مزاجی سے دوسرے ناول پر کام کرنے کا اہل سمجھتی ہو؟ وقت گزرنے کے ساتھ تصنیف کا کام مشکل ہوتا جائے گا۔ بہت مشکل ہو جائے گا۔ روزانہ قلم تھام کر کورے کاغذ کا سامنا کرنا بالآخر اعصاب شکن ہو جاتا ہے۔ عمر بڑھنے کے ساتھ تمہاری یہ قوتِ مشاہدہ بھی کمزور ہو جائے گی۔ جب مصنف چالیس برس کا ہو جاتا ہے تو یہ بات بے معنی ہو جاتی ہے کہ وہ کیا کچھ کرنے کا اہل ہے۔ اس کی کامیابی کا انحصار فقط ان کتابوں پر ہوتا ہے جو وہ اب تک تحریر کر چکا ہوتا ہے۔ اس کی صلاحیتوں کا اندازہ اس کی کارکردگی سے لگایا جاتا ہے۔ اس کے مستقبل کے منصوبوں کی کوئی اہمیت نہیں رہتی۔‘

”میرادوسرا ناول ایک جزیرے کے مکینوں کے بارے میں ہوگا“

”مجھے نہیں معلوم تھا کہ تم کسی جزیرے پر رہ چکی ہو۔“

”میں کسی جزیرے پر نہیں رہی، لیکن اب رہوں گی۔ ادب میں تازہ نگاہی بہت اہم ہوتی ہے۔ نیا انداز فکر اور اور باریک بینی میں چھ مہینے کسی جزیرے پر گزاروں گی۔“

”لیکن اس وقت تک ایڈوانس سے اتنی رقم بچی ہوگی کہ ہم۔۔۔“

”تم ایڈوانس کو ہی سب کچھ کیوں سمجھ رہے ہو؟ پانچ ہزار کی فروخت پر پندرہ فی صد ملے گا۔۔ اور دس ہزار کے بعد ناول کی قیمت کا بیس فی صد ملنا شروع ہو جائے گا۔ اس کے بعد میں فی صد مقرر ہے۔ جوں جوں ناول بکتا جائے گا اور پہلے ناول کی کامیابی کے بعد دوسرے ناول کا ایڈوانس بہت بڑھ جاتا ہے۔“

”لیکن اگر یہ کامیاب نہ ہوا؟“

”مسٹر وائٹ کہتے ہیں ہو جائے گا اور وہ ہم سے زیادہ جانتے ہیں۔“

”لیکن میرے چچا مجھے بلاوجہ کسی جزیرے پر جانے کی اجازت نہیں دیں گے۔“

”تو۔۔۔۔؟“

”تو میرا خیال ہے تمہاری جزیرے سے واپسی پر ہماری شادی زیادہ موزوں رہے گی۔“

لڑکی کے لہجےکی تندی میں تلخی کا عنصر نمایاں ہو گیا ”بات سنو“ اُس نے خبردار کرنے کے انداز میں کہا، ”پانی کی کامیابی کے بعد شاید میں واپس نہ آؤں۔“

”اوہ!“ لڑکے نے پشت کرسی سے ٹکا دی تھی۔

لڑکی نے مجھ پر نظر ڈالی۔ جاپانیوں کے گروہ کو دیکھا اور سر جھکا کر مچھلی کا ایک قتلہ منہ میں ڈالا۔ کچھ دیر تک خاموش رہنے کے بعد وہ دھیمی آواز میں بولی، ”میں اپنے دوسرے ناول کا نام ’سبز ہرا‘ رکھوں گی۔“

”لیکن سبز ہرا تو ایک ہی رنگ ہوتا ہے۔“ لڑکے نے کہا۔

لڑکی کی پیشانی پر بل پڑ گئے، ”تم کسی ناول نگار سے شادی کرنا ہی نہیں چاہتے۔“

”لیکن تم ابھی ناول نگار نہیں بنی ہو۔“

”میں پیدائشی ناول نگار ہوں۔ مسٹر وائٹ کہتے ہیں میری قوت مشاہدہ۔۔۔“

”ہاں تم نے بتایا ہے مگر۔۔۔۔۔ مگر تم یہاں۔۔۔۔ یہاں لندن میں بھی تو مشاہدہ کر سکتی ہو۔ یہاں بھی کتنی قابل دید چیزیں ہیں۔ ضروری ہے کہ جزیرہ۔۔۔۔“

”لندن کو میں اپنے پہلے ناول ’پانی‘ میں بیان کر چکی ہوں۔ میں بہ حیثیت ناول نگار خود کو دہراؤں گی نہیں۔۔۔ یہ طے ہے۔“

لڑکے نے پلیٹ سے بل اٹھایا اس پر درج مجموعی رقم پر ایک نظر ڈالی اور اپنی جیب سے بٹوا نکالنے لگا۔ لڑکی نے اُسے ہاتھ کے اشارے سے منع کیا، ”بل میں ادا کروں گی۔“

”کیوں؟“

”یہ میری خوشی کا دن ہے۔“

”کس چیز کی خوشی؟“

”اف او! پہلے ناول کی۔۔ اور کس چیز کی؟ تم احمق نہیں ہو لیکن کبھی کبھی تم مجھے حیران ضرور کر دیتے ہو۔“

لڑکے نے خاموشی سے بل اس کے حوالے کر دیا۔ اسی لمحے آٹھوں جاپانی بھی اُٹھ کھڑے ہوئے تھے اور ایک دوسرے کے سامنے رکوع کی حالت میں کھڑے ہو کر بیک وقت رخصتی کے کلمات کی ادائیگی سے ایک سماں پیدا کر رہے تھے۔ پھر وہ قطار بنا کر روانہ ہو گئے۔

میں نے سر گھمایا تو دیکھا کہ لڑکی اور لڑکا بھی ریستوران سے جانے کی تیاری کر رہے تھے اور لڑکا کرسی کی پشت سے اپنا کوٹ اُٹھا کر پہن رہا تھا۔ میں جانتا تھا کہ لڑکی اپنے پہلے ناول کی مایوس کن فروخت سے دل برداشتہ ہو کر بالآخر اشتہاری فلموں کی ماڈلنگ شروع کر دے گی اور لڑکے کو سپر اسٹور سے معقول آمدنی ہوتی رہے گی۔ پھر مجھے مسٹر وائٹ کا خیال آیا۔ کسی چھوٹے سے گمنام طباعتی ادارے کے ادھیڑ عمر مالک نے اس خوبصورت لڑکی کے پہلے ناول کے سرورق کے لیے کسی قدر مبالغہ آمیز الفاظ استعمال کیسے ہوں گے۔ اس کی باریک بین نگاہیں سات پردوں کے اندر دیکھ لیتی ہیں۔ اس کا مشاہدہ تہہ کی خبر لاتا ہے اور سرورق کی پشت پر وہ اس لڑکی کی تصویر بھی ضرور چھاپے گا۔ کیونکہ رسالوں اور اخباروں کے تبصرہ نگار بھی پبلشرز کی طرح بہرحال انسان ہی ہوتے ہیں۔۔ لیکن جب اس لڑکی کا حسن ڈھل جائے گا تو اسے مشہور ادیبہ نہ بن سکنے پر بہت افسوس ہوگا۔ شدید احساس محرومی۔۔۔ لیکن۔۔۔ لیکن اُس وقت میں زندہ نہیں ہوں گا۔۔۔۔ مجھے کیا۔ بوڑھے ہونے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ آدمی مستقبل کے اندیشوں سے محفوظ ہو جاتا ہے۔

”معلوم نہیں آج اس ریستوراں میں اتنے جاپانی کیسے جمع ہو گئے۔“ لڑکے نے باہر جاتے ہوئے کہا۔

”جاپانی؟ کون سے جاپانی؟“ لڑکی کے لہجے میں حیرت تھی۔ پھر وہ ایک دم جھنجھلا گئی، ”بعض اوقات مجھے لگتا ہے کہ تم شادی کے موضوع پر بات کرنے سے بچنے کے لیے جان بوجھ کر خیالی چیزوں کو موضوعِ گفتگو بنانے کی کوشش کرتے ہو۔۔ دراصل،“ لڑکی کی آواز گلو گیر ہو گئی، ”تم مجھ سے شادی کرنا ہی نہیں چاہتے۔“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close