
اس سال جون میں وہ ہماری جاگیر پر رہنے آیا۔ ہم نے اسے ہمیشہ خاندان کا ایک فرد سمجھا تھا، اس کے مرحوم والد میرے ابّا کے قریبی دوست اور پڑوسی تھے۔ پندرہ جون کو فرڈینینڈ کو سراجیوو میں قتل کر دیا گیا۔ سولہ تاریخ کی صبح ڈاک خانے سے اخبارات آ گئے۔ میرے ابّا شام کے اخبارات میں سے ایک ہاتھ میں لیے مطالعہ چھوڑ کر کھانے کے کمرے میں چلے آئے، جہاں میں، ماں اور وہ جانِ عزیز ابھی تک بیٹھے چائے پی رہے تھے، وہ بولے:
”اچھا، میرے دوست، دیکھو جنگ لگ گئی ہے! آسٹریا کے ولی عہد کو سراجیوو میں قتل کر دیا گیا ہے۔ یہ تو جنگ لگ گئی ہے!“
چونکہ یہ ابّا کا سَنتوں کا دن تھا، ’سینٹ پیٹرز ڈے‘ پر ہر طرح کے لوگ آ رہے تھے سو دوپہر کے کھانے کے بعد، انھوں نے میری اُس سے نسبت طے کر دی لیکن انیس جولائی کو جرمنی نے روس کے خلاف اعلان جنگ کر دیا…
ستمبر میں وہ ہمارے پاس آیا، صرف چوبیس گھنٹے کے لیے۔ وہ محاذ کی طرف روانہ ہونے سے پہلے ہمیں الوداع کہنا چاہتا تھا۔ اس وقت ہم سوچتے تھے کہ جنگ زیادہ دیر نہیں چلے گی۔ ہماری شادی بس بہار تک ملتوی کر دی گئی۔ چناچہ وہ ہماری الوداعی شام تھی۔ ہمیشہ کی طرح، رات کا کھانا ختم ہونے کے بعد ہم نے سماوار چڑھا دیا۔ ابّا نے کھڑکی کی طرف دیکھا جس پر بھاپ کی تہہ چڑھ گئی تھی اور کہا: ”اس سال خزاں حیرت انگیز طور پر قبل از وقت اور سرد ہے!“
اس شام ہم خاموش بیٹھے رہے، صرف کبھی کبھار اپنے حقیقی اور خفیہ خیالات اور احساسات کو چھپا کر، مبالغہ آمیز سکون کے ساتھ انتہائی بے معنی الفاظ کا تبادلہ کرتے رہے۔ یہاں تک کہ میرے والد نے بھی جبراً، جھوٹے سکون کے ساتھ خزاں کے بارے میں بات کی تھی۔
میں فرانسیسی طرز کی کھڑکیوں کے پاس گئی اور اپنی شال سے شیشہ صاف کیا۔ باغ میں، سیاہ آسمان پر سرد ستارے پوری آب و تاب سے واضح طور پر چمک رہے تھے۔
ابا اپنی آرام کرسی میں گہرے دھنس کر سگریٹ نوشی کرنے لگے، وہ کبھی کبھار میز کے اوپر جلتے لیمپ پر بے چینی سے نظر ڈالتے تھے۔ میری ماں، آنکھوں پر عینک لگائے، اس کی روشنی میں بڑی محنت سے ریشم کی ایک چھوٹی تھیلی سلائی کر رہی تھی۔ ہم سب جانتے تھے کہ کس لیے۔۔۔ یہ سب بیک وقت دل گداز و دل دوز تھا۔
ابا نے پوچھا: ”تو، کیا تمھیں یقین ہے کہ تم ناشتے کا بھی انتظار کرنے کے بجائے علی الصبح نکلنا چاہتے ہو؟“
’’ہاں، اگر آپ مجھے اجازت دیں گے تو مجھے پہلے پہل جانا چاہیے۔‘‘ اس نے کہا، ”یہ افسوسناک ہے، لیکن مجھے اب بھی گھر میں اپنی چیزیں ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔“
میرے ابا نے ایک گہری آہ بھری، ”ٹھیک ہے، جیسے تمھاری مرضی، میرے عزیز. سو اس صورت حال میں، اگر ہم کل تمھیں رخصت کرنے والے ہیں تو اس وقت ہم بوڑھے لوگوں کو ضرور اپنے بستروں میں گھس جانا چاہیے۔۔۔“
میری ماں اٹھی اور اپنے ہونے والے بیٹے کے سینے پر خیر و برکت کی دعا دینے کے لیے صلیب کا نشان بنایا، وہ ادب سے ان کے ہاتھ پر بوسہ دینے جھکا اور پھر میرے ابّا کے ہاتھ کی طرف جھکا۔ اب ہم دونوں اکیلے تھے، ہم کچھ دیر کھانے کے کمرے میں بیٹھے رہے، میں نے سوچا کہ وقت گزاری کے لیے میں تاش کے پتے لگا دوں۔ اس دوران وہ خاموشی سے کمرے میں ٹہلنے لگا۔ آخر کار اس نے پوچھا: ”اچھا، کیا تم کچھ تازہ ہوا لینا چاہو گی؟“
میرے دل میں، سارے احساسات اور بھی بوجھل ہو گئے ، لیکن میں نے لاتعلقی سے جواب دیا: ”مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔“
وہ ابھی تک کسی چیز کے بارے میں گہری سوچ میں گم تھا، جب ہم سامنے والے کمرے میں تیار ہو رہے تھے۔ ایک خوبصورت مسکراہٹ کے ساتھ اس نے فیٹ [1] کی نظم کا ذکر کیا:
”اوہ، یہ خزاں کتنی ٹھنڈی ہے! / اپنی ٹوپیاں اور شال پہنےرکھو۔“
’’میرے پاس ٹوپی نہیں ہے،‘‘ میں نے کہا، ”اگلا حصہ بھلا کیا ہے؟“
”مجھے یاد نہیں آ رہا۔ میرے خیال میں یہ کچھ اس طرح ہے: دیکھو کیسے تاریک صنوبروں کے درمیان / آگ بلند ہوتی دکھائی دیتی ہے۔۔۔“
”آگ کہاں ہے؟“
”یقیناً، یہ چاند طلوع ہو رہا ہے۔ ان سب باتوں میں کچھ حیرت انگیز طور پر خزاں کا ذکر ہے۔ ’اپنا ٹوپی اور شال پہن لو…‘ ہمارے پُرکھوں کے زمانے… اوہ، اوہ خدا! اوہ خدایا!“
”کیا؟“
”ارے کچھ نہیں، میرے ہمدم! لیکن پھر بھی، میں اداس ہوں۔ قدرے غمزدہ ہوں تاہم یہ سب بہت بھلا بھی لگ رہا ہے۔ میں واقعی، واقعی تم سے محبت کرتا ہوں۔۔۔“
ایک بار جب ہم لباس تبدیل کر چکے، ہم کھانے کے کمرے سے گزرے اور باہر باغ میں چلے گئے۔ پہلے تو اتنا اندھیرا تھا کہ مجھے اس کی آستین پکڑنی پڑی، لیکن پھر میں نے رات کے آسمان پر ستاروں کی روشنی میں درختوں کی سیاہ شاخوں میں راستہ بنانا شروع کر دیا۔ وہ رک کر گھر کی طرف مڑا، ”دیکھو،سب کتنا مختلف ہے، کھڑکیاں کتنی خزاں زدہ ہیں۔ جب تک میں زندہ ہوں، مجھے یہ شام ہمیشہ یاد رہے گی۔‘‘
میں نے اسے دیکھا، اور اس نے مجھے سوئس چغے میں ملبوس اپنے گلے لگا لیا۔ میں نے اپنے چہرے سے پنکھ کا اسکارف ہٹا دیا اور اپنا سر تھوڑا سا گھما لیا تاکہ وہ مجھے چوم سکے۔ اس کے بعد اس نے میرے چہرے کی طرف بغور دیکھا، ”تمھاری آنکھیں کتنی روشن ہیں،“ اس نے کہا، ”کیا تمھیں ٹھنڈ لگ رہی ہے؟ ہوا قدرے سرد ہے۔ اگر وہ مجھے مار ڈالیں تو تم واقعی مجھے ایک دم تو نہیں بھولو گی نا؟‘‘
میں نے دل ہی دل میں سوچا: ’اور کیا ہوگا اگر وہ واقعی اسے مار ڈالیں؟ اور کیا میں واقعی اسے تھوڑے عرصے میں بھول جاؤں گی؟ جیسے ہم آخر میں سب کچھ بھول جاتے ہیں…؟‘ اور میں نے اپنے خیال سے گھبرا کر اسے جواب دینے کے لیے جلد بازی کا مظاہرہ کیا: ”ایسے مت کہیں! اگر تمھیں کچھ ہو گیا تو میں کبھی اس صدمے سے باہر نہیں نکل سکوں گی!“
وہ پہلے تو خاموش رہا لیکن پھر مدھم سی آواز میں بولا، ”اچھا، اور اگر میں مر گیا تو پتا ہے کیا ہوگا؟ میں وہاں تمہارا انتظار کروں گا۔ جہاں تک تمھارا تعلق ہے، بس جیو، جو خوشی حاصل کر سکتی ہو تلاش کرو، اور پھر میرے پاس آ جانا۔“
اور میرے نمکین آنسو بہنے لگے۔۔۔
صبح وہ چلا گیا۔ میری ماں نے اسے وہ نوشتہءِ تقدیر تھیلی دی، جسے وہ پچھلی شام سے سلائی کر رہی تھی۔ اس میں حضرت مریم کی سونے کی ایک مورتی تھی، جسے میرے والد اور دادا جنگ کے وقت اپنے ساتھ لے کر جاتے تھے۔ ہم نے ایک طرح کی مایوسی کے ساتھ اسے رخصت کیا اور گھبرا کر اس کے سینے پر صلیب کا نشان بنا دیا۔ ایک گھمبیر اداسی چھائی ہوئی تھی. گنگ زبان سے ہم پورچ میں کھڑے اسے جاتے ہوئے دیکھتے رہے۔ ہمیشہ ایسی خاموشی تب در آتی ہے جب کسی طویل جدائی سے پہلے کسی کو الوداع کہتے ہیں۔ ہمارے اردگرد خوشگوار، دھوپ والی چمکیلی صبح، شبنمی قطروں سے منور گھاس سب کچھ ویسا ہی تھا لیکن طبیعت میں کیسا حیران کن تضاد تھا کہ سب کچھ ناموزوں اور غیر مناسب لگ رہا تھا۔ جب ہم وہاں سے فارغ ہوئے تو ہم ایک خالی مکان کے اندر چلے آئے۔ میں کمر کے پیچھے ہاتھ باندھے، کمروں میں بولائے بولائے پھرتی رہی۔ نہ جانے مجھے اپنے ساتھ کیا کرنا تھا، کیا رونا بہتر ہوگا یا اپنی پوری آواز کے ساتھ گانا گانا۔۔۔
وہ مارا گیا – کیسا عجیب لفظ ہے نا یہ! ایک ماہ بعد، گالیسیا [2] میں وہ مارا گیا۔۔۔ اور اس وقت سے لے کر اب تک تیس سال کا طویل عرصہ بیت چکا ہے۔۔۔ اور بہت کچھ، ان سالوں میں بہت کچھ مجھ پر بیت چکا ہے، جب آپ ان سالوں کے بارے میں سوچتے ہیں تو یہ عرصہ بہت طویل لگتا ہے۔ اس دوران کی کیا کیا معجزہ کاریاں، دشواریاں اور الجھنیں ذہن کے پردے پر ابھرتی ہیں – وہ سب یادیں جسے ہم ماضی کہتے ہیں، اور جو دماغ اور دل دونوں کی قوتوں سے بالا طاقت ہے۔
1918ء کے موسم بہار میں، جب میری ماں اور ابّا پہلے ہی تہہِ خاک سو چکے تھے، میں ماسکو میں سمولینسک مارکیٹ میں ایک سودا فروش عورت کے تہہ خانے میں رہ رہی تھی۔ وہ مجھ پر ہنستی تھی، باقاعدگی سے میرا مذاق اڑاتی تھی ’بہت اچھے، عزت مآب، آپ کے حالات کیسے ہیں؟‘ میں بھی ایک درمیانہ درجے کی بیوپاری تھی اور اس وقت بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح میں نے بھی پاپاخ [3] اور اوور کوٹ پہنے ہوئے سپاہیوں کو کچھ ایسی چیزیں فروخت کیں جو میرے پاس اب بھی موجود تھیں – ایک انگوٹھی، ایک چھوٹی سی صلیب، کیڑے کا کھایا ہوا فر کا کالر – اور پھر ایک دن، جب میں کام پر تھی، میں ایک نایاب اور خوبصورت روح والے شخص سے متعارف ہوئی – ایک بوڑھا سپاہی جو بہت پہلے ریٹائر ہو چکا تھا۔ جلد ہی میں نے اس سے شادی کر لی اور اپریل میں ہم ایکٹیرینودر [4] کے لیے اکٹھے روانہ ہوئے۔ ہم نے اس کے بھتیجے کے ساتھ سفر کیا، جو تقریباً سترہ سال کا لڑکا تھا اور رضاکار فوج میں شامل ہونے کے لیے جا رہا تھا۔ اس سفر میں تقریباً دو ہفتے لگے – میں، ایک بوڑھی عورت، چھال کے جوتے پہنے ہوئے، میرے شوہر کھچڑی ڈاڑھی کے ساتھ، اپنے بوسیدہ کازک جبے میں ملبوس تھے۔
ہم دو سال سے زیادہ ڈان اور کوبان کے قرب و جوار میں رہے۔ موسم سرما کے دوران ایک طوفان میں، نووروسیا [5] کے بے شمار دیگر پناہ گزینوں کے ساتھ ہم سمندر پار ترکی کی طرف روانہ ہوئے اور راستے میں، میرے شوہر میعادی بخار سے وفات پا گئے۔ اس کے بعد، میرے لیے روئے زمین پر صرف تین نفوس باقی رہ گئے: میرے شوہر کا بھتیجا، اس کی جوان بیوی اور ان کی سات ماہ کی بچی۔۔ لیکن دونوں میاں بیوی بعد میں اپنی بچی کو میرے پاس چھوڑ کر لڑائی میں شامل ہونے کے لیے کریمیا واپس آ گئے۔ مجھے نہیں معلوم کہ ان کے ساتھ کیا معاملہ ہوا – وہ صفحہ ہستی سے ہی غائب ہو گئے۔۔ اور اس طرح میں کچھ عرصے کے لیے قسطنطنیہ میں رہی، اپنے اور اس چھوٹی بچی کے لیے جو کچھ کر سکتی تھی، کیا۔ غیر قانونی قیام اور خوفناک حالات میں کام نے میری کمر توڑ کر رکھ دی۔ پھر، بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح، میں بھی وہاں سے چلی آئی – اور لڑکی کو ساتھ لیے تقریباً ہر جگہ گئی۔ بلغاریہ، سربیا، چیک لینڈز، بیلجیم، پیرس، نیس [6] ، بہرحال… لڑکی کافی عرصہ پہلے بالغ ہوگئی تھی اور اس نے پیرس میں رہنے کا فیصلہ کیا۔ وہ اب ایک اصلی فرانسیسی عورت ہے۔ وہ بہت خوبصورت ہے اور مجھ سے بالکل لاتعلق ہے۔ وہ میڈلین کے قریب ایک چاکلیٹ کی دکان میں کام کرتی ہے، اس کا کام رنگین کاغذ کے چھوٹے چھوٹے ڈبوں کو اکٹھا کر کے اپنے مینی کیورڈ ہاتھوں اور نقرئی ناخنوں سے انہیں سنہری فیتے سے باندھنا ہے۔ جہاں تک میرا تعلق ہے، میں اب بھی اللہ کے فضل سے نِیس میں رہتی ہوں… میں پہلی بار 1912ء میں نیس میں قیام پذیر ہوئی تھی۔۔۔ اور ان دنوں میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ آئندہ میرے ساتھ کیا ہوگا۔۔۔
اور یوں میں حالات کے جبر میں زندہ رہی، میں اس کی موت کے صدمے سے زندہ بچ گئی، حالانکہ میں نے ایک بار کہا تھا کہ میں کبھی یہ صدمہ برداشت نہیں کر پاؤں گی۔۔ لیکن، جب مجھے وہ سب کچھ یاد آتا ہے، جو اس کے بعد رونما ہوا ہے تو میں ہمیشہ خود سے ایک سوال پوچھتی ہوں: تمھارے دامنِ زندگی میں کہیں زندگی تھی بھی؟ اور میں جواب دیتی ہوں: صرف سرد خزاں کی وہ شام۔۔ کیا واقعی وہ شام آئی تھی؟ جی ہاں، یہ آئی تھی اور باقی جو کچھ میں نے گزارا، وہ صرف ایک ضیاع، ایک بیکار خواب تھا۔۔ اور مجھے اس عقیدے پر پختہ یقین ہے، کہ وہ وہاں میرا انتظار کر رہا ہے – اسی محبت، اسی جوانی کے ساتھ، جیسے اس شام کو ان تمام تر توانائیوں سے معمور تھا۔ "بس جیو، جو خوشی حاصل کر سکتی ہو اسے تلاش کرو، اور پھر میرے پاس آ جاؤ…”
میں جی چکی ہوں، مجھے کچھ خوشی ملی ہے، اور اب میرے جانے کا وقت آ گیا ہے۔
Footnotes:
[1] Afanasy Fet (Russian poet)
[2] Galicia.(Galicia, autonomous community and historic region of Spain,)
[3] Papakh( is a wool hat worn by men throughout the Caucasus and also in uniformed regiments in the region and beyond.)
[4] Ekaterinodar (the former name until 1920 of Krasnodar _a city of Russia)
[5] Novorossia,(sparsely settled southern lands named Novorossiya, or New Russia)
[6] Nice(City in France)