سندھ کے سرکاری اسکولوں کے فرنیچر کی خریداری میں بےقاعدگیوں اور غبن کی تحقیقات کے لیے سیکریٹری محکمہ اسکول ایجوکیشن کی سربراہی میں چار رکنی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دے دی گئی
سندھ حکومت نے گزشتہ تین برسوں میں محکمہ اسکول ایجوکیشن کے تحت فرنیچر کی خریداری میں بے قاعدگیوں کی تحقیقات شروع کی ہے، کمیٹی تحقیقات کرے گی کہ خریداری زیر دفعہ 31 سندھ پبلک پریکیورمنٹ ریگیولیٹری اتھارٹی 2010 کے تحت کی گئی تھی یا نہیں
واضح رہے کہ پیپلز پارٹی کے دور اقتدار میں مالی سال 2020-2021، مالی سال 2021-2022 اور مالی سال 2022-2023 میں سیکنڈری اور پرائمری اسکولوں کے لئے ایک ارب 84 کروڑ 78 لاکھ 54 ہزار روپے کا فرنیچر خریدا گیا تھا، اس میں سیکنڈری اسکولوں کے لئے 58 کروڑ 36 لاکھ 76 ہزار روپے جبکہ پرائمری اسکولوں کے لئے ایک ارب 26 کروڑ 41 لاکھ 78 ہزار روپے شامل ہیں
سندھ میں انتہائی بلند قیمت پر اسکول ڈیسک کی خریداری کا معاملہ ستمبر 2021 میں سب سے پہلے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان نے اٹھایا تھا، جسے سندھ اسمبلی کے قائد حزب اختلاف حلیم عادل شیخ منظرِ عام پر لائے تھے
حلیم عادل شیخ نے الزام لگایا تھا کہ صوبائی حکومت اسکول ڈیسک انتیس ہزار روپے سے زائد میں خرید رہی ہے جبکہ یہ اوپن مارکیٹ میں صرف پانچ ہزار روپے میں دستیاب ہے
مذکورہ تنازع میں ڈرامائی موڑ اس وقت آیا، جب سابق صوبائی وزیر تعلیم سعید غنی نے ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ فرنیچر کی خریداری کی منظوری سابق وزیراعلیٰ سندھ نے دی تھی، جن کے پاس اس وقت وزارت تعلیم کا پورٹ فولیو تھا
بعدازاں سندھ اسمبلی کے اجلاس میں وضاحت دیتے ہوئے سابق وزیر اطلاعات نے اسکولوں کے لیے زائد قیمتوں پر ڈیسک خریدنے کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ صوبے میں سرکاری اسکولوں کے لیے فرنیچر کی خریداری کا سارا عمل ایک مرکزی پروکیورمنٹ کمیٹی نے شروع کیا تھا
سابق صوبائی وزیر تعلیم نے کہا تھا کہ سرکاری اسکولوں کا فرنیچر گزشتہ آٹھ سالوں سے نہیں خریدا گیا تھا اور سال 2018 میں اس مقصد کے لیے مرکزی خریداری کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔