مٹی کے برتنوں کا سفر ہزاروں سالوں پر محیط ہے۔ پتھر کے آخری دور میں جب انسان جنگلوں کی زندگی چھوڑ کر تمدن کی طرف آنے لگا تو مٹی بلکہ چکنی مٹی اس کی منزل ٹھہری۔ اس مٹی ہی نے اسے ایک مقام پر قیام اور گھرداری کے طور طریقوں سے آشنا کیا۔
انسان نے اپنے لئے خوراک اور پانی کی ذخیرہ کرنے کے لئے مٹی سے برتن بنانے، اسے سُکھانے اور پھر رفتہ رفتہ اسے آگ میں پکا کر مضبوط کرنے کا ہنر سیکھ لیا
دنیا بھر میں قدیم ترین تہذیبوں کی قدامت کی جانچ، وہاں کی زمین سے برآمد ہونے والے برتنوں کی ساخت، بناوٹ اور اس پر کئے گئے نقش و نگار مٹی کے اس ہزاروں سال پر محیط سفر کی گواہی دیتے ہیں
سندھ میں موئن جو دڑو اور آمری کی تہذیب ہو یا بلوچستان کی مہرگڑھ کی تہذیب، اس سب کے دورانیے کو پرکھنے میں وہاں زمین سے برآمد ہونے والے مٹی کے ان برتنوں کی ساخت اور ان پر کئے گئے نقش و نگار نے رہنمائی کی
قبل از مسیح میں دھاتوں کی دریافت نے مٹی سے کچھ عمر عصری کی اور تانبے اور کانسی کے برتن مٹی کے برتنوں کے سنگ سنگ استعمال میں آنے لگے، لیکن بہت جلد دھاتوں نے اپنا راستہ جدا کرلیا اور وہ چھوٹی موٹی مشینی کلوں اور جنگی سازوسامان کی طرف لوٹ گئیں، تو مٹی اپنی قدیم نسبت کے سہارے دوبارہ اپنے تسلسل کی طرف لوٹ آئی
ہزارہا سالوں سے چلتی آ رہی مٹی کے ظروف کی فنکاری اب بھی جاری ہے۔ یہ فن کار ہاتھ قدیم تہذیبوں کا ہو یا کراچی میں بسنے والی مسلم کچھی کمہار برادری کا ہو، گویا ان تہذیبوں کے فن کا سفر اب بھی جاری ہے
انگریز دور میں ہوئی مردم شماری کے انچارج سر ڈینزل چارلس اپنی کتاب میں لکھتے ہیں، ”کمہار پیشہ سے مختلف قبائل منسلک ہوئے لیکن زیادہ تر لوگ اپنی اصل ذات یا قبیلے کی بجائے اپنی شناخت بطور کمہار کرواتے ہیں۔“ لیکن اب صورتحال بدستور تبدیل ہو رہی ہے
ہر شعبے میں تیز رفتار جدت نے وقت کے ساتھ کئی اہم اشیا کو خاص سے عام بنا دیا ہے۔ اب تو ایسی کئی چیزیں اور شعبے ہیں، جن کا وجود خطرے میں ہے۔ ایسی ہی داستان کراچی میں رہنے والے کمہاروں کی ہے، جو اس دور جدید میں گم ہوتے جا رہے ہیں
سندھ کے دارالحکومت کراچی کے مضافاتی علاقے یوسف گوٹھ سے متصل کمہار واڑا آج بھی آباد ہے
کمہار واڑا میں بسنے والے کمہار اب بھی مٹی سے برتن اور دیگر سامان بنانے کے ماہر کاریگروں میں شمار ہوتے ہیں۔ یہاں تیار کیے جانے والا سامان شہر سمیت ملک کے دیگر حصوں میں بھیجا جاتا ہے
اپنے ہاتھوں میں مٹی کو مختلف شکلوں میں ڈھالنے کا ہنر رکھنے والی سکینہ بی بی بھی کئی دہائیوں سے یہیں آباد ہیں۔ سکینہ بی بی اس علاقے کی سب سے پرانی کمہار خاتون کہلاتی ہیں
سکینہ نے اپنی زندگی کے ستر برس مٹی کے کام میں گزار دیے ہیں اور آج بھی اپنے ہاتھ سے مٹی پر نقش و نگار بناتی ہیں
سکینہ بی بی کو اپنی عمر تو یاد نہیں لیکن وہ اپنا یہ ہنرِ بے مثال چار نسلوں میں منتقل کر چکی ہیں
سکینہ بی بی ایک بیٹی کی ماں ہیں اور ان کے شوہر کا انتقال ہو چکا ہے۔ ان کی بیٹی سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد میں کئی برسوں سے رہائش پذیر ہے۔ سکینہ بی بی کراچی میں اکیلے ہی زندگی بسر کر رہی ہیں
سکینہ بتاتی ہیں ”جب عمر کم تھی، اس وقت تو مٹی کو کُوٹ کر برتن بنا لیا کرتے تھے، لیکن اب جسم نے ساتھ چھوڑا ہے تو بس مٹی کے بنے سامان پر نقش و نگاری کر کے گزر بسر پر مجبور ہوں۔۔“
سکینہ بی بی کو ایک پاؤں میں لچک ہونے کی وجہ سے چلنے پھرنے میں دشواری کا سامنا رہا، لیکن انہوں نے اس کمی کو کبھی اپنی خودداری کے آڑے آنے نہ دیا اور وہ محنت اور لگن سے زندگی بھر رزقِ حلال کماتی رہیں
گئے دنوں کو یاد کرتے ہوئے سکینہ بی بی بتاتی ہیں ”کبھی مٹی کے برتن اور دیگر سامان والوں کے بہت اچھے دن ہوا کرتے تھے۔ کام خوب چلتا تھا اور خریدار بھی بہت ہوتے تھے۔۔ کئی مرتبہ تو دن رات کام کر کے آرڈر پورا کیا کرتے تھے۔ کام زیادہ ہونے کی وجہ سے آمدن اور گھر کے حالات بھی اچھے ہوتے تھے۔ عمر کے ساتھ جہاں جسم سے طاقت کم ہوئی، وہیں اس کام کی قدر بھی کم سے کم ہو گئی“
سکینہ بی بی کا کہنا ہے ”لوگ اب نئے دور میں مٹی کے برتن اور سامان سے زیادہ کانچ، پلاسٹک اور اسٹیل کے سامان کو ترجیح دیتے ہیں۔ ایسے میں ہمارا کمہار واڑا سمٹ کر رہ گیا ہے۔ اب تو لوگ شام سے پہلے ہی کام بند کر کے چلے جاتے ہیں“
سکینہ بی بی نے بتایا ”کمہار واڑا میں پہلے ہر گھر میں مٹی کا کام ہوتا تھا۔ عورتیں اور مرد سب یہی کام کرتے تھے، لیکن اب تو یہاں مشینوں کی فیکٹریاں لگ گئی ہیں۔ بہت ہی کم لوگ رہ گئے ہیں جو یہ کام کرتے ہیں۔“
وہ بتاتی ہیں، ”اب محنت کا وہ صلہ بھی نہیں ملتا جو پہلے ملا کرتا تھا، اس لیے لوگ اب مٹی کے کام سے دور ہو کر دیگر شعبوں میں کام کر رہے ہیں“
سکینہ بی بی نے اپنی محنت اور لگن سے کمہار محلے میں شہرت حاصل کی۔ ان کے بنائے ہوئے برتن مختلف رنگوں اور ڈیزائنوں میں دستیاب ہیں جو لوگوں کو متاثر کرتے ہیں
کمہار جہانزیب کہتے ہیں، ”پاکستان میں اب مٹی کے برتن بنانے والوں کا کوئی مستقبل نظر نہیں آتا۔ سوچتے ہیں کہ یہ کام چھوڑ کر کچھ اور کریں تاکہ محنت کے صلے میں جائز آمدنی ملے اور گھر کا گزر بسر اچھے سے ہو سکے۔۔“
بستی بستے بستے بستی ہے۔۔
گزشتہ تقریباً تین صدیوں سے کراچی میں مقیم کمہار برادری مٹی کے ظروف کی تیاری اور اس کے کاروبار کے ذریعے اپنے آپ کو منواتی آرہی ہے۔ اپنے کاروبار کی نوعیت کے سبب انہیں اپنی بسی بسائی بستیوں سے شہر کی حدود میں ہی تین بار ہجرت کا دکھ سہنا پڑا اور حیرت یہ ہے کہ دکھ کا یہ سفر اب بھی جاری ہے۔ اسی نقل مکانی کے سبب کراچی میں ایک سے زیادہ کمہار واڑے وجود میں آئے
عبدالغفور کھتری اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ سترہ سو عیسوی میں کَچھ کی ریاست سے ہجرت کر کے بدین کے راستے سندھ آنے والے مسلم کچھی کمہار برادری کے کئی خاندان کراچی آئےاور رتن تلاءُ، گاڑی کھاتہ و کچھی گلی کے اطراف میں پڑاؤ ڈال کر اپنے کام کا آغاز کر دیا۔ کچھ ہی عرصہ گزرا تھا کہ انہیں یہاں سے بے دخلی کا نوٹس آگیا وجہ یہ بتائی گئی کہ یہاں قریب ہی سرکاری دفاتر تعمیر ہورہے ہیں اور برتنوں کو پکانے والی بھٹیوں سے نکلنے والا دھواں سرکاری ملازمین کے لئے آلودگی کا سبب بنے گا
انہیں رتن تلاؤ اور اطراف کے علاقوں سے لی مارکیٹ کے قریب (حالیہ جونا کمہار واڑا) منتقل کر دیا، مگر بھٹیوں سے نکلنے والے دھویں کی عفریت بھی ان کے سنگ سنگ چل رہی تھی۔ چند دہائیاں گزرنے پر لی مارکیٹ جیسے تجارتی علاقے کی قربت کی بناء پر یہ علاقہ مکمل رہائشی صورت اختیار کرتا گیا اور بھٹیوں سے نکلنے والا دھواں رہائشی علاقے میں آلودگی کا سبب بننے لگا، تو پھر وہی بے دخلی کا نوٹس آ گیا
چار و ناچار، کمہار برادری اس علاقے کو ’جونا کمہار واڑا‘ کے نام کی سند دے کر آگے بڑھ گئی، اس بار ان کا پڑاؤ ’چاکی واڑا‘ سے آگے بکرا پِڑی کے قریب کے تقریباً بے آباد علاقے میں رہا اور اس علاقے کو ’نئوں کمہار واڑو‘ (نیا کمہار واڑا) کا نام دیا گیا
مٹی کے ظروف کی صدیوں پرانی یہ صنعت آج اکیسویں صدی میں بھی اسی پرانی ڈگر پر چل رہی ہے۔ آج بھی ان برتنوں کو پکانے کے لئے بجلی یا گیس کی بجائے لکڑی کے بھوسے یا کاٹھ کباڑ پر ہی اکتفا ہے اور آج گنجان آباد شہر لکڑی کے دھوئیں کا متحمل نہیں ہو سکتا اور دھوئیں کی اس تلوار نے ان کو پھر پریشان کر دیا اور پھر ایک نئی بستی بسانے کی فکر دامن گیر ہو گئی
اب نئی بستی کا قرعہ فال مہاجر کیمپ نمبر 2 کا نکلا اور یہ ’کمہار واڑا مہاجر کیمپ‘ کہلایا۔ آج سے پچاس سال قبل اس بستی سے آگے سنسان اور ویران جنگل تھا
اس بار یہ پوری کی پوری بستی مہاجر کیمپ منتقل نہیں ہوئی بلکہ کچھ خاندان یہاں آ کر آباد ہوئے اور برتن سازی کے کام کا آغاز کر دیا۔ رفتہ رفتہ جب یہاں بھی آبادی کا دباؤ بڑھا تو پھر وہی دھواں۔۔۔ اب جائیں تو جائیں کہاں کا معاملہ درپیش تھا۔
خوش قسمتی سے نیوکراچی میں وافر زمین موجود تھی، جہاں ان کی بھٹیاں لگ گئیں۔ دھواں اب بھی ان بھٹیوں سے نکل رہا ہے اور یہ دھواں پھر ایک نئی نقل مکانی پر انہیں مجبور کردے گا۔ فی الحال تو یہ آخری کمہار واڑا ہے
مٹی کے ایک بدنما گولے کو فن پارے کی شکل دینا، شاید یہ تاریخ میں انسانی ہاتھوں کی پہلی فنکاری ہے۔ اس روایت کو سنبھالے ہوئے کمہار برادری کے فنکار ہاتھ آج بھی مٹی کو گوہر بنا رہے ہیں۔خریدار کے ہاتھ پر رکھا ہوا مٹی کا ایک شہہ پارہ اپنی انتھک محنت کی ایک طویل داستان رکھتا ہے۔چکنی مٹی کو نوری آباد یا حب سے لانا، اسے کوٹنا، بھگونا، پھر کئی گھنٹے تک اسے ہاتھوں سے مسلتے رہنا۔ چاک پر رکھ کر اسے شہہ پارے کی شکل دینا، اسے چار دن تک سوکھنے کے لئے رکھ کر اس کی حفاظت کرنا۔ ان سب کے بعد آخری اور کٹھن مرحلہ آتا ہے اور وہ ہے اسے بھٹی میں پکانا۔ بس یہی مرحلہ ایک کمہار کے لئے صبر آزما بھی ہے اور اتنی محنت کے صلے کا جواب، جو مثبت بھی ہوتا ہے اور کبھی کبھار منفی بھی
ہوتا یہ ہے کہ ان برتنوں کو بھٹی (جیسے آوا بھی کہا جاتا ہے) کے حوالے کرنے کے بعد سخت نگرانی اور دیکھ بھال کی ضرورت پیش آجاتی ہے کہ بھٹی کا ایندھن کہیں بجھ نہ جائے اور سارا مال کچا رہ کر کچرے کا ڈھیر نہ بن جائے، یا بھٹی کی حدت تیز ہو جانے پر تمام برتن جل نہ جائیں اور یوں آوا بگڑ جاتا ہے۔ شاید ’آوے کا آوا بگڑنے‘ کا محاورہ یہیں سے اخذ کیا گیا ہے
اور جب کبھی قسمت ناراضگی کی انتہائی حدود کو چھو رہی ہوتی ہے تو پوری بھٹی یا آوا بیٹھ جاتا ہے، یعنی بھٹی کی چھت برتنوں پر گر جاتی ہے۔ بس پھر کفِ افسوس مَلنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہ جاتا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مٹی کا ایک چھوٹا سا برتن کمہار کی جاں گسل محنت کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اور اسے ساری عمر یہ شکوہ ہی رہتا ہے کہ اسے اس کی محنت کا صلہ نہیں ملتا۔۔ اور یہ شکوہ کچھ غلط بھی نہیں۔