بلوچ لانگ مارچ کے شرکا کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کی لہر۔۔۔ لانگ مارچ کا پس منظر کیا ہے؟

ویب ڈیسک

اسلام آباد میں بلوچستان سے جانے والے لانگ مارچ کے شرکا بالخصوص خواتین اور بچوں کی گرفتاری کے خلاف کوئٹہ سمیت بلوچستان کے کئی شہروں میں احتجاج جاری ہے

بدھ کی شب یہ مارچ تربت سے 26 دن کا سفر طے کر کے اسلام آباد پہنچا تھا۔ جہاں مبینہ طور پر پولیس نے مارچ کے شرکا کو لاٹھی چارج، واٹر کینن اور آنسو گیس کی شیلنگ کے ذریعے منتشر کرنے کی کوشش کی۔ اس دوران خواتین سمیت متعدد افراد کو گرفتار کیا گیا۔

اسلام آباد پولیس نے خواتین کو گرفتار کرنے کی تردید کی ہے جب کہ یکجہتی مارچ کے منتطمین کا کہنا ہے کہ بدھ کی شب سے 50 خواتین لاپتا ہیں۔ پولیس نے 218 افراد کی گرفتاری کی تصدیق کی ہے۔

مظاہرین کی گرفتاری کے خلاف کوئٹہ کراچی شاہراہ کو مستونگ، قلات اور وڈھ میں تین مختلف مقامات پر جب کہ بلوچستان کو پنجاب سے ملانے والی شاہراہ کو بارکھان میں مظاہرین نے ٹریفک کے لیے بند کر دیا گیا

ریلی کے شرکا نے مختلف شاہراہوں سے ہوتے ہوئے وزیراعلیٰ اور گورنر ہاؤس کے قریب زرغون روڈ پر پہنچ کر دھرنا دے دیا

دوسری جانب کوئٹہ میں بلوچ یکجہتی کونسل کے لانگ مارچ کی شرکا کی گرفتاریوں پر بلوچ طلبہ تنطیموں نے احتجاج کیا۔ جس میں بڑی تعداد میں خواتین اور طلبا بھی شریک ہوئے۔ مظاہرین کی ایک بڑی تعداد مارچ کرتے ہوئے بلوچستان اسمبلی اور ہائی کورٹ کے سامنے جمع ہوئی اور احتجاجی دھرنا دیا۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ انہیں مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ بھی اسلام آباد کا رخ کریں

پنجاب کے ضلع ڈیرہ غازی خان، ملتان اور کراچی کے علاقے ملیر سمیت پاکستان کے کئی دیگر علاقوں میں بھی احتجاج کیا گیا

بلوچ یکجہتی کمیٹی اور بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن نے جمعہ کو بلوچستان بھر میں شٹر ڈاؤن ہڑتال اورکوئٹہ کراچی اور کوئٹہ ڈیرہ غازی خان شاہراہوں کو بند رکھنے کا اعلان کیا ہے

بلوچستان بار کونسل نے لانگ مارچ کے شرکا کی گرفتاری اور ان پر تشدد کے خلاف جمعرات کو کوئٹہ سمیت بلوچستان بھر میں عدالتوں کا بائیکاٹ کیا

تربت، خاران، حب، کوہلو، بارکھان، گوادر میں بھی حق دو تحریک، بلوچ یکجہتی کمیٹی، آل پاکستان مری اتحاد، نیشنل پارٹی، بی ایس او سمیت مختلف سیاسی جماعتوں اور تنظیموں کے کارکنوں کی جانب سے احتجاجی مظاہرے اور ریلیاں نکالی گئیں

مظاہرین نے اسلام آباد میں بلوچستان سے جانے والے لانگ مارچ کے شرکا، لاپتہ افراد کے لواحقین، خواتین اور بچوں پر لاٹھی چارج، آنسو گیس کی شیلنگ، واٹر کینن کے استعمال اور گرفتاریوں کی مذمت کی

مظاہرین کا کہنا تھا کہ لانگ مارچ کے شرکا پُرامن احتجاج کر رہے تھے اور وہ سولہ سو کلومیٹر دور تربت سے اسلام آباد پہنچے تھے، لیکن سپریم کورٹ، پارلیمنٹ سمیت کسی وفاقی ادارے نے مظاہرین کی نہیں سنی اور ان کے زخموں پر مرہم رکھنے کی بجائے پولیس کے ذریعے تشدد کا نشانہ بنایا گیا

مظاہرین نے لانگ مارچ کے شرکا کے مطالبات تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ گرفتار افراد کو فوری رہا کر کے ان کے خلاف درج مقدمات ختم کیے جائیں۔

بلوچستان کی سیاسی جماعتوں نے بھی اسلام آباد میں مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال اور گرفتاریوں کی مذمت کی ہے۔
بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ و سابق وزیراعلیٰ سردار اختر مینگل نے کوئٹہ میں پارٹی کے ہنگامی اجلاس کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے عندیہ دیا کہ لانگ مارچ کے شرکا کو رہا نہ کیا گیا اور مسئلہ حل نہ کیا گیا تو بی این پی سے تعلق رکھنے والے گورنر بلوچستان ملک عبدالولی استعفٰی دے دیں گے۔

سردار اختر مینگل کا کہنا تھا کہ مزید غلطی کی گنجائش نہیں ہے، کیوں کہ وقت ہاتھ سے نکل رہا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں بلوچ مظاہرین کی پٹیشن

جبری گمشدگیوں کے خلاف لانگ مارچ کے شرکا کی گرفتاریوں اور تشدد کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں بلوچ مظاہرین سمی دین بلوچ اور سلام بلوچ کی طرف سے عدالت میں ایک پٹیشن بھی داخل کی گئی۔

پٹیشنرز کی جانب سے ایمان مزاری ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئیں۔ ایمان مزاری نے عدالت میں کہا کہ پر امن بلوچ مظاہرین بدھ کو اسلام آباد پہنچے جن پر لاٹھی چارج اور فورس کا استعمال کیا گیا اور انہیں حراست میں بھی لیا گیا جو غیر قانونی ہے۔ ایمان مزاری کا کہنا تھا کہ مظاہرین میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے نوٹس لیتے ہوئے آئی جی اسلام آباد اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو چار بجے طلب کیا۔

شام چار بجے عدالت میں پیش ہونے پر آئی جی اسلام آباد ڈاکٹر اکبر ناصر نے کہا کہ اسلام آباد میں سیکیورٹی کے حالات اور کرسمس کی وجہ سے سیکیورٹی ہائی الرٹ ہے۔ بدھ کی شب اسلام آباد کے داخلی راستے پر لوگوں نے دھرنا دیا، جس سے روڈ بلاک ہوئی، ہم نے درخواست کی کہ راستہ چھوڑ دیں لیکن ان لوگوں نے انکار کر دیا۔

آئی جی اسلام آباد نے کہا کہ بلوچستان سے آئے لوگ پریس کلب کے باہر 23 دن سے بیٹھے تھے لیکن اتنے دن سے وہ پرامن تھے لیکن گزشتہ رات ان لوگوں نے ریڈ زون کی طرف جانے کی کوشش کی۔ پریس کلب سے نکلنے والے مظاہرین ڈی چوک سے سو میٹر کے فاصلے پر پہنچے تو پولیس پر پتھراؤ کیا جس کی وجہ سے بعض پولیس اہلکار زخمی بھی ہوئے۔ لہذا اس صورتِ حال میں ایکشن لینا مجبوری تھی۔

آئی جی اسلام نے کہا کہ ہم نے کسی خاتون کو گرفتار نہیں کیا، کوئی بچہ گرفتار نہیں ہے۔ صرف ایک خاتون گرفتار ہوئیں جنہیں رہا کردیا گیا ہے۔ آئی جی کے مطابق درج ہونے والی دو ایف آئی آرز میں اس وقت 215 لوگ گرفتار ہیں۔

دورانِ سماعت عدالت نے آئی جی اسلام آباد کو ہدایت کی کہ آئی جی صاحب دیکھیے گا آپ کا کوئی آفیسر کوئی رکاوٹ نہ ڈالے جس پر آئی جی اسلام آباد نے یقین دہانی کرائی کہ ہمارے ملک کے بچے ہیں ہم خیال رکھیں گے۔ عدالت نے آئی جی اسلام آباد سے رپورٹ طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔

حکومتی کمیٹی

نگراں وزیرِ اعظم انوار الحق کاکڑ نے بلوچ یکجہتی مارچ میں شامل گرفتار خواتین کی فوری رہائی کا حکم دیا ہے

نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے اس معاملے پر تین حکومتی وزرا پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی، جس میں وزیرِ اطلاعات مرتضیٰ سولنگی، وزیرِ نجکاری فواد حسن فواد اور وزیرِ ثقافت جمال شاہ شامل ہیں۔

جمعرات کی شام پریس کانفرنس کرتے ہوئے کمیٹی کے اراکین نے دعویٰ کیا کہ تمام گرفتار مظاہرین کو شناخت کے بعد رہا کر دیا گیا ہے اور صرف وہ افراد زیرِ حراست ہیں، جن کی ابھی شناخت نہیں ہو سکی۔

نگراں وزیراطلاعات مرتضیٰ سولنگی کا کہنا تھا کہ حکومت کا سختی کا کوئی ارادہ نہیں تھا لیکنن مستند اطلاعات موجود تھیں کہ کوئی دہشت گردی کا واقعہ بھی پیش آ سکتا ہے۔

نگران وفاقی وزیر فواد حسن فواد کے بقول، کچھ مقامی افراد نے چہرے ڈھانپ کر صورتحال کو خراب کرنے کی کوشش کی، گزشتہ 23 روز سے کچھ لوگ پریس کلب کے سامنے بیٹھے ہوئے تھے، اسلام آباد ہائی کورٹ کے احکامات کے مطابق رپورٹ کل عدالت میں پیش کی جائے گی صرف وہ لوگ تحویل میں ہیں جن کی شناخت نہیں ہوئی۔

لانگ مارچ کا پس منظر

یہ لانگ مارچ حراست میں لئے گئے تربت کے رہائشی بالاچ بلوچ سمیت چار افراد کی پولیس مقابلے میں ہلاکت کے خلاف چھ دسمبر کو مکران ڈویژن کے ضلع کیچ کے علاقے تربت سے شروع ہوا تھا

چاروں افراد کو کاؤنٹر ٹیررازم پولیس ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی ) نے 22 نومبر کی شب ایک مقابلے میں ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ تاہم لواحقین کا الزام ہے کہ چاروں افراد کو جعلی پولیس مقابلے میں مارا گیا

بالاچ کے والد مولا بخش کے مطابق بالاچ کو 29 اکتوبر کو تربت کے علاقے آبسر میں اپنے گھر سے اہلخانہ کے سامنے گرفتار کرکے لاپتہ کردیا تھا اور پھر چند دنوں بعد اس کی گرفتاری ظاہر کرکے عدالت میں پیش کیا گیا

ان کا کہنا تھا کہ عدالت نے بالاچ کو سی ٹی ڈی پولیس کو جسمانی ریمانڈ پر حوالے کیا مگر اس دوران پولیس نے انہیں جعلی مقابلے میں ماردیا۔ تاہم سی ٹی ڈی کا کہنا ہے کہ بالاچ بلوچ کالعدم بلوچ لبریشن آرمی کا رکن تھا جس کی نشاندہی پر دہشتگردوں کے ٹھکانے پر چھاپہ مارا گیا، جہاں وہ اپنے ساتھیوں کی فائرنگ سے مارا گیا- ان کے تین دہشتگرد ساتھی جوابی پولیس کارروائی میں مارے گئے

بالاچ بلوچ کی ہلاکت پر سی ٹی ڈی تربت کے چار اہلکاروں کو معطل کر کے ان کے خلاف عدالتی احکامات پر مقدمہ درج کیا گیا

بالاچ بلوچ کے لواحقین اور بلوچ یکجہتی کمیٹی نے پہلے کئی دنوں تک میت کے ہمراہ تربت میں دھرنا دیا، پھر میت کی تدفین کی لیکن دھرنا دو ہفتے تک جاری رہا

سی ٹی ڈی کو غیر مسلح کرنے، جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت کارروائیوں کی روک تھام اور لاپتہ افراد کی بازیابی جیسے مطالبات لے کر دھرنے کے شرکاء نے 6 مارچ کو تربت سے لانگ مارچ شروع کر دیا

مارچ پنجگور، بسیمہ ، نال، گریشہ، خضدار، سوراب، قلات اور مستونگ سے ہوتا ہوا 11 دسمبر کو کوئٹہ پہنچا تھا۔ کوئٹہ میں احتجاج کی اجازت نہ ملنے پر بلوچ یک جہتی کمیٹی نے اسلام آباد کی طرف مارچ شروع کیا۔ کوہلو، بارکھان ، ڈیرہ غازی خان اور تونسہ میں مارچ کے شرکاء کا بڑا استقبال ہوا

احتجاج میں لاپتہ افراد کے لواحقین اور خواتین کی بڑی تعداد بھی شریک رہی۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیر اہتمام اس مارچ کی قیادت ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور لاپتہ ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی بیٹی سمی دین بلوچ کر رہی تھیں۔

ماہ رنگ کے مطابق تربت سے اسلام آباد تک انتظامیہ نے جگہ جگہ رکاوٹیں کھڑی کرکے مارچ کا راستہ روکنے کی کوشش کی۔ نال، خضدار اور کوہلو میں مارچ کے شرکاء پر تین مقدمات درج ہو چکے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close