پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے فروری کے انتخابات میں کراچی کے علاقے لیاری پر مشتمل قومی اسمبلی کے اس حلقے سے کاغذات نامزدگی ہی جمع نہیں کروائے، جہاں سے انہوں نے 2018 کے الیکشن میں اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز کیا تھا
حتیٰ کہ وہ سندھ کے دارالحکومت کراچی کی کسی بھی قومی یا صوبائی اسمبلی کی نشست سے انتخابات نہیں لڑ رہے ہیں
مزید یہ بھی کہ بلاول بھٹو کی ہمشیرہ آصفہ بھٹو زرداری نے بھی لیاری سمیت کسی بھی حلقے سے کاغذات نامزدگی جمع نہیں کرائے
پیپلز پارٹی کے کسی رہنما کی زبان پر یب بھی لیاری کا ذکر آتا ہے تو وہ اسے پیپلز پارٹی کا گڑھ یا سیاسی قلعہ کہے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ خود بانی پیپلز پارٹی ذوالفقار علی بھٹو نے نئی سیاسی جماعت کا پہلا جلسہ لیاری میں کیا تھا جبکہ انہوں نے ایک مرتبہ لیاری سے الیکشن بھی لڑا تھا
محترمہ بینظیر بھٹو 1986 میں جب خود ساختہ جلاوطنی ختم کرنے کے بعد وطن واپس پہنچیں تو سندھ میں انہوں نے پہلا جلسہ لیاری میں ہی کیا تھا۔
محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کی شادی کی تقریب بھی لیاری کے ککری گراؤنڈ میں ہوئی تھی۔
بے نظیر بھٹو نے لیاری سے 1988 اور آصف علی زرداری نے 1993 میں الیکشنز لڑے۔
18 اکتوبر 2007 کو جب محترمہ بینظیر بھٹو کے استقبالیہ جلوس پر کارساز کے قریب حملے میں ہلاک اور زخمی ہونے والے کارکناں کی اکثریت کا تعلق لیاری سے تھا
ان میں اکثریت لیاری کے وہ نوجوان تھے، جو بی بی کی سکیورٹی کے لیے بنائی گئی ’جا نثارانِ بینظیر‘ گروپ میں شامل تھے۔
بلاول بھٹو نے 2018 کے انتخابات میں لیاری کے قومی اسمبلی کے حلقے این اے 246 سے حصہ لیا تھا، تاہم انہیں یہاں سے شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا
ان انتخابات میں این اے 246 لیاری سے سب سے زیادہ ووٹ پاکستان تحریک انصاف کے عبدالشکور شاد نے حاصل کیے تھے، جبکہ دوسرے نمبر پر تحریکِ لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے احمد رہے تھے۔
پیپلز پارٹی کا گڑھ کہلانے والے اس علاقے سے بلاول بھٹو تیسرے نمبر پر رہے تھے۔
لیاری میں قومی اسمبلی کے اس حلقے کے نمبر تبدیل ہوتے رہے ہیں۔ ماضی میں یہ قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 248 تھا جو 2018 کے الیکشنز میں این اے 246 بن گیا
گذشتہ مردم شماری کی بنیاد پر الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے نئی حلقہ بندیوں کے بعد کراچی میں قومی اسمبلی کی ایک نشست کے اضافے کے بعد یہ نشستیں 21 سے بڑھ کر 22 ہوگئیں اور لیاری کے حلقے کا نمبر این اے 246 سے تبدیل ہوکر این اے 239 ہوگیا ہے۔
2024 کے عام انتخابات کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے پارٹی کے سینئر رہنما سینیٹر یوسف بلوچ اور نبیل گبول نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں
اس کے علاوہ قومی اسمبلی کے اس حلقے این اے 239 پر سابق چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمان، جمعیت علمائے اسلام یا جے یو آئی (ف) کے مولانا نورالحق، سندھ میں پی پی پی مخالف سیاسی اتحاد گرانڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) کی شائستہ امیر چانڈیو نے بھی کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔
اس حوالے سے سینیئر سیاسی تجزیہ نگار اور کالم نگار سہیل سانگی کہتے ہیں ”گذشتہ الیکشن میں بلاول بھٹو کی لیاری سے بری شکست کے بعد پی پی پی کو خوف تھا کہ اس بار بھی ہار جائیں گے، اس لیے بلاول بھٹو کے بجائے پارٹی کے دیگر رہنماؤں کو لیاری سے لڑایا جا رہا ہے“
سہیل سانگی نے کہا ”لیاری ماضی میں پاکستان پیپلز پارٹی کا سیاسی قلعہ مانا جاتا تھا، مگر بعد میں حکومت میں آنے کے باجود پی پی پی جانب سے پانی، گیس سمیت بنیادی ترقیاتی منصوبے نہ دینے سے لوگ پی پی پی سے باغی ہو گئے۔ لیاری میں کچھ عرصے کے دوران دیگر سیاسی قوتیں بھی آ گئی ہیں۔ پی پی پی قیادت کی جانب سے لیاری کی عوام کے بجائے صرف طاقتور شخصیات سے رابطہ رہا، اس لیے لوگوں نے دیگر جماعتیں بھی جوائن کر لیں“
سہیل سانگی کے مطابق گذشتہ کچھ عرصے لیاری میں مذہبی ووٹ بھی بڑھا ہے، جس کا اندازہ 2018 کی الیکشن میں تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کو دوسرے نمبر پر ملنے والے ووٹ سے لگایا جا سکتا ہے
دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کراچی ڈویژن کے صدر اور سابق صوبائی وزیر سعید غنی اس تاثر کو یکسر مسترد کرتے ہیں کہ پی پی پی حکومت نے لیاری میں ترقیاتی کام نہیں کیے اور وہاں سے پی پی پی کا ووٹ بینک ختم ہونے کے باعث بلاول بھٹو نے لیاری سے الیکشن نہ لڑنے کا فیصلہ کیا
سعید غنی کہتے ہیں ”لیاری پیپلز پارٹی کا سیاسی گڑھ ضرور ہے مگر یہ تاثر دینا کہ لیاری پی پی پی یا بھٹوز کا آبائی حلقہ ہے، درست نہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو لیاری سے ایک بار الیکشن لڑے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھی ایک بار 1998 میں لیاری سے انتخابات میں حصہ لیا۔ آصف علی زرداری نے ایک بھی بار 1993 کے انتخابات میں لیاری سے لیکشن لڑا۔ اس طرح بلاول بھٹو نے 2018 میں لیاری سے الیکشن میں حصہ لیا“
انہوں نے مزید کہا ”ضروری نہیں ہے کہ ہر بار لیاری سے ہی الیکشن لڑا جائے۔ یہ پارٹی کا فیصلہ تھا۔ دوسری بات کہ بلاول خود بھی زیادہ نسشتوں پر انتخاب لڑنا چاہتے ہیں۔ کیوں کہ الیکشن جیتنے کی صورت میں صرف ایک سیٹ ہی رکھنا ہے تو اس سیٹ پر دوبارہ کسی اور کے الیکشن لڑنے سے ووٹ کی تعداد میں فرق آ جاتا۔ گذشتہ الیکشن میں بلاول بھٹو نے تین حلقوں سے الیکشن لڑا اور اس بار بھی تین حلقوں سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔“
سعید غنی نے گزشتہ انتخابات میں لیاری سے بلاول بھٹو کی شکست کی توجیہ پیش کرتے ہوئے کہا، ”2018 میں عام انتخابات کیسے ہوئے تھے؟ یہ ہر کسی کو پتہ ہے۔ اس لیے یہ کہنا کہ لیاری سے گذشتہ الیکشن میں بلاول کو ہرانے سے پی پی پی کا صفایہ ہو گیا، درست نہیں“
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’ہم نے گذشتہ بلدیاتی الیکشن کے دوران لیاری سے تاریخی فتح حاصل کی۔ پی پی پی کے امیدوار لیاری کے ان حلقوں سے بھی کامیاب ہوئے، جہاں پی پی پی نے کبھی نہیں جیتا تھا۔ لیاری میں پی پی پی نے کام کیا تب ہی بلدیاتی الیکشن جیتا ہے۔ آنے والے الیکشن میں پی پی پی لیاری سے بھاری اکثریت سے جیتے گی۔‘