پیپلز پارٹی کی بنیاد لاہور میں رکھی گئی تھی یا پیرس میں؟

ویب ڈیسک

عام طور پر مشہور ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد نومبر دسمبر1967 میں پنجاب کے دارلحکومت لاہور میں ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر میں رکھی گئی تھی، لیکن درحقیقت اس پارٹی کی بنیاد ایک سال قبل پیرس میں ایک بنگالی دانشور پہلے ہی رکھ چکے تھے

جب اکتوبر 1958 میں جب اسکندر مرزا نے پاکستان میں پہلا مارشل لگایا تو ذوالفقار علی بھٹو کو بھی کابینہ میں بطور وزیرِ تجارت شامل کر لیا۔ اس کے 20 دن بعد جب جنرل ایوب خان نے 27 اکتوبر 1958 کو اسکندر مرزا کو استعفیٰ دینے پر مجبور کر کے اپنی نئی کابینہ کا اعلان کیا تو اس میں بھی بھٹو شامل تھے۔

تقریباً پانچ سال بعد 23 جنوری 1963 کو سابق وزیراعظم پاکستان اور وزیرخارجہ محمد علی بوگرہ کی وفات کے بعد اگلے دن ذوالفقار علی بھٹو کو پاکستان کا وزیرخارجہ مقرر کیا گیا۔ انہیں 21 جون 1964 کو فیلڈ مارشل ایوب خان نے ’ہلالِ پاکستان‘ کے اعزاز سے نوازا۔ بعد ازاں معاہدہ تاشقند کے حوالے سے ایوب اور بھٹو میں اختلافات پروان چڑھے

10 جنوری 1966 کو جب سویت یونین کی ثالثی سے پاکستان اور انڈیا کے درمیان تاشقند معاہدہ ہوا تو ذوالفقار علی بھٹو بھی اس موقعے پر پاکستانی وفد کا حصہ تھے۔

اسی سال 12 اپریل کو ذوالفقار علی بھٹو نے بیان دیا کہ پاکستان مسئلہ کشمیر کو ایک بار پھر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں لے کر جائے گا۔ اس سے قبل وہ نو فروری کو کہہ چکے تھے کہ معاہدہ تاشقند کشمیر کے مسئلے کا حل نہیں ہے اور کشمیر کی آزادی کا وعدہ پورا کیا جائے گا۔

معاہدہ تاشقند کے دوران پاکستان اور انڈیا نے آپس کے اختلافات کو پر امن طور پر حل کرنے کا اعلان کیا لیکن اسی معاہدے نے ایوب خان اور ذوالفقار علی بھٹو کے درمیان اختلافات کی بنیاد رکھ دی۔ بھٹو سمجھتے تھے کہ پاکستان نے معاہدہ تاشقند پر دستخط کر کے کشمیر کو انڈیا کی جھولی میں ڈال دیا۔

اس معاہدے کے چند ہفتے بعد 29 جنوری کو ایوب خان کے ایک بیان میں کہا گیا کہ ان کے ذوالفقار علی بھٹو کے درمیان اختلافات کی خبریں بے بنیاد ہیں اور کابینہ میں کوئی تبدیلی نہیں کی جا رہی، لیکن پھر 17 جون 1966 کو حکومت نے اعلان کیا کہ صدر پاکستان نے ذوالفقار علی بھٹو کو خرابیِ صحت کی بنیاد پر لمبی رخصت پر جانے کی اجازت دے دی ہے۔ یہ دراصل ان کا اپنی وزارت سے بے ضابطہ استعفیٰ تھا۔

جبکہ حکومت نے ان کی برخاستگی کا اعلان آٹھ جولائی کو کیا جس میں کہا گیا کہ بھٹو 31 اگست کو اپنے عہدے سے دستبردار ہو جائیں گے۔

پھر 22 جون کو بھٹو راولپنڈی کے کراچی کے لیے روانہ ہوئے لیکن انہوں نے یہ سفر بذریعہ ٹرین کرنے کا فیصلہ کیا اور لاہور، لاڑکانہ سے ہوتے ہوئے کراچی پہنچے۔

راستے میں آنے والے شہروں میں عوام کی بڑی تعداد ان کے استقبال کے لیے موجود رہی۔ شاید اسی استقبال کو دیکھتے ہوئے بھٹو نے سیاسی میدان میں طبع آزمائی کا فیصلہ کیا۔

پیپلز پارٹی کی تاریخ پر کتاب لکھنے والے اسٹینلی وولپرٹ اپنی کتاب ’ذلفی بھٹو آف پاکستان‘ میں لکھتے ہیں اگست 1966 میں ذوالفقار علی بھٹو جب پیرس سے لندن پہنچے تو انہوں نے اولڈ کونوے ہال میں پاکستانی طلبہ کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا ’تاثر یہی ہے کہ میری صحت اچھی نہیں ہے۔ لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میری صحت جتنی بھی خراب ہو یہ انڈیا کے لیے کافی ہے۔‘

لاہور کے فورمین کرسچن کالج میں بطور استاد پڑھانے والے اور پاکستان پیپلز پارٹی کی اساس پر پی ایچ ڈی کرنے والے فلپ ایڈورڈ جونز اپنی تصنیف ’دی پاکستان پیپلز پارٹی: رائز ٹو پاور‘ میں لکھتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کابینہ سے نکلنے کے بعد کونسل مسلم لیگ اور نیشنل عوامی پارٹی میں شمولیت میں دلچسپی رکھتے تھے، تاہم وہ کسی بھی جماعت میں شامل نہ ہوئے لیکن ترقی پسند جماعت نیپ کے ساتھ ان کی بات کافی آگے بڑھ چکی تھی۔

بہرحال 1966 میں سامنے آنے والے ان اختلافات کو عروج اس وقت ملا، جب 30 نومبر 1967 کو لاہور میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی بنیاد رکھنے کا اعلان کیا گیا

30 نومبر اور یکم دسمبر 1967 کو لاہور میں ڈاکٹر مبشر حسن کی رہائش گاہ چار کے گلبرگ میں ہونے والے ایک اجلاس میں نئی پارٹی کی بنیاد رکھنے کا فیصلہ کیا گیا اور اس جماعت کو پاکستان پیپلز پارٹی کا نام دیا گیا۔

اسی اجلاس میں پارٹی کے چار رہنما اصول بھی منظور کیے گئے جو کچھ یوں تھے:

اسلام ہمارا دین ہے۔
جمہوریت ہماری سیاست ہے۔
سوشلزم ہماری معیشت ہے۔
طاقت کا سرچشمہ عوام ہے۔

اس اجلاس میں ذوالفقار علی بھٹو کے علاوہ جو شخصیات شریک تھیں ان میں رسول بخش تالپور، حنیف رامے، شیخ محمد رشید، حیات خان شیرپاؤ، عبدالوحید کٹپر، معراج محمد خان، حق نواز گنڈاپور، ڈاکٹر مبشر حسن، جے اے رحیم، بیگم شاہین رامے، ملک حامد سرفراز، اسلم کورداسپوری شامل تھے۔

اسی اجلاس کے دوران ذوالفقار علی بھٹو کو پارٹی چیئرمین اور جے اے رحیم کو سیکرٹری جنرل منتخب کیا گیا۔

تاہم ذوالفقار علی بھٹو کی سیاست اور پیپلز پارٹی کی تاریخ پر کتاب لکھنے والے اسٹینلی وولپرٹ اپنی کتاب ’ذلفی بھٹو آف پاکستان‘ میں پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھنے کے حوالے سے دلچسپ انکشاف کرتے ہیں۔

ذوالفقار علی بھٹو کے ’پرزن سیل ہولوگراف‘ یا جیل میں لکھے گئے نوٹس کی بنیاد پر وولپرٹ لکھتے ہیں کہ 1966 میں بھٹو بیروت سے پہلے جینیوا اور پیرس پہنچے، جہاں ان کی ملاقات جلال الدین عبدالرحیم (جے اے رحیم) سے ہوئی۔

جلال الدین عبدالرحیم ایک کمیونسٹ دانشور تھے، جن کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا۔ وہ پاکستان پیپلز پارٹی کے پہلے سیکرٹری جنرل بھی تھے۔

اسٹینلی وولپرٹ کے مطابق ذوالفقار علی بھٹو جے اے رحیم کی فہم فراست کے قائل تھے اور انہوں نے اس بارے میں لکھا کہ ’ان کی ذہانت، ان کی فراست اور ان کا علم، خارجہ امور پر ان کی گرفت، ان کے لکھنے کی مہارت، ان کی سیاسی سمجھ بوجھ اور دیگر خصوصیات، وہ سوشلزم پر یقین رکھتے ہیں اور جدیدیت پر بھی۔‘

بھٹو نے مزید لکھا کہ ’دراصل انہوں نے اور میں نے اس کی بنیاد پیرس میں 1966 میں رکھ دی تھی۔ انہوں نے اساسی دستاویز پر بہت محنت سے کام کیا۔‘

اسٹینلی وولپرٹ کے مطابق ’جے اے رحیم نے پپیلز پارٹی کا منشور اکتوبر 1966 میں تیار کر کے پرنٹ کر لیا تھا اور پھر پیرس سے بھٹو کو خط لکھ کر اس بارے میں آگاہ کیا۔‘

جے اے رحیم نے لکھا ’منشور تیار ہو چکا ہے اور تحریک کی بنیاد رکھ دی گئی ہے۔ میں منصوبے کے مطابق کام جاری رکھوں گا اور ہم امید کرتے ہیں کہ آپ اپنا کردار ادا کریں گے۔ خاموش رہنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ لوگوں کو اس بات کا علم ہونا چاہیے کہ موجودہ بدعنوان حکومت کا متبادل موجود ہے۔ یہ منشور ہمارے لیے رہنما کا کام کرے گا۔‘

عوام میں اپنی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو نے جے اے رحیم کے ہمراہ 16 ستمبر 1967 کو سندھ کے شہر حیدرآباد میں میر رسول بخش تالپور کی رہائش گاہ پر ایک نئی جماعت بنانے کے ارادے کا عوامی طور پر اعلان کیا۔

اس اعلان کے مطابق یہ ایک قومی ترقی پسند جماعت ہوگی، جس کی جڑیں مشرقی اور مغربی پاکستان دونوں میں گہری ہوں گی۔

اس اعلان کے بعد نئی جماعت کی اساس رکھنے کے لیے 30 نومبر اور یکم دسمبر کی تاریخ کا فیصلہ کیا گیا۔

فلپ ایڈورڈ جونز کے مطابق اس اجلاس کے لیے لاہور کا انتخاب اس لیے کیا گیا، کیونکہ اس شہر میں بھٹو کی حمایت زیادہ تھی، دوسری وجہ پاکستانی سیاست میں لاہور کی تاریخی اہمیت تھی۔

اس کے علاوہ یہ بات بھی لاہور کو اہم بناتی تھی کہ وہ پنجاب کا سب سے بڑا شہر تھا اور پنجاب مغربی پاکستان میں آبادی کے لحاظ سے بڑا صوبہ تھا۔

جے اے رحیم تحریکِ پاکستان میں شامل رہے تھے لیکن وہ ایک مارکسٹ دانشور اور سابق سول سرونٹ بھی تھے۔ وہ 1965 تک سیاسی طور پر غیر فعال رہے، لیکن حکومت میں آنے کے بعد ان دونوں شخصیات میں بھی اختلافات پیدا ہونے لگے اور جب بھٹو نے سوشلسٹ پالیسیوں کو ترک کرتے ہوئے دائیں بازو کی جماعتوں کے دباؤ میں فیصلے کرنا شروع کیے تو دونوں کے اختلافات کھل کر سامنے آ گئے۔

فلپ جونز لکھتے ہیں کہ بھٹو چاہتے تھے کہ جے اے رحیم فرانس میں پاکستان کے سفیر کا عہدہ سنبھال لیں لیکن جے اے رحیم اس پر راضی نہ تھے۔

1975 میں جے اے رحیم کراچی میں بھٹو سے ملاقات کے لیے 70 کلفٹن میں ان کی رہائش گاہ پر موجود تھے، لیکن ملاقات کا موقع نہ مل سکا۔ کافی دیر انتظار کرنے کے بعد انہوں نے کہا ’میں لاڑکانہ کے مہاراجہ کا مزید انتظار نہیں کروں گا۔‘

اس سے اگلے ہی دن بھٹو کے سکیورٹی گارڈز کے ایک گروپ نے جے اے رحیم کے گھر پر دھاوا بول دیا اور انہیں تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد انہیں قید کر دیا گیا۔ بھٹو نے جے اے رحیم پر اپنی قوم کی بےعزتی کرنے کا الزام عائد کیا، لیکن جلد ہی انہیں رہا کرتے ہوئے ان سے معافی مانگ لی۔ جے اے رحیم کا انتقال 1977 میں ہوا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close