کہتے ہیں کہ پہلی عالمی جنگ میں برطانوی فوج کے گورکھا رجمنٹ میں موجود ایک ہندوستانی فوجی کو جرمن فوجیوں نے قید کر لیا، جس کی دونوں ٹانگیں زخمی کردی گئیں تھیں۔ اس کی زندگی بچانے کے لیے اس کی ایک ٹانگ کاٹنا ضروری تھا اور جرمن چیف سرجن اس مقصد کے لیے اس کی رضامندی یا کم از کم اعتماد کی کوئی علامت چاہتا تھا، لیکن انگریزی زبان نہ تو ہندوستانی فوجی اور نہ ہی جرمن میڈیکل آفیسرز جانتے تھے۔ انہوں نے اس سے جتنی زیادہ بات کرنے کی کوشش کی، وہ اتنا ہی پریشان اور خوفزدہ ہوا۔ شاید اس گورکھا سپاہی نے قیدیوں کے ساتھ دشمن کے سلوک کے بارے میں خوفناک کہانیاں سن رکھی تھیں۔
تبھی جرمن سرجن نے ’واحد ہندوستانی لفظ‘ کے بارے میں سوچنا شروع کیا، جو وہ جانتا تھا۔۔ پسینے سے شرابور اس جرمن فوجی سرجن نے جھکتے ہوئے سرگوشی کی: ’رابندر ناتھ ٹیگور!‘ تین بار اس نے یہ دوہرایا۔ یہ سنتے ہی ہندوستانی فوجی کے چہرے پر سکون نظر آنے لگا، ایک شرمیلی مسکراہٹ آنکھوں میں آئی، پھر اس نے آنکھیں بند کر لیں۔ اس کا خوف ختم ہو گیا اور اس نے جرمن ڈاکٹروں سے اپنی رضامندی کا اظہار کر دیا۔
رابندر ناتھ ٹیگور۔۔ جرمن سرجن کی زبان سے ادا ہونے والے یہ الفاظ ایک موسیقار، ایک شاعر، ایک ناول نگار، ایک فلسفی، ایک مصلح، ایک مصنف، ایک ڈرامہ نگار اور ایک پینٹر کے طور پر عالمی شہرت حاصل کرنے والے شہرہ آفاق شخصیت کا نام تھے۔۔
رابندر ناتھ ٹیگور کی پیدائش آج سے 163 سال پہلے 7 مئی 1861 میں، بنگال میں ہوئی۔ وہ دبیندر ناتھ ٹیگور کی چودھویں اولاد تھے۔ والد صاحب برہمو سماج تحریک کے سربراہ تھے۔ کلکتہ کے جورسانکو میں خاندانی گھر ثقافتی اور فکری سرگرمی کا ایک مرکز تھا۔
ٹیگور کی تعلیم روایتی طریقہ سے تھوڑی ہٹ کر ہوئی۔ چار اسکول تبدیل کرنے کے بعد بالآخر انہیں گھر میں ہی تعلیم دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ لہٰذا اب ٹیگور اساتذہ اور اپنی مدد آپ ہی سے گھر میں زیرِ تعلیم تھے جو زیادہ تر ادبی علوم کی نوعیت، اور سنسکرت، انگریزی اور بنگالی زبان میں ہوتی تھی۔ 1936ع میں شانتی نکیتن کے بانی اس تعلیم دان نے شانتی نکیتن میں سامعین سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا تھا کہ ہمارا ملک بے شمار ذرائع سے مردہ ذہن افراد کو تعلیمی مقاصد کے لیے اعلٰی سطح تک پہنچنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔ شانتی نکیتن کی بنیاد ڈالنے کے پیچھے وہی روایتی تعلیم سے بغاوت کا عنصر تھا، جس نے 1901 ء میں شانتی نکیتن کی بنیاد رکھی۔ 1901 میں ٹیگور نے سلاڈاما سے شانتی نکیتن نقل مکانی کی اور وہاں ایک غیر روایتی اسکول کی بنیاد ڈالی۔
ٹیگور بچپن سے ہی غیر معمولی قدروں کے حامل انسان رہے۔ ان کا ایک پسندیدہ مشغلہ اعلٰی درجے کے ڈرامے دیکھنا تھا۔ جس طرح کے ڈرامے وہ پسند کرتے تھے ان کی عمر کی مناسبت سے انہیں صحیح نہیں سمجھا جاتا تھا۔ ان کی ڈرامہ بینی کی باقاعدہ حوصلہ شکنی ہوتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ ان کو یہ ڈرامے خفیہ طور پر حاصل کرنا پڑتے تھے اور چھپ چھپاکر دیکھنے پڑتے تھے۔
ٹیگور کو ان کی شعری تخلیق ’گیتانجلی‘ کے لیے سنہ 1913 میں ادب کے نوبل انعام سے نوازا گیا جو کہ کسی بھی انڈین کو کسی بھی شعبے میں ملنے والا پہلا نوبل انعام تھا۔ وہ دنیا کے واحد ایسے شاعر ہیں جن کے گیت کم از کم دو ممالک انڈیا اور بنگلہ دیش کے قومی گیت ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ ٹیگور سے جارج پنجم کی مدح میں نظم لکھنے کو کہا گیا تو انہوں نے اس درخواست کو مسترد کر دیا اور اپنے ملک کے نام ایک نظم لکھی، جو سنہ 1911-12 میں کانگریس کے اجلاس میں پڑھی گئی۔ آج یہی نظم انڈیا کا قومی ترانہ ’جن گن من۔۔۔‘ ہے۔
’امار سونار بنگلا‘ بھی انہی کا گیت ہے، جسے ان کی موت کے تقریباً تیس سال بعد بنگلہ دیش کے وجود میں آنے پر قومی گیت کے روپ میں اختیار کیا گیا۔
مزید برآں سری لنکا کے قومی ترانے کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ اگرچہ یہ ان کا لکھا ہوا نہیں ہے لیکن وہ ان کے افکار و خیالات سے متاثر ہے، کیونکہ اس گیت کے مصنف اس گیت کی تحریر کے وقت ان کے قائم کردہ تعلیمی ادارے شانتی نکیتن میں تھے اور وہ ان سے بہت زیادہ متاثر تھے۔
شاعری رابندرناتھ ٹیگور کی روح میں بسی ہوئی تھی، انہوں نے دس سال سے کم عمر میں ہی شاعری شروع کر دی تھی، جبکہ ان کی پہلی کہانی سترہ سال کی عمر میں شائع ہو گئی تھی۔
ٹیگور کو عام طور پر ’گُرو دیو‘ یعنی ’استادِ محترم‘ بھی کہا جاتا ہے اور اس کے بارے میں یہ خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ پہلے پہل مہاتما گاندھی نے ان کے لیے یہ لقب استعمال کیا تھا، جبکہ یہ ٹیگور ہی تھے، جنہوں نے گاندھی کو سب سے پہلے ’مہاتما‘ کے لقب سے یاد کیا تھا۔
اس عظیم بنگالی شاعر نے ابتدائی تعلیم گھر میں حاصل کی تھی، لیکن ان کے بڑے بھائی نے انہیں وکالت کی ڈگری کے لیے انگلستان روانہ کیا تھا، جہاں سے وہ تعلیم ادھوری چھوڑ کر چلے آئے تھے۔ بائیس تئیس سال کی عمر میں ان کی شادی ایک دس سالہ دیہاتی لڑکی مرنالنی سے کر دی گئی تھی۔۔ لیکن اس کے بعد ایک ایسا واقعہ پیش آیا، جس نے آگے چل کر کئی کہانیوں کو جنم دیا۔۔ ہوا کچھ یوں کہ ٹیگور کی شادی کے کوئی چھ ماہ کے اندر ان کی بھابھی کادمبری نے خودکشی کر لی۔
اس خودکشی کی کئی توجیہ پیش کی گئیں۔ نتیہ پریہ گھوش ٹیگور کے متعلق ایک تصنیف ’رابندرناتھ ٹیگور: اے پکٹوریل بایوگرافی‘ میں لکھتے ہیں کہ ٹیگور کی موت کے بعد بھی کادمبری کی خودکشی کے بارے میں قیاس آرائياں جاری ہیں۔ کوئی انہیں خبطی یا پاگل قرار دیتا ہے، جبکہ کسی کا کہنا ہے کہ ان کے شوہر کے تغافل نے ان کی جان لی۔۔ جبکہ ایک اداکارہ سے ان کے حسد کے بارے میں بھی بتایا جاتا ہے، جن سے ان کے شوہر بہت قریب تھے۔ کوئی اس بات کا قائل ہے کہ وہ رابندرناتھ ٹیگور سے محبت کرتی تھیں اور ان کی شادی کی وجہ سے انہیں بہت دکھ پہنچا تھا، اس لیے انہوں نے خودکشی کر لی۔۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انہوں نے خودکشی سے قبل ایک خط تحریر کیا تھا، جسے دیویندرناتھ کے حکم پر ضائع کر دیا گیا تھا۔
کادمبری دیوی دراصل نو سال کی تھیں، جب وہ رابندر ناتھ کے خاندان میں ان کے بڑے بھائی کی دلہن کے طور پر داخل ہوئیں، ٹیگور سات سال کے تھے۔ بچپن کی ساتھی ہونے کی وجہ سے وہ دونوں ایک ساتھ پلے بڑھے۔
ٹیگور کی والدہ کے انتقال کے بعد، ان کی دوستی ایک مادرانہ ممتا جیسی تھی، جو ایک رومانوی رشتے میں بدل گئی اور تین مرحلوں میں آگے بڑھی۔ سب سے پہلے ان کے بچپن کی شہزادی کے طور پر، دوم – ایک ماں کے طور پر اور تیسری – جب دونوں کو ایک ساتھ شاعری سے پیار ہو گیا۔
کادمبری دیوی کو ایک ایسی لڑکی کے طور پر جانا جاتا تھا، جنہوں نے اپنی ابتدائی زندگی میں ٹیگور کی دیکھ بھال کی اور بعد کی زندگی میں ان کی کامیابی کا حصہ رہیں۔ ٹیگور نے اسے ’ہیکیٹ‘ کہا، جو چاند سے منسلک یونانی دیوی ہے۔
رویندر ناتھ کی طرح، ان کے بڑے بھائی جیوتندر ناتھ کے پاس متعدد مہارتیں تھیں کیونکہ وہ پینٹنگ، ایڈیٹنگ اور موسیقی میں اچھے تھے۔ انہوں نے اپنے خاندانی کاروبار کی دیکھ بھال کی اور اپنا کاروبار شروع کیا، جس سے انہیں بھاری نقصان اٹھانا پڑا اور جلد ہی انہوں نے اس سے دستبرداری اختیار کر لی۔ کھلے ذہن کے انسان ہونے کے ناطے انہوں نے کادمبری دیوی کو تعلیم حاصل کرنے میں مدد کی اور انہیں گھڑ سواری بھی سکھائی۔ اپنے مصروف شیڈول کے باعث شاید ہی وہ اپنی بیوی کے لیے زیادہ وقت نکال سکے۔ لہذا، وہ تنہائی محسوس کرتی تھیں اور صحبت کے لیے بھوکی تھیں۔
1883 میں، جب ٹیگور 22 سال کے ہوئے، انہوں نے 11 سالہ لڑکی بھاباترینی دیوی سے رشتہ جوڑا اور اس کا نام تبدیل کر کے مرنالنی رکھ دیا۔
کادمبری دیوی کبھی نہیں چاہتی تھیں کہ ٹیگور شادی کریں، اس لیے انہوں نے چپکے سے شادی کو روکنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہیں۔
19 اپریل 1884 کو کادمبری دیوی نے ٹیگور کی شادی کے ٹھیک 4 ماہ اور 10 دن بعد افیون کھا کر خودکشی کر لی۔ ٹیگور ان کی ناگہانی موت سے ہل گئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنی بہت سی نظمیں ان کے لیے وقف کیں۔
1881 میں ٹیگور کی پہلی کتاب (جب کہ اس سے پہلے ان کی شاعری پر مبنی ایک کتاب قلمی نام بھانو سنگھا سے 1878 میں شائع ہو چکی تھی) ’بھاگنا ہریڈے‘ شایع ہوئی۔ یہ کتاب جس کے نام کی گئی تھی، اس کا بنگالی سے ترجمہ شدہ مطلب ’For Lady Hé‘ بنتا ہے۔ بعد کی زندگی میں رابندر ناتھ نے ایک گفتگو میں اعتراف کیا کہ ’Hé‘ دراصل ہیکٹیٹ سے لیا گیا ہے اور اسی نام سے وہ کدامبری کو پکارتے تھے۔
ٹیگور نے تین سے چار کتابیں کدامبری کی حیات میں اس کے نام کیں اور دو اس کے مرنے کے بعد کیں۔ 1901 میں رابندر ناتھ نے کدامبری کو اپنے ایک ناولٹ نستھنیرح (انگریزی ترجمہ broken nest) میں ظاہری طور پر چارو کے کردار میں پیش کیا۔ یہ کہانی بعد میں ستیجیت رے کی فلم کی زینت بنی، فلم کا نام چارولاتا ہے۔
نندلال بوس کے ساتھ ایک ملاقات میں رابندر ناتھ نے اعتراف کیا کہ کادمبری کے چہرے کو ذہن میں رکھتے ہوئے عورت کے چہرے کے ساتھ ان کی بہت سی پینٹنگز بنائی گئیں۔ دراصل یہ اعتراف اس وقت کیا گیا تھا، جب ٹیگور کی عمر 70 سال تھی۔
مصنف سنیل کھلنانی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ تقریباً 80 سال کی عمر میں ٹیگور نے اس واقعے کا ذکر کیا تھا کہ وہ اور کادمبری ساتھ بیٹھ کر گرمی کی دوپہر میں کلکتے سے آنے والی ادبی تحریروں کو پڑھا کرتے تھے اور کادمبری انہیں آہستہ آہستہ پنکھا جھلا کرتی تھی۔
ٹیگور کو اپنی بیوی مرنالنی سے بعد میں انسیت ہونے لگی تھی اور اس کا اظہار ان کے خطوط میں بھی ملتا ہے، لیکن ان کی یہ محبت بھی ادھوری ہی رہی کیونکہ مرنالنی کی موت انتیس سال کی عمر میں ہو گئی۔ بعد ازاں ٹیگور نے ان کی یاد میں ستائیس نظموں کا ایک انتخاب سنسمرن کے نام سے شائع کیا۔
1878ع انگلستان کے سفر سے قبل ٹیگور کو اسپوکن انگلش سیکھنے کے لیے بمبئی (آج ممبئی) بھیجا گیا۔ وہاں لندن سے لوٹ کر آنے والی اینا نے انہیں دو ماہ تک انگریزی زبان میں گفتگو کا طور طریقہ سکھایا۔
لیکن اناپورنا ترخود کون تھی؟ کرشنا کرپلانی نے کتاب ٹیگور — اے لائف میں اناپورنا کے ساتھ ٹیگور کے تعامل کا واضح بیان دیا ہے۔ اس وقت رابندر ناتھ صرف 17 سال کے تھے، جب وہ انگلستان جانے سے پہلے بمبئی میں دو ماہ رہے تھے۔ یہ 1878 کا سال تھا۔ بمبئی میں جس گھر میں وہ ٹھہرے تھے، وہ ایک مراٹھی ڈاکٹر آتمارام پانڈورنگ ترخود کا تھا جو ایک نامور طبیب اور پرارتھنا سبھا کے بانی تھے۔ ڈاکٹر آتمارام رابندر ناتھ کے بڑے بھائی ستیندر ناتھ ٹیگور کے دوست تھے۔
ستیندر ناتھ کو توقع تھی کہ رابندر ناتھ کا انگریز زدہ ترخود خاندان کے ساتھ رہنا ان کے چھوٹے بھائی کو انگریزی زبان میں بہتری لانے اور برطانوی آداب کو اپنانے میں مدد دے گا۔ اس کوشش کے لیے ان کے سرپرست اور استاد ڈاکٹر آتمارام کی دوسری بیٹی اناپورنا (انا) تھے۔ رابندر ناتھ سے تقریباً تین سال بڑی، اناپورنا ابھی انگلینڈ سے واپس آئی تھیں اور انگلستان کی ثقافت، سماج اور زبان سے واقف تھیں۔
جیسے جیسے تیاری کی کلاسیں آگے بڑھیں، دونوں کے درمیان ایک قربت پیدا ہوئی، اس حد تک کہ انتہائی تخلیقی ٹیگور نے اپنی پہلی محبت کو ایک نیا نام دیا – نلنی۔ وہی نام جو انہوں نے بعد میں اپنی شاعری میں امر کر دیا۔ اناپورنا کو نوجوان شاعر نے بہت متاثر کیا اور یہاں تک کہ اسے لکھا: ’شاعر، مجھے لگتا ہے کہ اگر میں بستر مرگ پر بھی ہوتی تو آپ کے گیت مجھے دوبارہ زندہ کر دیتے۔‘ انا کو کسی طرح نوجوان ٹیگور کا داڑھی رکھنا پسند نہیں آیا اور یہاں تک کہ اسے نہ رکھنے کو کہا۔ بعد ازاں اسی سال کی عمر میں ٹیگور نے لکھا ”سب جانتے ہیں کہ میں نے اس نصیحت پر عمل نہیں کیا۔۔ لیکن وہ خود زندہ نہیں رہی کہ میری نافرمانی کا اعلان میرے چہرے پر ہوتا ہے۔“
ٹیگور اپنی شرمیلی طبیعت کی وجہ سے کبھی اپنی محبت کا اظہار نہ کر سکے۔ وہ انا کو الوداع کہہ کر انگلستان روانہ ہو گئے۔ کتاب The Myriad Minded Man کے مطابق، انا کے والد 1879 کے اوائل میں، جب ٹیگور انگلینڈ میں تھے، انا اور اپنی ایک اور بیٹی کے ساتھ کلکتہ گئے تھے۔ تقریباً یقینی طور پر وہ جوراسنکو ٹھاکر باڑی میں ٹیگور کے والد دیبیندر ناتھ ٹیگور سے ملنے آئے تھے اور خیال کیا جاتا ہے کہ اس نے ان کی شادی کا موضوع اٹھایا تھا۔ لیکن دیبیندرناتھ نے اسے مسترد کر دیا۔
1880 میں اناپورنا نے بڑودہ ہائی اسکول اینڈ کالج کے وائس پرنسپل ہیرالڈ لٹل ڈیل نامی اسکاٹ سے شادی کی۔ اس کے بعد یہ جوڑا ہندوستان چھوڑ کر انگلینڈ چلا گیا اور اناپورنا 1891 میں صرف تینتیس سال کی عمر میں ایڈنبرا میں نسبتاً غیر محفوظ رہتے ہوئے انتقال کر گئیں۔
بہرحال موت تک ایک دوسرے سے خط و کتابت جاری رہی۔ انا ٹیگور کو کبھی بھلا نہ سکیں، ان کے احساسات کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کی شادی کے بعد بھی وہ ’نلنی‘ کا استعمال کرتی رہیں، جو رابندر ناتھ نے انہیں ادبی نام کے طور پر دیا تھا اور یہ کہ ان کے ایک بھتیجے کا نام بھی رابندر ناتھ ٹھہرا۔
جبکہ رابندر ناتھ کو بھی انا کی یاد نے بہت سی نظمیں لکھنے کی ترغیب دی، جس میں انہوں نے نلنی کا نام انتہائی پیارے انداز میں استعمال کیا ہے۔ ٹیگور نے 1884 میں ایک نثری ڈرامہ نلنی بھی تحریر کیا۔ وقف کا صفحہ خالی چھوڑ دیا گیا، ممکن ہے کہ ان کے ذہن میں انا موجود ہو۔
اخیر عمر میں ٹیگور کی ملاقات بیونس آئرس میں وکٹوریا اوکیمپو سے ہوئی تھی، جن سے ان کا گہرا تعلق پیدا ہو گیا تھا۔
دراصل ٹیگور نے نومبر، دسمبر (1924) اور جنوری 1925 کا کچھ حصہ بیونس آئرس میں گزارا۔ سفر پر بیمار ہو کر، وہ اپنے انگریز دوست لیونارڈ ایلمہرسٹ کے پاس جا رہے تھے، جنہوں نے ٹیگور کو مالی پریشانیوں سے نجات دلائی تھی۔ اپنی آمد کے فوراً بعد ان کی ملاقات 34 سالہ دلکش خوبصورتی وکٹوریہ اوکیمپو سے ہوئی۔ جو ٹیگور کے مقابلے میں نہ صرف بہت خوبصورت بلکہ بے پناہ دولتمند بھی ٹھیں۔ وہ سنجیدہ ادبی دلچسپیاں رکھتی تھیں اور انہوں نے گیتانجلی کا آندرے گیڈ کا فرانسیسی ترجمہ پڑھا تھا۔
جب انہیں ٹیگور کی بیماری کا علم ہوا تو وہ اس ہوٹل گئیں جس میں شاعر اپنے دوست ایلمہرسٹ کے ساتھ ٹھہرے ہوئے تھے۔ انہوں نے انہیں اپنے محلاتی ولا، میرالریو سان اسیڈرو میں جانے کی دعوت دی، جہاں وہ دو ماہ تک رہے
بعدازاں یہ تعلق دو براعظموں میں پروان چڑھا اور کئی دہائیوں پر محیط تھا۔ دونوں کے درمیان بہت سے خطوط اور تحائف کا تبادلہ ہوا، جو گہری محبت کا اظہار کرتے ہیں۔
تاہم اوکیمپو کے سوانح نگار، ڈورس میئر نے لکھا ہے کہ وکٹوریہ کو اس وقت ایک وکیل سے گہری محبت تھی، نہ کہ ٹیگور یا اس کے دو دیگر سرپرستوں سے۔
لاطینی امریکہ کے ساتھ ٹیگور کا پیار بہت سے قارئین میں تجسس کو جنم دے گا کیونکہ وہ لاطینی ادب کے منظر نامے میں ایک بلند پایہ شخصیت کے طور پر بدستور موجود ہیں، ان کا کام یونیورسٹی کے نصاب کے حصے کے طور پر پڑھایا جاتا ہے۔ یہ کیسے ہوا؟ ایک غیر یورپی مصنف نے سفید فام زمین کی تزئین میں اتنی توجہ کیسے حاصل کی؟ کئی طریقوں سے، ٹیگور اور اوکیمپو کے درمیان تعامل ہی شاعر کا ہسپانوی بولنے والی دنیا سے تعارف تھا۔ اوکیمپو کے ساتھ ایک صوفیانہ تعلق کی سرحد سے جڑی اس کی مختصر جھلک اس کے تخلیقی کام میں ثمر آور ہوئی۔
اگرچہ اس بارے میں زیادہ ذکر نہیں ملتا، لیکن وکٹر بینرجی کی ایک فلم ’تھنکنگ آف ہم‘ میں ان دونوں کی محبت کی کہانی کو بیان کیا گیا ہے۔
اس فلم کے معاون پروڈیوسر اور تخلیقی ہدایت کار سورج کمار نے برطانوی نشریاتی ادارے کو بتایا کہ یہ فلم دو مختلف براعظموں پر رہنے والی دو عظیم شخصیتوں کے روحانی رشتے کی کہانی ہے
یہ فلم دو مساوی سطحوں پر چلتی ہے ایک کا تعلق موجودہ دور میں بھارت کے معروف تعلیمی ادارے شانتی نکیتن سے ہے، جس میں استاد فیلکس اپنی طالبہ کملی سے ملتے اور جدا ہوتے ہیں۔ یہ حصہ آج کے رنگین فلم پر شوٹ کیا گیا ہے، جبکہ اس کے متوازی ٹیگور اور وکٹوریا اوکیمپو کی کہانی پرانے بلیک اینڈ وائٹ ریل پر شوٹ کی گئی ہے۔
اوکیمپو نے ٹیگور کے لیے اپنے جذبات کو ایک عظیم ’محبت کی نرمی‘ (amour de tendresse) کے طور پر بیان کیا۔ ایک ایسی محبت جس میں سوائے روحانی کے اور کوئی چیز داخل نہیں ہوتی۔ ٹیگور نے یقیناً اپنی محبت اور چاہت کے بارے میں شاعرانہ لیکن لطیف اور دلکش انداز میں اپنے نوٹس اور خطوط کے ساتھ ساتھ نظموں میں بھی بات کی ہے۔
ٹیگور کو تاج برطانیہ کی جانب سے ’نائٹ ہڈ‘ کا خطاب بھی ملا تھا جو انھوں نے 1919 کے جلیانوالہ باغ قتل عام کے بعد احتجاجاً واپس کر دیا تھا۔ 1921 میں انھوں نے ’شانتی نکیتن‘ کی بنیاد رکھی جو آج سینٹرل یونیورسٹی ’وشوا بھارتی‘ کے نام سے معروف ہے۔
ایک عرصہ تک بیمار رہنے کے بعد 7 اگست 1941 کو اس عظیم شاعر، مفکر اور موسیقار نے آخری سانس لی۔ انھیں جدید انڈیا کا سب سے بڑا نام کہا جا سکتا ہے جو ادب و ثقافت کا اپنے آپ میں ایک مجسم نمونہ تھا۔
رابندر ناتھ ٹیگور کے مطابق محبت دینے کی چیز ہے، اور دینا بھی ایسا کہ جو پھر کبھی واپس نہ لینے کے لیے ہو۔ ٹیگور کہتا ہے جیسے کہ ہم میں سے بہت سے لوگ یہ مانتے ہیں کہ محبت لین دین کا نام ہے لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے، محبت میں تو دین ہوتا ہے لین ثانوی سی بات ہے۔ وہ تو طاقت ہوتی ہے جو دنیا سے کہتی ہے کہ ’تم ساری کی ساری میری ہو‘ ۔ محبت تو وہ ہوتی ہے جو دنیا کو کہہ سکے کہ ’میں سارے کا سارا تمہارا ہوں۔‘
سلاڈاما کے گزرے شب و روز نظموں، ڈراموں، گانوں ، میوزیکل ڈراموں اور مضامین کے حوالے سے زرخیز رہے، لیکن ان سب کے ساتھ ٹیگور نے شارٹ اسٹوریز یا مختصر کہانیاں لکھنے میں خوبصورت مہارت حاصل کرلی۔ 1891 ء سے 1901 ء کے بیچ انہوں نے بنگال اور کلکتہ میں دیہاتوں اور قصبوں اور معاشرے میں ہر سطح کے کرداروں کے ساتھ معاملات کرتے ہوئے انچاس کہانیاں لکھیں۔ ٹیگور کی کہانیاں سماجی المیوں کا نوحہ معلوم ہوتی ہیں۔ کرداروں کا انتخاب اتنا عام ہے کہ ان کہانیوں میں ہر کوئی اپنا عکس دیکھ سکتا ہے۔ اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ رابندرناتھ ٹیگور ہندوستان کے ان لکھاریوں میں شامل ہوتے ہیں جنہوں نے کہانی نویس کی حیثیت سے عورت کے کردار کو آواز دی۔
رابندر ناتھ ٹیگور تقسیم ہند سے پہلے کا وہ ورثہ ہے جس کی کوئی سرحد نہیں ہے۔ سچ پوچھئیے تو ادب، فن اور تعلیم کا یہ ورثہ ہمیشہ تین ملکوں کی ہزار دوریوں کے باجود انہیں باہم جوڑے رکھنے کا ایک بہانہ ثابت ہوتا رہے گا۔
امر گل