بلوچی ادب کی شاندار ریفرنس لائبریری ملیر ایکسپریس وے کی زد میں۔۔۔

ویب ڈیسک

ملیر ایکسپریس وے کی تعمیر کی راہ ہموار کرنے کے لیے سید ہاشمی ریفرنس لائبریری کو منہدم کیا جا رہا ہے۔ سرکاری حکام ملیر ٹاؤن پہنچے، جو ملیر ندی کے کنارے واقع ہے، اور لائبریری اور دیگر کئی دیہات کو مسمار کرنے کے لیے نشان زد کیا۔

شہر کی اشرافیہ اور مضافات میں بنائے گئے پوش ایریاز ڈی ایچ اے اور بحریہ ٹاؤن کو ملانے کے لیے تعمیر کیا جانے والا ملیر ایکسپریس وے ملیر کے متعدد دیہات کی تباہی کا باعث بنا ہے اور اس نے ماحولیاتی خدشات کو جنم دیا ہے۔ اس کے باوجود، سندھ حکومت اس منصوبے کو آگے بڑھانے کے لیے بضد ہے، جسے لوگوں اور ماحول دونوں کے لیے نقصان دہ سمجھا جاتا ہے۔

سندھ انڈیجینس رائٹس الائنس کے رہنما اور ایک سرکردہ کارکن حفیظ بلوچ نے ملیر ایکسپریس وے کی تعمیر کے خلاف آواز اٹھائی اور کہا کہ یہ ماحولیاتی آلودگی کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ ان کا استدلال ہے کہ ملیر ندی کے اندر تعمیرات شروع کرنے سے موسمیاتی بحران میں اضافہ ہوتا ہے، خاص طور پر اس بات پر غور کرتے ہوئے کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کے لیے پانچویں سب سے زیادہ خطرناک ملک کے طور پر درجہ بند ہے۔

موسمیاتی خدشات کو دور کرنے کے بجائے حکومت ملیر ایکسپریس وے کی تعمیر کو ترجیح دے رہی ہے، جس سے مقامی افراد اور ماحول دونوں بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔

حفیظ بلوچ نے کہا، ”اب، حکومت لائبریری کو تباہ کرنے آ رہی ہے، جو ملیر ٹاؤن میں تعلیم کا اہم ذریعہ اور مرکز ہے۔“

مصنف اور کالم نگار عابد میر نے بتایا کہ یہ لائبریری معروف دانشور اور تعلیم دان صبا دشتیاری کا خواب تھی، جسے انہوں نے تعبیر دی ”وہ سادہ زندگی گزارتے تھے، سوائے کتابوں کے کوئی شاپنگ نہ کرتے۔ انہیں جب اکادمی ادبیات کے ایوارڈ سے پانچ لاکھ روپے ملے تو وہ اور اپنی عمربھر کی جمع پونجی ملا کر اپنے ایک خواب کی تعبیر پر لگا دی۔ اس خواب کا نام تھا: سید ہاشمی ریفرنس لائبریری“

عابد میر کے مطابق، ”ملیر میں خاندانی وراثت میں انہیں زمین کا جو ٹکڑا ملا، وہ انہوں نے اس عمارت کے لیے وقف کر دیا۔ یوں کسی سرکاری غیرسرکاری فنڈنگ اور کسی کے کے آگے ہاتھ پھیلائے بغیر انہوں نے بلوچی ادب کا ایک بڑا ادارہ کھڑا کر دیا۔“

عابد میر کہتے ہیں ”لائبریریاں اور بھی بہت ہیں، ریفرنس لائبریریز بھی بہت ہیں۔ بلوچی زبان و ادب کی لائبریریاں بھی مل جاتی ہیں۔ اس لائبریری کا مگر ایک ایسا اختصاص ہے جو اسے دیگر لائبریریوں سے ممتاز بناتا ہے اور وہ یہ کہ بلوچی زبان و ادب کی اولین تحریر سے لے کر صبا صاحب کی زندگی (تقریباً 2010 تک) صرف بلوچستان اور پاکستان میں نہیں، دنیا میں کہیں بھی کچھ بھی بلوچی میں چھپا ہو، وہ آپ کو یہاں مل جائے گا۔ خواہ کتاب کی صورت ہو، رسالے کی صورت ہوِ، اخبار کی صورت ہو یا کسی پمفلیٹ و مضمون کی صورت۔ اس لحاظ سے یہ بلوچی زبان و ادب کی ’نیشنل آرکائیوز لائبریری‘ ہے۔“

غلام رسول کلمتی، جنہوں نے کئی سالوں سے لائبریری کی تندہی سے دیکھ بھال کی ہے، نے لائبریری کی دیواروں پر موجود نشانات کو دریافت کرنے پر اپنے غم و غصے کا اظہار کیا، جو اس کے انہدام کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ’’میں اپنے غصے اور غم کو بیان کرنے کے لیے الفاظ کی کمی کا شکار ہوں۔ لائبریری، جسے ہم نے اپنے ہاتھوں سے بنایا اور اپنی دن رات کی محنت سے اس مقام تک پہنچایا، اب یہ تباہی کے دہانے پر ہے، یہ دیکھ کر میرا دل ٹوٹ جاتا ہے“

محققین اور طلباء کے لیے ایک قیمتی وسیلے کے طور پر اس لائبریری کی اہمیت کے باوجود، حکومت سندھ نے لائبریری کی مدد کے لیے کوئی فنڈز مختص نہیں کیے ہیں۔ غلام رسول کلمتی کہتے ہیں، ”ہاں، ہمیں واقعی نشانات ملے ہیں کہ لائبریری جلد ہی منہدم ہونے والی ہے۔“

حفیظ بلوچ نے کہا کہ حکومت ملیر ایکسپریس وے کی تعمیر سے ملیر کا سب کچھ برباد کر رہی ہے، جس سے کراچی شہر تباہ ہو رہا ہے۔

انہوں نے علم کے ایک اہم ذریعہ کے طور پر لائبریری کی حفاظت کی اہمیت پر زور دیا۔ حفیظ نے مایوسی کا اظہار کیا کہ حکومت ایسے منصوبوں کو ترجیح دے رہی ہے جو لوگوں کے لیے نقصان دہ ہیں

انہوں نے لائبریری جیسی جگہوں کو محفوظ رکھنے کی ضرورت پر زور دیا، جس سے بحث اور علم کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔

حفیظ بلوچ نے کہا، ”آج، انہوں نے گوٹھ غلام محمد کو مسمار کرنے کا آغاز کیا ہے – کل، وہ لائبریری میں جائیں گے۔“

آج یہ لائبریری ملیر ایکسپریس وے کی زد پہ ہے۔ اس کی دیواروں پہ سرخ نشان لگایا جا چکا ہے۔ انتظامیہ کسی بھی وقت اسے گرانے کی کارروائی کر سکتی ہے۔ یہ خبر ملیر سے مکران و مسقط تک بلوچی زبان و ادب کے شائقین کے لیے ایک بم سے کم نہیں۔ لوگ اس پہ زنجیدہ ہیں، افسوس کر رہے ہیں، احتجاج کر رہے ہیں۔

پیپلز پارٹی حکومت تک جن احباب کی رسائی ہے، ان سے گزارش ہے کہ وہ پارٹی رہنماؤں تک یہ بات پہنچائیں کہ یہ تاریخی اثاثہ ہے، حکومت کو اس کی سرپرستی کرنی چاہیے، اسے سنبھالنا چاہیے۔

نامور دانشور، مصنف و سنگت اکیڈمی آف سائنس کے سربراہ ڈاکٹر شاہ محمد مری کی جانب سے ملیر میں سید ہاشمی ریفرنس لائبریری کی امکانی مسماری کی شدید الفاظ میں مذمت.
حکمرانو! لوگ ایک کے بجائے دو لائبریریاں بنا کر دکھائیں گے۔۔۔ مگر آپ نے ان سے تازہ تازہ ووٹ لئے ہیں اس لئے حیا کرو۔

ڈاکٹر شاہ محمد مری کا کہنا تھا کہ حکومت سندھ کی طرف سے ملیر کی سید ہاشمی ریفرنس لائبریری کے گرائے جانے کا سوچ کر ہی روح کانپ جاتی ہے ۔علم و شعور سیکھنے کی جگہیں تو ” نیکی ” کی رہائش گاہیں ہیں۔۔ شیطان کا اس قدر علی الاعلان ساتھی نہ بنیے حکمرانو! رحمٰن ایسی دیدہ دلیریوں سے فوری غضب میں آجاتا ہے۔ اور خلق خدا کا غصہ الحفیظ والامان والا ہوتاہے۔۔ لوگ ایک کے بجائے دو لائبریریاں بنا کر دکھائیں گے۔۔۔ مگر ان کے تازہ تازہ ووٹ سے حیا کرو، وہاں کے متعلقہ لوگوں کے مشورے سے انہیں کسی عوامی مقام پہ نئی اور اچھی لائبریری بناکر حوالہ کرنے سے پہلے موجودہ لائبریری کو نہ چھیڑیے۔

عابد میر کے مطابق ”اس عمارت پہ بلڈوزر چلا تو بلوچ اس کو بالکل ویسے ہی دیکھیں گے جیسے 70 کی دہائی میں پیپلزپارٹی کی حکومت میں کاہان میں کارپٹ بمبارمنٹ ہوئی تھی۔“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close